"میرا قلم"
لفظ قلم ویسے تو تین الفاظ ق،ل،م کا مجموعہ ہے لیکن یہ اپنے اندر وسیع مفہوم سموئے ہوئے ہے۔ایک قلم کے اندر سات سمندروں سے زیادہ گہرائی ہوتی ہے ۔
علم کی وسعت قلم کے اندر پنہاں ہوتی ہے!آپ قلم کو جتنا سمجھیں گے ۔
علم کی وسعت میں اتنا ہی آگے نکل جائیں گے ،علم آپ پر اتنا ہی اثر انداز ہو گا۔۔اور نتیجتاً کائنات کے اسرار آپ پر کھلتے چلے جائیں گے۔۔۔اگرچہ علم تو حضرت آدم کے ساتھ ہی زمین پر اتارا گیا۔
"لیکن قلم سے نکلنے والی علم کی قوت سے ہمیں اللہ تعالی نے سورہ العلق میں آگاہ کیا"۔۔
اللہ تعالی نے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل کی ،تو پہلی وحی میں پہلا سبق ہی علم کے بارے میں دیا۔
جہاں پر اللہ تعالی نے سورہ العلق کی تیسری آیت میں کہا "پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے"
وہیں ہر اللہ تعالی نے چوتھی آیت میں ایک انکتشاف بھی کیا ۔۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے"جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سے"
اگر اس آیت پر غور کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالی اس آیت میں "قلم" کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔۔کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی تو حضرت جبرائیل کے ذریعے نازل ہوئی تھی،ناکہ کسی لکھے ہوئے و
صحیفے کی شکل میں۔۔
"تو پھر اللہ تعالی نے سورہ العلق میں قلم طرف اشارہ کیوں کیا؟"
اس آیت میں اللہ تعالی نے انسان کو واضع اشارہ دیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو علم ،"قلم" کے ذریعے سکھایا۔۔یعنی قلم کو علم سیکھنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔۔
"قرآن پاک کے اندر ہزاروں پہیلیاں،ہزاروں حکمتیں چھپا دی گئیں اورانسان کو کہا گیا کہ وہ قلم کی روشنی سے انھیں تدبیر کرکے ڈھونڈ نکالے اور علم کی چٹان کو عبور کر جائے"۔
آسمانی کتابوں کے علاوہ دنیا میں موجود تمام کتابیں انسانی عقل و شعور کا نتیجہ ہیں۔یہ سب کتابیں قلم کی طاقت سے معرض وجود میں آئیں ہیں۔
یہ کتابیں آپ کی معلومات میں تو اضافہ کر سکتی ہیں لیکن آپ کے علم کو وسعت نہیں دے سکتیں۔اگر آپ نے صیحیح معنوں میں علم حاصل کرنا ہے تو آپ کو قلم اٹھانا ہو گا..اس کی طاقت کو سمجھنا ہو گا..جب آپ قلم کی طاقت کو سمجھ جائیں گے تو علم آپ پر اتار دیا جائے گا۔۔
"اسی طرح اگر آپ معلم کی عزت کریں گے تو علم آپ تک بہتر انداز سے پہنچ جائے گا اور اگر آپ قلم کی عزت کریں گے تو آپ کا قلم آپ کو سمندر کی گہرائی میں موجود رازوں تک رسائی پہنچا دے گا"...بشرطیکہ آپ کے قلم میں دیانت داری ،خلوص اور ایمانداری کی چاشنی بھری ہو...
"اس لیے اگر ہم سب علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قلم کو علم کا مینار سمجھ کر لفظوں کے اسرار کو کھوجنا ہو گا"۔۔
ہمیں اپنے تجربات ،احساسات اور مشاہدات کو قلم کے ذریعے کاغذ پر اتارنا ہو گا۔۔اسی سے ہمارے علم میں وسعت آئے گی اور ذہنی آگاہی کے دروازے ہم پر کھول دیے جائیں گے۔۔
"میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی ہم سچے دل سے علم کی جستجو میں قلم اٹھاتے ہیں ،تو الفاظ وحی کی صورت ہمارے دماغ میں اترتے اور دل کا کھوج پا جاتے ہیں" ۔۔۔
"ایک انسان اس وقت امر ہو جاتا،اور اشرف المخلوقات کے درجے کو پا جاتا ہے,جب وہ اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کر جائے"۔جب وہ صیحیح معنوں میں خود کو تمام مخلوق سے افضل ثابت کر سکے۔اورایسا ہم صرف قلم کی طاقت سے ہی کر سکتے ہیں۔۔
قلم کی طاقت اور علم کی وسعت ڈگریوں کی محتاج نہیں ہے۔"دنیا گواہ ہے بڑے بڑے عالم ان باتوں کو سمجھنے میں ناکام رہے جو ایک بظاہر جاہل مگر عقل رکھنے والے انسان نے سمجھ لی ہیں...لیکن یہ سچ ہے کہ جاہل ان باتوں کو دنیا تک پہنچانے میں ناکام رہا کیونکہ وہ قلم کی طاقت سے محروم تھا"...
اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ العلق کی پانچویں آیت میں ارشاد فرمایا
"انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا"...
اگر ہم اس آیت کو چوتھی آیت کے تںاظر میں دیکھیں۔۔
جس میں ارشاد ربانی ہے
"جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سے"...
پھر اللہ تعالی نے پانچویں آیت میں جب ارشاد فرمایا
"انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا"۔۔
تو اس آیت میں ایک کھلی حقیقیت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو قلم کے ذریعے سے اس علم سے نوازا جو وہ نہ جانتا تھا..
اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ جب ہم کاغذ اور قلم لے کر بیٹھتے ہیں تو الفاظ قلم کی نوک سے وحی کی صورت میں صفحات پر اترتے ہیں...یعنی علم کے انمول موتی ہمیں عنایت کر دیئے جاتے ہیں...
"اللہ تعالی نے قلم کی صورت انسان کو ایک ہتھیار عنایت کیا ہے کہ جاؤ ! ریگستانوں ،صحراؤں اور آسمان کی وسعتوں کو کھوج ڈالو..کہ تمہارا قلم ہی تمہاری اصل طاقت ہے"...
"شاید اسی لیے اللہ تعالی نے حکمت کے موتی چننے کے لیے قلم کو ایک تلوار کی طرح چنا ہے ،جس طرح ایک تلوار پہلے ہی وار میں انسانی جسم میں پیوست ہوجاتی ہے اسی طرح قلم بھی اپنے چاہنے والے کے اندر امرت کی طرح علم گھول دیتا ہے"...
اسی لیے بعض اوقات اپنے ہی لکھے الفاظ آپ کو "مبہوت" کردیتے ہیں! اس کی وجہ آپ کے قلم کی طاقت ہے کیونکہ اللہ تعالی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو قلم کے ذریعے وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔۔
آپ بےشک دنیا کی خاک چھان لیں،کتابوں کے اوراق کو گھول کر پی دیں...لیکن جب تک آپ قلم نہیں اٹھائیں گے آپ امر نہیں ہوں گے...
آپ جتنی ایمانداری سے قلم اٹھائیں گے الفاظ اتنے ہی خوب صورت ،دلچسپ انداز سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے خود کو صفحات پر اتارتے چلے جائیں گے۔۔
کیونکہ قلم آپ کے اندر موجود خزانے کو دیوانہ کر دیتا ہے اور یہ دیوانگی صحراؤں،ریگستانوں اور جھونپڑ یوں میں موجود سانس لیتی کہانیوں کو پڑھنے والے کے لیے انمول کر دیتی ہے..
تو آئیے!اپنے قلم کو اپنی طاقت بنائیں...
جب آپ قلم کو اپنی طاقت بنائیں گے تو ہر چیز آپ کے لئے مسخر کر دی جائے گی اور تب آپ کے لئے "وادئ مصر کی حنوط شدہ لاشوں سے لے کر وادئ گنگا میں موجود تمام رازوں سے پر دہ اٹھا دیا جائے گا"۔۔
آخر میں شکریہ اس پاک ذات کا،جس کی تعریف کے لیے کوئی لفظ نہیں بنا، کہ اس نے ہمیں قلم جیسی نعمت سے نوازا...
"تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"...