دائرہ

2019-07-30 20:20:37 Written by فرحت شاہین

دائرہ  

از قلم 

فرحت شاہین... 

 

سانس رکنا کسے کہتے ہیں زندگی میں پہلی بار اسے پتا چلا تھا ۔ پچاس سالوں میں پہلی بار ۔ وہ آگے بھی بول رہی تھی جسے وہ ٹھیک سے سن نہیں رہا تھا ۔ جو سن رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔

’’ عظیم کہتا ہے کہ اس کا ایک عورت پہ گزارا نہیں ہوسکتا ۔‘‘ ردا روتے ہوئے ماں کو بتا رہی تھی ۔باپ سُن ہوتے کانوں اور پتھرائی آنکھوں سے بیٹی کو دیکھ رہا تھا ۔پھر اسکا چہرہ ایک نئے چہرے میں ڈھل گیا تھا۔

                         ******

’’ میں کیا کروں میرا دل اب اسکی طرف مائل ہے ۔‘‘ تیس سال پہلے کوئی کہہ رہا تھا ۔ 

’’ایسے مت کہو عاشق حسین۔ کچھ تو میری محبت کی لاج رکھ لو۔کچھ تو اس رشتے کا خیال کرو۔‘‘ فاطمہ رو تے ہوئے اسکی منت کر رہی تھی ۔اپنی اور اسکی محبت کے واسطے دے رہی تھی ۔

’’میری مجبوری سمجھو فاطمہ۔ میں اب بھی محبت کرتا ہوں تم سے لیکن تم سے بندھ کر نہیں رہ سکتا ۔ نور مجھے اپنے سے باندھ چکی ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہا ۔‘‘ وہ بے بس تھا جیسے۔

’’ تم مجھ سے بھی یہی کہا کرتے تھے۔ اتنی جلدی کیسے بھول سکتے ہو تم سب ۔‘‘ اس نے عاشق حسین کا گریبان پکڑ کر یاد دلایا تو وہ نظریں چرا گیا ۔ وہ اس سے پہلے نائلہ سے بھی یہی کہہ چکا تھا اور نجانے کس کس سے یہ کہنے والا تھا ۔ اسکے نام کی چھایا اسکے کردار پہ پوری طرح قابض تھی ۔ وہ عاشق ہی تھا۔۔۔۔ زن کا ۔وہ ایک عورت پہ نہ ٹکنے والا مرد تھا ۔ اسے ہر نئی عورت لبھاتی تھی اور ایک خاص مدت کے بعد اسکے دل سے اتر جایا کرتی تھی۔

’’ ایک بیٹی کے باپ ہو کر تم کسی اور کی بیٹی کی زندگی تباہ کیسے کر سکتے ہو۔؟‘‘ وہ اب بری طرح چلا رہی تھی ۔

’’ میری بیٹی کا نام مت لو۔ ۔‘‘ ردا کیلئے وہ ایسی کوئی بات نہیں سن سکتا تھا اسی لئے سختی سے بولا۔

’’ تمہیں ذرا خوف نہیں آتا کہ بیٹی کا باپ ہو کر تم یہ سب کرتے ہو اور کل کو تمہارا کیا تمہاری بیٹی کے آگے آگیا تو کیا کرو گے تم ۔؟ ‘‘  

’’ چار شادیوں کی اجازت مذہب دیتا ہے مرد کو ۔‘‘ 

’’ تو پھر چار شادیاں کر و نا ۔چکر چلانے کی اجازت کونسا مذہب دیتا ہے ۔؟‘‘ وہ جانتی تھی کہ وہ شادی کبھی نہیں کرے گا کہ ایک آدھ عورت پہ اس کا دل کہاں بھرنے والا تھا ۔وہ بیک وقت کئی عورتوں کا طلبگار تھا ۔یہ تو فاطمہ سے نجانے کس خمار میں اس نے شادی کر لی تھی۔

پھر اسکی کبھی کہیں جا کر بس نہیں ہوئی تھی ۔ نور کے بعد نجانے کتنی حور تھیں لیکن فاطمہ کی بس ہو گئی تھی ۔ اس نے عاشق سے کچھ بھی کہنا چھوڑ کر سب اللہ پہ چھوڑ دیا تھا ۔اس کیلئے اب وہ اس کا شوہر نہیں اس کی اکلوتی بیٹی کا باپ تھا بس۔

                           *******

عاشق نے کپکپاتے وجود سے ماضی سے حال میں لوٹتے روتی بلکتی ردا کو دیکھا تھا ۔

’’ بابا آپ اس سے بات کریں گے نا ۔؟اسے سمجھائیں گے نا کہ وہ میرے ساتھ یہ سب مت کرے ۔ وہ جو کہے گا میں کروں گی ۔ میں اس کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں بس اسکی وفا کسی سے نہیں بانٹ سکتی۔‘‘ وہ اب اس کے سینے لگی رو رہی تھی جس سینے میں وہ دھڑکتی تھی ۔ عاشق نے سامنے بت بنی کھڑی فاطمہ کو دیکھا جس کی نظروں میں بہت سے شکوے دکھائی دے رہے تھے۔

’’ میں ۔۔۔؟‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی جیسے کہہ رہا ہو کہ میں کس منہ سے بات کروں گا ۔

’’ آپ اس سے پوچھیں تو سہی کہ میری وفا میں کہاں کمی آ گئی جو وہ یہ سب کر رہا ہے ۔؟‘‘ اور اسے لگا فاطمہ اس سے سوال کر رہی ہے کہ بولو عاشق حسین جواب دو ۔

’’ اس سے کہیں کہ اپنی ہونے والی بیٹی کا ہی خیال کر لے کچھ ۔‘‘ فاطمہ نے دکھ سے اپنی آٹھ ماہ کی حاملہ بیٹی کو دیکھا ۔

’’ آپ اس سے بات کریں گے نا بابا۔۔۔؟‘‘ وہ مدد طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی کہ عاشق کی گردن اثبات میں ہلی اور وہ اسے خود سے الگ کرتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا ۔ اس کی چال کی لڑکھڑاہٹ واضح کر رہی تھی کہ اس بوڑھے عاشق کو شکست اس کی بیٹی کی تذلیل نے دی ہے ۔

’’ کیا بات کرو گے اس سے عاشق حسین اور کیا سمجھاؤ گے ۔۔ ۔؟ جو اعمال تم نے کئے وہ دائرہ بناتے گھوم کر تمہاری بیٹی پہ لوٹ آئے ہیں وہ نقطہ جو تم نے مجھ سے شروع کیا تھا ، دائرہ بن کر آج تمہاری بیٹی پہ لوٹ آیا ہے۔‘‘ فاطمہ جو اس کے پیچھے ہی آئی تھی اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر بولی ۔

اس نے مڑ کر فاطمہ کو زخمی نظروں سے دیکھا اوررندھی ہوئی آواز میں بولا۔

’’ یہی سمجھاؤں گا کہ جو نقطہ دائرہ بن کر میری بیٹی کو رلا رہا ہے اسے وہ مٹا دے ورنہ یہی دائرہ کل کو اس کی بیٹی کے گرد گھومے گا تو اسے ہوش آئے گی۔ بس اسی دائرے کو مزید بڑھنے سے روکنا چاہتا ہوں میں ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی سی کوشش کیلئے عظیم علی کا نمبر ملایا اور فاطمہ گہری سانس بھر کر رہ گئیں۔