سراب

2019-07-24 19:49:19 Written by قرةالعین فرخ

"سراب''

از قلم 

" قرةالعین فرخ"

 

علیزہ بیٹا آج تمہاری پھوپھو آرہی ہیں، صبح ہی فون آ گیا تھا لیکن ہائے یہ دماغ کو نجانے کیا ہوتا جا رہا ہے ذہن سے نکل ہی گیا

زیبا بیگم نے ناشتہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔۔

اچھا! امی بتا دیں آج کیا بنانا ہے تا کہ میں تیاری شروع کر لوں۔۔

علیزہ شارق کے خیال سے ہی گل و گلزار ہوئی جا رہی تھی۔ خدیجہ پھوپھو اس کی ہونے والی ساس بھی تھیں۔

علیزہ نے جوں ہی انٹر پاس کیا اسکی پھوپھو نے اپنی بیوہ 

بھاوج سے بڑے چاؤ سے علیزہ کو اپنے بیٹے کے لئے مانگ لیا تھا۔۔

علیزہ تھوڑی نٹ کھٹ اور چلبلی جب کے شارق اس کے برعکس سنجیدہ اور سوبر مزاج کا حامل تھا۔

شارق نے علیزہ کے لئے اپنے سارے جذبے سینت سینت کے رکھے تھے۔ وہ وقت سے پہلے محبت کا قائل نہ تھا۔

زندگی میں کچھ موڑ ایسے آتے ہیں جو انسان کے لئے سراب بن جاتے ہیں۔ 

علیزہ کے موبائل پر پچھلے پندرہ دنوں سے اجنبی نمبر سے کالز اور پیغامات کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا۔ان پیغامات کو سر پہ نہ سوار کرنے کے باوجود وہ ان پیغامات کی لفاظی سے بہت حد تک متاثر ہو چکی تھی۔

اور آج بلآخر علیزہ نے پوچھ ہی لیا کے وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔

جواب آیا "روح تمہاری محبت میں گھائل ہو چکی ہے" فقط تمہارا شہریار خان۔

اس جواب نے علیزہ کو سن کردیا۔۔

پھر روزانہ نا چاہتے ہوۓ بھی اسے شہریار سے بات کرنے میں مزہ آنے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ یہ بھی بھول گئی کے وہ منگنی شدہ ہے۔ شہریار کی سنگت میں وہ زندگی گزارنے کے خواب دیکھنے لگ گئی تھی۔

یہ سوچے بغیر کے کچھ خواب روح کو لہولہان کر دیتے ہیں۔۔

اچانک پھوپھو کی آمد نے اسے چونکا دیا.

اب کی بر پھوپھو شادی کی بات کر کے گئی تھیں

ان کے جانے کے بعد وہ امی سے مخاطب ہوئی۔۔

"امی میں شارق سے شادی نہیں کرنا چاہتی"

پہلے تو زیبا بیگم کو لگا کے ان کے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے

لیکن اگلا جملہ سننے کے بعد انہیں لگا کے انکی قوت سماعت انکا ساتھ چھوڑ رہی ہے

"امی میں پچھلے چھ ماہ سے شہریار کو جانتی ہوں وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں بھی انہی سے شادی کرنا چاہتی ہوں"۔

زیبا بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ علیزہ کا گلا دبا دیں۔

کیا یہ دن دیکھنے کے لئے انہوں نے اسے تن تنہا اسے پالا تھا۔ اپنے شوہر کی اچانک موت کے بعد اسے اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا۔ کیا اسی لیے۔ 

"علیزہ صرف چھ ماہ کے بھروسے پہ تم اپنی ماں کا مان توڑو گی"

"امی زندگی بس ایک ہی بار ملتی ہے اور خوشیاں بھی"

ہٹ دھرمی سے کہتے ہوۓ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

لاکھ سمجھانے کے باوجود شہریار اسکے دماغ پر جوں کا توں چھایا ہوا تھا۔ نتیجتاً زیبا بیگم نے اسے اسکے حال پہ چھوڑ کر شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ کہ علیزہ بلآخر رو دھو کر بھی انکا مان رکھ ہی لے گی۔

زیبا بیگم نے چپکے چپکے علیزہ سے شہریار کا پتہ اگلوا کر اپنے طور سے تحقیق کروا لی تھی اور جو حقائق اچھے نہ تھے۔ شہریار ایک اوباش انسان تھا۔ جانتے بوجھتے ہوۓ وہ اپنی بیٹی کو اس کنویں میں دھکا نہیں دے سکتی تھیں

عین بارات والے دن پارلر سے غائب ہو کر علیزہ نے انہیں دھوکہ دے ہی دیا۔ زیبا بیگم صدمے کی وجہ سے مفلوج ہوگئی تھیں۔

شہریار کے سنگ گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی

عروسی لباس میں پور پور خود کو سجائے شہریار خان کا انتظار کرتے ہوۓ وہ اب تھک چکی تھی کے دروازے کو دھکیلتا جھومتا لڑکھڑاتا شہریار کمرے میں داخل ہوا۔

شراب کی بدبو سے علیزہ کا دم نکلا جا رہا تھا

"یہ کیا ہے شہریار۔ آپ شراب بھی  پیتے ہیں"

"ارے جانِ من صرف شراب ہی نہیں اور بھی بہت سے ذائقے چکھ رکھے ہیں میں نے تم سے بھی پہلے"

نشے میں بولے گئے لفظوں نے اسکے کردار کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا تھا 

علیزہ کے داہنی آنکھ سے ایک آنسو لڑھکتا ہوا اس کے دامن میں جذب ہوگیا۔

اب اسی راہ اوہ اس نے سفر کرنا تھا چاہے راہ میں پھول ملیں یا ببول۔۔ یہ اسکا خود کے لئے چنا گیا راستہ تھا۔ کچھ ہی عرصے میں شہریار خان کا وحشی پن کھل کر سامنے آگیا اور علیزہ کی جسم و روح روز ایک نیا نیل پانے لگی۔

علیزہ نے اپنی ماں کا مان توڑ کر جو رشتہ پایا تھا وہ تا عمر کا خسارہ تھا۔