بلا عنوان
پڑھنا لکھنا تو حضرت انسان نے آسمانوں پر ہی سیکھ لیا تھا لیکن اس پر عمل نہ وہاں کر پایا نہ یہاں لیکن ہم کیوں اثر لیں اس بات کا؟
ہم کو تین وقت کی روٹی ملتی ہےاور ساتھ میں ڈش والی چھتری اور کیبل بھی مفت ہے ۔
*میرے پاس اللہ جانے کہاں سے ایک ڈگری آگئی پڑھا لکھا ہونے کی۔ سوچا اب آ ہی گئی ہے تو اس کو ردی کہ بھاؤ بیچ دوں۔ تاکہ کل کلاں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دو تین مربعے زمین خریدی جاسکے۔ کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد شعور نہیں بلکہ کاغذ کہ اس ٹکڑے کا حصول ہے جو ہمارے طالبعلمی کے زمانے کہ تمام خرچے بمع سود واپس کروا سکے۔
اسی مقصد کے لیے کل اخبار میں اشتہاری صفحے کو کھنگال رہی تھی اچانک رشتے کروانے والی ماسی(اشتہار برائے ضرورت رشتہ) پر نظر پڑی۔اشتہار کا متن کچھ یوں تھا: "تین یتیم بچوں اور ان کی امیر کبیر اکلوتی ماں کے لیے ایک 'پڑھے لکھے نوکری یافتہ الو' کی ضرورت ہے"
یہ دیکھ کر لا حول ولا قوة الا بالله پڑھا۔
ویسے آپس کی بات ہے، کیسی ڈھٹائی کا زمانہ آگیا ہے۔۔۔۔پڑھا لکھا الو چاہیئے ان امیر زادوں کو لیکن پھر سوچا جمہوری دور ہے،" ہر کوئی اپنی زندگی کے فیصلوں میں خود مختار ہے"۔
اسی دوران چھوٹی بہن میرا ہفتے بھر سے گم چشمہ ڈھونڈ کر لے آئی۔ جو کہ فوری لگا لیا کیونکہ بغیر چشمے کہ پڑھنے میں ذرا دقت آتی ہے۔ دل چونکہ ابھی تک پڑھے لکھے الو میں ہی کھویا ہوا تھا، اسی لیے بلا ارادہ پھر وہی اشتہار دیکھا لیکن اس بار الو کے نیچے ایک نکتہ نظر آیا۔۔۔۔۔
تو اس سے ثابت ہوا کہ چشمہ لگانے کہ بعد الو بھی معقول اور عزت دار نظر آنےلگتا ہے۔
*زندگی ایک جوا ہے۔۔۔ جس نے بھی کہا اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے کہا ہے! کیونکہ مجھ کو تو زندگی ایک عظیم کاریگر کا مجسمہ لگتی ہے کہ جس نے بڑے پیار سے اس کو بنایا اور پھر ہم جیسے کم عقلوں کو اپنی تخلیق سونپ دی اورپھر ہم نے اپنے ہاتھوں میں قتل وغارت، لوٹ مار، چوری،ظلم، رشوت ستانی کی کدالیں پکڑ کر اس خوبصورت تحفے کے اتنے ٹکڑے کیے کہ اب زندہ لاشوں کے انبار ہیں اس معاشرے میں اور جو مردہ لاشیں ہیں وہ بہرحال اچھی ہیں ہم سے۔۔۔۔۔
لیکن میرے پاکستانیوں گبھرانا نہیں کیونکہ وہ دن دور نہیں جب ڈالر روپے سے بھی نیچے چلا جائے گا۔
✡گلی کہ غفور صاحب کہ گھر پچھلے ہفتے مرغی کہ انڈوں میں سے چوزے نکلے۔
ان کہ بچے کا دل کیا ان کو ہاتھ میں پکڑوں کیونکہ بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔ لیکن کمبخت مرغی بہت شور کرتی تھی۔اور بچے کو کسی صورت چوزوں کے نزدیک نہیں پھٹکنے دے رہی تھی۔معصوم بچےکو مرغی کی حرکت اچھی نہ لگی تواس بچے نے سارا دن مرغی کو دانہ پانی نہیں دیا۔اب یہاں بچے کی دنیا کی تمام طاقتور قوموں سے مماثلت اتفاقیہ ہے۔ جن کہ رحم و کرم پر تیسرے درجے کے ممالک پل رہے ہیں ۔مثال کہ طور پر جیسے معصوم امریکی حکومت عراق، فلسطین اور شام میں رہنے والے دہشت گردوں کا جینا اجیرن کرتی ہے ۔ یا بھارت کی مثال لے لی جائے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر کشمیری عوام کو بارود اور گولی کا ناشتہ، ظہرانہ دیا کرتی ہے۔
خیر یہ سب تو معمولی واقعات ہیں،اصل ظلم تو اس بچے نے ہی کیا ہے۔
شام کواس بچے نے مرغی کے ڈربے کے سامنے کچھ دانے ڈال دئیے، اب وہ بیچاری سارے دن کی بھوکی فورا دانے پر جھپٹی اور بچوں کو بھول گئی۔ پیچھے سے بچے نے ننھے چوزوں کو پکڑ کر خوب پیار کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دانہ ڈالنے کہ بعدعام طور پرتمام انسانوں اور خاص طور پر امریکی اور بھارتی راہنماؤں کا پیار کرنے کا انداز بہت نرالا ہوتا ہے۔
✡اکثر لوگ اولاد کو اکیلا چھوڑ کر اپنی اور اپنے خاندان کی بھوک مٹانے سمندر پار چلے جاتے ہیں اس جدائی کی وجہ بھی پاپی پیٹ کو ہی مانا جاتا ہےلیکن پتہ نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس تگ ودو میں زیادہ عنصر اپنے ملکی حالات سے ناامیدی اور کچھ لوگوں کی اپنی لا محدود خواہشات ہیں۔
رہے نام اللہ کا، باقی اکثر سننے میں آتا ہے کہ کسی اور کی بیوی کسی اور کے ساتھ ہے وہ کیا ہے نا شوہر نہیں ہوتا گھر پر۔۔۔۔۔!
فلاں کہ بچے بہت بگڑے ہوئے ہیں کیونکہ باپ پردیس میں ہے اب یہاں کون ان کی رکھوالی کرے۔۔۔۔۔!
لڑکی کے چار بھائی ہیں پھر بھی اکیلی کالج جاتی ہے اکثر رستے میں آوارہ لوگ تنگ کرتے ہیں پر کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ بھائی تو پردیس میں اس بہن کہ جہیز کا پیسہ جوڑ رہے ہیں ۔۔۔۔!
یہاں یہ واضح کر دوں کہ پریشانی کی بات نہیں ہے، کیونکہ آج کل کی کہانیاں بلا عنوان ہیں۔ اور بلا عنوان چاہے رنج ہو یا خوشی۔۔۔۔ اس کو سمجھنا ہمارے بس کا نہیں ہے_______
بقلم انشاء مریم