بھیڑیا

2019-07-27 19:57:50 Written by زویا مشکور

"بھیڑیا" 

 

از قلم 

" زویا مشکور" 

رات کا مہیب سناٹا ہر سو طاری تھا۔ آنگن میں پڑی چارپائی پہ گردن تک رضائی تانے بظاہر وہ اس ماحول میں موجود تھا مگر اس کی سوچوں کا پرندہ کسی اور ہی جہان میں محوِ پرواز تھا۔ اسے وہ لڑکی بھلاۓ ہی نہیں بھول رہی تھی جسے آج اس نے ایک معروف سڑک پر دیکھا تھا۔ وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ اسے اس لڑکی سے کوئی پہلی نظر کی محبت ہو چلی تھی وجہ جو تھی وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کی یہ غیر معمولی صلاحیت اس کے لیے اب وبالِ جان بن چکی تھی۔ 

بچپن سے ہی اسے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے قطعاََ مختلف اور غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس کی آنکھیں مقابل کے مستقبل کے حوالے سے وہ منظر بھی دیکھ لیتی ہیں جو ایک عام تو کیا کسی معلم، نجوم یا کسی جادوگر کی آنکھیں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ اس بات کا اندازہ اسے پہلی دفعہ اس وقت ہوا جب اسکے محلے کا دوست نعیم بجلی کی ننگی تار کو چھو لینے کی وجہ سے فوت ہوا۔ وہ اپنی موت سے ایک رات قبل اس سے ملنے آیا تھا۔ وہ اس سے گفت و شنید میں مصروف تھا جب اچانک سے کئی ننگی تاروں نے نعیم کو سرتاپا جکڑ لیا۔ ایک لمحے کا کھیل تھا یہ منظر اس کی بصارت کے سامنے رونما ہو کر غائب ہو گیا۔ وہ ایک جھرجھری لے کر ہوش میں آیا تھا جیسے اچانک نیند سے جاگا ہو۔ اسے اپنی بصارت پہ یقین ہی نہیں آیا تھا وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر بھول جاتا جو اگر اگلے دن نعیم کے فوت ہونے کی خبر اسے نہ ملتی۔ اس خبر کو سن کر اسے اپنی سماعت پہ شک ہوا تھا اور اگلا فیز خود سے خوف کھانے کا تھا۔ اماں سے جب ذکر کیا تو انھوں نے اسے اسکا وہم سمجھ کر بھول جانے کا مشورہ دیا۔ مگر قدرت نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا وہ اکثر چلتے پھرتے لوگوں کے مستقبل کے حوالے سے ایسے منظر دیکھ لیتا تھا جو اس کی بے سکونی کا باعث بنتے تھے۔ ایسا ہی واقعہ آج پیش آیا جب وہ اپنے دوست رئیس کے ساتھ گاڑی کے شوروم گیا تھا۔ واپسی پر دوست جب اپنی گاڑی پارکنگ سے نکال رہا تھا تو وہ ایک سائڈ پر کھڑے ہوکر اطراف کا جائزہ لینے لگا۔ ساتھ ہی کوئی شاپنگ مال تھا جہاں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ یونہی اطراف میں نظریں دوڑاتےاس کی نظر مال کے ایگزٹ کی جانب اٹھی تھی اور پھر واپس پلٹنا بھول گئی۔ وہ ایک خوبصورت اور کافی ماڈرن قسم کی لڑکی تھی جو اپنے ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز اٹھائے خراماں خراماں چلتی آ رہی تھی۔ اسے بھی شاید پارکنگ سے اپنی گاڑی ہی لینی تھی مگر شارق کے ٹھٹھکنے کی وجہ نہ اس کا خوبصورت ہونا تھا اور نہ ہی اس کا قریب آنا۔ وجہ وہ خونخوار بھیڑیا تھا جو مسلسل اس پہ جھپٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر نہ وہ اس کی طرف متوجہ تھی نہ ہی کوئی اطراف سے گزرنے والا راہگیر۔ اسے یہ سمجھنے میں قطعا دیر نہیں لگی تھی کہ یہ سب اس کی غیرمعمولی حس کا کمال تھا۔ 

وہ یک ٹک خلا میں دیکھتا اس منظر کو اپنے ذہن کے پردے پر بار بار دوہرا رہا تھا مگر کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر تھا۔ 

''اے خدا… جب مجھے ایسی صلاحیت سے نوازا ہے تو مجھے اسے سمجھنے اور اسکا سدباب کرنے کی صلاحیت بھی دے… نہیں تو مجھ سے یہ صلاحیت واپس لےلے۔ یہ میری جان کا روگ بن گئی ہے۔'' بجرِ خیالات میں سوچ کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑانے کے بعد بھی آخر میں جب اسے کوئی حل سمجھ نہ آیا تو اپنا معاملہ اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کر کے پرسکون ہوگیا۔

******

رئیس اپنی شادی کے باعث مصروف تھا اور اسے بھی اپنی مدد کے لیے تقریباََ ہر کام میں ساتھ رکھتا تھا۔ مایوں کا فنکشن مخلوط تھا اس سلسلے میں سجاوٹ کے لیے وہ بھی اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے کو موجود تھا۔ وہ سجاوٹ کا تنقیدی معائنہ کرتے ہال کے آخری کونے تک پہنچ گیا تھا جہاں نیم انھیرے سے ابھر کر اسکی سماعت سے ٹکرانے والی آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے۔

''کوئی غلطی مت کردینا بے وقوف بس اسے ریسٹ ہاؤس میں بند کردینا لے جاکر رات کو سارا حساب بےباک کر لیں گے اور ہاں بھولنے کی قطعاََ ضرورت نہیں کہ پہلا حق میرا ہے۔'' بات کے اختتام پر وہ مکروہ ہنسی ہنسا تھا۔ وہ شاید فون پہ کسی سے ہمکلام تھا۔ شارق کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ رئیس کے کردار کا یہ دوسرا رخ اسکے لیے ناقابل یقین تھا۔ وہ کسے بند کرنے کی بات کر رہا تھا اسے یہ ہر حال میں جاننا تھا۔ اسکے ریسٹ ہاؤس کا پتہ وہ جانتا تھا۔ اس نے بنا کسی تاخیر کے ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا تھا۔

******

وہ ریسٹ ہاؤس کے باہر تقریباََ پانچ گھنٹوں سے تاک میں تھا مگر اسے اندر جانے کی کوئی خاطرخواہ ترکیب سجھائی نہیں دی تھی۔ اس دوران تین مرد ایک بے ہوش لڑکی کو چادر میں چھپائے اندر لے گئے تھے اور ایک نے باہر پہرہ دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ تینوں لڑکی کو اندر چھوڑ کر باہر آئے تھے، دروازے کو تالا لگایا اور گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا… وہ ابھی کسی ترکیب پہ پیش بندی کے بارے میں سوچ رہا تھا جب فون پہ آنے والی کال نے اسے متوجہ کیا۔ اس نے جیب سے نکال کر دیکھا رئیس کی کال تھی۔

'' اوہ جانی کدھر ہے تو؟'' شاید وہ فنکشن میں اسکی غیرموجودگی کے متعلق استفسار کرنا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی بہانہ تلاشتا رئیس کی اگلی بات نے اس سے اسکی قوت گویائی ہی ضبط کر لی۔

''یار آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ شادی تو سمجھ ٹوٹ ہی گئی۔ لڑکی اپنے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔'' اسے اب سارا ماجرا سمجھ آگیا تھا۔ تو اس نے خود ہی اپنے ہونے والی دلہن کو اغواء کروا لیا تھا۔ وہ یقیناََ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اسے کھونا بھی نہیں چاہتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک کلٹس ریسٹ ہاؤس کے قریب آ کر رکی تھی جسے وہ دیکھتے ہی پہچان گیا تھا، یہ وہی گاڑی تھی جو رئیس نے اس دن شوروم سے خریدی تھی۔ وہ گاڑی کو پارک کر کے اندر چلاگیا تھا۔ 

''میں اس ذلیل کو اسکے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دونگا۔'' وہ خود سے ہم کلام ہوا۔

ایک اور گاڑی آ کر رکی تھی جس میں سے ایک اور آدمی باہر نکلا تھا۔ یہ ان میں سے ہی ایک تھا جو کچھ گھنٹوں پہلے لڑکی کو یہاں چھوڑ گئے تھے۔ اسکا رخ بھی ریسٹ ہاؤس کی جانب تھا۔ وہ اس پر جھپٹ پڑا، ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے سے اس کے سر کا نشانہ سادھ کر پوری قوت سے ضرب لگائی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر زمین پر پڑا تھا۔ شارق نے اسے سائڈ لگایا اور اس کی جیب کی تلاشی لی، اس میں سے برآمد ہونے والے چابیوں کے گچھوں کو دیکھ کر اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ بنا کسی توقف کے ریسٹ ہاؤس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ وہ سنبھل کر دبے پاؤں چل رہا تھا جب لڑکی کی دلخراش چیخ نے ریسٹ ہاؤس پہ طاری خاموشی کے پردے کو چاک کیا ساتھ ہی مردانہ قہقہے کی مکروہ آواز نے اسکی سماعت میں زہر گھولا۔ 

''کوئی ہے… پلیز میری مدد کرو…'' اب وہ چلا رہی تھی۔ اس نے چابی سے کمرے کا دروازہ کھولا اور جھٹکے سے اندر داخل ہوا۔ رئیس کی آنکھیں ورطۂ حیرت سے پھٹنے کے قریب ہوگئیں۔ 

''شارق تو… تو یہاں کیا…'' مگر منہ پہ پڑنے والے آہنی مکے نے اسے اپنی بات مکمل کرنے سے روکا تھا۔ کافی عرصہ کی گئی مزدوری نے اسکے بازؤں کو کسی فولاد کی مانند مضبوط بنا دیا تھا۔ اس کے پڑنے والے آہنی مکے نے اس کا جبڑا ہلا کر رکھ دیا تھا مگر شارق نے صرف اس پہ اکتفا نہیں کیا۔ پےدرپے حملوں نے اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر ہی ادھ موا کردیا تھا۔ شارق اس کی طرف سے فارغ ہو کر اس لڑکی کی جانب متوجہ ہوا اور اسے سو والٹ کا جھٹکا لگا۔ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ اس دن مال کے باہر نظر آنے والی لڑکی تھی۔ اسے وہ منظر اپنی پوری جزئیات سمیت ساتھ یاد آیا تھا جب اس نے ایک خون آشام بھیڑیے کو اس لڑکی پر جھپٹتے دیکھا تھا اور اب وہ درندہ صفت انسان نما بھیڑیا اپنی ساری درندگی سمیت ادھ موا پڑا تھا۔ اللہ نے آج اسے ایک لڑکی کو بے آبرو ہونے سے بچانے کا ذریعہ بنایا تھا، ساتھ ہی اسکے دوست کی حقیقت سے بھی پردہ اٹھا کر اس کے کردار کا گھناؤنا ترین رخ اس پر واضح کر دیا تھا۔ تشکر کے احساس سے اسکی آنکھیں گیلی ہوگئیں اور وہ وہیں پر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔

***