کل کا پاکستان اور آج
میں ہر گھڑی سوچ کے محور کے گرد رہتا ہوں اور اکثر سوال میرا پیچھا کرتے ہوئے میرے گھر کے دروازے پہ دستک دیتے ہیں. ان سوالوں میں سے ایک سوال کے جواب کا منتظر میں عبدالرحمان بابا کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
عبدالرحمان بابا میرے سوال پر غور کرنے کے بعد بولے، احمد ہمارے دور میں پاکستان ایسا نہ تھا جیسا اب ہے. تب گھروں کی چھت آپس میں جوڑی ہوئی ہوتی تھی. تب گھروں میں بیٹھک ہوتی تھی، جہاں ہم سب دوست خوش گپیوں میں مصروف رهتے، ایک دوسرے کا حال پوچھا اور خیال رکھا جاتا تھا، تب ہر آنگن میں پھول کھلتے تھے. بابا جی سوچتے ہوئے پرسکون انداز میں بول رہے تھے،
تب ملزم سے جرم کی بو آتی تھی، کمائی کم اور روزگار کم ہونے کے باوجود ہم خوش تھے، ہم الله پاک پر توکل کر کے چلتے تھے، ہمیں ایمان کا مطلب بچپن سے صرف بتایا ہی نہیں گیا، بلکہ اس پر عمل کر کے ہمارے بزرگ ہمیں سکھاتے اور سمجھاتے تھے. عبدالرحمان بابا نے مطمئن انداز میں بات کو ختم کرتے ہوئے آخری جملہ کہا، پیار اور محبّت کا دور تھا۔
اور آج کل، ہم لوگ گھروں کی تین سے چارچار منزلیں بنا لیتے ہیں، لیکن بیٹھک کی جگہ نہیں ہوتی گھروں میں، مہمانوں کی کوئی قدر نہیں، ہر کوئی اس طرح مصروف عمل رہتا ہیں کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا وقت ہی نہیں. ہمارا حال اس مسافر کی طرح ہے جسے سفر بھی کرنا ہوتا ہے اور اسے اپنی منزل کا علم ہی نہیں ہوتا. آج کل ملزم کیا مجرم بازاروں میں سرعام گھومتے پھرتے ہیں اور انھیں ہم نے ہی مضبوط دیوار فراہم کی ہوئی ہیں. آمدن زیادہ ہونے کے باوجود ہم خوش نہیں۔
آپ نے درست کہا عبدالرحمان بابا، ہم الله پاک پر توکل نہیں کرتے اور اپنے لامحدود خوابوں کے پیچھے دوڑے جا رہے ہیں، اور ہماری دوڑ کی کوئی لگام نہیں. اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے ہوئے میں نے اپنی بات ختم کی۔
بڑے روٹھے ہوۓ لگتے ہو شہزادے آج، مجھ پر غور کرتے ہوئے عبدالرحمان بابا نے کہا
تمہارا کوئی قصور نہیں غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں اور ہماری غلطیوں کی سزا آج تم لوگوں کو مل رہی ہے. ہمارے پاس ایمان کی لازوال دولت ہے، اور ایمان کی حقیقت، ایمان کا مطلب سمجھانے کیلئے جس طرح ہمارے بزرگ اس پر عمل کر کے ہماری تربیت کرتے تھے،وہ سب ختم ہو گیا ہے. ایمان کا مطلب صرف پڑھا جانے لگا، اس پر عمل کرنے والا کوئی نہیں. پھر ہم نے بچوں کو اسکول و مدرسے کے سپرد کر دیا، کہ اسکول و مدرسے والے بچوں کو ایمان کا مطلب سمجھایا کریں، ایمان کی حقیقت سے بچوں کو آشنا کریں۔اور اب اسکول و مدرسے والے بھی ہماری طرح اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں. ایسا ہونا ہی تھا، جب پرندہ اپنے گھونسلے سے غافل ہو جائے تو اس کے پڑوسی کچھ دنوں کیلئے ہی گھونسلے کی حفاظت کریں گئے. ایمان کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا. بابا جی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے، ذرا صبر کرو اور دیکھو کس طرح قدرت تم سے ہی خاص کام لے گی۔
اس کی تیاری کیلئے تمہاری پہلی منزل یہ ہے کہ تم محبّت کو بانٹو، دوسروں کے کام آؤ،اور پھر دیکھنا قدرت تم سے کس طرح کام لیتی ہے. قریب موجود مسجد سے مغرب کی اذان ہونے لگی، عبدالرحمان بابا میرے ذھن کو مزید سوالوں کے محور میں چھوڑ کر نماز کیلئے کھڑے ہوگئے. اب ہم دونوں کا رخ مسجد کی طرف تھا۔
ہمیشہ کی طرح مجھے لگا کہ مجھے میرے سب سوالوں کے جواب مل گئے ہیں. میں جب بھی اپنے سوالوں کے محور سے پریشان ہو جاتا ہوں، تو جواب کی تلاش کیلئے گھر کے قریب موجود گراؤنڈ نما پارک میں عبدالرحمان بابا کو تلاش کرتا ہوں،اور ہاتھوں میں لاٹھی لئے بابا جی مجھے ایک سایہ میں بیٹھے ہوئے ملتے ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ میں ٹاس جیت گیا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے ہارے ہوئے ٹاس کے ساتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے. ایک دفعہ میں نے بابا جی سے کہا، بابا جی میں حسین نظروں کا قیدی ہو گیا ہوں، مجھے بتائیں کہ یہ نظروں کا قیدی بن جانے سے محبّت ہو جاتی ہے کیا؟ اور یہ محبّت کون سا جادو ہے، مجھے محبّت جادو جیسا کوئی عمل لگتا ہے. اب دیکھو نا، ان نظروں سے میں آزاد نہیں ہو پا رہا ہوں، جتنی بھی کوشش کروں کہ کچھ پل کیلئے آزاد ہو جاؤں، تو وہ نظر مجھے تلاش کرتی ہوئی آتی ہے، اور مجھے پھر سے قید کر لیتی ہے. اب تو مجھے یہ قید خانہ، ان نظروں میں قید رہنا، اچھا لگنے لگا ہے، میں چاہتا ہوں قید رہوں تا عمر اب یہیں۔
احمد محبّت کا جذبہ سچا ہو تو یہ سفر عشق مجازی سے ہوتا ہوا عشق حقیقی میں ختم ہوتا ہے. اس سفر میں اپنے اندر جھانکنا بہت ضروری ہوتا ہے، کہ تم کون ہو، کیا حیثیت ہے تمہاری۔ اپنے اندر کو مار دو، عشق حقیقی کی کھوج کرو تو ہی عشق مجازی کی منزل ملیں گی، اور عشق حقیقی، اس پاک ذات کے ساتھ لو لگانا ہی تمہیں پاک کرے گا۔
اس دن بابا جی کی باتوں نے میرے اندر جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا سا کر دیا تھا،اور آج ایسا لگتا ہے کہ بابا جی نے میرے اندر بجھے ہوئے دیئے کو جلا دیا ہے. مجھے میری منزل کا راستہ دکھا دیا ہے، جہاں سے میری منزل مجھے صاف دکھائی دے رہی ہے۔
اگلی صبح میں آفس کیلیے موٹرسائیکل پہ جا رہا تھا کہ راستے میں لگ بھگ پچاس سال کے عمر کے انکل آنکھوں میں چشمہ لگائے، لفٹ کے منتظر تھے۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ شاید آفس جا رہے تھے اور ہر گزرتے ہوۓ سے مدد کے منتظر تھے. میں ان پہ ایک نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گیا. ابھی تھوڑی دور گیا تھا کہ اندر کی آواز نے روک لیا. کل کا پاکستان اور آج. بابا جی کے لفظ مجھے پھر سے سنائی دینے لگے، محبّت کو بانٹو اور دوسروں کے کام آؤ،یہ منزل کی طرف تمہارے پہلے سفر کا آغاز ہے. پھر دیکھنا تمہیں منزل بھی ملے گی اور یہ وطن تمہیں خوبصورت بھی نظر آئے گا. میں نے موٹر سائیکل کی بریک لگائی اور واپس ان انکل کی طرف جانے لگا، ان سے ان کی منزل کا پوچھا جو کہ میرے راستے میں ہی آتی تھی. انکل مجھے تشکر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھ گئے. جب میں نے انکل کو ان کی منزل میں اتارا تو انکل نے میرا نام پوچھا اور دعائیں دیتے ہوئے آگے پیدل جانے لگے. میں اپنے آفس کی طرف جانے لگا جو قریب ہی تھا. انکل کی مدد کر کے میرے اندر جو سکون میں محسوس ہو رہا تھا اسے بیان کرنا مشکل ہے میرے لئے. مجھے عبدالرحمان بابا کی سب باتیں سمجھ میں آنے لگیں. کل کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں زیادہ فرق نہیں لگا بس کچھ کر دکھانے کی لگن اور محبّت کرنے والی نظر ہونی چاہیے، پھر مجھے لگا کہ قدرت نے اپنے خاص مقصد کیلئے میرا چناؤ کر لیا ہے۔