خانہ بدوشوں کے دیس میں

2019-09-01 11:33:28 Written by عبدالودود عامر

خیر جیسے تیسے کرکے ان بچوں کو خاموش کرایا اور ان کو ترتیب سے بٹھایا- 
اب مسلہ کتب اور دیگر سامان کا تھا 
سکول کی حالت یہ تھی کہ وہاں ایک بلیک بورڈ یا وائیٹ بورڈ تک نہ تھا بڑی مشکل  کر کے انتظامات چلائے جارہے 
خیر یہ مسئلہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے حل کرلیا گیا جگاڑ لگانے کے تو ویسے ہی ہم ماہر قوم ہیں اور پڑھنے کا سلسلہ شروع کر دیا- 
کچھ دن بعد والد صاحب واپس آئے تو سکول کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا انہوں نے جو اتنی تعداد دیکھی تو سمجھ گئے کہ اصل معاملہ کیا ہے خیر کہا کچھ نہیں- 
اب میں تھوڑا سا شیر ہوگیا تھا اس لیے جس دن بچے کم آتے میں ان کی بستیوں میں نکل جاتا اور جنہوں نے اپنے بچے گھر میں چھپا رکھے ہوتے ان کو وہاں سے نکال لاتا-
 یہاں عجیب صورتحال دیکھنے کو ملتی جیسے ہی میں بستی میں داخل ہوتا والدین اپنے بچوں کو چھپا دیتے کوئی کسی چارپائی کے نیچے گھسا ہوتا اور کوئی کسی کپڑے کے نیچے جیسے تیسے کرکے ان کو واپس سکول میں لاتا ۔۔
چونکہ میں تفریح کے طور پہ آیا تھا اس لیے فاؤنڈیشن کے زمہ داران کو کہا کہ اگر آپ واقعی اس کو چاہنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر کم از کم یہاں دو ٹیچرز کا بندوبست کریں کیونکہ بچے ذیادہ ہیں- 
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس بستی میں زنانہ ٹیچرز آنے سے ڈرتی تھیں اور یہ نارمل بات ہے خیر ایک دن فاؤنڈیشن کے ایک زمہ دار دو ٹیچرز کو لے آئے دونوں بہنیں تھیں اور غالباً آٹھویں بھی فیل ہی تھیں ان کے ساتھ ان کی والدہ بھی تھیں جو پورا دن سکول میں بیٹھ کا حالات کا جائزہ لیتی رہیں-
 ٹیچرز نے پہلے دن بچوں کو پڑھایا کام وغیرہ دیا اور گیارہ بجے چلی گئیں- 
ان کے جانے کے بعد میں نے بچوں کی کاپیاں وغیرہ چیک کیں تو حالات یہ تھے کہ 
بچوں کو جو گھر کا کام دیا ہوا تھا 
وہاں شیر کے  (lion)
سپیلنگ line 
لکھے ہوئے تھے- 
خیر دو دن تک وہ آتی رہیں اس کے بعد وہ بھی بھاگ گئیں-
 
اس دوران میں بھی بیمار ہوگیا اور چھٹیاں گزارنے مانسہرہ کے پرفضا مقام پہ چلا گیا ۔
کوئی پندرہ دن بعد واپس آیا تو دیکھا کہ ایک لیڈی ٹیچر کا مزید اضافہ ہوچکا تھا اور یہ کافی سمجھدار اور دلیر خاتون نظر آتی تھیں اور کوئی شک نہیں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں انہوں نے بہت ہمت سے وہاں کام کیا اور اپنے ساتھ ایک اور ٹیچر کو بھی اپنی زمہ داری پہ لے آئیں- 
اب میں سکول کے معاملات میں کافی ایزی ہوگیا تھا اس لیے اپنی توجہ ان لوگوں کے رہن سہن ٫ معاملات ٫ کلچر اور روایات جاننے کی طرف لگا دی اور اگلے چند ماہ میں کافی کچھ چیزیں جان پایا - 
حالانکہ یہ کافی مشکل تھا کیونکہ ابا جی بھی مجھے ان میں ذیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے کہ مبادا بگڑ نہ جائے البتہ میرا تجسس مجھے ان لوگوں تک لے ہی جاتا اور پھر ذیادہ مسئلہ ہوتا تو سکول میں چند بڑے بچے جو تھے ان سے میں نے گپ شپ لگائی اور ان سے مختلف چیزیں پوچھتا رہتا تھا اب ہوتا ایسے کہ جو چیزیں میں بستی میں دیکھتا بعد میں ان بچوں سے پوچھ لیتا ۔۔
اس کے علاؤہ اس بستی میں جادو ٹونا کرنے والے بھی بہت تھے ان میں سے ایک سے ہماری گپ شپ ہو گئی-
 وہ اکثر ہمارے پاس آتا رہتا اور گپ شپ کرتا اس کا دعویٰ تھا کہ وہ قرآنی علم جانتا ہے اور وہی کرتا ہے اور ہم نے یقین بھی کرلیا کہ ایسا ہی ہے لیکن ایک واقعے نے بعد ازاں اس یقین کو غلط ثابت کردیا۔۔۔۔


یہ جو چند ماہ گزرے ان میں وہاں حیرت انگیز مشاہدات کیے 
اب ترتیب وار ان کا ذکر کرتا ہوں 

جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ یہ ایک بڑی بستی تھی کم و بیش پانچ ہزار نفوس پہ مشتمل 
باہر سے دیکھنے میں یہ ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر جب مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ یہاں مختلف قومیتیں اور گروہ ہیں اور ہر ایک کا اپنا کلچر ہے- 

ذیادہ تر لوگ ان میں رحیم یار خان ٫ملتان اور صادق آباد کے تھے اس کے علاؤہ فیصل آباد وغیرہ کے لوگ بھی کثرت تعداد میں موجود تھے- 
ان کی مختلف قومیتیں تھیں اور اپنے اپنے رواج 
ان میں ایک قوم مور تھی- 
ان کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا 
۔
اس بستی میں اندر ایک الگ ہی دنیا ان لوگوں نے بسائی ہوئی تھی- 
یہاں ان کے اپنے سینما تھے اپنے سنوکر کلب تھے اور دنیا جہان کی ساری دلچسپیاں انہوں نے اپنی بستی میں سمو کر رکھی ہوئی تھیں یعنی بیرونی دنیا کی ساری دلچسپیاں یہاں موجود تھیں اور سستے داموں موجود تھیں-
ایک بڑی سی جھگی یا چھپر اس بستی میں چھے ساتھ تھے ان میں تقریبا ڈیڑھ دو سو افراد آسانی سے سما جاتے تھے یہ ان کا سینما تھا 
چونکہ وہاں بجلی نہیں تھی اس لیے وہاں جنریٹر کا بندو بست ہوتا تھا- 
چھپر کے سامنے والی دیوار پہ ایک بڑی سکرین ہوتی اور اس کے ساتھ سی ڈی پلئیر ہوتا - 
روزانہ  رات کو وہاں تین یا چار شو ہوتے 
لوگ اندر جانے کا کرایہ چھپر کے مالک کو دیتے یہ کرایہ بیس تیس روپے ہوتا اور وہاں جا کر بیٹھ جاتے جب چھپر فل ہوجاتا تو شروع میں گانوں کی سی ڈی چلائ جاتی اور فل ماحول بنا دیا جاتا اور پھر آدھے گھنٹے بعد مووی چلا دی جاتی اور یہ شو رات گئے تک جاری رہتا - 

اس حوالے سے یہ لوگ موویز کا  انسائیکلوپیڈیا  سمجھ لیں ان کا بچہ بچہ ان کا ہر ڈانس سٹیپ کاپی کرتا اور تقریبا سارے گانے اور ڈائیلاگ ان کو یاد تھے-
 ایک بار ایک بچے کا امتحان لینے کی خاطر میں نے موبائل ہاتھ میں پکڑا اور یوٹیوب پہ سرچ کرکے جس گانے کا نام بولتا وہ فرفر سنا دیتا اور انڈین کے بعد پاکستانی موویز (نئی والی محباتاں سچیاں وغیرہ ) کے گانوں تک میں نے اس سے پوچھے وہ اسے یاد تھے اور کم و بیش اس نے وہاں کھڑے کھڑے سے اور اسی کے لگ بھگ گانے جو پوچھے گئے سنا دیتے اور ایک گانا بھی ایسا نہ تھا جو اس سے پوچھا گیا اور اس نے کہا ہو کہ مجھے نہیں آتا ۔۔
صبح منہ اندھیرے ان میں سے کچھ لوگ سبزی منڈی نکل جاتے وہاں صبح صبح سبزیاں اٹھا کر گاڑیوں میں لوڈ کرواتے اور چار پیسے کما کر سات آٹھ بجے تک واپس آجاتے اور پھر بھنگ کے دو چار پیالے پی کر سو جاتے اور ان کے آنے کے بعد بچوں اور عورتوں کا کام شروع ہوجاتا وہ لوگ مانگنے نکل جاتے- 
یہاں اس عورت کی ذیادہ ویلیو تھی اور قیمت ہوتی جو ذیادہ مانگتی خوبصورتی کی اتنی وقعت یا قیمت نہ تھی- لفظ "قیمت" میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ یہاں باقاعدہ ایسی عورتوں کو خریدا جاتا تھا شادی کے لیے دس بیس ہزار سے لیکر لاکھوں تک کی عورتیں یہاں دستیاب تھیں اور قیمت کا تعین خوبصورتی دیکھ کر نہیں بلکہ مانگنے کا تجربہ اور صلاحیت دیکھ کر ہوتا تھا-
 ذیادہ تر افراد نے دو یا تین شادیاں کی ہوتیں اور پندرہ پندرہ بچے ہوتے اور اندازہ لگائیں کہ ہر عورت دن کا کم از کم ہزار اور ہر بچہ بھی دن کا پانچ سو مانگ کر اگر لائے تو (یہ کم از کم لکھا ہے) 
تو آمدن کا تناسب کیا ہوگا اور اوپر سے اخراجات جو ہم نارمل معاشرے میں ہیں وہ بالکل نہیں تھے کیونکہ جو پیسے مانگ کر لاتے تھے وہ کھانا بھی مانگ کر ہی لاتے تھے - 
روٹی ان کے اپنے ہاں صرف ایک ماہ پکتی تھی دن کو اور وہ رمضان المبارک تھا کیونکہ دن کو کھانا وغیرہ نہیں ملتا تھا اور اس بستی میں صبح سے ہی تندور جل اٹھتے تھے اور ان لوگوں کے چولہوں پہ سالن پکنا شروع ہوجاتا تھا - 

دن کو یہ لوگ سنوکر کھیلتے اور بڑے اچھے اچھے پلئیر میں نے یہاں دیکھے سنوکر کلب بھی انہوں نے اپنے بنائے ہوئے تھے کوئی ایک بندہ جو سنوکر ٹیبل خرید لاتا اور اسے بستی میں رکھ دیتا بڑا ٹیبل بڑوں کے لیے اور چھوٹا ٹیبل بچوں کے لیے وہ ایک گیم کے حساب سے پیسے لیتا اور لوگ سنوکر کھیلتے.-
جاری ہے