راہ عشق

2019-07-19 19:53:49 Written by احمر رؤف

راہ عشق 

از قلم 

احمر رؤف

 

عشق ایک اسرار ہے۔۔۔ایک بھید۔۔

جو ان لوگوں پر عیاں ہوتا ہے جو اسکی راہ میں خاک ہو جاتے ہیں۔

وہ بھی اس راہ پر خاک ہونے کے لئے چل نکلی تھی۔

سیاہ گہری آنکھوں والی وہ لڑکی کسی سحرزدہ سی کیفیت میں گاؤں کے باہر موجود اس مزار کی طرف بڑھ رہی تھی۔وہ مزار جہاں اس کا مرشد مجاور بنا بیٹھا تھا۔۔

اسے آج بھی وہ دن یاد تھا۔ جب مجاور عبدالہادی گاؤں کی گلیوں میں میاں محمد بخش کا کلام با آواز بلند پڑھ رہا تھا۔ وہ عام دنوں میں سے ایک دن جو اس کے لئے خاص بن گیا تھا۔ وہ جو ہدیہ تھی۔۔

       "اول حمد ثناء الہٰی جو مالک ہر ہر دا،

       اس دا نام چتارن والا کسے میدان نہ ہردا،"

وہ صدا صرف اس کے دل پر ہی کیوں دستک دیتی رہی؟

کیااس بات میں بھی کوئی راز پوشیدہ ہے؟ کیا عشق چنتا ہے اپنے مرید؟

ہاں یقیناً اور وہ چن لی گئی تھی عشق کی راہ میں خاک ہو کر امر ہونے کے لئے۔

وہ شکستہ قدموں سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور اس کی آنکھیں بے چین اور خالی تھیں۔

اس سے پہلے اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو زندگی کی راہوں میں کبھی ادھر بھٹکتے ہیں کبھی ادھر۔ماں کا سایہ سر سے بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا۔ باپ نے دوسری شادی کر لی۔ اوراسے سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔اس نے جیسے اس بات کو دل و جان سے قبول کر لیا تھا کہ وہ یونہی زندگی کے دن پورے کر کے مر جائے گی۔

پھرایک دن۔۔۔ایک لمحے نے۔۔اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔وہ لمحہ قیامت تھا۔۔

مزار اس کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر تھا اور وہ اس مزارسے نگاہیں نہیں ہٹا پا رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ جونہی پلک جھپکے گی سب کچھ غائب ہو جائے گا۔اور وہ مزارکے احاطے میں موجود واحد درخت کے نیچے بیٹھے عبدالہادی کے قریب پہنچ گئی جو آنکھیں بند کئے لب ہلا رہا تھا۔

"آپ مکانوں خالی اس تھیں کوئی مکان نہ خالی،

ہر ویلے ہر چیزمحمد رکھدا نت سنبھالی۔"

ہدیہ اس کے مقابل زمین پر بیٹھ گئی۔عبدالہادی اس کی موجودگی سے بے خبر کسی اور دنیا میں تھا۔

"میرا دل بہت بے چین رہتا ہے۔۔ کیااس بے چینی کی کوئی دوا ہے؟"

اس کے لہجے میں کرب تھا۔ہدیہ کی آواز نے جیسے اسے چونکایا اس نے بھوری آنکھیں کھول کر ہدیہ کی طرف دیکھا "بے چین دلوں کا قرار اللّٰہ پاک کے ذکر میں ہے۔ جیسے کوئی پیاسا انسان اگر ایک قطرہ پانی حلق سے اتار لے تو مزید بے چین ہو جاتا ہے اوراسے شدت سے پانی کی طلب ہونے لگتی ہے ویسے ہی اگر عشق کے جام کا ایک قطرہ دل میں اتر جائے تو دل مزید کی طلب میں تڑپنے لگتا ہے۔"

عبدالہادی کی آواز میں ایک فسوں تھا۔

"عشق کیا ہے مرشد؟"

"وہ راہ جو انسان کو اس کے اصل سے ملاتی ہے۔ اگرانسان سیدھا چلتا رہے تو۔۔ اور اگر انسان ذرا سا بھی ادھر سے ادھر ہو تو عشق بھٹکا بھی دیتا ہے اور عشق کے بھٹکائے راہِ راست پر نہیں آتے۔"

بھوری آنکھوں والے مجاور نے مسکرا کر کہا۔اس کی مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس کے سینے میں کئی راز دفن ہوں۔

"بندہ اس ذات سے کیسے عشق کرے؟"وہ سراپا سوال تھی۔

"اپنے دل کو خالی کر کے، ہر لالچ ، ہر غرض، ہر برائی، ہر مجازی محبت سے۔۔۔

وہ خود ہی تمھارے دل میں اپنی محبت ڈال دے گا۔"

"میں اس سوہنے کی راہ پر چلنا چاہتی ہوں۔"

"راستہ بہت دشوار ہے۔آزمائشیں سہہ کر۔۔۔اذیتیں برداشت کر کے لب سے اس کا شکرادا کرنا عشق ہے۔۔ ہر آزمائش تمھارا مرتبہ بلند کرتی ہے اور ہر زخم تمھارے جسم میں نور داخل کرتا ہے۔ سنو نور پانا اتنا آسان نہیں، دہکتے انگاروں پر چل کر مسکرانا پڑتا ہے۔۔اور پھر ایک مقام آتا ہے جب انسان درد کی سرحد سے آگے نکل جاتا ہے۔۔ زخم ملتے ہیں تو درد نہیں سرور رگ و پے میں سرائیت کرنے لگتا ہے۔ لب ہر حال میں الحمدللہ کا وردکرنے لگتے ہیں۔ کیا تم ایسی راہ پر چل پاؤ گی جس سے چلنے سے دنیا والے تمھیں دھتکار دیں گے۔؟"

عبدالہادی کی انکھوں میں سرخی اتر آئی اور ہدیہ نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔"مجھے دنیا کی پرواہ نہیں ہے"

"ہونی بھی نہیں چاہئے۔یہ دنیا تمھیں جتنا دھتکارے گی تم اپنے رب کے اتنا ہی قریب ہوتی جاؤ گی۔ اور ایک وقت آئے گا کہ وہی دنیا والے تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ مگر تب تم دنیاوی محبتوں سے بہت آگے نکل چکی ہو گی۔"

ہدیہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔شاید وہ اپنی گزشتہ زندگی کے یوں بے مقصد گزر جانے پر افسردہ تھی۔ اس دن وہ خالی ہاتھ اور خالی دل لئے مزار پر گئی تھی مگرواپسی پر اس کا دل خالی نہیں تھا۔ اس میں حب الہٰی کا پودا پھوٹنے لگا تھا۔

"میں انھاں تے تلکن رستہ ،کیونکر رہے سنبھالا،

دھکے دیون والے بہتے تے تو ہتھ پکڑن والا،"

اس کے کانوں میں عبدالہادی کی گنگناتی ہوئی آواز پڑی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔آخری بار۔۔۔بس۔۔

عبدالہادی درخت کے نیچے ویسے ہی ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور اس کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اشارے کی صورت بلند تھا وہ میاں محمد بخش کا کلام پڑھ رہا تھا۔

"لے او یارحوالے رب دے میلے چار دناں دے،

اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں دے۔"

اوروہ پلٹ آئی۔

اگلے دن عبدالہادی کو مزارپر مردہ حالت میں پایا گیا۔ ہدیہ تک جب یہ خبر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

ہر انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے کچھ لوگ دوسروں کو راہِ ہدایت پر لانے کے لئے اس دنیا میں بھیجے جاتے ہیں۔۔

شاید مجاور عبدالہادی کا مقصد پورا ہو گیا تھا ۔ اورہدیہ کو اپنے وجود کا مقصد مل گیا تھا۔

"عشق خود کو نفی کر دینے کا نام ہے۔ خود کو اس سوہنے رب کی چاہ کے لئے وقف کر دو۔۔جو اسے پسند ہے وہی اپنا لو۔اپنی ذات کے اندر چھپے عشق کے بیج کو ڈھونڈو۔خود کو کھوجو گے تو خدا کو پاؤ گے۔"

اس کے کانوں میں مجاور عبدالہادی کی باتیں اب بھی گونج رہی تھیں اور اس کی آنکھیں۔۔

ان میں ایسی چمک تھی جو اس بھوری آنکھوں والے مجاور کی آنکھوں میں تھی۔

وہ چمک جو ہر اس مسافرکی آنکھوں میں ہوتی ہے جو راہِ عشق پر چل پڑتا ہے____