واپسی

2019-08-02 20:17:08 Written by مہوش منیر

" واپسی" 

از قلم 

"مہوش منیر" 

 

وہ رات کے آخری پہر آسمان کی نیلگوں حدود پر نظریں جمائے بیٹھی تھی-پانچ سو اڑتیس...اس سے زیادہ گنتی ممکن نہیں تھی-ستارے اس کے سر پر گھومنے لگے تھے اس نے آنکھیں زور سے میچ لیں-مہرماہ سنگ مرمر سے بنے فرش پر چہرہ گھٹنوں میں گرائے بیٹھی تھی-

بارش تڑاتڑ برس رہی تھی وہ بارش میں مکمل طور پر بھیگ چکی تھی-مٹی کی سوندھی خوشبو اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی-وہ ماضی کی یادوں میں گم اس خوشبو کو اپنے اندر سمو رہی تھی-

 

" آؤ پانی کی بوندیں گنیں-"مہرماہ موحد کو کمرے سے کھینچتے ہوئے باہر لا رہی تھی-

"پاگل ہو تم مہرماہ،پانی کے قطروں کو ہم کس طرح گن سکتے ہیں-"

" تم آؤ تو سہی،یہ بھی ایک ٹرک ہے جو تم جیسے انسان کو نہیں آسکتی-خیر چھوڑو آؤ لاؤنج میں بیٹھتے ہیں-"مہرماہ نے ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا-کھڑکی کے شیشوں پر بارش ہنوز برس رہی تھی-

"وہ دیکھو تم،میں اور ہمارے اردگرد پانی کی بوندیں -"

" تم سچ مچ پاگل ہو مہرماہ کیا؟ یا یہ اداکاری کر رہی ہو-"موحد رات کے اس پہر اسے جگا کر بارش دیکھانے والی حرکت پر خفا ہوگیا-

"موحد مجھے پاگل مت بولا کرو-"وہ حسب معمول چڑ گئی تھی-کبھی کبھی تو وہ میسر ہوتا تھا پھر کیا رعب بھی نہ جھاڑے -

"کیا کر لو گی تم-"موحد کو مہرماہ کی دکھتی رگ مل گئی تھی-

"میں تمہیں چھوڑ دوں گی موحد پھر میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی-"

"مہرماہ اگر تم نے مجھے چھوڑا تو میں سچ میں تمہیں پاگل ڈکلیئر کر دوں گا اور خود بھی مرجاؤں گا-"

" اسی لیے کہتی ہوں پاگل مت کہا کرو کیونکہ مجھے تمہاری فکر ہے-"

" ہاں تو وہ دیکھو تم اور میں----آہ ہا،تم گرگئی مہرو ---ھاھاھا (وہ کھکھلا کر ہنسا تھا)چلو اٹھو شاباش ہاتھ دو-"مہرماہ نجانے کب اس کا ہاتھ تھامے باہر تیز بارش میں ٹہلتے ہوئے گر گئی تھی-

"میں خود بھی اٹھ سکتی ہوں موحد جہانگیر تمہارے سہارے کے بغیر-"مہرماہ نے اٹھنے کی ناکام کوشش کی لیکن پھر پھسل گئی-

"ٹھیک ہے میں جارہا ہوں -"

"نہیں رکو ----ہاتھ دو مجھے اٹھنا ہے-"مہرماہ نے بھیگی پلکیں تیزی سی جھپکی اور موحد کی طرف ہاتھ بڑھا دیا-

موحد تم جانے کی بات نہ کیا کرو پلیز-مجھے تکلیف ہوتی ہے- "موحد واپس پلٹ کے ہاتھ دے کر اسے فرش سے اٹھا رہا تھا اور وہ موحد کی سبز آنکھوں میں جھانک رہی تھی-

"ٹھیک ہے جب جاؤں گا تو چپکے سے جاؤں گا تاکہ تمہیں تکلیف نہ ہو- "

"موحد---یہ آخری موقع دے رہی ہوں اگر آئندہ ایسا کہا تو جان سے جاؤ گے- "

 

" میں تمہیں کب اچھی لگتی ہوں موحد-"

"جس وقت تم میرے ساتھ جانوروں والا سلوک نہیں کرتی تب تم مجھے دنیا کی سب سے نرم دل لڑکی لگتی ہو،جب خاموش ہوتی تو تب تو مہرماہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو مگر سب سے زیادہ تم مجھے ہنستے ہوئے پسند ہو تمہاری آنکھوں میں چمکتے ہوئے رنگ مجھے بہت حسین لگتے ہیں مہرو-"

 

" وہ دیکھو.. "موحد نے بارش کے گرتے قطروں کی طرف اشارہ کیا-

پانی کی لاکھوں بوندوں میں ہر بوند اپنے ساتھ کے ساتھ گرتی ہے جو اپنے ساتھی کی ہر حال میں اطاعت کرتی ہے اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتی،تم بھی ایسی ہی ہو کبھی کبھی ان بوندوں کی طرح میسر ہوتی ہو اور اطاعت گزار ایسی کہ تم مجھے حیران کردیتی ہو-"

 

"کاش تم لوٹ آؤ بس چند لمحات کے لیے آجاؤ---تم بن ہر شے اداس ہے موحد--تمہاری مہرو تمہارے بغیر کبھی خوش نہیں رہ سکتی-مہرماہ نے ماضی سے حال کی طرف لوٹتے ہوئے سوچا-

"گود میں پڑے فریم پر وہ انگلی کی پوروں سے موحد کا لمس محسوس کررہی تھی-

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

" مہرماہ یوں رات کے اس پہر اکڑوں بیٹھے رہنا تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے-"اماں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی-بارش نے مہرماہ کو بھگو دیا تھا سردی بڑھ گئی تھی وہ اس بارش کو محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی مگر بے دھیانی میں لاؤنج کے دروازے کے پاس بیٹھ گئی-

" وہ نہیں آئے گا اماں...ایک دن یونہی مہرماہ اس کا انتظار کرتے مر جائے گی-"اسکی آنکھیں کنویں جیسی گہری ہوگئی تھیں،پپوٹے سوجھ گئے تھے-اس کے چہرے پر نقاہت کے آثار تھے-

" مہرماہ ایسے نہ کرو میری بچی موحد واپس ضرور آئےگا-"

" خدا کرے وہ میری آنکھیں بند ہونے سے پہلے لوٹ آئے اماں-"وہ اماں کے گلے لگ کر اس رات بہت روئی تھی-اس کی آنکھوں میں جیسے دنیا کے سارے دریاؤں کا پانی سما گیا تھا ایک سیل رواں تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا-

" تم اچھی باتیں سوچا کرو مہرو اس سے تمہاری صحت بھی اچھی رہے گی-"

"موحد کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا اماں-"

"تم اچھے کی امید رکھو مہرماہ موحد جلد واپس آجائے گا اور وہ کیا سوچے گا کہ تم اس کا اور اس کے بچے کا خیال نہیں رکھ پائی- "

 

☆☆☆☆☆☆☆☆

موحد" اسپیشل سروسز گروپ" میں کافی عرصے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا-

آج اسے ایک نہایت اہم مشن سونپا گیا تھا - اسے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ دہشت گردوں کے ایک خفیہ ٹھکانے پر ریڈ کرنا تھا-اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں کا ایک اہم لیڈر بھی اس ٹھکانے پر موجود تھا-اسے زندہ گرفتار کرنے کی ہدایت تھی اور اسی لیے اس مشن کے لیے موحد کا انتخاب کیا گیا تھا-

پلان کے مطابق.. موحد اور اس کے ساتھیوں نے رازداری کے ساتھ اندر داخل ہونا تھا اور وہ موجود کمانڈر کو خاموشی کے ساتھ قابو کرنا تھا-اس کے فوراً بعد موحد بیک اپ ٹیم کو سگنل دیتا اور وہ لوگ باہر سے بھی حملہ کر دیتے-یہ سارا کھڑاگ اس لیڈر کو زندہ گرفتار کرنے کے لیے پھیلایا گیا تھا-

آدھی رات کا وقت تھا جب موحد اور اس کے دو ساتھی پہاڑی بستی میں ایک مکان کی جانب بڑھ رہے تھے-سیاہ لباس کی وجہ سے وہ بھی اس اندھیری رات کا حصہ محسوس ہو رہے تھے-

توقع کے برعکس وہ آسانی سے مکان کے اندر داخل ہو گئے-اندر ایک کمرے کے دروازے کے نیچے سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی-موحد نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور دبے پاؤں اس کمرے کی طرف بڑھ گئے-کمرے کی طرف بڑھنے سے پہلے وہ مین گیٹ کی کنڈی کھولنا نہیں بھولے تھے-

 

مکان کے باہر موجود بیک اپ ٹیم پچھلے پونے گھنٹے سے صبر کی سولی پر لٹکی ہوئی تھی -وہ موحد اور اس کے ساتھیوں کے سگنل کا انتظار کر رہے تھے-

اچانک گردوپیش کا علاقہ ایٹ ایم ایم کی خوفناک آواز سے گونج اٹھا-موحد اور اس کے ساتھیوں کے پاس دوسرے ویپنز تھے-اب سگنل کا انتظار کرنا بیکار تھا-

بیک اپ ٹیم نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور مکان کے اندر گھس گئے-

ان کے اندر داخل ہونے سے دہشت گردوں کا دھیان بٹ گیا اور چند منٹ کی فائرنگ تبادلے کے بعد سبھی مارے گئے-

بیک اپ ٹیم کے لیڈر کی آنکھیں موحد کو تلاش رہیں تھیں-

ایک جوان نے اس کی بے چینی کو سمجھتے ہوئے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا-

وہ تیزی سے ادھر لپکا-کمرے کے اندر پہنچ کر وہ حیران رہ گیا- عام کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کونے میں پڑا کراہ رہا تھا- جبکہ موحد کے چہرے پر ایک لافانی مسکراہٹ صاف بتا رہی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا ہے - 

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

آج اسپتال جانے کی تاریخ تھی - مہرماہ کو نیند نہیں آ رہی تھی- اس نے الماری سے سیاہ شیشوں سے بنے حاشیے والی چادر اوڑھی اور دیوار کا سہارا لیتی کمرے سے باہر نکلی اچانک باہر والے دروازے پر دستک دی گئی-اتنی صبح کون ہو سکتا ہے..اس نے سوچا !-پھر ایک خوشگوار احساس نے اسے گھیرا اور وہ دروازہ کھولنے کے لیے بڑھ گئی-

"صبر کرو موحد آگئی ہوں-"مہرماہ نے بے دھیانی میں موحد کا نام لیا تھا-

مودب فوجیوں کا دستہ بھاری قدموں سے اندر داخل ہوا-مہرماہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ پیچھے ہٹتی گئی اور زمین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی-

سبز جھنڈے میں لپٹا موحد بہت پرسکون تھا-اس کے چہرے پر ایک پر سکون مسکراہٹ تھی - مہرماہ کا دل چاہا تھا وہ اس قدر چیخے کہ آسمان والا اس کے موحد کو سامنے لاکھڑا کردے-

"مہرو جس دن میں باعزت طریقے سے جھنڈے میں لپٹا آؤں گا،تم شکوہ نہیں کرنا مہرو بس اللہ کا شکر ادا کرنا کہ وہ مجھے ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے گا-"

"آپ کا بیٹا بہت بہادر تھا-اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے دہشت گرد کو زندہ گرفتار کیا-اسے پکڑنے سے چند لمحے پہلے اس نے ہم پر فائرنگ کی تھی - سر موحد نے ہمارے سامنے آتے ہوئے اس کی ٹانگوں پر فائر کیا - مگر تب تک اس کی طرف سے چلایا گیا برسٹ سر موحد کے سینے میں اتر چکا تھا-"

گھر میں ہلچل کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلنے والی اماں کو ایک فوجی بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ موحد کی شہادت کا قصہ سنا رہا تھا-

بہادری و جرات کا ستارہ موحد کے سینے پر جگمگا رہا تھا-

بس ایک آخری جھلک----ایک آخری نگاہ----مسکراتے ہوئے لب----بند آنکھیں اور وہ کہہ رہا تھا----مہرماہ میں جنت کے دروازے پر تمہارا انتظار کروں گا----میں تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا----موحد مہرماہ کو کبھی بھول ہی نہیں سکتا-

وہ اسے ہمیشہ کے لیے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی- مگر مہرماہ کے دل کو سکون دینے کے لیے بس یہی کافی تھا کہ موحد جنت کے دروازے پر اس کا انتظار کرے گا-

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆