چہرہ

2019-08-21 21:33:15 Written by اعتزاز سلیم وصلی

چہرہ

 ڈھولک بج رہی تھی۔پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔۔کیوں نہ ہوتا؟آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزادحمد کی مہندی سجائی جارہی تھی۔۔شہزادجس کے نام میں ماں اکثر ’ہ ‘کااضافہ کرکے اسے’’شہزادہ‘‘کہتی تھی اور اس وقت ماں کے شہزادے کو اس کے دوستوں نے گھیر رکھا تھا۔اس سب رونق میلے میں شہزاد کا دل بالکل نہیں لگ رہا تھامگر دنیا کی رسموں کو نبھانا تو تھا سو چپ چاپ دوستوں کی باتوں کو سن کر لبوں سے مسکرانے کی کوشش کررہا تھالیکن آنکھوں میں ابھی بھی اداسی تھی۔

’’شہزاد ویسے ایک بات ہے تیری شادی کا سن کر میں بڑ ا اداس ہوں‘‘اکبر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’کیوں شہزاد کونسا تیری منگیترسے شادی کررہا ہے؟‘‘اکبر کے ساتھ کھڑے وسیم نے اس پر چوٹ کی۔وہ غصے سے اسے گھورنے لگا۔

’’یار میں اس لئے اداس ہوں کہ ہمارا پیارا شہزاد اب جب بھی بازار میں ملے گا اور ہم اسے اسنوکر کھیلنے کی دعوت دیں گے تو یہ کچھ اس طرح کے بہانے بنایا کرے گا،ارے آج تمہاری بھابھی نے میکے جاناہے،آج منے کے پیمپر لے کر گھر جلدی جانا ہے۔۔چھوٹی کا دودھ ختم ہو گیا ہے وہ لینا ہے‘‘اس کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔

’’ویسے شہزادہ کچھ کچھ اداس لگ رہا ہے۔کہیں فیس بک والی تو یاد نہیں آرہی؟‘‘وسیم نے اس کی بیزاری محسوس کرلی تھی شاید۔

’’ارے نہیں ،شہزادہ ایسی چیزیں ٹائم پاس کرنے کیلئے کرتا ہے۔۔ویسے تھی بڑی پیاری۔ایک دو تصاویر میں نے بھی دیکھی تھیں۔‘‘اکبر نے آنکھ دبا کر اپنے مخصوص انداز جواب دیا۔اس کے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی۔

’’کیا ہوا شہزادے؟‘‘وسیم نے پوچھا۔اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ گھر کے اندر چلا گیا۔زنانہ حصے میں امی مہمان عورتوں میں گھری اپنی ہونے والی بہو کے حسن کے قصیدے پڑھ رہی تھی۔اس کے اشارے پر اٹھ کر باہر آئیں۔

’’کیا بات ہے شہزادے؟‘‘۔

’’امی مجھے یہ شادی نہیں کرنی‘‘۔اس کی بات سن کر انہوں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔چند لمحوں کے بعد ان کے منہ سے اس کی توقع کے عین مطابق الفاظ برآمد ہوئے۔

’’کیا بکواس کررہا ہے شہزادے؟ہوش میں تو ہے؟‘‘۔

’’بس مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔یہ مہندی وغیرہ کی رسم کرنی ہے تو کرلیں ۔کل میں سب کے سامنے اعلان کردوں گا ابھی میں کہیں جارہا ہوں‘‘یہی کہتا ہوا وہ گیٹ کی طرف بڑھا۔

’’شہزادے۔۔میری بات سن شہزادے‘‘امی نے پکارا۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔گھر میں ہوئی لائٹنگ کی زرد روشنیوں میں امی کا چہرہ بھی زرد دکھائی دیا۔

’’اگر تم نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میرا مراہوا منہ دیکھے گا یاد رکھنا۔۔میں بھی تیری ماں ہوں‘‘یہی کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ان کی دھمکی نے اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔ کچھ دیر وہ وہیں کھڑا رہا پھر چپ چاپ گیٹ سے باہر آگیا۔کچھ دیر بعد وہ سب دوستوں کو حیران چھوڑ کر ،وسیم سے بائک مانگ کر گھر سے کوئی چالیس کلومیٹر دور شہر میں خواتین کے ایک ہوسٹل کی طرف بڑھ رہا تھا۔لوگ حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے جس کی آج رات مہندی تھی مگر وہ کہیں اور جارہا تھا۔

                               ٭٭٭

اچھے وقت کی امید میں برا وقت صبر سے گزارنا بھی بہادری کاکام ہے اور یہ کام زبیدہ خاتون اور اس کی بیٹی شاہین نے خوب کیا۔تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ،زبیدہ بچپن سے جوانی تک ضرور لاڈ پیار میں پلی بڑھی تھی مگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی یہ لاڈ پیار کہیں گم ہو گیا جب صرف ایک ماہ کے وقفے سے اس کی ماں اور باپ چل بسے۔بھائیوں اور بھابھیوں نے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کا وہی پرانا طریقہ اپنایا جسے آج بھی لوگ ذمہ داری نبھانا کہتے ہیں یعنی صرف سترہ سال کی عمر میں زبیدہ کی شادی کردی۔کم عمری کی شادی اور وہ بھی اپنے سے دوگنا عمر کے شوہر کے ساتھ۔۔کب تک گزارا ہوتا؟۔اقبال ایک شکی مزاج شخص تھا جس کے خیال میں محلے کا ہر لڑکا زبیدہ پر عاشق ہے اور اس میں زبیدہ کی ناز و ادا کا قصور ہے۔زبیدہ کا صبر اور ایک مشرقی بیوی ہونے کے ناطے گھر بنانے کی یہ جدوجہد آٹھ سال تک چلی۔گود میں ایک بیٹی لئے اور ماتھے پر طلاق کا دھباسجائے آٹھ سال بعد جب وہ واپس اپنے اذیتوں بھرے سفر کے اختتام پر ملنے والی منزل پر پہنچی تو یہ وہی جگہ تھا جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ابا کی حویلی اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔اس کے حصے میں نوکروں کیلئے بنایا گیا کمرا آیا۔طلاق کی کوئی خاص وجہ نہ تھی۔اقبال کے خیال میں زبیدہ کی بیٹی شاہین بھی بڑی ہو کر ماں پر جائے گی اس لئے اس ’غیرت مند‘شخص نے ایسی ’’بے شرم‘‘بیوی کو طلاق دے دی جس نے بیٹی پیدا کی تھی۔بھائیوں سے کچھ امید تھی تو صرف روٹی ،کپڑااور مکان کی۔۔جوبمشکل پوری ہوئی ۔وقت گزرا۔شاہین پانچ سال کی ہو گئی۔۔اسکول میں داخلے کا مسئلہ پیش آیا۔زبیدہ نے گاؤں کی عورتوں کے کپڑے سینے شروع کر دئیے۔خدا نے اس کی محنت میں برکت ڈالی۔کچھ پیسے ہاتھ میں آئے تو ننھی شاہین بھی اپنے کزنز کی طرح اسکول جانے لگی۔

پڑھنے میں تیز تھی وہ۔کچھ اپنے حالات کا احساس بھی اس کے معصوم سے دماغ میں تھا۔ نو سال کی عمر میں پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ شہر کے ہائی اسکول میں آگئی۔یہاں زبیدہ کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے بھائی اپنی بھانجی کو باقی خاندان کی لڑکیوں کی طرح گھر بٹھانا چاہتے تھے۔لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دلوانے کا رواج نہ تھالیکن زبیدہ ڈٹ گئی اور بھابھیوں سے’’بے شرم‘‘ہونے کا خطاب حاصل کرنے کے باوجود بیٹی کو پڑھنے شہر بھیج دیا۔شہر لے جانے والی وین کا کرایہ اور باقی تعلیمی اخراجات وہ خود برداشت کررہی تھی۔محنت کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ میں صفائی آگئی اور وہ شاہین کے مشورے سے نت نئے ڈیزائن کے کپڑے بنانے لگی جس سے آمدنی میں اضافہ ہوا۔لوگوں کے طعنے،باتیں اور بہت کچھ برداشت کرنے کے بعد اس نے صرف ایک بات سوچی تھی۔۔’’شاہین کو کچھ بنانا ہے‘‘۔شاہین نے میٹرک میں شاندار کامیابی حاصل کی اور پورے اسکول میں دوسرے نمبر پر رہی۔اب اسے کالج جانا تھا۔اس بار زبیدہ پر دباؤ زیادہ پڑا۔بڑے ماموں کسی صورت بھی شاہین کو کالج داخلہ نہیں لے دینا چاہتے تھے مگر زبیدہ کے ساتھ شاہین بھی ڈٹ گئی۔۔اور کالج میں داخلہ لے لیا۔بڑوں کی مرضی کے خلاف کیا گیایہ فیصلہ درست رہایا غلط اس کا بات کا فیصلہ۔۔صرف دو ماہ بعد ہو گیا تھا۔۔۔زبیدہ اور شاہین کا مقصد تو نیک تھا مگر کچھ لوگوں کے ساتھ ان کی بدقسمتی سفر کرتی رہتی ہے۔۔اور یہ کبھی تھکتی نہیں۔

                                  ٭٭٭

 شہزاد کی موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کررہی تھی۔وقت تیزی سے گزررہا تھا۔ٹھنڈی ہوا اس کے جسم سے ٹکرا رہی تھی مگر وہ پچھلے چھ ماہ کی باتیں یاد کررہا تھا۔۔گزرا وقت کسی فلم کی طرح اس کے دماغ میں چل رہا تھا۔

 ان دنوں وہ ایم اے کے ایگزامز کے بعد فری تھا۔شہزاد کے والد عباد احمد کی مین مارکیٹ میں تین دکانیں تھیں جن کو سنبھالنے کیلئے ملازمین تھے۔۔اس لئے شہزاد کی زندگی بے فکری سے گزررہی تھی۔اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے اسے لاڈ پیار سے پالا گیا تھامگر وہ بگڑا نہ تھا بلکہ ایک سلجھے مزاج کا سنجیدہ جوان تھا جو زندگی کی پریشانیوں سے دور تھا۔انہی دنوں زندگی اسے مصنوعی دنیا میں لے گئی۔۔فیس بک کا شوق اسے وسیم سے لگا تھا مگر یہ شوق جنون اختیار کر گیا کیونکہ فیس بک پر اس کے ہم مزاج لوگ مل گئے تھے۔ایک دو جو اسی کے شہر کے تھے ان سے وہ ملاقات بھی کرچکا تھا۔

 وہ ادب سے متعلق سے بنائے گئے ایک گروپ میں ایڈ تھاجس میں سب لوگ اپنی لکھی تحریریں،شاعری اور مضامین شیئر کئے کرتے تھے۔اس گروپ میں مختلف قسم کے مقابلے بھی ہوتے تھے جن میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔اسے شاعری کا شوق تھا۔خود بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ کر انہیں شاعری کی شکل دیتا رہتا تھا۔ایسے ہی ایک مقابلے میں ،جس میں اپنے شعر کمنٹ کرنے تھے،اس کی پہلی پوزیشن آئی اور انعام میں ایک ناول ملا۔اس رات وہ رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ جیسے ہی آن لائن ہوا۔۔اس کے میسنجر پر میسج ریکوئسٹ آئی پڑی تھی۔یہ گروپ ہی کی ایک لڑکی تھی جس کا نام اس کی نظروں سامنے کئی بارگزرا تھا۔اس نے کچھ سوچ کر میسج ریکوئسٹ قبول کی ۔تھوڑی دیر بعد دوبارہ میسج ٹیون بجی۔

’’السلام علیکم شہزاد صاحب،کیسے مزاج ہیں؟‘‘۔

’’وعلیکم السلام ،میں ٹھیک ہوں ۔اللہ کا شکر ہے ،آپ سنائیں؟‘‘۔یہ پہلا موقع تھا کہ وہ فیس بک کی کسی لڑکی سے بات کررہا تھا ورنہ فیک آئی ڈی اور لڑکوں کے جنس تبدیل کرنے والی صلاحیت کے ڈر سے اس نے کبھی کسی لڑکی کی فرینڈ ریکوئسٹ قبول کی تھی نہ میسج کا جواب دیا تھا۔رسمی کلمات کے بعد شازیہ نام کی اس لڑکی نے اپنے میسج کرنے کا مقصد بیان کیا۔

’’میں آپ سے شاعری سیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔

’’مجھ سے؟‘‘وہ ہنس پڑا۔

’’جی آپ سے‘‘۔

’’ارے نہیں ،مجھے شاعری نہیں آتی۔یہ مقابلوں وغیرہ میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ لیتا ہوں ورنہ مجھے نہیں آتی شاعری‘‘۔اس نے سچ بولا تھا مگر شازیہ ضد پر اڑ گئی۔

’’پلیز نہ مت کریں۔مجھے شاعری کا شوق ہے۔اپنا درد لفظوں میں سمیٹنا ایک صلاحیت ہے جو بہرحال آپ میں ہے مجھے بھی سکھا دیں تھوڑا بہت‘‘۔شہزاد جھنجلا گیا۔

’’مگر جب مجھے کچھ آتا نہیں تو سکھاؤں گا کیسے؟‘‘۔

’’جیسے خود الفاظ جوڑ لیتے ہیں ،مجھے بھی سکھا دیں ایسے ہی۔۔‘‘وہ پکاارادہ کرکے آئی تھی شاید۔شہزاد کو ہاں بولتے ہی بنی لیکن جلد اسے اندازہ ہو گیا شازیہ کا مقصد شاعری سیکھنا ہرگزنہ تھا۔وہ صرف اچھا وقت گزارنا چاہتی تھی ۔شاید تنہائی کا شکار تھی۔میسج چیٹ کے بعد دونوں میں موبائل نمبرز کا تبادلہ ہو گیا۔یوں شہزاد کی زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے قدم رکھا ورنہ وہ سنجیدہ مزاج کا تھا،اس کی ایک عدد منگیتر خاندان میں موجود تھی جس سے کبھی اس نے کال پر بات نہ کی تھی لیکن شازیہ اس کی زندگی میں رنگ لے آئی تھی۔مصنوعی دنیا کے ذریعے ایک حقیقی رشتہ بن چکا تھا۔وہ اسے اپنی تصویریں دکھا چکی تھی۔وہ واقعی خوبصورت لڑکی تھی۔۔شہزاد نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ جڑتا جا رہا تھا۔۔

                              ٭٭٭

دنیا جس دن بنائی گئی تھی اس دن ایک لفظ بھی زمین پر اترا تھا۔’’غلط فہمی‘‘۔۔معمولی سی غلط فہمی اور بڑی لڑائیاں۔معمولی سی غلط فہمی اور کئی زندگیاں تباہ۔ایسی ہی ایک غلط فہمی نے شاہین اور زبیدہ کی زندگی کے درست جاتے راستے کو غلط سمت پر ڈال دیا تھا۔۔

اس دن شاہین کالج سے چھٹی کے بعد روڈ کے کنارے کھڑی وین کا انتظار کررہی تھی۔اس کے چہرے پر حسب معمول نقاب تھاجس میں سے اس کی سیاہ آنکھیں جھانک رہی تھیں۔اچانک اس کے پاس ایک بائک آرکی۔اس پر سوار دو لڑکوں میں سے پیچھے بیٹھے لڑکے کے ہاتھ میں بوتل تھی۔اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور ایک جھٹکے سے بوتل میں موجود سیال اس کے چہرے پر اچھال دیا۔اس نے چہرہ بچانے کی غیرارادی کوشش کی اور رخ پھیر لیا مگر ہونٹ سے نیچے ٹھوڑی اور گردن کا کچھ حصہ تیزاب کی زد میں آگیا۔نقاب اس کے چہرے سے اتر چکا تھا ۔جل جانے کے خوف اور جلن سے اس کے حلق سے چیخیں نکلیں۔آخری الفاظ جو اس نے سنے تھے وہ بائک چلانے والے لڑکے کے تھے جس نے کہا تھا۔’’ارے یہ کوئی اور ہے۔۔۔‘‘خوف کی شدت تھی یا تکلیف کا احساس۔وہ گری اور بے ہوش ہو گئی۔

اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔چہرے کا نچلا حصہ جل چکا تھا اور چہرے پر ایک انمٹ داغ بن چکا تھا۔چہرے کا داغ تو شاید برداشت ہو جاتا مگر گاؤں میں اس کے جلنے کی خبر ،جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔۔اور یہ خبر اس کے کردار پر داغ بن چکی تھی۔ہر شخص کی زبان پر ایک ہی قصہ تھا اور ایک ہی کہانی۔۔شاہین کا کسی لڑکے کے ساتھ چکر تھا جسے دھوکا دیا اور نتیجے میں اس کے منہ پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ہسپتال سے اسے زبیدہ گھر لے گئی۔ماں کا رویہ بھی عجیب تھا۔کبھی اس سے ضرورت کے وقت بات کرتی ورنہ چپ رہتی۔آخر شاہین نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔’’امی آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘۔زبیدہ نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔چند لمحوں بعد جب اس نے سوال دہرایا تو وہ بولی۔

’’تم نے کیوں میری عزت کی دھجیاں اڑا دیں شاہین؟‘‘۔وہ ساکت رہ گئی۔

’’مگر امی میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔

’’تیرے چہرے پر یہ تیزاب اس لڑکے نے اس لئے پھینکا ہے ناں کہ تو نے اسے چھوڑ کر کسی اور سے چکر چلا لیا تھا؟‘‘۔زبیدہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کئی دنوں کے غصے کا نتیجہ تھے۔وہ چیخی۔

’’امی۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔کس نے کہا آپ سے؟‘‘۔

’’سارا گاؤں کہہ رہا ہے شاہین۔تیرے ساتھ جانے والی لڑکیاں بھی کہہ رہی ہیں‘‘۔اسے یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے ماں کو تیزاب پھینکنے والے لڑکے کے آخری الفاظ بتائے۔

’’اماںوہ کسی اور پہ پھینکنے آئے تھے‘‘۔دونوں ماں بیٹی کی باتیں جاری تھیں کہ کسی نے کمرے کے دروازے پہ دستک دی۔زبیدہ نے دروازہ کھولا۔سامنے اس کا بڑا بھائی صدیق کھڑاتھا۔

’’تم دونوں ماں بیٹی یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ہمارے گھر میں بے شرموں کیلئے جگہ نہیں۔ایک طلاق لے کر گھر بیٹھ گئی دوسری شہر میں لڑکوں سے چکر چلاتی ہے۔میں نے کہا تھا ناں اس کو نہ بھیج کالج۔اب دیکھ لے اس کے کارنامے‘‘۔اس کی زہر اگلتی زبان نے زبیدہ کو گنگ کردیا۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑی باتیں سنتی رہی اچانک اس کے سینے کے بائیں جانب درد اٹھااور نیچے گرگئی۔شاہین چیختی ہوئی ماں کی طرف بڑھی۔صدیق باتیں سنا کر واپس چلا گیا اور بہن کی حالت نہ دیکھ سکا۔۔کمرے میں شاہین کی چیخیں گونج رہی تھیں۔وہ بھاگ کر باہر گئی۔چھوٹے ماموں کا کمرہ نزدیک تھا۔اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔’’چھوٹے ماموں۔۔چھوٹے ماموں‘‘۔اندر سے ممانی باہر آئی۔

’’کیا بات ہے کیوں چیخ رہی ہے منحوس۔۔ایک تیری وجہ سے سکون برباد ہوا ہے اب کیا سونے بھی نہیں دے گی؟‘‘۔

’’ممانی۔۔امی کو دیکھیں انہیں کچھ ہو گیا ہے‘‘وہ ان کی باتیں نظرانداز کر کے بولی۔اس کے آنکھ سے آنسو روانی کے ساتھ بہہ رہے تھے۔

’’اب کیا نیا ڈرامہ کر دیا زبیدہ نے۔۔‘‘وہ بڑبڑاتی ہوئی اس کے ساتھ ان کے کمرے میں گئی جہاں زبیدہ۔۔شاہین کو اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر اپنے اصل خالق کی جانب لوٹ گئی تھی۔شاہین چیختی رہی مگر اس کے سرپر ہاتھ رکھنے کیلئے کوئی نہ آیا۔۔

                               ٭٭٭

ان دونوں کی درمیان فیس بک کے ذریعے ہونے والی دوستی مضبوط ہوتی چلی گئی۔دونوں ایک دوسرے کی عادت بن گئے اور یہ شہزاد کی یہ عادت کب محبت میں بدل گئی۔۔وہ بے خبر تھا۔اظہار وہ کئی بار کر چکا تھا مگر شازیہ نے نہ کبھی ہاں کی تھی اور نہ ۔۔نہ۔وہ اس کی باتیں سن کر ہنستی اور بس اتنا جواب دیتی۔۔’’یہ مصنوعی دنیا ہے دوست۔یہاں کے جذبے عارضی اور رشتے کمزور ہیں‘‘۔

’’میں تم سے ملنا چاہتا ہوں‘‘کافی دنوں سے اس کے دل میں آئی خواہش آخر الفاظ کی صورت میں شازیہ کے انباکس میں ظاہر ہوئی۔

’’مایوسی ہو گی مل کر۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘۔

’’بس ویسے‘‘۔

’’مجھے بتاؤ ناں شازیہ۔تم اتنی دلچسپ باتیں کرتی ہو۔اتنی خوبصورت ہو پھر مایوسی کیوں ہو گی؟‘‘

’’ایک بات بتاؤ؟‘‘شازیہ نے الٹا سوال کیا۔

’’پوچھو‘‘

’’تمہیں کیا لگتا ہے۔۔فیس بک پر جس طرح میں ہنستی مسکراتی ہوں۔اسی طرح حقیقت میں بھی ہوں گی؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’ایسا نہیں ہے شہزاد۔۔ایسا بالکل نہیں ہے۔تم میرا دکھ محسوس نہیں کر سکتے۔۔‘‘

’’شازیہ مجھے تم سے محبت ہے۔میں تمہارا ہر درد،ہر دکھ خود محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔خود سہنا چاہتا ہوں سب۔۔‘‘یہ محبت کا اظہار تھا جو شہزاد جیسے سنجیدہ شخص نے کیا۔۔اور کس سے کیا؟۔ایک مصنوعی دنیا کی ایک انجان لڑکی سے۔۔جس کے بارے میں وہ پوری طرح جانتا تھا بھی نہیں تھا۔یہی سوال شازیہ نے پوچھا۔

’’شہزاد۔۔تم مجھے نہیں جانتے۔صرف چند تصویریں دیکھی ہیں کچھ دن کال پر بات کی ہے۔ہم کبھی ملے نہیں پھر یہ محبت کا دعویٰ سچ مانوں یا جھوٹ؟‘‘

’’جومرضی سمجھو شازی۔۔مجھے تم سے محبت ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا‘‘

’’کیوں کانٹوں پر گھسیٹ رہے ہو۔جب مجھ سے ملو گے مجھے دیکھو گے۔۔تم بھی سب کی طرح چھوڑ جاؤ گے۔۔‘‘

’’مجھ پر یقین کرو پلیز۔۔پلیز شازیہ مجھ پر یقین کرو‘‘

’’اچھا چلو۔۔کل بتاؤں گی ملنے کا فائنل پروگرام‘‘شہزاد کیلئے اتنا بہت تھا۔اسے یقین تھا وہ شازیہ کو منا لے گا۔

                               ٭٭٭

شاہین کو گھر سے نکال دیا گیا۔زبیدہ کے جنازے کے فوراً بعداس ’بے شرم‘کو’ غیرت مند ماموں ‘نے گاؤں سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔’’جامرکہیں۔اپنی ماں کی بھی جان لے لی منحوس،اب ہمیں بدنام نہ کر‘‘۔باقی دونوں بھی بڑے بھائی کے ساتھ تھے۔غیرت تھی یا بوجھ سے چھٹکارا۔۔وہ کچھ نہ سمجھ سکی بس چپ چاپ شہر آگئی۔شہر اسے اچھا لگا۔یہاں اتنے لوگ تھے،سب اپنی دنیا میں گم۔۔کسی کو کیا فکر کوئی گھر سے نکالا ہوا ہے۔۔یا بدنامی کا داغ ماتھے پر سجائے ہوئے ہے۔یہاں اس کی کالج کی دوست تھی جو اچھے گھر کی تھی۔خوش قسمتی سے اس کا موبائل نمبر شاہین کو یاد تھا۔اس نے رابطہ کیا تو وہ ڈرائیور کے ساتھ لینے آگئی۔شاہین کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ہانیہ نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کروایا۔ہانیہ کے گھر دو دن رہنے کے بعد اس کے باپ ہی کی مدد سے اس نے ایک آفس میں نوکری کرلی۔یہ فون آپریٹر کی جاب تھی ۔۔ان کے گھر پر بوجھ بننے کی بجائے وہ خواتین کے ایک ہوسٹل میں چلی آئی۔یہاں سب کی اپنی زندگی۔۔اپنی دنیا اور اپنی پریشانیاں تھیں۔کوئی گھر کو اکیلی چلا رہی تھی۔۔کسی کا سسرال اسے نوکری پر مجبور کررہا تھا تو کوئی شاہین کی طرح دنیا میں اکیلی تھی۔زندگی نے ہرعورت کو الگ امتحان میں ڈال رکھا تھا۔

انہی دنوں شاہین کو نیا شوق لگا۔اس نے دنیا کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے الگ دنیا میں قدم رکھ دیا۔یہ فیس بک کی مصنوعی دنیا تھی۔۔اس دنیا میں شاہین نے خود کو نیا کردار دیا۔وہ امیر گھر کی ہنستی مسکراتی لڑکی بن کررہتی تھی جو ہر فکر اور غم سے دور تھی۔لوگ اسے میسج کرتے ۔۔کئی اس کی قسمت پر رشک کرتے تو کئی حسد میں مبتلا ہو جاتے ۔اس کے پاس ڈھیر ساری تصویریں تھیں۔یہ ایک امیر لڑکی تصویریں تھیں جو اپنی گاڑی میں سیلفیاں لے رہی ہوتی تو کبھی یورپ کے ٹورپر مصروف ہوتی۔اسے اپنے نام سے اپلوڈ کرکے شاہین نے عارضی خوشی حاصل کرنا شرو ع کردی۔یہاں لوگ اس سے بات کرنے کو ترستے تھے۔ایک ایک سیکنڈ میں دس دس میسج آتے۔کوئی اس سے ملنے کو ترستا تو کئی ویڈیو کال کرنا چاہتے تھے۔کئی لوگوں تو اسے ایک بار کال کرنے کا باقاعدہ معاوضہ دینے کا بھی کہا تھا۔عجیب سی نفسیات ہو گئی تھی شاہین کی۔دنیا نے ٹھکرایا تو کیا ہوا۔۔اس دنیا نے تو اس جگہ دے دی تھی۔وہ ہمیشہ اپنی اصلیت کو چھپا کر خوش رہنا چاہتی تھی مگر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔وقت نے اس کا ایک اور امتحان لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔۔

                                       ٭٭٭

شہزاد ہوسٹل کے سامنے پہنچ کررک گیا۔پٹھان چوکیدار اتنی رات گئے اسے دیکھ کر چونک گیا۔اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑارہا۔چوکیدار نے مخصوص پشتو کے لہجے میں سوال کیا۔’’کس سے ملنا اے؟‘‘۔

’’شازیہ سے۔۔‘‘

’’اتنی رات کو لڑکی سے ملاقات نئیں او سکتی۔۔کل آنا‘‘۔

’’میرا ملنا ضروری ہے‘‘۔

’’خوچہ۔۔تم کو سمجھ کیوں نئیں آرہا،میڈم بوت سخت اے۔۔ام کو بھی نکال دے گا‘‘اس نے سخت لہجے میں جواب دیا۔

’’میری میڈم سے بات کرواؤ‘‘۔وہ اسے گھورتا ہوا اندر چلا گیا۔کچھ دیر بعد واپس آیا تو بولا۔

’’میڈم اندر بلاتی اے‘‘۔وہ اندر بڑھ گیا۔یہاں آفس کی طرح سجے ایک کمرے میں ہوسٹل کی مالکن بیٹھی تھی۔میڈم دردانہ کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات تھے۔

’’جی آپ کا نام؟‘‘۔

’’شہزاد‘‘۔

’’کس سے ملنا ہے؟‘‘۔

’’شازیہ سے‘‘۔

’’شازیہ۔۔ہممم‘‘۔اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔’’شازیہ نام کی لڑکی تو پورے ہوسٹل میں نہیں‘‘شہزاد چونک گیا۔

’’پرسوں شام مجھے ہوٹل میں ملی تھی۔اسی ہوسٹل کا ایڈریس دیا تھا اس نے۔۔‘‘

’’ایک منٹ چیک کرتی ہوں‘‘اس نے کچھ دیر اپنے سامنے پڑے رجسٹر کھنگالااور دوبارہ سر اٹھا کر بولی۔’’شازیہ تونہیں ،البتہ نازیہ ہے ایک‘‘۔شہزاد نے نفی میں سرہلادیا۔

’’شازیہ ہی سے ملنا ہے‘‘۔وہ یہی کہہ کر مایوسی سے سرہلا کر باہر جانے لگا۔ابھی وہ دروازے سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ میڈم نے آواز دی۔

’’سنو‘‘۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

                                      ٭٭٭

’’شاہین پلیز میری پیاری بہن۔۔مان جاؤ‘‘۔ہانیہ اس کو منتیں کررہی تھی مگر اس کا سر بدستور نفی میں ہل رہا تھا۔

’’مجھ سے نہیں ہو گا ہانی۔میں کیسے کروں گی یہ سب‘‘۔

’’تم نے اسے صرف اپنا چہرہ دکھانا ہے بسس۔وہ خود چلا جائے گا۔میں نے اسے اپنی پکس دکھائی ہیں‘‘۔وہ اس کا مطلب سمجھ رہی تھی۔اس کے دل میں درد اٹھا۔

’’کیا جل جانے کے بعد میرا چہرہ صرف اس لئے رہ گیا ہے؟‘‘۔اس نے دکھ سے ماہین کی طرف دیکھا۔

’’میرا یہ مطلب نہیں تھا شاہین۔میں تو بس یہ چاہتی ہوں وہ کسی طرح میری جان چھوڑ دے‘‘۔شاہین نے اسے ساری کہانی سنانے کو کہا۔اس کی زبانی جو کچھ معلوم ہوا۔۔اس کاخلاصہ یہ تھا۔

ہانیہ ایک ادبی گروپ میں ایڈ تھی جہاں مختلف قسم کے مقابلے ہوتے تھے۔ایسے ہی ایک مقابلے کا ونر شہزاد تھا جس کی تصویریں ہانیہ نے دیکھ رکھی تھی۔جانے کیوں اسے شرارت سوجھی۔۔اس نے شہزاد کو میسج کردیا۔یوں ان کی دوستی ہو گئی۔ہانیہ نے اسے اپنے متعلق عجیب عجیب کہانیاں سنارکھی تھیں۔وہ دکھی آتما بن کر اسے ستاتی رہی تھی۔اس نے اپنا نام بھی فرضی بتایا ہوا تھا۔وہ اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکا تھااور اب ملنے کی ضد کررہا تھا۔غلطی ہانیہ سے یہ ہوئی۔۔کہ اسے اپنی تصویریں دے دیں۔اب وہ ڈررہی تھی کہ کہیں یہ تصویریں پھیلا نہ دے۔ اس لئے شہزاد سے شاہین کو ملوانا چاہتی تھی تاکہ شہزاد اسے دھوکے باز سمجھ کر بھول جائے۔۔ہانیہ اسے پسند کرتی تھی مگر اچھا ٹائم پاس کرنے کے بعد اب وہ بس جان چھڑانا چاہتی تھی کیونکہ ایسے ریلیشن کو اس کے ماں باپ کبھی قبول نہ کرتے۔

شاہین نے ساری بات سننے کے بعد گہری سانس لی اور بولی۔’’دل ٹوٹ جائے گا بیچارے کا۔فیس بک سے اعتبار اٹھ جائے گا‘‘۔

’’تو کیا ہوا۔۔اچھا ہوا میں تھی جس نے اسے بیوقوف بنا کر پیسے وغیرہ نہیں لئے ورنہ کوئی اور ہوتی تو ہزاروں کما لیتی ۔۔میں نے توبس محبت محبت کھیلی ہے۔اب کھیل ختم۔قصہ ختم‘‘۔ ہانیہ کی ہنسی اسے بہت بری لگی مگر وہ اس کا احسان نہیں بھول سکتی تھی جو شہر میں آجانے کے بعد ہانیہ نے اس پر کیا تھا۔اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر اثبات میں سرہلادیا۔

’’میں ملتی ہوں اس عقل کے اندھے سے‘‘۔وہ’’یاہوو‘‘کہتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔کچھ دیرتک دونوں نے پلان ڈسکس کیا اور فائنل ہونے کے بعد سکون کا سانس لیا۔اگلے دن شام کو شاہین ایک ہوٹل میں بیٹھی شہزاد کا انتظارکررہی تھی۔دونوں کی ملاقات طے تھی۔شاہین نے اسے پہلی نظر میں پہچان لیا۔ہانیہ نے اس کی تصویریں دکھا رکھی تھیں۔شاہین نے ہاتھ ہلا کر اسے اپنے پاس بلایا۔وہ سامنے بیٹھ گیا۔شاہین نقاب میں تھی۔اب اسے جذباتی ڈائیلاگ بولنے تھے۔شہزاد نے نقاب اتارنے کا کہا۔

’’میں نہیں اتار سکتی شہزاد۔۔مجھے معاف کردو۔میں نے دھوکا دیا ہے تمہیں‘‘۔نجانے کیوں یہ الفاظ کہتے ہوئے اس کا لہجہ حقیقت میں لڑکھڑا گیا۔

’’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا شازیہ۔مجھے چہرہ دکھاؤ اپنا۔‘‘شاہین نے نقاب اتار دیا۔شہزاد کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہا اور بولا۔

’’یہ جلا کیسے؟اور وہ تصویریں کس کی دی تھیں تم نے؟‘‘۔

’’بس کسی نے جلا دیا تھا۔۔میری نہیں۔۔کسی دوست کی تھیں اس بیچاری کو تو پتہ ہی نہیں کہ میں نے تصویریں تمہیں دے دی ہیں۔میرا کوئی بنگلہ نہیں۔۔کوئی کوٹھی نہیں۔۔کالج چوک کے پاس ہوسٹل میں رہتی ہوں۔تم بھی مجھے چھوڑ جاؤگے ناں شہزاد؟سب چھوڑ جاتے ہیں۔کون رہتا ہے میری جیسی لڑکی کے ساتھ‘‘۔وہ خاموش بیٹھا تھا۔کچھ دیر بعد بولا۔

’’تم نے مجھے دھوکا کیوں دیا شازیہ۔میں تو تمہیں سچے دل سے چاہتا تھا‘‘

’’سچے دل سے چاہنے والے کیا صرف شکل وصورت سے پیار کرتے ہیں؟‘‘

’’نہیں،مگر مجھے کیا پتہ تمہارا چہرہ کیسے جلا؟تمہارا کردار کیسا ہے۔۔تم کون ہو۔۔ماضی کیا ہے تمہارا۔میں ایسی لڑکی کو اپنا سکتا ہوں نہ میراخاندان اجازت دے گا۔‘‘

’’کیا محبت ان سب چیزوں کی محتاج ہے شہزاد؟کیا محبت کیلئے ماضی کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہے؟‘‘

’’یہ سب کتابی باتیں ہیں حقیقت میں تم نے جھوٹ بولا ہے مجھ سے۔حقیقت چھپائی ہے۔۔‘‘شہزاد اسے باتیں سناتا رہا ۔وہ چپ چاپ سنتی رہی۔وہ بار بار اس کے تیزاب زدہ چہرے اورخواتین کے ہوسٹل میں اس کی رہائش کو درمیان میں لا کر اس کے کردار پر بات لے آتا۔ہر بار شاہین نئے سرے سے تکلیف محسوس کرتی۔آدھے گھنٹے بعد وہ صرف اتنا کہہ کر چل دیا۔’’آئندہ میری توبہ فیس بک پر کسی سے بات کروں گا نہ ملوں گا۔پرسوں میری مہندی ہے کزن کے ساتھ۔۔مجھے معاف کر دینا‘‘۔یہی کہہ کر وہ چلا گیا۔شاہین وہاں بیٹھی روتی رہی۔اس کے دل پر بوجھ تھا۔وہ شازیہ تھی نہ ہانیہ۔۔نہ اس نے دھوکادیا تھا مگر اس کے جلے ہوئے چہرے نے اسے ایک بار پھر اپنی نظروں سے گرا دیا تھا۔ہانیہ اسے کارپر لینے آئی تھی۔واپسی پر دونوں خاموش رہیں۔اپنے کمرے میں آ کر شاہین سارا دن خاموش رہی۔اس کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔

وہ فیس بک کی شہزادی تھی مگر حقیقی زندگی میں آج اسے کوئی ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔

’’کیا مجھے ساری زندگی ایسے ہی رہنا ہے؟‘‘۔اس نے خود سے سوال کیا۔۔مگر جواب حاصل نہ کرسکی۔وہ امتحان کی رات تھی جس کا نتیجہ نکلنے والا تھا جلد۔

۔فیس بک کی ایک محبت کا انجام ہو چکا تھا۔۔۔کیا واقعی؟۔

                                 ٭٭٭

شہزاد نے میڈم دردانہ کی طرف دیکھا۔’’جی؟‘‘۔

’’آپ پریشان لگ رہے ہیں۔حلیہ بتائیں لڑکی کا‘‘۔اس نے ہمدردی سے پوچھا۔شہزاد نے ماہین کے حلیہ کی تفصیل بتائی۔

’’اچھااچھا۔وہ شازیہ نہیں۔۔شاہین ہے۔آپ نے کیا کہنا ہے اس سے؟‘‘۔

’’میں نے اس کا دل دکھایا ہے۔اب معافی مانگ کر اپنا نا چاہتا ہوں اسے‘‘۔

’’اچھی لڑکی ہے۔ حادثے کا شکار ہوئی تھی ۔گھر سے نکال دی گئی بیچاری۔میرے بہت قریب ہے۔۔میں بلاتی ہوں اسے‘‘۔وہ اٹھ کر ہوسٹل کے کمروں کی طرف بڑھ گئی۔تھوڑی دیر بعد شہزاد کوچیخ سنائی دی۔اس کا دل دھڑکا۔۔وہ کمروں کی طرف بھاگا،یہاں سب لڑکیاں ایک کمرے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔وہ بھی اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے پڑی۔دردانہ شاہین پر جھکی ہوئی تھی مگر اس کے جسم میں جان نہ تھی۔لبوں سے بہنے والا خون بیڈ کی چادر کو بھگو رہا تھا۔۔۔ٹھکرائی ہوئی لڑکی اپنی جان دے چکی تھی۔۔

                                                                                                        ٭٭٭٭

 اعتزاز سلیم وصلی