زمینی ناخدا

2019-08-10 19:56:05 Written by اساور شاہ

*زمینی ناخدا *

از قلم 

*اساور شاہ *

 

 

اور اس مہربان رب کریم نے کوئی بیماری شفا سے پہلے نہیں اتاری مگر ان بیماریوں کا کیا جو انسان ،

انسان کےلیے پیدا کر رہا ہے ؟؟؟

_______________________________

 

صدی 2000 بروز منگل 

 

سارے شہر میں عجیب طرز کی وبا پھیل چکی تھی جس کے بارے میں وہاں کے بڑے ڈاکٹرز بھی لاعلم تھے کہ یہ بیماری انہوں نے اپنی ساری زندگی میں دیکھی نا پڑھی تھی _ دوسرے شہروں کے ڈاکٹرز بھی جمع کر لیے گے تھے مگر نتیجہ صفر ہی تھا _ ملک کے بیشتر اسپتال آہستہ آہستہ مریضوں سے بھرتے جا رہے تھے اور امراء و حکومتی اداروں میں بھی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کہ کل کو یہ وبا عام عوام سے نکل کر ان تک بھی آ سکتی تھی کیونکہ رہتے تو وہ بھی اسی ملک میں تھے جہاں آج کل موت رقصاں تھی _ اخبارات، گلی محلے ، ٹی وی چینلز ہر جگہ اسی وبا کی باتیں تھیں _ سارے ملک میں ہی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی _ ملک کے ذہین ڈاکٹرز و سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ مرض ہے کیا ؟

 آیا کہاں سے ہے ؟ 

موجب کیا چیز بنی ؟

چند مختلف اینٹی ڈوز تیار کی گئ تھیں جو بے اثر ہی گئیں ان میں سے ایک چند منٹ کےلیے ایکٹو نظر آئیں جس سے انہوں نے شکر کیا مگر اس پہلے کے یہ سب پرسکون ہوتے جراثیم اپنی جسامت بڑھانے کم کرنے لگے جس سے ڈاکٹرز میں بھی خوف کی لہر پھیل گئی اور ان چند دنوں میں ملک میں پہلی بار بائیو و ہومیو نے مل کر کام کرنے کی ٹھانی تھی پر نتیجہ ہنوز صفر تھا- ایسے بیماری والے جراثیم وہ سب اس ترقی یافتہ دور میں بھی دیکھ ہی اپنی زندگی میں پہلی بار رہے تھے_ جو خود سے ہی بڑھ رہے تھے_ اور یہی چیز سب کے خوف میں اضافہ کر رہی تھی اور وہ سب پریشان تھے کے عوام کو یہ بات کس طرح بتائیں _ سب کے دماغ ماؤف تھے کے کیا کریں _ کیونکہ جو مرض انہوں نے بنایا نہیں تھا انکے زمانے کا نہیں تھا وہ کیسے اس کے بارے میں کچھ سمجھ سکتے تھے ؟

 مگر ایک بات سب کی سمجھ میں آ چکی تھی وہ سب کسی انہونی کا شکار ہو چکے تھے _ 

_________________________________

 

1980 بروز اتوار 

 

اس خفیہ عمارت میں آج ایک حساس نوعیت کے کام کی اختتامی گھڑیاں چل رہی تھیں _ بہت سی حساس پوسٹوں پر کام کرنے والے اس کمرے میں جمع تھے اور اصل تماشہ شروع ہونے کے منتظر تھے مگر اس سے پہلے ان کی یاداشت کےلیے سامنے لگے بڑے سے کمپیوٹر پر اس سارے معاملے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کی رپورٹ پیش کی جا رہی تھی _ جسے دیکھ کر ان کے چہروں پر طنزیہ و کمینگی سے بھری مسکراہٹ ابھر رہی تھی _ آنکھوں کی چمک شکرے کو بھی مات دے رہی تھی _ بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے وہ سب افراد ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑے معنی خیز انداز میں مسکرا رہے تھے _ رپورٹ ختم ہوئے کچھ لمحے ہی بیتے تھے درمیانی دروازہ کھلا اور ایک سفید بالوں والا بوڑھا اندر داخل ہوا جس کے پیچھے چند جوان لڑکے لڑکیاں تھے جنہوں نے چند شیشے کی بوتلیں جن میں خانے بنے ہوئے تھے اور پنجرے اٹھا رکھے تھے جن میں مختلف جانور پرندے و کیڑے تھے _ سب کی کرسیاں بے اختیار گھوم گئیں _ بوڑھا اپنی ٹیم کے ساتھ دیوار میں لگے کمپیوٹر کے سامنے آ کھڑا ہوا اور اپنی چمکتی آنکھوں سے سب کا جائزہ لینے لگا _ 

" آپ سب نے رپورٹ تو دیکھ ہی لی ہو گی اب نتیجہ بھی دیکھ لیں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہو گی " 

بوڑھے کے اشارے پر جوانوں نے ہاتھ میں پکڑی اشیاء میز پر رکھنی شروع کر دیں _ کرسیوں پر بیٹھے افراد بے اختیار اٹھ کر آگے ہوئے _ 

" یہ لائن سے رکھے گے شروع دن سے درمیانی حالت اور آج تک کا نتیجہ ہے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور یہ رہا حل " 

بوڑھے نے اپنے ہاتھ میں تھام کر رکھا لمبا سا ڈبہ اور ساتھ ہی جیب سے ایک کاغذ نکال کر وہیں میز پر رکھ دیا _ اس دوران کہیں سے مسلسل گھنٹیوں کی آواز آ رہی تھی _ 

" میں نے اپنا کام پوری ایمانداری سے کیا ہے اور جو عہد میں نے کیا تھا اسے پورا کیا ہے _ یہاں آنے سے پہلے میں نے زہر پی لیا تھا جو کچھ منٹوں بعد ہی اپنا اثر شروع کرے گا یہ راز میرے ساتھ ہی جائے گا "" 

اس نے میز پر رکھے کاغذ کی طرف اشارہ کیا _ اسکے ساتھ آئے جوان پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو چکے تھے _ ایک آدمی نے آگے ہو کر وہ کاغذ اٹھایا اور اسے کھول کردیکھنے کی بجائے ساتھ کھڑے آدمی کے ہاتھ میں دیا جس نے وہ کاغذ اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لیا _

" خداوند کےلیے " 

سب یک زبان ہو کر بولے _ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی اسی دوران بوڑھا کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو گیا اور وہ لڑکھڑانے لگا _ پیچھے کھڑے دو نوجوان ڈاکٹرز نے اسے سنبھال لیا اور کمرے سے جانے لگے کہ بوڑھا آخری سانسیں لے رہا تھا _ 

" اس نیک کام کی پہلی بھینٹ"" 

سب افسران شیطانی ہنسی ہنسنے لگے _ 

وہ سب جانتے تھے کہ وہ شیطان کے بچاری و انسانی شکاری ہیں _

 

____________________________________

""ڈاکٹر عابد !! ان لوگوں سے بات ہو چکی ہے سیمپل بھجوایا جا چکا ہے وہ ہمیں اپنی منہ مانگی قیمت پر اینٹی ڈوز تیار کر کے دیں گے اور ویکسین آنے میں کم از کم دو ہفتے لگ جائیں گے_ اتنی دیر میں جتنی اموات ہو سکتیں ان کو تو روک نہیں سکتے مگر بعد میں اس پر قابو پایا جا سکتا ہے "" 

کمرے میں داخل ہوتے ہی فائل میز پر رکھتے ہوئے اس جونئیر ڈاکٹر بلال نے زبانی رپورٹ بھی دے دی تھی _ 

" اتنے پیسے انکو دینے ہوں گے تو ہمیں دوا کو بہت مہنگا بکوانا پڑے گا "" 

سینئر کے منہ سے جوابی جملہ یہی نکلا تھا اور پھر وہ فائل کھول کر اس کے مطالعے میں گم ہو گیا _ 

 

___________________________________ 

 

صدی 3015

 

" سر جراثیم و ویکسن ڈوز دونوں تیار ہیں بس اب آپ نے بتانا ہے کے اس ملک میں کس جگہ اسے پہنچانا ہے ٹیم نے ساری تیاری کر لی ہے اور مقامی بندے و حکومتی افراد بھی تیار کر لیے ہیں _ آپ کی بتائی رقم پر ہی راضی ہو گئے تھے اس بار بہت آسان کام رہا ہے _ ""

آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے وہ نوجوان اپنے سے بڑی پوسٹ کے افسر کے سامنے کھڑا تھا اور اگلے حکم کا منتظر تھا _

اس بار کچھ جوان لڑکے لڑکیاں بھی ساتھ جائیں گے جو بلکل تیار حالت میں ہیں _ ان کو انجیکشن لگائے جا چکے ہیں جو اپنا کام شروع کر چکے ہوں گے میں نے وہاں انکے لیے ٹیم پہلے سے ہی تیار کروا دی تھی اس ملک کی جوان نسل کو تباہ کرنا ہی ہمارا مین مشن ہے""

سینئر افسر نے کرسی سے اٹھ کر اس خفیہ اڈے کی کھڑکی سے باہر جھانکا _ 

" اپنی باتیں نا ماننے والوں کو ہم یونہی سزا دیتے ہیں " مکروہ ہنسی اسکے ہونٹوں پر نمودار ہوئی تھی _ جونیئر نے سر ہلایا اور کمرے سے باہر جانے لگا _ 

وہ سب زمینی ناخدا تھے _