ماضی سے حال تک

2019-08-22 21:10:22 Written by شبیر اعوان شبیر علوی

ماضی سے حال تک

 

 

بات ہے انیس سو اٹھاسی کی جب ہم چھ برس کے نٹ کھٹ شرارتی قسم کے بچے ہوا کرتے تھے ۔

گاؤں میں بجلی کی آمد ہوئی تو ہم نے پہلی بار ٹیلی ویژن دیکھا ۔۔۔۔۔۔ 

ہمارے تایازاد فلپس کمپنی کا ٹیلی ویژن لائے 

اور اسی دن سے ہم نے اپنا مسکن تائی صاحبہ کے گھر کو سمجھ لیا ۔ان دنوں لوگوں کے دل کشادہ ہوا کرتے تھے۔ہمارے تایابھی دل کے بہت اچھے تھے ۔۔۔۔۔ 

ہمیں ٹیلی ویژن کی بیماری سے بچانے کی خاطر اسکول میں بھرتی کروا دیا گیا۔ جہاں گھبراہٹ صرف اس وقت ہوتی جب ماسٹر صاحب یہ پوچھتے کہ کون کون ہے جو صبح مسجد نہیں گیا تھا ۔کھڑے ہو جاؤ ۔۔ 

بچے تو من کے سچے ہوتے ہیں ۔ہم بھی سچائی کے علمبردار بنے کھڑے ہوگئے ۔لیکن از بعد کافی دیر تک ،صحیح طور سے پٹ سن کے ٹاٹ پہ بیٹھ نہیں پائے ۔اور تب یہ تہیہ کرلیا کہ آئندہ ایسے سوالات پہ ہرگز کھڑے نہیں ہونا ۔۔۔۔جلد ہی تقدیر نے ہمارا ایمان آزمانے کا موقع فراہم کردیا۔اور

کچھ ہی دن گزرے، ماسٹرصاحب نے پھر سے سوال پوچھا ۔۔کہ صبح مسجدسے،کون کون غیر حاضر تھا؟ از خود کھڑا ہوجائے ۔۔ 

پچھلی دفعہ سچائی کیساتھ کھڑا ہونے کی سزا ہم بھگت چکے تھے ۔سو کان دبائے ،گردن جھکائے، ان سنی کیے، بیٹھے رہے۔ مگر بھلا ہو ماسٹر جی کا جو صبح مسجد میں درس بھی دیا کرتے تھے۔

ہماری طرف ایک عقابی نگاہ ڈالی اور ہوچھا۔ "صبح مسجد گئے تھے؟" ہم نے فرشتوں کی سی معصومیت چہرے پر طاری کرکے جواب دیا۔" جی نہیں" ۔۔۔۔ گمان تھا اس معصومیت کے صدقے بخشے جائیں گے۔

مار کے چھمک بولے" پھر بیٹھا کیوں ہے ؟؟ "

ہم ایک دم کھڑے ہوئے اور بولے ماسٹر صاحب آپ بھی بھی عجیب ہیں 

کھڑے ہو جاو تو پٹائی کرتے ہیں۔ 

بیٹھے رہیں تو پٹائی کرتے ہیں ۔۔ 

جاؤ ہم نے ایسے بندے کے پاس پڑھنا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ 

رکھو اپنا سکول اپنے پاس ۔۔۔ "

یہ" چی گویرانہ" انقلابی فلسفہ بگھار کر ہم وہاں سے بھاگے

اور سیدھا تایا کے گھر ٹیلی ویژن کے سامنے سج گئے۔ لیکن یہ کیا وہاں تو کچھ تھا ہی نہیں۔ انٹینا کو بھی شمالا جنوبا گھمایا لیکن کچھ ظاہر نہ ہوا اسکرین پر سوائے بارش کے بعد ظاہر ہونے والے حشرات الارض کے۔ تائی کو ہماری رائیگاں جاتی کوششوں ہر افسوس ہوا تو روکنے کی سعی کی۔ٍکہ

کرنٹ لگوا لینا ہے تم نے خود کو تین" بجے چلےگا یہ ڈبہ "

لیکن ہم پر بھی ایک جنون سا سوار تھا۔کہ ابھی ڈائریکٹ حوالدار دس جماعت پاس والا ڈرامہ دیکھنا ہے اور دیکھ کر ہی رہنا ہے۔۔

ہمارے اس طرح کے بنتے بگڑتے موڈ سے تنگ آکر گھر والے اکثر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کی ہلکی پھلکی خوراک کے ساتھ ساتھ دوچار چپیڑیں بھی بونس کے طور پہ کھلا دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ 

ہمیں یہ سب سہنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ کہ چلو اس بہانے نیلام گھر طارق عزیز والا پروگرام تو دیکھنے کو مل ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

اسی اثناء میں ہماری نانی اماں چند دن ٹھہرنے کی غرض سے ہمارے گھر آئیں ۔۔ 

بس جی ہمیں ایک اور حمایتی مل گیا۔ ہمارے ابا میاں اور امی کو انہوں نے کہا "کیوں بچے کے ساتھ ہروقت مار پیٹ کرتے رہتے ہو ۔

کتناپیارا بچہ ہے معصوم سا۔

اور ہمیں بہلانے کےلیے انہوں نے بادشاہ سوداگر, لکڑہارا پری ,جادوگر و جن بھوت والی ڈھیروں کہانیاں سنائیں جتنے دن وہ ہمارے گھر رہیں روازانہ نت نئی کہانی سنانا ان کا معمول رہا۔

جب نانی واپس جانے لگیں تو ہمیں ساتھ جانے کا جنون سوارہوا۔ 

بلآخر نانی اماں کےساتھ روانہ ہوئے۔وہاں جاکر ہماری ملاقات نانا کےساتھ ماموں اور ممانیوں سےتو ہوئی سو ہوئی۔۔۔ 

یہاں ٹی وی کے ساتھ ساتھ وی سی آر سے بھی آشنائی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ 

جتنی بھی فلمیں دیکھیں سلطان راہی کو مارکٹائی کرتے دیکھا ۔ہر فلم میں بہار بیگم کو اسکی ماں کے روپ میں دیکھا 

۔۔۔۔۔ یہ تو کئی برس بعد ہمیں علم ہوا تھا کہ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی آپس میں ناہی دشمن ہیں اور نہ ہی بہار بیگم سلطان راہی کی ماں ہیں ۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ادھر ہمارے گھروالوں کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس نے پڑھنا نہیں آخرکار ہمیں ہمارے نانا جی نے ایک مدرسے میں۔۔ اس مقصد کے لیے کہ چلو ماں باپ کی بخشش کا ہی بہانہ بن جائیگا داخل کروا دیا۔۔۔۔۔

مدرسہ میں جاکر ٹیلی ویژن کی کمی تو محسوس ہوئی لیکن ہم کربھی کیاسکتے تھے ۔

الف با تا ثا ہمارا تکیہ کلام تھا اور بیٹھے بٹھائے ہلتے رہنے کی عادت ہم میں سرائیت کرچکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

جمعرات کے دن چھٹی ملی ہمارے چھوٹے ماموں ہمیں مدرسہ سے گھر لےگئے ۔

ہمارے لیے وہ دن عید کے دن سے کم نا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہمارے نانا جی بہت خوش دلی سے اپنے ہم عمروں کو ہم سے ملواتے کہ بچہ حافظ بنے گا ماں باپ کو روز محشر تاج پہنوائےگا ۔۔۔

تبھی ان کے ایک دوست نے مکمل چھان بین کرنے کے بعد ہمارے نانا سے کہا کہ کیوں بچے کو گنواناہے وہ مدرسہ تو ہمارے مسلک کا ہے ہی نہیں۔ یہ سنتے ہی نانا جی نے مدرسہ بھیجنے کا فیصلہ موخر کیا۔اور ہم آزاد ہوگئے دوسرا مدرسہ ملنے تک ۔

۔۔۔۔۔ 

نئے مدرسے میں جاکر سبق وغیرہ تو وہی تھی لیکن کچھ کچھ تبدیلی تھی جب تین سے چار ہم عمر لڑکوں کی ٹولیاں بنا بنا کرہمیں چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تو ہم نے عجیب سی کوفت محسوس کی اور کہا کہ قاری صاحب ہم یہاں پڑھنے آئے ہیں آپ بھیک مانگنا سکھا رہے ہیں ۔۔۔

اگر اس طرح مانگنا ہے راستوں میں کھڑے ہوکر ہم نے حفظ کوئی نی کرنا 

قیامت کو جنہوں نے تاج پہننا ہے وہ خود پڑھیں۔

ہمارے ایسا کہنے سے قاری صاحب اچانک سے الیاس کشمیری بن کر ہم پہ برس پڑے پیچھے ہم بھی نہیں ہٹے سلطان راہی کی طرح ہم بھی ظلم کےخلاف اپنی بساط کے مطابق ڈٹ گئے ۔۔

نتیجہ پھر گھر واپسی ہوئی۔

اب تو ہمیں اپنے نانا میں بھی کوئی ولن نظر آنے لگا تھا

۔۔۔۔۔۔ 

اب طے یہ پایا کہ کچھ مہینوں بعد کسی رشتہ دار کی شادی ہے وہاں مہمان آئینگے تو اسے والدین کے پاس بھجوا دیا جائے تب تک یہیں پھرتارہے ۔

یہ کہہ کر ہماری نانی اماں نے عدالت برخاست کردی ۔۔

ہم من ہی من میں خوش تھے اور نانی جان کےشکر گزار بھی لیکن گھرواپس بھجھوانے کے حکم سے خوفزدہ بھی 

۔۔ 

خیر شادی کس کی ہے کیوں ہے اور کیاہے اس سے بےخبر ہم نانی اماں کے ہاں رہ کر اپنے ٹیلیویژن دیکھنے کا شوق پورا کرتے رہے انکل سرگم کی کلیاں ،طارق عزیز کا نیلام گھر ،قوی خان کا اندھیراجالا ،علی اعجاز کا شب دیگ اور حامدرانا کا سوناچاندی جب بھی دوبارہ نشر ہوتے ہم دیکھتے نا تھکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دن گزرتے رہے اور ان رشتہ داروں کی شادی کا دن بھی آپہنچا جہاں سے ہمیں واپس گھر کے لیے بھجوا دیا جانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔ 

شادی میں جب گئے تو نانی اماں کے دلوائے گئے نئے سوٹ میں خود کو کوئی فلمی ہیرو محسوس کر رہے تھے اور بہت خوش ہوتے جب میرے ناناجان میرا تعارف کرواتے وقت سب کو بتاتے میرا نواسہ ہے ۔۔۔ 

وہاں پہنچ کر علم ہوا میرے تو ان گنت رشتے دار ہیں۔

ہمارے گاؤں سے آنیوالے سبھی رشتہ دار کو یہاں اجلے کپڑوں اور چمکتے دمکتے چہروں کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہیں یہ اندیشہ کہ انکے ساتھ نانا نے واپس بھیج دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہرحال شادی میں سبھی اچھے نظر آرہے تھے اس لیے ہم خوش تھے ۔۔۔۔ 

لیکن اچانک ہی سب کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔ 

سمجھ میں نہ آیاکہ پریشان ہیں یا خوش ۔

اچانک ہی بھگدڑ سی مچ گئی اور شور بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ 

ہم سہم سے گئے اور دل لگی فلم کے ہیرو ندیم کی طرح ایک نکڑ میں لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔ 

چند لمحوں بعد اندھیرااجالا کے قوی خان کی طرح بھگدڑ مچنے کا سبب ہم جان چکے تھے کہ روٹی کھل گئی ۔۔۔۔۔۔ 

اپنے کپڑوں میں پڑنے والی سلوٹ کو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کے بعد ہم سبھی عوام کے لیے من ہی من میں بڑبڑائے کہ جاہل کہیں کے بدتہذیب نا ہوں تو۔

پہلی دفعہ کھانا ملا ہو جیسے ۔۔ 

کیسے لوگ ہیں کپڑے اچھے پہن لیے لیکن اچھا انداز نہیں ان میں۔ اس وقت ہم خود کو اداکار محمد علی سمجھ رہے تھے ۔

۔۔۔۔۔ کہ اچانک ہمارے ایک رشتہ دار کے ہاتھ سے چھوٹ جانے والی پلیٹ ہمارے اوپرآ گری۔ گرم گرم سالن سے ہم بلبلا اٹھے۔سارے اصلاحی خیالات بھک سے اڑگئے۔لوگوں کے مسکراتے چہرے دیکھ کر لگا جیسے وہ ہمارے خیالات سے واقف ہوگئے ہوں۔

یہ تکلیف صرف ہم محسوس کررہے تھے لیکن باقی سب ہمیں رنگیلا سمجھ رہے تھے ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس وقت ہم یہ سوچ سوچ کر دنگ ہو رہے تھے کہ گرم سالن اور اس میں مصالحہ جات کے سبب ہمیں جو جلن محسوس ہورہی ہے باقی سبھی اس تکلیف کو محسوس کیوں نہیں کررہے

ہنس رہے ہیں کہ اس نے یہ کیاحلیہ بنا رکھا ہے 

جبکہ ہم بہت درد محسوس کر رہےتھے اور خاموش انہی سوچوں میں گم تھے کہ کیا یہ ضروری تھا کہ ہم لہولہان ہوتے ہمارے جسم پہ آبلے بنتے تب کوئی ہماری مدد کرتا آگے بڑھ کر دیکھتا کہ کیا نقصان ہوا تب کوئی یہ کہتا کہ مرہم کا بندوبست کرتے لیکن ایسا نا ہوا ۔۔۔۔۔۔ 

کتنے بےدرد ہیں تماش بین ہیں یہ میرے اپنے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر کچھ دیر بعد ہمارےنانا اور ماموں ہمیں گھر لے آئے اور ایک بات کی گردان تھی کہ بہت شرارتی ہے نیاسوٹ بھی خراب کر لیا 

یہ لفظ ہمارے دل پہ تلوار کی طرح وار کر رہے تھے ۔

اور خاموش ہم محض اس لیے تھے کہ پہلے ہی قاری صاحب اور گاؤں میں اسکول ماسٹر کیساتھ بدتمیزی و زبان درازی کا الزام ہمارے سر تھا ۔

یہاں بھی اگر ہم کچھ اپنی صفائی میں پیش کرتے تو مذید غیرمستحکم ہوجاتے۔

اسی خوف سے اپنے بدن پہ پڑنے والے چھالے کسی کو نا دکھا سکے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ 

اگلے دن ہمیں امی ابا کے پاس گاؤں بھجوا دیاگیا 

جہاں ہم نے آتے ہی تایاکے گھر جانے کو ترجیح دی تاکہ ٹیلی ویژن دیکھ سکیں ۔۔۔۔ 

وقت گزرتے کا علم ہی ناہوا ہم دس برس کے ہوگئے۔انیس سو بانوے 

میں ہونے والے کرکٹ ورلڈکپ کے میچز جب تک ہم مکمل طور پہ جاگتے تھے اس وقت تک اختتام پذیر ہوجاتے ۔یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر تھی۔کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ تب ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ جہاں ورلڈکپ کھیلا جا رہا ہے وہاں دن ہوتا ہے تو یہاں اس وقت رات ہوتی ہے (آسٹریلیا) اتنی سمجھ بوجھ تھی بھی نا کرکٹ کی تو، کون رات کو جاگتا۔لہذا

میچ دیکھنا کینسل 

پھر ایک دن معلوم ہوا پاکستان کرکٹ ورلڈکپ جیت گیا 

۔۔۔ ہمارے کھانے پینے وآلی اشیاء مثلاََ لیمن کریم بسکٹ ٹافی وغیرہ پہ لگے حفاظتی کاغذوں پہ عمران خان کی تصاویر سے ہم عمران خان و دیگر کھلاڑیوں سے متعارف ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب یہ بڑا ہوگیا ہے پڑھتا بھی نہیں تو اسکو کام پہ لگادیاجائے گھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ 

امی نے ہمیں کام پہ جانے کے لیے راضی کیا ڈھیرساری دعائیں بھی دیں اور لاتعداد نصیحتیں بھی 

( گھرکے معاشی حالات )

یوں ہم گھرمیں اپنے بھائیوں سے بڑا ہونے کے باوجود بازار میں ( چھوٹو ۔۔۔۔ نکو ۔۔۔۔۔ کاکا ) 

بن گئے 

سبزی و پھل فروش کے ہاں ہم مبلغ 150 روپے ماہانہ بندی بنا دیے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایک دن یوں ہوا کہ ہم ردی کے ایک اخبار میں اپنے من پسند اداکاروں کی تصاویر دیکھ کر خوشی خوشی ساتھ لکھی تحریر پڑھنے کی ناکام کوشش کررہے تھے کہ اچانک ہمارے کندھوں سے زرا اوپر گردن کے پچھلے حصے پہ زوردار چپیڑ لگی 

ہم بوکھلا سے گئے۔ اس سے پہلے کہ سنبھل پاتے ایک اور طمانچہ اور ساتھ میں دھکا بھی۔ اخبار چھوڑ ہم اپنے ہاتھوں چماٹ لگنے والے حصہ کو سہلانے لگے 

۔۔ یہاں علامہ اقبال بنے بیٹھے ہو سبزی کی ٹوکریوں پہ دھوپ آرہی ہے آلو دھونے والے پڑے ہیں ۔

کام چور نکمے پڑھنے کا شوق گھر والوں سے کہہ کر پورا کرو ۔۔ ۔۔ 

پیدا کرلیتے ہیں پھر پیش ہمارے ڈال دیتے ہیں نکھاپنے ۔۔۔۔ 

۔۔ ۔۔۔ 

چماٹوں کی مار تو ہم برداشت کرگئے لیکن ساتھ میں تند و تلخ لہجہ میں باتیں ہمیں قطعاً قبول نا تھیں ۔۔ ۔۔۔ 

ایک غبار تھا شاید جو لفظ بن کر ہماری زباں اور پھر لبوں پہ آگیا ۔۔۔۔۔ 

بہت بدتہذیب ،بداخلاق اور برے انسان ہو شمر سے کم نہیں ہو ۔

جوابا ہم جیسے پھٹ پڑے ۔سبزی والے چاچا کو بے نقط سنائی۔اور واک آؤٹ کر گئے

بعد میں بے شک بہت روئے - 

سوچے جا رہے تھے کہ ہم کیا بتائیں کیسے بتائیں کس کو بتائیں کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں ہم بھی پڑھ کر طارق عزیز، انور مقصود، نعیم بخاری، معین اختر ،اطہرشاہ جیدی بننا چاہتے ہیں لیکن ہمیں پڑھنے سے نہیں پڑھانے کے انداز و طریقہ کار سے اختلاف ہے 

ہم شیعہ وہابی سنی دیوبندی نہیں بننا چاہتے ۔۔۔ 

لیکن ہماری یہ آہ دب کر رہ گئی ۔۔۔۔۔ 

سبزی والا چاچا سے بعداز ہمارے والد صاحب نے معذرت کی اور ہمیں گھر لے آئے ۔

جس طرح والدصاحب ہمیں گھر لارہے تھے تب ہمیں یہ گمان ہو رہا تھا کہ ہم ان کے بیٹے نہیں بلکہ کوئی بھیڑ بکری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آنے کے بعد کچھ روز یوں ہی گزر گئے 

کبھی تایا کے گھر تو کبھی اپنے گھر ۔۔ 

ڈانٹ ڈپٹ ہمارے ساتھ یوں ہوتی جیسے بڑھتی مہنگائی یا ٹی وی پہ دکھائے جانے والے کراچی کے بدترین حالات کے زمہ دار ہم ہوں ۔۔ ۔۔ 

لیکن ہم اپنے پسندیدہ ڈرامہ عینک والا جن کے ہیرو کی طرح کچھ نیا کرنے کی دھن میں رہتے 

دن مہینوں میں بدلتے رہے۔اور مہینے سالوں میں

۔۔۔۔۔۔ 

ایک دن ہماری والدہ صاحبہ کی کوئی رشتہ دار خاتوں ہمارے گھر آئیں اور ہماری امی کے استفسار پہ کہا کہ بہن مجھے تو شک ہے تمہارے بیٹے پر کسی نے جادو ٹونا کروا رکھا ہے اسی کا اثر ہے جو ایسا ہوگیا ۔جیسے تم بتارہی ہو کہ پڑھنے گیا تھا تو ماسٹر صاحب اور قاری صاحب سے لڑائی کر آیا۔ کام پہ گیا تھا تو بیچارے سبزی والے کو گالیاں دے آیا کسی سے اسکی بنتی نہیں ۔

بھلا جیسی یہ باتیں کرتا ہے دس بارہ برس کا بچہ بھلا ایسے کیسے لڑسکتا ہے ۔

ضرور کسی جن بھوت پریت کے "سائے والا معاملہ ہے اور ہو نا ہو 

بہن مجھے تو یہ شرارت تمہاری جیٹھانی کی لگتی ہے تاکہ تم اولاد کا سکھ چین نا دیکھ پاؤ ۔"

وہ بولتی رہی والدہ حیران و پریشان سنتی رہیں۔

میری مانو تو فلاں حضرت شاہ صاحب" کے پاس لے جاؤ انکی اہلیہ بی بی صاحبہ بھی تعویز دےلیتی ہیں انکو دکھاؤ دم کراؤ ہر معاملہ درست ہو جائیگا ۔۔ 

دبے دبے لفظوں میں یہی پڑھی پڑھائی اندیشوں وسوسوں سے لبریز کہانی امی نے ابا کے کان میں بھی بھر دی ۔۔۔۔ 

پہلے پہل تو ابا میاں نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا ۔۔ 

لیکن چند دنوں بعد ہماری امی کے اس رشتہ دار خاتون کی زبانی بھی ابا نے سن لیا کہ ہم پہ کسی تعویز کا بھاری اثر ہے ..تب ہی پچھلے چند سالوں سے جوں جوں بچہ بڑا ہورھا ہے بگڑتا جا رہا ہے 

اور یہ سب کیا دھرا ہمارے تائے کی گھر والی کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نتیجتاً ہمیں تائے کے گھر جانے سے منع کردیا گیا .۔

جب مسلسل تین دن ہم تایا کے گھر نا گئے تو ٹیلی ویژن کی تفریح نا پاکر ہم دل سوختہ ہو گئے ۔اگلے ہی دن عینک والا جن لگنا تھا رہ رہ کر ہمیں نسطور، زکوٹا، بل بتوڑی اور ہامون جادوگر یاد آنے لگے ۔۔ 

ہم نے ٹھان لی کہ آج تائے کے گھر جانا ضرور ہے چاہے چلیں چھریاں ۔۔۔۔ 

ہم نے امی سے کہا کہ تائے گھر جانا ہے میں نے ۔

تب امی نے گھور کر منع کردیا تو جلتے پہ تیل پڑ ہو گیا جیسے 

ہم رونے لگے اور روتے ہوئے ہمارے منہ سے تائی کا نام بےساختہ زباں پہ آنے لگا ۔۔۔ 

تائی صاحبہ کا نام لے لے کر ہمارے رونے کا سلسلہ جاری تھا کہ ہماری امی کی وہ رشتہ دار خاتون بھی ہمارے گھر آگئیں ۔

اس خاتون کے منہ سے نکلنے والی ایک ایک بات ہماری امی کے دل پہ شک شبہات کے پہرے کھڑے کیے جارہی تھی۔

پس ثابت ہوا کہ ہماری تائی نے ہی ہم پہ سحر کروایا ہے کہ یہ نا پڑھ سکے نا کام کرے اپنے والدین کو دکھی کرے 

اور صرف ہمارے گھر کا ہوکر رہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ 

فیصلہ ہوچکا شام کو اسکے ابا آجائیں کل ہی پیر صاحب کے پاس لے جانا ہے ۔۔۔۔ 

اور دوسری طرف ہم روتے ہوئے بھی نسطور جن کو یاد کر رہے تھے ۔۔۔ 

ابا میاں جو اکثر بیماری کے سبب گھر ہی ہوتے تھے لیکن آج گاؤں میں کسی کے فوت ہونے کے گھر گئے ہوئے تھے 

انہیں کسی کے ہاتھ پیغام بھجوا کر بلوایا گیا ۔

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ 

نتیجتاً گھر میں موجود وہ گندم جو چند ماہ قبل فصل کی کٹائی کے گرم موسم میں دھوپ کی تپش سہہ سہہ کر ہماری والدہ اور والد صاحب نے کٹائی کی پر مشقت محنت کے عوض اجرت کے طور پہ حاصل کی تھی ۔اور خوش تھے کہ اتنی گندم حاصل ہو گئی ہے کہ سال بھر نا سہی چندہ ماہ آٹے کی کوئی فکر نہیں 

اس گندم میں سے آدھی گندم بیچ کر پیر صاحب کی نذر ونیاز کےساتھ ساتھ آنے جانے کے کرائے کا بندوبست کیا گیا ۔۔۔۔۔

 

جاری ہے... 

 

شبیر اعوان شبیر علوی