قصور وار

2019-07-26 20:21:07 Written by محمد قدرت اللہ نیازی

"قصور وار" 

از قلم

"محمد قدرت اللہ نیازی" 

جیل کی راہداری میں اس کے سینڈل کی کھٹ کھٹ ایک ردھم سے گونج رہی تھی- وہ ایک معروف چینل کی بے باک فیلڈ رپورٹر تھی اور اس وقت ایک ایسے ملزم کے تاثرات لینے پہنچی ہوئی تھی جس سے ملنا کسی رپورٹر کے لیے ممکن نہ تھا- تاہم خوش قسمتی سے وہ ملزم اس جیل میں بند تھا جس کا ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ اس کا ماموں زاد تھا اس لئے وہ آسانی سے اپنے کیمرہ مین کے ساتھ اس کے سیل کی طرف بڑھی جا رہی تھی- وہ ایک تنگ سی شرٹ اور سکن ٹائٹ پینٹ میں ملبوس تھی- سیل کے سامنے پہنچ کر اس نے دیکھا ملزم اپنے گھٹنوں میں سر دیے فرش پر بیٹھا ہے اس نے ملزم کو متوجہ کیا تو اس نے سر اٹھایا - اس نے کیمرہ مین کو کیمرہ آن کرنے کا کہا اور مائیک ہاتھ میں لیے بولنا شروع کیا- "ہم ہائی پروفائل کیس کے مرکزی کردار سے آپ کی بات کروانے جا رہے ہیں کہ کون سی وجوہات تھیں جنہوں نے اس کو اس جرم پر اکسایا جیسا کہ آپ کو علم ہے ملزم عمران ۰۰۰۰۰۰۰" اچانک اسے کیمرہ مین کی آنکھوں میں ہراس نظر آیا اسی ثانیے اس کی گردن جیسے ایک شکنجے میں کس گئی ملزم نے سلاخوں سے بازو نکال کر اس کی گردن اپنے شکنجے میں لے لی - ڈیوٹی پر موجود سپاہی نے سپل کا دروازہ کھولا اور رپورٹر کی گردن اس کے شکنجے سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگا- شور سن کر مزید سپاہی بھی وہاں آ گئے جلد ہی ملزم کو پیچھے گھسیٹ لیا گیا اور پھر اس پر مکوں اور لاتوں کی بارش شروع ہو گئی اس سب کے باوجود اس کے ہذیانی قہقہے سیل میں گونجتے رہے اور اسی بات کی تکرار کرتا رہا " 

اس کی وجہ تم ہو اس کی وجہ تم ہو"- جب مارنے والے تھک گئے تو اسے ادھ موا چھوڑ کر باہر نکل گئے لیڈی رپورٹر کو صاحب کے کمرے میں لے جایا گیا عملے کی خوش قسمتی کہ ڈپٹی صاحب اس وقت موجود نہیں تھے ورنہ ان کی شامت آ جاتی- "میڈم! جوس لیں پلیز !" ایک سپاہی لجاجت سے بولا کیمرہ مین کو بھی جوس دیا گیا لیڈی رپورٹر ابھی تک ملزم کے اس عمل پر ششدر تھی- 

------------------------------------

عمران اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا اس کے والد درمیانے طبقہ کے کاروباری فرد تھے ان کی گزر بسر بہت اچھے طریقے سے ہو رہی تھی- عمران کو انہوں نے ہر ممکن سہولت مہیا کر رکھی تھی شہر کے ایک بہترین سکول میں وہ زیرِ تعلیم تھا نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں اس کی کارکردگی قابلِ رشک تھی-

اب وہ نہم کلاس میں تھا چودہ سال کی عمر تھی بلوغت کے دن تھے اس کے محسوسات عجیب ہی تھے- فائزہ ان کی میتھس کی ٹیچر تھی وہ کلاس میں داخل ہوتے ہی گڈ مارننگ کہہ کر دوپٹ اتارتی فولڈ کرکے بیگ میں رکھ لیتی

کلاس میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹهے تهے عمران بهی ٹیچر فائزہ کا سٹوڈنٹ تها جو ہمیشہ پیچهے بیٹهتا تها-

 

فائزہ ایک اچهی سائنس ٹیچر تهی بچوں کے ساتھ بے تکلفی اور محبت کے ساتھ پیش آنا مسکرا کر گفتگو کرنا ہر ایک کو ایسے مخاطب کرنا جیسے ٹیچر مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں 

فائزہ کی عمر 21 سال تهی خوبصورت شکل کے ساتھ ساتھ انداز، مزاج، سمائل اور خدوخال بهی نہایت خوبصورت تهے- عمران کے پاس جب بهی ٹیچر کچھ پوچھنے آتی تو ٹیچر کی لگائی ہوئی ہلکی سی میٹهی خوشبو اس کے دل و دماغ کو معطر کر دیتی جس سے چند لمحوں کیلئے ناصر کو دنیا کی رنگینیوں کا احساس ہوتا ہونہار طالب علم کو ٹیچر کی قربت دیوانہ بنا چکی تهی - اس کا دل و دماغ اب پڑهائی کی بجائے ٹیچر کی خوبصورت باتوں اور جسم کے مدوجزر میں مگن رہتا اور کان گفتگو سننے کیلئے بے تاب-

میڈم جب تک کلاس روم میں رہتی سر تو دور گلے میں بهی ڈوپٹہ نہ رہتا عمران ٹیچر کو ایک الگ نظر سے دیکهتا .... اس کے چارمنگ سٹائل میڈم کی چال ڈھال ، میک اپ ، ذلفیں ، لباس ، صدر و عین اس کی آنکهوں میں تیر کہ طرح پیوست ہو رہے تھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید عمران کے دل کی دنیا اب میڈم نے ہی آباد کرنی ہے - اس کے بغیر زندگی بے سود سی بے رونق سی دنیا کی خوشیاں ماند ہیں- 

ٹیچر کو دیکهنے میں روح کی تسکین ہونے لگی- دل ہی دل میں اسے حاصل کرنے کے لیے تڑپ پیدا ہو رہی تھی-

عقل و شعور کی پختگی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹیچر کو اپنے دل کی دیواروں کے رنگ و بو بتا نہیں سکتا تها بس انہی رنگین دیواروں میں لاحاصل سر مارتا رہتا اس کی یہ کیفیت کیوں ہوگئی یہ عمران کو خود بهی علم نہیں تها-

کرکٹ کا میدان سجا ہوا تھا عمران باؤلنگ کروا رہا تھا بیٹسمن نے شاٹ لگایا اور گیند سامنے بنے گھر میں جا گری گیم کا اصول تھا جس کو شاٹ لگ کے گھر جائے گی وہی اٹھا کے لائے گا - عمران نے کئی بار دستک دی لیکن کوئی ردِ عمل ظاہر نہ ہوا اس نے آہستگی سے دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا وہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا سامنے صحن میں پڑی بال اٹھا کر باہر پھینکی اسی دوران پیاس محسوس ہوئی تو خود کو برآمدے میں پڑے کولر کی طرف بڑھنے سے نہ روک پایا- پانی پیا اور باہر جانے کے لئے قدم گیٹ کی طرف بڑھائے ہی تھے کہ سامنے والے کمرے سے عجیب سی آوازیں سن کر رک گیا تجسس سے مجبور ہو کر کمرے کی طرف بڑھا اندر کا منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے- الٹے قدموں واپس مڑا لیکن گھبراہٹ میں میز سے ٹھوکر کھا کر گرا جس سے کمرے میں موجود نفوس ہڑبڑا کر اٹھے اور آواز لگائی "کون ہے؟ کون ہے" اتنے میں مرد اس کے سر پر آ پہنچا وہ محلے میں بہت معزز سمجھا جانے والا فرد تھا لیکن اس وقت اس کا غصہ انتہا پر تھا اس نے دو تین تھپڑ عمران کو جڑ دیے وہ بے اختیار تکلیف سے رو پڑا-

اسی اثناء میں عورت بھی وہاں پہنچ گئی اس نے مرد کو پیچھے کیا اور کہا "آپ پیچھے ہٹ جائیں میں دیکھتی ہوں عورت نے اس کو بانہوں میں لے اس کا سر سینے سے لگایا اور اس کو تھپکنے لگی عمران چپ ہو گیا اس نے رونا موقوف کردیا- اس کو اس عورت کے گداز بدن سے لگے سکون محسوس ہونے لگا اس کا سارا جسم سنسنانے لگا عورت پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی- کچھ لمحات ایسے ہی گزر گئے عورت نے اس کو آہستگی سے علیحدہ کیا اور مسکرا کر بولی "اچھے بچے بغیر اجازت کسی کے گھر نہیں داخل ہوتے " عمران خاموشی سے سر کو تفہیمی انداز میں ہلا کر رہ گیا- 

-----------------------------------

چھٹی کے روز امی نے اسے بازار ساتھ جانے کو کہا وہ بددلی سے ساتھ گیا لیکن بازار میں پہنچ کر اس نے جب عورتوں کو دیکھا تو حیران رہ گیا انتہائی مختصر لباس میں گویا ماڈلز گھوم رہی ہیں لاپرواہی سے جھکتے ہوئے ،اٹھتے ،بیٹھتے ہوئے تمام نشیب و فراز واضح ہو جاتے-

بازار سے واپسی پر اس کی طبیعت میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا سکول میں مس فائزہ کی ہوش ربا اداؤں کا سلسلہ جاری تھا- ان سب عوامل نے مل کر عمران کی حالت مرغ بسمل جیسی کر دی- 

ایک دن وہ سکول سے گھر پہنچا تو گھر میں کوئی نہ تھا وہ کپڑے تبدیل کرکے کھانا لینے کچن میں جارہا تھا کہ گیٹ پر دستک سی محسوس ہوئی وہ گیٹ پر گیا تو پڑوسیوں کی آٹھ سالہ بچی کھڑی تھی جو اکثر ان کے گھر آتی رہتی تھی اور اس کی والدہ ساتھ بہت مانوس تھی وہ بولی"مانی بھیا ! آنٹی کہاں ہیں " ابھی وہ کچھ کہہ نہیں پایا تھا کہ اسے سامنے کھڑی بچی ٹیچر فائزہ محسوس ہونے لگی وہ بے اختیار بول اٹھا "اندر ہیں آ جاؤ " وہ اسے لے کر اندرونی کمرے میں آ گیا اس کی آنکھیں مس فائزہ کے گداز بدن اور اس کی رعنائیوں کو سامنے دیکھنے لگے شیطان اس پر پوری طرح حاوی ہو گیا-وہ لاوا جو کافی عرصہ سے پک رہا تھا بہہ نکلنے کو بےتاب ہو گیا وہ ننھی کلی اس غضب کا شکار ہو گئی جب چڑھے ہوئے سانس اعتدال پر آیا تو سامنے مسلی ہوئی کلی خون میں لت پت نظر آئی- اچانک خوف نے اس پر غلبہ پالیا اور اس نے اس صورتحال سے نکلنے کا سوچا وہ اس کلی کو اٹھا کر عقب میں بنے سٹور میں پھینک کر کنڈی لگا آیا کمرے کو ہر نشانی سے پاک کیا اور گھر سے باہر نکل گیا شام تک بچی کی تلاش زور پکڑ چکی تھی جب وہ گھر واپس آیا پڑوسی اس کی والدہ سے پوچھ رہے تھے کہ ہم تو سمجھے وہ آپ کے گھر ہے آپ کہہ رہی ہیں آپ خود گھر نہیں تھیں بات پولیس تک پہنچ گئی اور آخرکار تفتیش کے نتیجے میں عمران کا کردار سخت شبہات کی زد میں آ گیا سختی سے بازپرس کی گئی تو اس نے سب کچھ پولیس کے سامنے اگل دیا میڈیا میں شور مچ گیا- عمران کو سر عام پھانسی کے مطالبے نے زور پکڑ لیا میڈیا کو عمران تک رسائی دینے سے پولیس نے انکار کر دیا-

ایسے میں جب وہ رپورٹر اس تک رسائی میں کامیاب ہوئی تو اس کے رد عمل نے اسے حیران کردیا اور وہ صرف بڑبڑا کر رہ گئی "جنسی جنونی ہونہہ" اس واقعے کے پس پردہ محرکات کسی نے نہ سمجھے اس لیے ایسے واقعات کی روک تھام بھی شاید کبھی نہ ہو سکے-