ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

2019-09-24 16:35:01 Written by آفتاب لغاری

دو ہزار پندرہ کے اوائل میں میری سعودی عرب جانے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی اور میں بہت خوش تھا لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری یہ خوشی صرف سعودی عرب پہنچنے تک برقرار رہے گی۔

میں نے ویزا کسی ٹریول ایجنسی کی بجائے اپنے ایک جاننے والوں سے لیا تھا جن کے ساتھ اچھے مراسم تھے اور قابل بھروسہ بھی تھے۔
جب میں وہاں پہنچا تب مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے کوئی بھی جھوٹ بول دیتے ہیں۔

مجھے بھی کہا گیا تھا کہ ہم تمہیں ڈرائیونگ لائسنس دلائیں گے لیکن اڑھائی سال تک خوار ہونے کے بعد لائسنس اپنے بل بوتے پر حاصل کیا تھا ۔ میں چاہتا تو لڑ جھگڑ کر واپس آجاتا لیکن میں اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کے مقصد سے گیا ہوا تھا اس لیے صبر کر کے انکے بتائے کام پہ لگ گیا۔۔

پہلا کام جو مجھے ملا وہ کھجور کے باغ میں تھا، میرے ساتھ چوالیس اور لوگ بھی تھے، پیسے بہت زیادہ تھے لیکن ساتھ ہی کام بھی ڈبل شفٹ میں کرنا ہوتا تھا اور حقیقت میں اپنا خون پسینہ بہا کر پیسے کمائے۔

ہم صبح پانچ بجے اٹھتے اور ہاتھ منہ دھو کر باغ میں کھجور توڑنے پہنچ جاتے تھے،ایک میٹر سے دس میٹر تک کی بلندی کے درخت تھے جن پہ ہمیں چڑھنا ہوتا تھا اور ایک اوزار بنایا ہوا تھا جسے ہم کونڈا کہتے تھے اور جو پاکستانیوں کی ہی کاریگری تھی، اسی کونڈے کی مدد سے اوپر دونوں ہاتھ چھوڑ کر کام کرنا ہوتا تھا۔ مغرب تک کھجور توڑنے کے بعد انکی چھانٹی کی جاتی تھی جو رات بارہ ایک بجے تک چلی جاتی اور کبھی دو بھی بج جاتے تھے۔

اس دوران جن مشکلات سے گزرا وہ ایک الگ داستان ہے، ایک مختصر واقعہ،، ایک بار اترتے ہوئے پیر سلپ ہو گیا میرا ، اونچائی زیادہ نہیں تھی لیکن نیچے کھجور کا ایک موٹا کانٹا پڑا تھا جو جوتے میں سے گزر کر میرے پیر کی ہتھیلی میں گھسا اور اوپر سے نکل آیا۔
اس دن سہی سچ میں نانی یاد آئی تھی۔

خیر ڈیڑھ ماہ میں کام ختم ہو گیا تھا،
پھر میں جدہ چلا گیا اور وہاں تقریبا سات ماہ تک ہر طرح کی مزدوری کی ، وہاں کی صعوبتیں بھی اکثر یاد آتی ہیں لیکن ایک واقعہ جس نے مجھے بہت ڈسٹرب کیا تھا وہ ایک لڑکے کے ساتھ پیش آیا تھا جو میرے سامنے ہی تیسرے فلور سے گرا تھا اور معجزانہ طور پر بچ گیا تھا لیکن ٹانگ تڑوا بیٹھا تھا بیچارہ۔

یہاں بڑی سے بڑی تکالیف برداشت کیں لیکن لوگوں کے رویے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔۔
یہاں لوگ جھوٹ ثواب سمجھ کر بولتے ہیں، ہر دوسری بات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔

سعودی عرب کے قوانین ویسے تو سب کے لیے برابر ہیں لیکن نچلی سطح پر جو کفیل سسٹم ہے اس کفیل کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے۔وہ جو چاہے کر سکتا ہے اپنے اعمال(ورکرز) کے ساتھ
میں نے یہاں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کے کفیل اپنے اعمال(ورکرز) کو تین سو ریال مہینہ جسے یہاں منتھلی کہا جاتا ہے کے عوض آزاد کام کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور منتھلی کے علاوہ اقامہ کی فیس بھی اپنے اعمال سے لے لیتے ہیں لیکن اقامہ نیا نہیں کر کے دیتے، لالچ میں اپنے عامل کو حروب(ویزا بلاک) دے دیتے ہیں اور وہ بیچارہ مجبورا کفیل کے مطلوبہ پیسے دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔
میری ملاقات ایک پاکستانی سے ہوئی تھی اسے حروب طلبی دیا تھا کفیل نے، چھ سال سے بیماری کی حالت میں پڑا ہوا تھا یہاں اور واپس پاکستان بھی نہیں جا سکتا تھا، 
حروب طلبی میں اگر شرطہ پکڑ لے تو وہ سیدھا کفیل کے حوالے کر دیتا ہے اور کفیل پیسوں کا مطالبہ کرتا ہے، پیسے نہ ہونے کی صورت میں کفیل پھر چھوڑ دیتا ہے، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جب تک کہ آپ اپنے کفیل کو اس کے مطلوبہ پیسے نہیں دے دیتے

اڑھائی سال تک مختلف جگہوں پر مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اور انکے ہتک آمیز رویے سہنے کے بعد ایک مستقل جگہ گھر کی ڈرائیونگ کے لیے اپنا ویزا ٹرانسفر کروایا اور ایگریمنٹ میں یہ بات پہلے طے کی کہ تنخواہ بیشک کم دو لیکن عزت سے پیش آنا اور الحمداللہ موجودہ باس بہت اچھا ہے، مجھے فیملی ممبر کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔

میرا ان تمام لوگوں کے لیے جو روزگار کے لیے بیرون ملک تیار ہیں کے لیے ایک مشورہ ہے کہ اچھی طرح تحقیقات کرنے کے بعد ہی ویزا کے لیے اپلائی کریں ورنہ یہاں کی تکالیف مقدر بن جائیں گی اور ضروری نہیں کہ ہر بار تکالیف کے بعد آسانی بھی حاصل ہو،، اکثر لوگ واپس بھاگ جاتے ہیں۔
والسلام