سوا سیر

2019-08-18 12:04:57 Written by ماہ رخ ارباب

"بچپن سے مجھے لغویات میں خاص دلچسپی تھی"

انہوں نے مسکراتے ہوئے ایک ادا سے سموسہ اٹھایا۔

تو ہمیں چائے کا گھونٹ لیتے ٹھنسکا سا لگا۔۔

"لل ۔۔لغویات"بوکھلاہٹ میں الفاظ کی ٹرین راستے میں ہی رک گئی۔

"جی ہاں"وہ پھر سے مسکرائے ۔

"یقین کیجئے، اگر اسے یہاں کسی جامعہ میں بطور مضمون پڑھایا جاتا تو ہم آج ماہر لغویات ہوتے۔مگر کیا کیجئے کہ ابا جی نے نہ نہ کرتے بھی انجینئرنگ کی جانب دھکیل دیا"

ان کا لغویات میں اتھارٹی نہ ہونے کا دکھ آج بھی جوں کا توں تازہ تھا۔

"مگر یہ تو بتائیے آپ واہیات چیزوں سے اتنے متاثر کیوں ہیں؟ "ہمارا متجسس ہونا فطری تھا۔

"لاحول ولاقوة محترمہ ہم۔لغت۔۔یعنی زبان کی بات کر رہے ہیں آپ اسے واہیات جیسے کریہہ لفظ سے کیسے جوڑ سکتی ہیں"ان کے ماتھے ہر بے شمار شکنیں پڑ گئیں۔اور ہمارے سینے سے ایک ٹھنڈی سانس خارج ہوئی۔قبلہ موصوف وجیہہ الدین چنگیزی سے بابا جان کو بدظن کرنے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔

میں نے بدمزہ ہوکر موبائل ہاتھ میں اٹھا لیا۔حالانکہ تھی تو بدتہذیبی مگر لغویات میں دلچسپی رکھنے والے سے ایسی بدتہذیبی جائز تھی۔اور اپنا فیس بک لاگ ان کرتے ہی میری آنکھیں خوں رنگ ہونے لگیں۔آج پھر اس گروپ ایڈمن نے صحت و صفائی پر ایک طویل معلوماتی پوسٹ لگا رکھی تھی۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے ان پوسٹوں سے سخت چڑ ہے۔میں نے اسے سبق سکھانے کی ٹھانی۔

ایک لمبا چوڑا کمنٹ لکھا اور پوسٹ کردیا۔حالانکہ مجھے اسکرول کرکے اگنور کرنا آتا تھا مگر یوں اسے علم کیسے ہوتا کہ مجھے اس کی نصیحت آموز استانیوں جیسی پوسٹیں بالکل سمجھ نہیں آتیں۔آخر حق رائے دہی بھی کوئی چیز ہے۔۔

قبلہ وجیہہ الدین بغور میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہے تھے۔دوسرے لفظوں میں مجھے گھورنے میں مصروف تھے۔ 

 

ان کے ہاتھ میں تھاما سموسہ ٹومی میرا کتا سونگھنے کے بعد اب زبان سے اپنے حلق میں اتارنے کے درپے تھا۔مگر موصوف ہنوز میرے چہرے کے نقوش ازبر کررہے تھے۔

"ویسے انکل نے بتایا تھا کہ آپ کو پڑھنے کے علاوہ کھانوں میں بھی دلچسپی ہے"وہ پھر گویا ہوئے۔

"ہاں ہے نا، اسپیشلی فاسٹ فوڈ شوق سے کھاتی ہوں میں"

میں نے بے دھیانی میں اسکرول کرتے ہوئے جواب دیا۔

"میرا کہنے کا مقصد تھا۔۔آپ کھانا تو پکالیتی ہوں گی"اب کے اس نے کچھ بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔"کک کھانا''میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔

"جج جی بالکل پکالیتی ہوں نا، ایگ فرائی کرنا ہو یا بوائل کرنا ہو۔۔اکثر لیٹ نائٹ بھوک لگے تو خود ہی بنالیتی ہوں"میں نے مسکراتے ہوئے کچھ اس طرح کہا کہ میرا ہانیہ عامر جیسا ڈمپل پوری طرح نظر آئے۔اور وار کاری رہا وہ چاہ زخنداں میں غوطے کھاتا ہوا کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔

"کوئی بات نہیں میں ایک باورچی کا بندوبست کرلوں گا۔۔ویسے مجھے خود بھی کھانا بنانے کی اچھی تربیت دی گئی ہے جب امی جی بیمار۔۔۔"

"اچھا، وجیہہ صاحب میرے خیال سے ہم آج کی میٹنگ ختم کرتے ہیں۔۔دراصل میری ایک دوست کا انتقال ہوگیا ہے۔ابھی ابھی فیس بک پر اطلاع ملی۔. ًمحض انا للہ کا کمنٹ کافی نہیں وہ کہتی ہے ۔۔تو جاکر پرسہ دینا ہوگا۔اچھا میں چلتی ہوں۔۔بائے"

میں نے جلدی جلدی جو منہ میں آیا کہتے ہوئےپرس اٹھایا اور تیزی سے دروازہ پار کر گئی ۔

وجیہہ الدین چنگیزی سے اس ملاقات کا انتظام بابا کی خواہش ہر ہوا تھا۔نجانے کہاں سے وہ اس مولوی تمیز الدین کو ڈھونڈ لائے تھے جس میں مجھے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔

میرا آئیڈیل تو ایک گھنی مونچھوں تلے گلابی لبوں پر مسکراہٹ والا تھا۔جو مسکرائے تو فواد خان، دیکھے تو علی ظفر بولے تو عمران اشرف کی طرح،، مجے مجے،، 

میرا تصور یکدم پٹری سے اترا تو سیدھا بھولے سے جا ٹکرایا۔میں نے خوفزدہ سی جھرجھری لے کر سر جھٹکا اور موبائل نکال کر گلاسز سر پر ٹکالئے تاکہ تازہ ترین سیلفی کے ساتھ اسٹیٹس اپڈیٹ کیا جاتا

آؤٹنگ ود فرینڈزآن سی سائڈ۔

۔ویسے بھی اس وجیہہ الدین چنگیزی کو جیسی لڑکی کی تلاش تھی اگر مجھ سے پالا پڑتا تو موصوف کےدن دھرنا دیتےاور رات روتے ہی گزرتی ۔ تو بہتر یہی تھا وہ اپنے لئے کوئی ماہ نامہ زیب النساء کی ہیروئن نما حسینہ تلاش کرلیتے۔مگر وائے ری قسمت جو نہ چاہا تھا وہ ہوگیا۔میری گناہ گار آنکھوں کو میری دشمن اول بریرہ بی بی کا تازہ ترین اسٹیٹس نظر آیا۔۔اور چراغوں میں جیسے روشنی نہ رہی

++++++

"ارے اب رو رو کر باوا کی جاگیر ٹسووں میں بہاؤ گی کیا۔ایسی کیا آفت آن پڑی۔جو کب سے نیر بہائے جارہی ہو "دادی نے بیزاری سے خود کو دوپٹے سے ہوا جلتے ہوئے کہا۔بجلی کے لمبے چوڑے غیاب اور یوپی ایس کے بند ہوجانے کے بعد عموما دادی کا پارہ یونہی آسمان کو چھونے لگتا تھا۔

"دادی۔۔۔،"میں نے ایک زوردار چیخ ماری اور دادی سے لپٹ کرنئے سرے سے رونے لگی۔۔آنکھوں میں ایک دم ہی وہ اسٹیس ناگ کی طرح لہرانے لگا تھا جب میں ہونٹوں ہر مصنوعی مسکراہٹ سجائے۔دروازے پر وجیہہ الدین چنگیزی عرف مولوی تمیز الدین کو ریسیو کر رہی تھی۔اور بریرہ بی بی نے اپنی بالکونی سے اس لمحہ قیامت کا عکس لے کر اپنی وال پر" منگنی مبارک ہو شزاء "کے نام سے اپلوڈ کر دیا۔اور اب ،نیچے موجود دوستون کے مبارک باد کے تبصرے مع معنی خیز مسکراہٹوں کے،مجھے کسی بچھو کی طرح ڈس رہے تھے۔

آج سب کو مجھ سے بدلہ چکانے کا موقع جو ملا تھا۔

سعدیہ کے منگیتر کو چشماٹو کا دیا گیا خطاب اب پلٹ کر واپس آنے والا تھا۔اور انعم کو تو باقاعدہ میں نے ہاتھی بھائی کی منگیتر کا لقب دے رکھا تھا اب وہ یقینا وجیہہ الدین کے دبلے پن کو نظرانداز تو ہرگز نہ کرتی۔اور بریرہ۔۔۔۔اس کے تو حساب ہی الگ تھے۔دادی کیسے جان سکتی تھیں میرا دکھ۔۔

ہائے میری دشمن کیسا اچھا وار کیا تونے۔۔۔

میرا صدمہ کم ہی نہ ہوتا تھا۔دادی جو میرے لپٹنے کے بعد دہل کر ہراساں سی دل ہر ہاتھ رکھے دھڑکنیں سنبھال رہی تھی۔میری پیٹھ پر ایک کرارا سا دھموکا جڑنے کے بعد اٹھ کر جا چکی تھیں۔۔۔مگر میرا دکھ۔۔۔۔

+++

ہر کہانی کسی صدمے کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اس بات کا یقین مجھے تب آیا جب والدکو اچانک میری اٹھکیلیاں آنکھوں میں، اور قہقہے کانوں میں چبھنے لگے۔

اور اس بیماری کا ایک ہی علاج سامنے آیا ۔۔جو تھا۔۔شادی خانہ خرابی۔جی ہاں؛ میں نےکئی دوستوں کو شادی کے بعد اپنا خانہ خراب کرواتے ہوئے دیکھنے کے بعد ایک اٹل فیصلہ کیا تھا۔جس کا پہلا اور آخری اصول یہی تھا۔

شادی نہ کرنا یارو پچھتاؤ گے ساری لائف۔۔

بلکہ جہاں تک ہوسکے دوستوں کو بھی اس خودکشی سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔اور اس کارخیر میں بریرہ جو اس وقت صرف میری چچازاد پیاری سی کزن کے عہدے پر فائز تھی۔اور دشمن کا اضافی چارج اسے نہیں ملا تھا۔ہر پل ہر دم میرے سنگ سنگ تھی۔ہمارا گروپ جو کالج میں مشہور ہی چنڈال فور کے نام سے تھا۔اب شادی کلر کے نام سے جانا جانے لگا، تھا۔میرے اور بریرہ کے علاوہ اس میں انعم اور سعدیہ بھی کندھے سے کندھا جوڑے ہمارے ساتھ کھڑی تھیں۔

جب اچانک ایک دن وہ ہوا۔۔جس کے بعد بریرہ میری پیاری سہیلی، میرا دایاں بازو، دوستوں کی لسٹ سے نکل کر صف دشمناں میں جاکھڑی ہوئی۔۔۔

ہوا، کچھ یوں۔۔۔۔۔

+++++++

"دیکھو بریرا مان جاؤ پلیز ۔۔دیکھو آج مجھے اگر اس قدر ضروری نوٹس تیار نہ کرنے ہوتے تو میں کبھی فروا کے پاس نہ جاتی۔۔کل ٹیسٹ ہے اور دادی کے کسی دور پرے کے بھائی صاحب کو آج ہی کا دن ملا تھا تشریف لانے کے لئیے۔۔مان جاؤ پلیز۔۔صرف انہیں سرو ہی تو کرنا ہے۔۔کون سا وہ تمہیں کھا جائیں گے۔۔۔"میں نے آخری حربہ استعمال کیا۔اور بہت کوشش سے آنکھوں میں چند آنسو بھی لے آئی۔۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔مگر میں بس رات کا کھانا بناؤں گی۔۔اور سرو کردوں گی باقی کمپنی مجھ سے نہ دی جائے گی"اس نے بادل ناخواستہ ہامی بھر ہی لی۔تو میں نے وفور جذبات سے اس کا منہ چوم لیا۔

"گندگی مت کرو"اس نے ناگواری سے گال رگڑا تو میں ولن کی طرح قہقہہ لگاتی ہوئی باہر لپکی مہمانوں کی آمد سے قبل مجھے غائب ہوجانا تھا۔۔

میں نے بریرہ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ دادی کے چچا کی بیوی کےماموں کے بیٹے دراصل اپنے کسی بھانجے بھتیجے کے لئے رشتے کی تلاش میں تھے۔اور اس چکر میں غلط جگہ کا ایڈریس لے آئے۔۔انہیں معلوم نہیں تھا وہ جس لڑکی کے رشتے کی فراق میں ہیں وہ خود شادیوں کے لئے زہر قاتل ہے۔۔ایک تیز دھار خنجر ہے۔وہ بادسموم ہے جس کی تپش سے کسی کےسہرے کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا سکتے ہیں۔میں نے وہ پورا دن فروا کے گھر میں فلمیں دیکھتے ہوئے گزارا ۔۔اس کی ماما بچوں پر سختی کرنے کی بالکل قائل نہیں تھیں۔ویسے بھی وہ ایک برائٹ اسٹوڈنٹ تھی۔اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔

پورا دن گزار کر رات کا کھانا کھا کر میں سر سے کفن باندھ کر گھر آئی تو دل و دماغ پوری طرح ہر قسم کے ذہنی و جسمانی تشدد کے لئے تیار تھے۔۔

مگر خلاف توقع صحن بالکل خالی تھا۔نہ دادی اپنے ہتھیاروں سے لیس موجود تھیں ۔۔نہ ہی بابا ماتھے پر غیض و غضب کے آثار لئے کھڑے نظر آئے۔

میں نے خاموشی سے جوتے اتار کر بغل میں دبائے اور چپ چاپ وہاں سے نکل جانا چاہا۔تب ہی ایک کڑک دار آواز ابھری تھی۔

"شزا۔۔!اوپر آؤ"

ایک پل کو دل چاہا بنا جواب دیے جوتے پھینک کر سیدھی کمرے میں گھس جاؤں مگر افسوس، میں نے چند قیمتی لمحے سوچ بچار میں ضائع کردیے اور تب تک وہ زینے کے چند قدمچے عبور کرکے میرے نزدیک آکھڑی ہوئی۔بالکونی سے نیچے آتا زینہ ہمارےگھروں کی حد بندی کرنے والی دیوار کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا ۔اور گھروں کے بیرونی گیٹ سے اس بالکونی کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ وہ وہاں سے دیوار پھاند کر مجھے پکڑ نہ سکتی۔آخر چار فٹ کی دیوار کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے۔۔اس نے جب مجھے شرافت سے وہیں رکتے ہوئے دیکھا تو دیوار پھاندنے کا ارادہ ترک کرتی ہوئی وہیں رک گئی ۔ اور مجھے انگلی سے اوپر آنے کا اشارہ کرتی اوپر بنے کمرے میں اوجھل ہو گئی ۔

میں نے ایک گہری سانس لی اور اس کے گھر کی راہ لی۔۔اور وہاں جاتے ہی پہلا سامنا چچی سے ہوا جنہوں نے خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ ایک بڑا سا گلاب جامن میرے منہ میں ٹھونس دیا۔

اس اطلاع کے ساتھ کہ بریرہ کا بہت اچھی جگہ رشتہ طے ہوا ہے لوگ خاندانی ہیں۔دیکھتے ہیں ہماری بریرہ انہیں پسند آ گئی جواب لے کر ہی ٹلے مولا تیرا شکر ہے گھر بیٹھے ایسا اچھا رشتہ بھجوانے کے لئے۔

اور میں ہکا بکا سی ،اوپری منزل سے جھانکتی دو آنکھوں سے جھلکتے شعلوں کی حقیقت پاکر دم بخود تھی۔آخر یہ چند گھنٹوں میں کیا ماجرا ہو گیا۔کہ آنے والے مہمان جو محض لڑکی دیکھنے آئے تھے رشتہ پکا کر گئے ۔یہ تمام تفصیلات متاثرہ فریق ہی بتا سکتا تھا۔اور متاثرہ فریق کے سامنے جانے کی ہمت جٹانا ایک الگ ہی ٹاسک تھا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلے تو اس نے قاتلانہ حملے کے ذریعے میری جان لینے کی کوشش، کی لیکن جب خیال آیا کہ اس بات کا نقصان اسی کو ہوگا تو شرافت سے اپنے ہونے والے منگیتر کی تصویر اور وجہ انکار دونوں میرے سامنے رکھ دیے ۔کہ امی تک اس کا انکار پہنچا دوں۔اور تصویر دیکھ کر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی ۔لڑکا صورت میں ٹام کروز نظر آتا اگر رنگت میں ویوین رچرڈ نہ ہوتا۔مجھے معلوم تھا بریرہ کو جسٹن بیبر کتنا پسند تھا۔سنہرے بال اور نیلی آنکھیں اس کی کمزوری تھیں اور ملا تو یہ چندن سا بدن چنچل چتون ،جس کی سیاہ گھور آنکھوں نے دیکھتے ہی بریرہ کو پسند کیا ۔اتفاق سے وہ خود بھی دادی کے چاچا کی بیوی کے ڈیش ڈیش ڈیش کے ساتھ آیا تھا۔

اس دن میں نے بریرہ کا بہت مذاق اڑایا اور اپنی دوستی کی بنیادوں میں بارود بھرلیا۔کہاں ہم دو کنیائیں جن کی دنیا بس سوشل میڈیا کے گرد گھومتی تھی۔کہاں یہ چانکیہ داؤ پیچ۔وہ دن اور آج کا دن جس کا جہاں داؤ لگتا ہے دوسرےکو وہیں چت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔

اور اب اسے خوب موقع ملا تھا کہ مجھے تنگ کر سکتی ۔کہ وجیہہ الدین چنگیزی صاحب میں ان خصوصیات میں سے کوئی ایک بھی نہیں پائی جاتی تھی۔جس کی تلاش میں میں دنیا کے ہر چینل سے آنے والا ہر ڈرامہ دیکھا کرتی تھی۔بہرکیف اس کے وار کا جلد ہی کوئی توڑ تلاش کرنا ضروری تھا۔وگرنہ یہ دنیا مجھے جینے نہ دیتی۔۔

میں نے اذان ہونے کا انتظار کیا اور اندازے سے عین اس وقت بریرا کے گھر پہنچی جب وہ نماز میں مصروف ہوتی ۔۔اور سیدھا اس کے کمرے کا رخ کیا تھا۔وہ حسب توقع نماز میں مصروف تھی۔میں نے بیڈ پر بیٹھ کر اس کا موبائل اٹھایا اور یونہی اسکرین پر انگلیاں پھیرنے لگی میرا اپنا فون برابر میں بیڈ پر رکھا تھا۔نماز سے فارغ ہوتے ہی میں نے اس سے روہانسے انداز میں شکوے شروع کردئے۔۔امید کے مطابق وہ میرے ٹسوے انجوائے کرتی رہی اور اختتام پر پھر سے ایک زوردار لڑائی پر اس ملاقات کا اختتام ہوا۔اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی میں نے دوپٹے میں چھپایا بریرہ کا فون برآمد کیا۔ اور تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئ اب مجھے بریرہ کے سانوریا کو فون کرنا تھا۔۔

++++++

کالج میں ایک بیزار دن گزار کر میں گھر پہنچی تھی۔پورا دن میں مبارک باد دینے والی لڑکیوں سے چھپ کر لائبریری میں بیٹھی رہی۔جس کے متعلق انہیں گمان تک نہ ہوتا کہ میں وہاں پائی جا سکتی ہوں۔اپنی دشمن کا فون میں نے استعمال کے بعد بذریعہ بالکونی کی کھڑکی اس کے کمرے میں چھوڑ دیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ کبھی میرے ہاتھ آیا ہوگا۔اور اب واپسی میں مجھے امید تھی کہ گھر میں چچا یا چچی کا چہرہ نظر آئے گا ۔مگروہ تمنا ہی کیا جو یوں پوری ہوجائے سامنے ہی وجیہہ الدین صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھے آنکھوں میں شوق کا جہاں لئے براجمان تھے۔

اس گرمی میں کالج کی وین میں پندرہ لڑکیوں کے درمیان گھس کر بیٹھنے اور پوری گلی جتنا پیدل چلنے کے بعد میری حالت ہرگز ایسی نہیں تھی جو کسی مہمان سے ہنس ہنس کر ملاقات کی جاتی ۔مگر دادی کی تیز نگاہی اس عمر میں بھی کمال تھی۔

مجال ہے جو کوئی پرندہ بھی دادی کی نگاہ میں آئے بنا گھرمیں پر مارسکتا۔شاید اسی نظربندی سے اکتا کر دادا جی نے قبر میں جاکر آزادی کی سانس لی تھی ۔

"شزا! وجیہہ الدین میاں آئے ہیں انہیں سلام کرو۔اور جاکر کچن میں دیکھو دوپہر کے کھانے میں آج بریانی بنے گی۔ساتھ شامی تل لینا۔میٹھا میں بنا دوں گی۔آج وجیہہ میاں کھانا یہیں کھائیں گے۔۔"

دادی نے یکے بعد دیگرے ایک ساتھ کئی بم میرے سر پر پھوڑے اور اس کے بعد پھر اطمینان سے وجیہہ الدین کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوگئیں ۔۔میں خون کے گھونٹ پیتی بستہ گھسیٹتی اندر پہنچی۔ایک پل کو دل چاہا بھاری بیگ ایک ہی بار میں وجیہہ صاحب کے سر پر مار کر تمام مشکلات کا خاتمہ کرلوں مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

۔۔۔۔۔دوپہر بھر کی خواری کے بعد بابا کی سفارش پر دادی نے اجازت دی کہ میں کچھ دیر کو اس بغلول کی پر مغز گفتگو سے کانوں کو محفوظ رکھ سکوں۔میں منہ پر دوپٹہ اوڑھے بریرہ کی شادی میں سلوانے کے لئے ممکنہ ڈریسز کے ڈیزائن سوچ رہی تھی۔جب نیچے چاچی کی آواز ابھری ۔۔اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔یسسسس۔۔

دروازے سے کان لگاکر جو کچھ سنا اس کے بعد میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔چچی کے بقول ناجانے کس نامراد نے ان کے ہونے والے داماد کے کان بھردیے ہیں کہ ہم بریرہ کا رشتہ کہیں اور کرنے لگے ہیں۔اور وہ چاہتا ہے کہ اب یہ شادی جلد سے جلد کروادی جائے ۔اسے ہماری کسی یقین دہانی ہر بھروسہ نہیں۔جب کہ دادی یہ ماننے کو تیار نہیں تھیں کہ واقعی کسی نے اس کے کان بھرے ہیں۔وہ خود ہی شادی کے لیے اتاؤلہ ہوگا۔یہ حقیقت تو صرف میں ہی جانتی تھی اس کے کان کس نے بھرے ہیں۔مجھے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں پرپورا بھروسہ تھا۔

کہ وہ میری آواز کو بریرہ کی ہی سمجھا ہوگا۔کہاں وہ منگیتر جو اس سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہ ہوتی تھی۔اور کہاں وہ اسے رو رو کر کہہ رہی ہو کہ جلدی شادی کی تاریخ طے کریں ورنہ اماں اپنے لندن پلٹ بھتیجے پر فدا ہیں۔

اور ہونے والے دولہا بھائی کا بس نہ چلا کہ اسی وقت سہرا باندھے آپہنچتے ۔میں نے زندگی میں پہلی بار رشتہ توڑنے کی بجائے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور بریرہ کے لیے یہ سزا بہت کافی تھی۔

جلد ہی اس کے شادی کے ہنگامے شروع ہوگئے اور مجھے اپنی پریشانیاں بھول گئیں۔۔

++++++

"بات سن سعدیہ یہ دیکھ میرے کرلز ٹھیک ہیں" ۔میں آدھے گھنٹے سے شیشے کے سامنے کھڑی اپنے دراز بالوں کے کرلز درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر کرلز اور گرلز سیدھے ہونے کے لیے نہیں بنتے۔وہ بھی ڈھیر سارا جیل اور اسپرے ہونے کے بعد کسی پتھر کی مانند اکڑ چکے تھے۔ میں نے انہیں یونہی اکڑا ہوا چھوڑ کر دوپٹہ کندھے پر ڈالے باہر لپکی۔

بارات آچکی تھی۔اور اتنے سارے جوڑے دیکھ کر میرے اندر کی شادی بریکر شیطانی روح پھر سے بیدار ہونے لگی تھی۔سانولے سلونے دولہا بھائی آج کسی شہزادے کی مانند سجے بنے کھڑے تھے۔چہرہ بھی پالش کے بعد چمک رہا تھا۔نقوش تو ویسے ہی اچھے تھے۔اور تو اور بریرہ بی بی ایک ہاتھ سے گھونگھٹ اوپر اٹھائے۔وہیں تکتی ہوئی پائی گئیں۔۔وہ تو چچی کو خیال آیا تو جلدی سے اس کا گھونگھٹ گرایا مگر گردن کا ٹیڑھا زاویہ بتارہا تھا وہ ابھی بھی وہیں دیکھ رہی ہے۔

بارات میں آئے رنگا رنگ نمونوں کو دیکھتے ہوئے ساتھ کھڑی انعم نے ایک جانب اشارہ کیا۔تو میں نے دیکھنے کیلیے گردن گھمائی۔اور ایک بے ساختہ چیخ بلند ہوئی۔

"ہائے ماں جی،، مرگیا۔۔ارے ماردیا ۔۔میری ناک توڑ دی۔۔ارے سر میں کیا پتھر بھرے ہیں۔۔بال ہیں یا لوہے کے تار ۔۔"اس کا واویلا جاری تھا اور میرے تو جیسے چراغوں کی روشنی ہی جا چکی تھی۔

وہ عمران عباس تھا۔۔بنا بنایا عمران عباس ۔۔دولہا بھائی کو دیکھ کر اندازہ نہ ہوتا تھا ان کے خاندان میں عمران عباس بھی پائے جاتے ہوں گے۔وہ تو بک جھک کر چلاگیا۔۔مگر مجھے دادی کے فیصلے سے بغاوت کے لئے ایک بنیاد تھما گیا۔۔میں نے شادی کے فورا بعد دادی سے بات کرنے کی ٹھان لی۔اور جو میں ٹھان لوں اس، پر عمل ضرور کرتی ہوں۔۔

+++++

"مونی آواز کم کرو کتنا چیختا ہے یہ فہد مصطفی۔۔"میں نے ریموٹ سے آواز کم کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا۔وجی تیز دھوپ میں پسینہ صاف، کرتے گھر میں داخل ہورہے تھے۔میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر گروسری کا تھیلا ہاتھ سے تھاما۔

"آپ کو تو بہت گرمی لگ گئی ہے۔۔میں سکنجبین بناتی ہوں آپ فریش ہولیں۔رنگت کیسی جھلس گئی ۔"میں نے وجی کو افسوس سے دیکھتے ہوئے ہمدردی جتائی-

 

"ماما !پاپا آل ریڈی مشکی ہیں اور کتنا انہوں نے جھلسنا۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے اس اسکن ٹون کے لوگوں کی اسکن ہمیشہ فریش دکھتی ہے۔۔پاپا کی اسکن آپ سے فریش دکھ رہی ہے۔ بلیو می۔۔" 

۔ تو مونی جو پاس ہی براجمان تھی۔زبان درازی میں مجھ سے اور جی داری میں اپنے باپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔فوراً بولی۔۔

"اچھا! میں نے تو کبھی غور ہی نہیں کیا

مجھے تو وجیہہ کی رنگت نظر ہی نہیں آتی۔۔"میں نے بغور اپنی سلطنت کے مہاراجہ کو دیکھا۔تو گھنگھور گھٹاؤں میں سورج کی بنفشی کرنیں نہ جانے کہاں سے جھلک آئیں۔نہ جانے یہ گرمی تھی یا شرم۔

"یہ وجی ۔۔وجی کیا ہے لڑکی۔کتنی بار کہا ہے شوہر کو نام سے نہیں پکارتے وجیہہ الدین چنگیزی کتنا پیارا نام ہے ۔نام سے پکارا کرو۔۔" دادی کی کڑک دار آواز ابھری تو میں نے زبان دانتوں تلے داب لی۔

 میں تو بھول ہی گئی دادی گھر میں موجود ہیں ۔۔اور آج کی اسپیشل گیسٹ ہیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی میری دادی کے سامنے بالکل نہیں چلتی۔

 

جی ہاں میری اس دن کی جرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ وجیہہ الدین کے ساتھ جو رشتہ ہوا میں معلق تھا یکدم زمین میں کھونٹا گاڑھ کر کھڑا ہوگیا۔

اور آج میں ایک ایسے ہیرو کے ساتھ ہوں جو ٹی وی کے ہر اسٹار سے زیادہ سپر ہے۔۔۔

کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے۔۔آپ کو کیا لگتا ہے۔۔

 

ماہ رخ ارباب