رہائی

2019-07-16 19:54:52 Written by ثناء ارشاد

 " رہائی" 

از قلم 

"ثناء ارشاد" 

 

شان ،پچھلے دس سالوں سے جیل کی سختیاں برداشت کررہا تھا ۔سردی ،گرمی،بہار ،خزاں تمام موسم اسے ایک جیسے لگنے لگے تھے زرد،بے رنگ اور پھیکے ۔اور اب اس کی رہائی میں ایک مہینہ باقی رہ گیاتھا۔دس سالوں کے طویل عرصہ پر نظر دوڑاتا وہ آج بھی کانپ اٹھتا تھا ۔

’’چل اوئے اندر ۔۔چل ۔۔چل کمینہ کہیں کا‘‘۔۔پولیس اسے جیل کے اندر ڈال کر گالی دیتی تھی

کچھ دنوں پہلے تک وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ یوں بری طرح پھنس جائے گا۔اتنا بے عزت اور ذلیل کرکے اسے پولیس تھانے میں لا پھینکے گی۔وہ جو زمین پر بڑی شان سے سر اونچا کرکے ،اکڑ کر چلا کرتا تھا ۔کوئی ایک لفظ اس کے خلاف نہیں بول سکتا تھا ۔سب اسے جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔لیکن آج وہ پولیس کی گندی زبان سے بچ نہ پایا ۔شان کو منشیات سمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ 

’’تمیز سے بات کر اوقات کیا ہے تیری دو ٹکے کے حوالدار‘‘۔۔شان سب کچھ برداشت کرسکتا تھا لیکن اپنی بے عزتی اور توہین اسے قطعی منظور نہیں تھی۔

’’بتائو تجھے میں اپنی اوقات۔۔ایک تو منشیات سمگل کرتا ہے اوپر سے آنکھیں بھی ہمیں ہی دکھاتا ہے۔اور کہتا ہے تمیز سے بات کرو۔ابھی تو ہم صرف زبان سے تیری عزت اچھال رہے ہیں جب پڑی گی نا پولیس کی چھترول اور ہونگے تیرے میڈیا میں چرچے تو تیری سات پشتوں کی عزت کی کھال اترے گی‘‘

پولیس والا اسے اچھی خاصی سنا کر چلا جاتا ہے۔وہ دل ہی دل میں اسے گالیاں بکتا ایک نظر اس جیل کے کمرے میں دوڑاتا ہے۔سارے ملزم اسے ہی تک رہے ہوتے ہیں ۔وہ انھیں بھی حقارت سے دیکھتا ہوا ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے۔

دو دن گزرتے ہیں مگر کوئی بھی اس کی رہائی کے لیے نہیں آتا۔پھر ایک ہفتہ ۔۔ایک مہینہ۔۔ اور پھر عدالت اسے دس سال کی سزا سنا دیتی ہے ۔اپنی سزا کا سن کر جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک جاتی ہے۔اتنے بڑے بڑے اور امیر لوگوں سے دوستی بھی اس کے کام نہیں آتی یہاں تک کہ اس کا اپنا باس جس کے لیے وہ سمگلنگ کیا کرتا تھا خود کوپورے معاملے سے دور رکھتا ہے ۔

اڈیالہ جیل میں اسے منتقل کر دیا گیا تھا اور قیدی نمبر بھی الاٹ کردیا گیا۔ وہ صبح سے رات تک کبھی جیل کی صفائی کرتا ،کبھی برتن مانجھتا ،کبھی چکی پیستا۔۔اور یہ سب کرتے کرتے دو سال بیت گئے ۔مگر مجال ہے جو وہ کسی سے بات کرنا پسند کرتا ابھی تک وہ سب کو اپنے سے حقیر اور کمتر ہی سمجھتا جیسے خود بہت نیک کام کرکے سزا کاٹ رہا ہو۔سب سے کونے میں اپنا بستر بچھا کر سوتا ،سب سے الگ بیٹھ کر کھانا کھاتا ۔دوسروں کو اچھوت سمجھ کر دھتکار دیتا۔

پھر مزید دس سال گزر گئے۔۔وہ جو ستائیس سال کی عمر میں اس جیل میں لایا گیا تھا ۔بہت جوشیلا،خوبرو جوان چار سالوں میں ہی رنگت پھیکی پڑ گئی ،ہاتھ پائو ں سوکھی لکڑی کی طرح بے جان ہوگئے اور ہڈیاں صاف نمایاں ہونے لگی تھی۔ڈاکٹروں نے کوئی بیماری نہ بتائی کہ بھلا زندہ لاشوں پر بھی کوئی وبا حملہ کر سکتی ہے اور ذہنی طور پر جو انسان خود ہی مایوس ہوجاتا ہے تو وہ بھلا جسمانی لحاظ سے کیوں تندرست اور توانا رہے گا ۔ایک روگ وہ واحد بیماری ہے جو لگ جائے تو انسان کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے اور یہ ہی روگ اسے لگ چکا تھا ۔

مزید دو سال گزرے تو اس کی جوانی مزید ڈھل گئی۔رنگ پیلا پڑ گیا،بال سفید ہوگئے،آنکھیں اندر کو دھنسنے لگی،جسم سوکھ کر بے جان سا ہوگیا ۔اب تو لوگ اس کی حالت دیکھ کر عبرت حاصل کرنے لگے تھے۔پہلے وہ جو لوگوں کو اپنے سے کم تر جان کر کسی کو پاس بھٹکنے تک نہیں دیتا تھا اب معاملہ بالکل اس کے برعکس ہو گیا، اب لوگ اس کے پاس جانے سے کترانے لگے تھے۔ وہ ہر وقت کسی سوچ میں مبتلا رہتا اور اپنی آزادی کے دن یاد کیا کرتا کہ کیسے وہ اپنی صحت کا خیال رکھتا تھا۔اپنے بالوں کو سنوارتا ،شیمپو کرتا،مہنگے کپڑے اورجوتے ،ایک دو بار استعمال کرکے پھینک دیتا۔اپنے استعمال کی اشیاہ کو کسی کو ہاتھ تک لگانے نہیں دیتا تھا۔ اپنے اسی رئیسانہ شوق کو پورا کرنے کے لیے ہی اس نے منشیات کے دھندے میں قدم رکھا تھا۔

لیکن آج پر نظر ڈالی جائے تو اس کی حالت کچھ اور ہی بتا رہی تھی جیسے برسوں سے اس نے کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے۔پہننے کے لیے صرف دو جوڑی کپڑے رہ گئے تھے جو بار بار پہننے سے بوسیدہ ہوگئے تھے ،جوتوں میں چھید پڑ چکے تھے ۔بس یہ ہی دو جوڑی کپڑے اور جوتے اس کا کل اثاثہ رہ گئے تھے۔ شروع کے چار پانچ سالوں میں کوئی گھر سے ملنے آ بھی جاتا مگر اس کی تلخ و طنز باتیں سن سن کر پچھلے کچھ عرصہ سے انھوں نے بھی آنا بند بند کردیا ۔شادی اس کی ہوئی نہیں تھی جو بیوی بچے وفا کرتے ۔باقی بہن بھائی اپنے اپنے گھر وں میں مصروف ہوگئے۔ماں باپ تو کئی سال پہلے ہی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

دو سال مزید گزر گئے اور تنہائی اس کی واحد ساتھی بن کر رہ گئی۔پچھلے آٹھ سالوں سے مردہ اور خون سے لت پت لوگوں کے خواب جو اسے ستا رہے تھے وہ اب آنا بند ہوگئے مگر ان خوابوں نے اس کے ذہن میں قبضہ جما لیا ۔لوگوں کی چیخیں ،آہ و پکار اسے سونے ہی نہیں دیتی ۔آٹھ سالوں بعد اسے احساس ہوا کہ جو کچھ اس نے کیا وہ بہت برا کیا۔منشیات سمگل کرکے اس نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لی تو آج وہ بھلا مطمئن کیسے ہو سکتا تھا ۔اللہ کی مخلوق کو کم تر سمجھ کر وہ اس کے آگے افضل بھلا کیسے بن سکتا تھا۔لوگوں کے ساتھ اپنا کیا ہوا برتاؤ اسے آج ستا رہا تھا ۔اپنے ہم قیدیوں سے اس نے آٹھ سالوں بعد سیدھے منہ بات کی ۔ان سے اپنے بڑے رویے کی معافی مانگی۔لیکن پھر بھی اسے سکون کو کیوں نہیں مل رہا تھا ۔دل پر اب بھی ایک بوجھ سا تھا جو اسے بے چین رکھتا تھا مگر ایسا کیوں تھا وہ تو بہت تبدیل ہوچکا تھا ۔پھر کسی قیدی نے اسے بتایا ’’کہ اللہ تب تک معاف نہیں کرتا جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کردے‘‘۔۔اور یہ بات اسے مزید بے چین کر گئی۔نہ جانے اس نے کتنے لوگوں کی زندگی تباہ کی ہوگی،کتنے گھروں کے خوشیوں کے چراغ بجھا دیے ہونگے۔ وہ وہاں سے رہا ہوکر کس کس سے معافی مانگے گا۔۔وہ ایک گہری سوچ میں مبتلا ہوگیا۔۔۔

پہلے میں اپنے جاننے والوں سے معافی مانگوں گا ۔۔میں نے ان کے دل بھی بہت دکھائے ہیں ۔۔اور پھر اپنے کلائنٹس سے ،ان کے گھر والوں سے۔۔۔پھر ۔۔۔پھر میں ہسپتال میں جاکر منشیات کا علاج کروانے آئے ہر مریض سے معافی مانگوں گا ۔۔۔وہ ایک لمبی فہرست بناتا گیا۔۔۔

چند مہینے رہ گئے اس کی رہائی میں ۔۔اور وہ بالکل ہی بدل چکا تھا ۔نماز ،روزہ ،تسبیح اور ہر وقت اللہ سے گڑگڑا کر معافی مانگتا ۔وہ واقعی میں شرمندہ تھا ۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنی زندگی اللہ کی راہ میں قربان کر دے گا ۔اللہ کے بے یارومدگار بندوں کی مدد کرے گا ۔لوگوں کو نیک کام کرنے کی ہدایت کرے گا۔اپنی زندگی شروع کرے گا اور روکھی سوکھی کھا کر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرے گا۔اس کی مخلوق کو کبھی حقارت سے نہیں دیکھے گا۔اور اس کا عملی مظاہرہ اس نے سزا کے بچے دو سالوں میں بھرپور کرکے دکھایا کہ لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے۔اور اسے دیکھ کر بہت سو نے تو عبرت پکڑی اور بہت نے اپنی سزاؤں کی معافی مانگی۔

کل اس کی رہائی کا دن تھا سورج طلوع ہوتے ہی اسے زندگی بھر کے لیے اس جیل سے رہائی ملنے والی تھی۔وہ اپنی نئی زندگی شروع ہونے پر بہت خوش تھا اور خوشی سے زیادہ آج بہت مطمئن نظر آرہا تھا ۔جو نحوست اس کے چہرے میں پچھلے دس سالوں سے چھائی ہوئی تھی آج وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔آج وہ خود کو نجانے کیوں کئی سالوں بعد ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔بس ایک دن مزید رہ چکا تھا لیکن وہ کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔لیکن جلدی ہو یا دیر وقت گزر ہی جاتا ہے اور وہ دن بھی گزر گیا ۔صبح کی کرن جیسے ہی پھوٹی اس کے قیدی اسے آخری سلام دینے کے لیے پہنچے۔۔

شان بھائی اٹھ جائیں آج آپ بالکل آزاد ہیں ۔۔اب اپنی نئی زندگی شروع کریں ۔۔شان بھائی اٹھ جائیں ۔۔آج سے آپ آزاد ہیں۔۔۔۔۔

اور وہ واقعی آج آزاد ہوچکا تھا ۔۔اس جیل سے،اس دنیا سے اور اس زندگی سے۔۔