سات پردے
بازار روشنیوں سے جگ مگ چمک رہا تھا، جیسے میلہ لگا ہوا ہو لیکن نہ میلہ لگا ہوا تھا اور نہ ہی کوئی تہوار کا دن تھا. یہ ایک عام سا دن تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں یہ کیسی دنیا میں آگیا ہوں. اتنی روشنی میں ڈوبا ہوا بازار اور یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا، یہ کیسی لڑکیاں ہیں جن کے جسم میں لباس نہ ہونے کے برابر ہیں. یہ کیسے اجنبی لڑکوں کے ساتھ گھوم رہی ہیں. انھیں شرم نہیں آ رہی کہ یوں بازار میں سرعام گھوم رہی ہیں. میں نے دیکھا کہ ایک جوڑا جو کہ آپس میں ایسے لپٹا ہوا تھا جیسے پیار کی میٹھی بولیاں بول رہے ہو، میرا دل کر رہا تھا کہ میں یہاں سے کہی دور چلا جاؤں. مجھے یہ دنیا اچھی نہیں لگ رہی تھی. میں نے تو دیکھا تھا کہ خواتین گلاب کے پھول کی طرح پردے میں ہی اچھی لگتی ہیں. جیسے گلاب کے پھول کی پتیاں ایک دوسرے میں پروہی ہوتی ہیں. یہ کیسا مغرب زدہ بازار ہے جو اپنی ہی دنیا میں مست ہے. مغرب والے تو خود اپنے اس تباہ شدہ معاشرے سے تنگ آ چکے ہیں اور انھیں واپسی کا کوئی راستہ نہیں نظر آ رہا. میں اس بازار کو مغرب زدہ بنتا ہوا دیکھ رہا ہوں تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں چیخ چیخ کے کہوں کہ ہوش سنبھالو رنگینی میں ڈوبے ہوۓ لوگوں، ہمارے اسلام میں، ہمارے معاشرے میں خواتین کو آزادی حاصل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین اپنا آپ بھول جائے، خود کو ہر آنے جانے والے کیلئے عام کر دیں. میں بتا دوں، ایسا کرنے سے ہم خود کو کھو دے گئے. مجھے یہ بازار صفحہ ہستی سے مٹتا ہوا لگ رہا تھا. جیسے ابھی طوفان آئے گا اور یہ روشنی میں ڈوبا ہوا، رکس میں جھومتا ہوا بازار، طوفان کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
میں اپنی انہی سوچوں میں گھوم تھا کہ ایک لڑکی جس نے ہاف بازو کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، مجھ سے ایسے ٹکرائی کہ میں نے باآسانی اس کے جسم کی مہک کو محسوس کیا، اور مسکرا کر مجھے دیکھتے ہوۓ آگے جا رہی تھی. اس کی آنکھوں میں ایک کشش تھی، جس کے محور میں، میں قید ہو رہا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے میرے دل کے کونے سے ایک تصویر سوال نما آنکھوں کے ساتھ ظاہر ہوئی اور میں سب بھول گیا. وہ تصویر نما آنکھیں مجھے میرے دل کے قریب لگیں، جیسے ان کے ساتھ میرا برسوں پورانہ رشتہ ہو، جیسے ان کے ساتھ میرا روح کا رشتہ ہو. شاید یہ روح کے رشتے، اس بےمعنی دنیا کیلئے نہیں بنے، اس کی ایک الگ ہی فضا ہوگی، میں ویسی ہی ایک خاص فضا میں خود کو محسوس کر رہا تھا لیکن ابھی میرے سفر کو منزل نہ ملنی تھی. وہ سوال نما آنکھیں پھر سے واپس دل کے کونے میں تھی، جیسے کوئی آزاد پنچھی کو پکڑ کر واپس پنجرے میں بند کر دیتا ہے. میں پھر سے اس ہی بے رونق بازار میں تھا اور مجھے کسی کے پکارنے کی آواز آ رہی تھی، کوئی مجھے پکار رہا تھا، میں چاروں سمت دیوانوں جیسے دیکھنے لگا. وہ آواز جتنی سماعتوں کے قریب ہو رہی تھی، اتنی ہی نظر سے اوجھل تھی. آؤ یہاں آ جاؤ، تمہارے لئے ایک نئی دنیا ہے. یہ سب تمہارا نہیں ہے. میں نے محسوس کیا کوئی مجھے اس دنیا سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہا ہے. میری آنکھیں کھولی اور میں آزاد ہو گیا. چلو احمد، اٹھ جاؤ صبح ہو گئی ہے. ماما نے مجھے جگاتے ہوۓ کہا
اچھا تو میں خواب دیکھ رہا تھا. شکر ہے یہ خواب تھا. میں نے شکر ادا کیا کہ میں اس بے رونق دنیا سے آزاد ہو گیا ہوں. میرے دل کو اطمینان ہوا کہ میں اپنی پرانی دنیا میں ہوں جہاں لڑکیاں مطلب کی بات کے علاوہ بات نہیں کرتی، جہاں لڑکیاں سات پردوں میں رہتی ہیں، اور وہ بھی تو سات پردوں میں رہتی ہے. جس کے آنگن کے پھول محبّت کی فضا میں مہکتے ہے. مجھے رحمان بابا یاد آ گئے، بابا جی کہا کرتے تھے، بیٹا محبّت میں حیا ہوتی ہے، محبّت جب سات پردوں کے پڑے سے دیکھتی ہے تو اس میں ایک خاص کشش ہوتی ہے، جس کی طرف مرد کھچا چلا جاتا ہے اور محبّت میں سات پردے نہ ہو تو وہ محبّت، محبّت نہیں ہوتی، ایک بےحیا معاشرے کی ابتدا بن جاتی ہے۔
سات پردوں میں تم جو رہتی ہو،
کتنی اچھی لگتی ہو،
مجھے مجھ سے چراتی ہو،
مسکرا کر جب دیکھتی ہو،
میری محبّت کا مان رکھتی ہو،
کتنی اچھی لگتی ہو،
سات پردوں میں تم جو رہتی ہو،
کتنی اچھی لگتی ہو،