وادی کمراٹ کا یادگار سفر

2019-09-09 16:38:27 Written by حافظ عبدالمتین ستی

کمراٹ کا یادگار سفر 
مغرب سے کچھ دیر بعد چکدرہ سے نکلے تو سب  پر  طویل سفر کے باعث تھکاوٹ طاری ہو چکی تھی لہذا مخلوق نے خاموشی تان لی.۔۔۔۔۔اسی دوران وزیر خوراک نے ڈرائی فروٹ تقسیم کرنا شروع کیا تو آنکھیں موندے ہوئے بھی  سب نے  ہاتھ پھیلانا شروع کیے کہ بحثیت  قوم ہم تو  ہاتھ اور کشکول گدائی پھیلانے میں خاصے ماہر ہوچکے ہیں۔۔(سوری۔۔۔)۔۔۔۔۔خیر ڈرائی فروٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ماحول پر پھر سکوت طاری ہو گیا اور  ہم نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی مشہورومعروف خراٹوں سے بھرپور  نیند پوری کرنے کا پلان بنایا ۔۔۔اب گاڑی انجن کے علاوہ ہمارے خراٹوں کی آواز سے بھی گونج رہی تھی۔۔۔(راویوں کے مطابق۔۔۔)
تیمرگرہ سے گزرتے ہوئے ہم نے آنکھ کھول کر ماحول کا جائزہ لیا اور  حالات دیکھ کر  پھر دوبارہ سو جانے میں عافیت جانی ۔۔۔اس دوران  وقتا فوقتا مختلف لوگوں کے موبائل بجتے رہے اور وہ کمال تابعداری سے اپنے  اپنے گھر والوں کو مکمل رپورٹ فراہم کرتے رہے ۔۔۔۔۔   اپر دیر سے کچھ کلومیٹر پہلے دریا کنارے رک کر کچھ دیر تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوئے۔ ۔۔۔یہاں  اس بات پر مشاورت کی گئی  کہ کمراٹ کا سفر جاری رکھا جائے یا  رات  اپردیر میں قیام کیا جائے ۔۔۔۔مختلف مشورے آئے تو  امیر سفر سرفراز احمد صاحب اور وزیر  ٹرانسپورٹ ثناء الحق ستی صاحب نے نقشہ  دیکھا۔۔فاصلے اور سفر کا متوقع وقت  چیک کرنے  کے بعد  رپورٹ پیش کی۔۔۔۔ رپورٹ ایبٹ آباد کمیشن کی طرح چشم کشا تھی (یہ اور بات کہ اس رپورٹ کو ہماری دیگر قومی اہمیت کی رپورٹس کی طرح چھپایا نہیں گیا۔۔۔۔)۔۔۔رپورٹ کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رات کو اپردیر میں قیام کیا جائے گا ۔۔۔بہت تاخیر سے اپردیر پہنچے ۔۔۔رات کے کھانے کے لئے کی جانے والی تگ ودو اور رات کے قیام کے  احوال ایک پوسٹ پر پہلے پیش کیے جاچکی ہے

صبح جب نماز فجر کے بعد سیر پر نکلا تو دیر کے رہائشی ایک نوجوان امجد خان سے سر راہ ملاقات ہوئی ۔۔بدقسمتی سے کراچی میں ڈمپرکی ڈرائیونگ کے دوران امجد خان کا 3 سال قبل ایکسیڈنٹ ہوا ۔۔دونوں ٹانگیں فریکچر ہوئی البتہ اب صحت کافی بہتر ہے اور ڈاکٹر کی ہدایت پر مکمل بحالی کے لیے روزانہ واک کرتے ہیں۔۔۔انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے شہر کی تمام اہم عمارات دکھائی اور معلوم تاریخ بھی بتائی۔ان کے والد دیر کے آخری نواب شاہجہاں خان کے اصطبل کے آخری انچارج (سائیس)رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ان کی زبانی اور وہاں  نصب ایک بورڈ کے ذریعے معلوم ہونے والی مختصر سی تاریخ عرض  کرتا ہوں ۔دیر  کے مقامی دوست اس پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں ۔۔۔ اٹھارہ سو اسی تک  دیر پر مختلف خانوں کی حکمرانی رہی ۔۔۔اٹھارہ سو اکاسی میں  جنڈول کے خان امراء خان نے دیر پر  قبضہ کر لیا اور اپنی سلطنت کو سوات اور مالاکنڈ  تک بڑھایا ۔ اس نے دیر  کے والی محمد شریف خان کو ریاست بدر کر دیا ۔۔۔۔انگریزوں نے اس کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو  خطرہ سمجھتے ہوئے بڑی فوج کے ساتھ  اس پر  حملہ کیا اور مالاکنڈ کے مقام پر امراء  خان کو شکست دی ۔۔۔اس نے بھاگ کر  افغانستان میں سیاسی پناہ لی اور وہیں اس کا انتقال ہوا ۔۔۔۔انگریزوں نے شریف خان کو ایک بار پھر دیر  کی گدی پر بٹھایا ۔۔اس نے پہلے خان اور بعد میں نواب کا لقب اختیار  کیا ۔۔نواب شریف خان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا نواب اورنگزیب خان اور اس کے بعد اس کا بیٹا نواب شاہ جہان خان تخت نشین ہوا ۔۔۔۔نواب شاہ جہان خان ایک سخت گیر حکمران تھا ۔۔جس کے دور میں جہاں لوگوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا جاتا تھا وہی معمولی باتوں پر سخت سزائیں بھی بادشاہوں کی طرح دی جاتی رہیں۔ ۔۔نواب کے اثروسوخ کا عالم یہ تھا کہ برطانوی راج نے اس کے لئے جرمنی سے خصوصی بجلی گھر منگوا کر  تنصیب کروایا جس سے صرف محل کے لیے بجلی پیدا کی جاتی تھی ۔۔آج بھی دیر کے اس علاقے کو بجلی گھر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔۔۔نواب شاہ جہان کا محل دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔۔۔۔ جو دیدہ بینا رکھنے والوں کے لئے عبرت  کی ایک داستان ہے اور تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔لیکن کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے انسان نے یہ سیکھا ہے کہ اس نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔۔۔۔۔۔ایوب  خان کے دور میں جب سوات کی  ریاست کو رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بنایا گیا تو نواب کو بھی پاکستان کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی ۔۔تاہم  اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔۔اور پاکستانی فوج  کو زبردستی وہاں کا کنٹرول لینا پڑا ۔۔ اس طرح دیر پاکستان کا حصہ  بنا ۔۔۔یہ 1969 کا قصہ ہے ۔۔۔نواب  کو اس کے بیٹے ہی کے ذریعے زہر دے دیا گیا ۔۔۔امجد خان کے مطابق نواب کے بچوں کی تعداد پچاس سے زائد تھی ۔۔(غیر  پختون دوستوں کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں  )۔۔نواب کے بیٹے  مختلف جگہوں پربسے اور مختلف کاروباروں سے وابستہ ہوئے ۔۔۔۔بعد ازاں انہوں نے الیکشن میں بھی حصہ  لیا تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔۔ کہ سر داری نظام اور جمہوریت کے تقاضوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔۔دیر اس کے بعد شمال مغربی سرحدی صوبہ  (اب خیبر پختونخوا )کا  ضلع قرار دے دیا گیا ۔۔۔جسے بعدازاں لوئر اور اپر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔۔۔جاری ہے۔ ۔۔۔۔۔