وادی کمراٹ کا یادگار سفر

2019-09-05 10:01:12 Written by حافظ عبدالمتین ستی

وادی کمراٹ کا یادگار سفر،۔۔۔۔۔۔۔
یہ طے پایا تھا کہ کوٹلی ستیاں سے صبح 9 بجے سفر کا آغاز کیا جائے گا۔ ۔۔تاہم کچھ تاخیر سے ہی چلے کہ یہ ہمارا قومی  شعار بن چکا ہے اور وقت پر کوئی بھی کام کرنا خاصا عجیب لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیے جی روداد کے آغاز میں شرکاء دورہ اور انکی ذمہ داریوں  کا تذکرہ کیے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔امیر سفر کے لئے ہمارے چاچا سر فراز احمد دانش کا انتخاب کیا گیا کہ وہ درجنوں ٹورز کرنے کے بعد آوارہ گردی کا قومی نہیں تو علاقائی ایوارڈ ضرور حاصل کرنے کے قابل  ہوچلے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ٹرانسپورٹ کے انچارج صدر انجمن تاجران کوٹلی ستیاں  ثناءالحق ستی تھے جبکہ وزارت خزانہ کے لیے جاوید اختر طارق صاحب (پرچھن)  اور حاجی شمس الحق صاحب (درنوئیاں ) کے ناموں پر اتفاق ہوا ۔۔۔۔۔حاجی ریاض صاحب آف کوڑینہ کے ذمہ خود جاگنا اور  ڈرائیور کو جگائے رکھنا تھا کہ ہم میں سے سب سے زیادہ بزرگ ویی تھے(ویسے حاجی صاحب اپنے ساتھ بزرگ کا لفظ سخت ناپسند کرتے ہیں کہ کئی سالوں سے دوسری شادی کا عزم لیے ہوئے ہیں۔۔یہ اور بات کہ بیگم کے خوف سے خیالی پلاو اب تک خیالی ہی رہا۔ ۔۔۔۔۔) ۔۔۔میڈیا کی ذمہ داری حال ہی میں دیار غیر سے واپس آنے والے ہمارے کزن توصیف احمد نے سنبھالی ۔۔العصر سکول کوٹلی کے ڈائریکٹر  عمیر افتخار شعبہ تعلقات عامہ میں تھے کہ سکول نے اس کام کی خاصی پریکٹس کروا دی ہے ۔۔۔۔۔حاجی واجد صاحب (کوڑینہ ) کے ذمہ وارد کی سم  مہیا کرنا تھا کیونکہ کمراٹ میں صرف  وارد اور جاز کے سگنل آتے ہیں۔۔۔۔حاجی نثار صاحب(غوثیہ ہوٹل) وزیر خوراک تھے ۔۔۔۔سجادخاور عرف  بھولا بھائی(گھنوئیاں)  اور انشا زیب عرف انشو بھائی (پرچھن ) نے ڈرائی فروٹ تمام سیٹوں تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ ۔۔۔رہے ہم تو احباب جانتے کہ ہم ٹھہرے ہمیشہ سے غیر ذمہ دار۔ ۔۔سو ہمارے ذمہ صرف منہ چلانا تھا(دونوں طرح۔۔۔)۔۔۔۔۔ہائی ایس (بکسہ پر ) پنڈی تک کا سفر اچھا رہا ۔۔۔۔۔۔پروگرام یہ تھا کہ کھنہ پل سے ہائی روف پر آگے سفر جاری رکھا جائے گا ۔۔۔تاہم جو ہائی روف منگوائی گئی اس کے ڈرائیور نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ وہ تو کاغان ناران کا دورہ  سمجھ کر راضی ہوا تھا اور وادی کمراٹ جانے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم سے اپنی جان چھڑائی ۔۔۔۔۔۔ اسے کوستے ہوئے اپنا سامان اٹھایا اور ہائی ایس میں فیض آباد پہنچے ۔۔۔ وہاں ہم تو وزیرخزانہ کے ہمراہ چائے سے لطف اندوز ہوئے جبکہ ، قوم کا سربراہ قوم کا خادم ہوتا ہے، کے مصداق ہمارے امیر سفر اپنے چند حواریوں کے ہمراہ گاڑی کی بکنگ میں مصروف ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔چائے اور چارجنگ کے عظیم فریضہ سے سبکدوش ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہاں  ہائی روف  سے کرایہ کا معاملہ طے   نہیں پا رہا  اور اب منڈی موڑ  تک دوبارہ لوکل گاڑی میں دھکے کھانے پڑیں گے ۔۔۔۔۔۔مرتے کیا نہ کرتے بوریا بستر اٹھائے گھسے  ایک کوسٹر  میں ۔۔۔۔۔جہاں  کنڈکٹر کے نعروں نے ڈی چوک کی یاد تازہ کردی ۔۔۔۔یہ اور بات کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے  کی بجائے ہم نے اپنے  کانوں میں انگلیاں  ٹھونس لیں۔۔۔۔۔۔منڈی موڑ پہنچنے کے بعد ایک بار پھر بکنگ کے لئے مقرر کردہ  ٹیمز نے  اپنا ورک شروع کیا  تو ہم نے ویڈیو بنانے اور قریب سے گزرتے خوبصورت اور دلکش  نالہ لئی کا دیدار کرنے میں اپنا وقت صرف کیا۔۔۔۔۔اسی اثنا میں کچھ دوستوں کو بھوک نے ستانا شروع کردیا ۔۔۔امیر سفر کی اجازت سے پہنچے قریبی ہوٹل میں اور ایسے ٹوٹ پڑے کھانے پر کہ جیسے سرکاری ماسٹر نالائق بچوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

کھانے سے فراغت کے بعد ایک بار پھر ٹرانسپورٹ  کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا اور تھوڑی دیر میں یہ مژدہ جاں فزا سنایا کہ  ہائی روف کا بندوبست ہو چکا جس کی ڈرائیوری کے فرائض حسب توقع  ایک پختون بھائی سرانجام دے رہے ۔۔۔۔۔پہنچے گاڑی میں  اور خواری کے اختتام پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے  دعا کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔ ۔۔۔فرنٹ  سیٹ پر حاجی ریاض  صاحب اور ثناءالحق ستی  براجمان ہوئے  اور ڈرائیور کا انٹرویو ہوا شروع۔۔۔۔۔ڈرائیور برکت شاہ بہت  نرم مزاج اور شریف النفس پٹھان تھا (حیرت ہے ) ۔۔۔۔اور منڈی موڑ سے زیادہ تر پشاور گروپ کا سفر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اس دوران ہماری  گپ شپ جاری رہی ۔۔۔۔سوات کی نئی موٹر وے پر سفر بھی بہترین رہا جسکی تعریف نا کرنا بخل ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ہمیں بتایا گیا کہ یہ گزشتہ دور  حکومت میں انجینئر امیر مقام کی کوششوں سے بننے والا منصوبہ ہے تاہم اس کا افتتاح برکت  شاہ کے مطابق  موجودہ وزیر اعظم  نے پاس ہونے کے بعد کیا (بعد میں پتہ چلا کہ پاس ہونے سے اس کی مراد سلیکٹ ہونا سوری الیکٹ  ہونا تھی ۔  )۔۔۔۔بہرحال پروجیکٹ کسی کا بھی ہو اور اافتتاح  کی تختی  کسی کی بھی لگے،عوام کے لئے مل جل کر  آسانی فراہم کرنا حکومتوں  کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔۔۔۔۔ راستے میں دور تک پھیلے ہوئے سرسبز کھیت نگاہوں اور دل کو بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے۔ ۔۔۔۔چکدرہ سے کچھ پہلے جب نماز عصر کے لیے رکے تو وہاں تصاویر کے علاوہ پاکستان کا یوم آزادی اور کشمیر کے ساتھ یکجہتی منانے میں مصروف کچھ بچوں کے ساتھ ایک عدد ویڈیو بھی بنانے کا موقع ملا جو ایک پوسٹ میں پہلےہی شیئر ہو چکی ہے۔۔۔دوبارہ ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔ ۔۔۔چکدرہ پہنچ کر نماز مغرب ادا کی جس کے بعد   وزارت خوراک نے فوری طور پر شاندار چائے کا انتظام کیا۔.جناب ثناء الحق  ستی شوگر کی وجہ سے اپنے لیے ہر جگہ  پھیکی (مطلب تازہ )چائے بنواتے تھے۔۔۔۔یہاں بھی روایت جاری رہی۔۔۔ ۔۔۔حاجی واجد صاحب نے حصہ بقدر جثہ کے فارمولے کے مطابق دو کپ پلانے کی درخواست کی  جسے وزارت خوراک  کی کمیٹی نے معمولی پس و پیش اور محکمہ خزانہ سے مشورے کے بعد قبول کر لیا۔ ۔۔۔۔چائے کی صورت ہم نے  اپنے پٹرول کا بندوبست اور برکت شاہ نے اپنے جہاز میں "خاص" ایندھن بھرنے کے بعد  چکدرہ سے ہی گاڑی کے لیے ایندھن کا انتظام  کیا۔۔۔ ۔۔یہاں پر ڈرائی فروٹ کا انتظام کیا گیا جسکی مقدار دیکھ کر احباب خاصے مطمئن ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی لڈو اور تاش بھی خریدے گئے۔ ۔ہماری خواہش پر بیڈمنٹن کا سامان  تلاش کیا گیا تاہم سپورٹس کمیٹی کو وہ نا مل سکا۔