سرگوشیاں اور مسافر

2019-07-21 20:43:30 Written by خالد شیخ طاہری

 

مہیب اندھیروں میں ڈوبی اس کی اصل منزل اپنی ہولناک بانہیں کھولے، مسافر کا انتظار کر رہی تھی۔ راستے سیاہ ماروں کی مانند جا بجا اپنے پھن پھیلائے ڈسنے کے لیے تیار تھے۔ کالے لبادوں میں ملبوس موقع شناس سارق اس کے راستے میں مختلف ہتھیاروں سے لیس موقع کی تلاش میں چوکس کھڑے تھے کہ کب اس کے قدم لڑکھڑائیں اور ہم اس پر ٹوٹ پڑیں۔ ان سب کو بس اُن سرگوشیوں کے تھم جانے کا انتظار تھا، جو زیر لب تنہائی میں اَن دیکھی ذات سے ہوتی تھیں۔ مگر مسافر اپنی زندگی کے راستوں پر ایسے آسودہ حال چل رہا تھا، جیسے کوئی نادیدہ قوت اس کی رہنمائی کر رہی ہو۔ اس کا ہر قدم درست سمت جا رہا تھا۔ منزل کا مہیب اندھیرا، راستے کے ماروں کے زہریلے پھنوں کا خوف اور سارقوں کے حملوں کا ڈر جیسے اس کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس کو آگے بڑھنا تھا، سو وہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں ہر نورانی شے سے بے نیاز اندھیرے کی خویافتہ ہو چکی ہیں۔
                                  ***
وہ دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی ایک سرد رات تھی۔ جب مسافر نے ساتویں ماہ  ہی اس دنیا میں آنکھ کھول کر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ آنکھ کیا کھولی تھی،  بس رونا ہی اس کی زندگی کا استعارہ تھا۔ اینکیوبیٹر میں لگی نیلگوں روشنیاں اسے حرارت پہنچا رہی تھیں، ایک آکسیجن کی نالی تھی، جو بظاہر اس کا سانس بحال کرنے کا واحد زریعہ تھی۔
" بس دعا کریں!  ہم سے جو کچھ ہو سکا، ہم نے کیا۔ اب اللہ کی مرضی،  اسی نے زندگی دی ہے، وہی بچانے پر قادر ہے۔" ڈاکٹر اُن سرگوشیوں سے بے خبر،  نا امیدی چہرے پر سجائے، وارثوں کو تسلی دے کر گھر جا چکی تھی۔ جنہوں نے عرش پر پہنچ کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور اس کو ہلا ہلا کر، مسافر کے سفر کی راہیں متعین کروا دی تھیں۔
                                  ***
وہ ناجانے کہاں سے اپنی خود ساختہ جنت تلاش کرنے آیا اور ایک جھوٹا تکبیر کا نعرہ لگا کر خود کو دھماکے سے اڑا کر سیدھا جہنم میں جا پہنچا۔ دھماکے کی آواز سن کر جب مسافر وقوعے پر پہنچا۔ اس نے اپنے اردگرد لاشوں کے انبار میں اپنے دوست کا زندگی سے متروک لاشہ دیکھا تو اس کی نگاہوں میں پانچ منٹ پہلے کا منظر گھوم گیا۔ 
" رُک..!  میں بھی آ رہا ہوں۔ ان بچوں کو روڈ کراس کروا دوں۔" اس نے دوست کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ 
" جلدی آ جا ! جب تک میں پارکنگ سے گاڑی نکالتا ہوں۔" دوست نے عجلت سے کہا تھا۔
بھگڈروابتری ، آہوں اور نوحوں کی گونج میں، مسافر اُن سرگوشیوں کو بھول کر امدادی کاموں میں مصروف ہو گیا، جو کسی کو سمجھ نہیں آتی تھیں، سوائے ایک کے۔
اب اس کو فرصت ہی کہاں تھی کہ کسی سرگوشی کا مطلب سجھتا۔ اس کا تیزرفتار زندگی کا سفر، ہر قدم پر اسے ایک نئی منزل سے روشناس کرا رہا تھا۔ وہ آگے، آگے اور آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اب تو اس کے سفر کی راہ میں کوئی ترقی کی منزل بھی نہیں رہی تھی، جسے پا لیتا۔  مگر وہ اب بھی چل رہا تھا،  مگر اب اس کی چال میں اعلی عہدوں پر فائز اولاد کا تکبر اور غرور شامل ہو گیا تھا۔ اولاد جب اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی، تو اُن کے ساتھ چلتے ہوئے اس کا ہر قدم ایک ایسی دھمک پیدا کرتا، جو زیرلب ہونے والی سرگوشیوں کو اس کے کانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا تھا۔
" بیٹا..!  میری عینک نہیں مل رہی۔" 
ایک لرزتی ہوئی سن رسیدہ نسوانی آواز نے اک جھمکے کے ساتھ ناصرف اس کی اصل منزل، بلکہ اس کی اور اس کی اولاد کے راستوں کی تمام ظلمتوں کو روشن و منور کر دیا۔ مار انجانے خوف سے اپنے بلوں میں گھس گئے،  سارقوں نے ہتھیار رکھ کر گھٹنے ٹیک دیے۔
" یہ لیں.!! یہیں تو رکھی ہے،  آپ کو نظر ہی نہیں آرہی۔"
سخت لہجے کی گونج ابھی فضا میں باقی تھی کہ تمام ظلمتیں ایسے عود کر واپس آئیں، جیسے کبھی روشن ہوئی ہی نہیں تھیں۔ راستے کا کوئی خطرہ ٹلا ہی نہیں تھا۔ اُس کی اصل منزل قبر میں، ایک بار پھر ہر سو دبیز گھپ اندھیرا چھا گیا۔ وہی زندگی کے سفر کی مشکلات تھامے چوکنا سارق اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا، وہی دکھ، درد اور تکالیف دینے والے پھن اُٹھائے ماروں کا اژدھام موقع کی تلاش میں ہوشیار ہو گیا۔ مگر مسافر ان سب سے بے پرواہ اپنی اولاد کے شانہ بہ شانہ متانت کے ساتھ زندگی کے راستوں پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔ کیونکہ ابھی سرگوشیاں تھمی نہیں تھیں۔
ختم شد۔