افسانہ لکھتا ہوں میں،
افسانہ لکھتا ہوں میں،
تمہارا اور اپنا،
افسانہ لکھتا ہوں میں،
کبھی لکھتا ہوں تمہارا نام،
پھر اس سے پہلے لکھتا ہوں اپنا نام،
دیکھ کے ان ناموں کو مسکراتا ہوں،
جو دو نام ایک سے لگتے ہیں،
کبھی یوں ہی بیٹھے بیٹھے وہ شام کا قصہ لکھتا ہوں، جب تمہاری آنکھوں میں شناسائی تھی، جن آنکھوں میں میرا عکس تھا، جب تمہارے دل کی آواز کو سنا تھا، جس شام کو ہم چاند تاروں کی طرح ملے تھے، جس شام ہمارے دو وجود ایک ہوئے تھے، جس شام خوشبو کو محسوس کیا تھا، جو اب بھی میرے اندر مہکتی ہے۔
پھر لکھتا ہوں وہ پہلی ملاقات، وہ پہلی نظر، وہ جب صبح کی پہلی کرن میں، پھولوں کی خوشبوں میں، تمہاری نظر مجھ سے ٹکرائی تھی۔ نجانے کیوں میں اپنا وجود کھو بیٹھا تھا، میں خود کو کھو بیٹھا تھا، وہ تمہاری نظر کا اثر تھا، وہ تمہارے شبنم سے وجود کی جھلک تھی، جس کے جادو سے محور میں قید ہو گیا تھا۔
میں اب پھر سے نہیں لکھ پا رہا ہوں، وہ تمہارا اور اپنا نام نہیں لکھ پا رہا ہوں، مجھ سے چھین لیا گیا ہے میرا افسانہ، میں وہ شام، وہ پہلی ملاقات نہیں لکھ پا رہا ہوں، مجھ سے میرے وجود کو چھین لیا گیا ہے۔ میں وہ بارش کے بعد مٹی سے آتی ہوئی خوشبو کو نہیں لکھ پا رہا ہوں، کہ اس خوشبو کا تعلق تم سے ہے، ایک دن تم نے کہا تھا،
تمہیں پتہ ہے احمد؟ یہ خوشبو مجھے بہت اچھی لگتی ہے، جو بارش کے بعد مٹی سے آتی ہے۔ جو میرے پیارے وطن کی طرح پاک ہے۔ اور آج کل ہمیں اس خوشبو کی قدر نہیں رہی احمد، آج ہمیں فکر ہے تو بس لالچ میں پڑی ہوئی اس دنیا کی ہے۔ احمد تمہیں ایک بات بتاؤں، مجھے بچپن سے ایک سوال بہت بیچین کرتا تھا۔ جس کا جواب مجھے تمہاری محبت کے بعد ملا ہے۔ سوال یہ تھا کہ مجھے اس دنیا میں کیوں بھیجھا گیا؟ میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
کیا ہے تمہارا دنیا میں آنے کا مقصد؟ میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے تجسس بڑھے لہجے میں پوچھا
تمہاری محبّت، میرے اس سوال کو تمہاری محبت کے بعد ہی چین ملا ہے۔ اقرا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا، اور پھر ایک پرندوں کے جوڑے کو دیکھنے لگی جو ہماری طرح ساتھ بیٹھے محبت کی خوشبو کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ فضا میں محبت کے رنگ بکھر گئے ہوں۔ اور اچانک ہی یہ رنگ ماند پڑنے لگے جب نفرت سے پیار کرنے والے محبت میں مخل ہوئے، ان پرندوں کے جوڑے نے اڑان بھر لی، شاید اس دنیا سے کہیں دور جانے کی تیاری کر لی ہو۔ ایسے ہی ایک دن اس نفرت سے بھری دنیا نے ہماری پاک محبت کو بھی زمین دوز کر دیا، مجھ سے میرا افسانہ چھین لیا گیا، مجھ سے تمہیں چھین لیا گیا، پر کوئی مجھ سے تمہاری آنکھیں نہیں چھین سکتا، کوئی مجھ سے تمہاری خوشبو نہیں چھین سکتا۔
میں آج بھی تمہاری آنکھوں کو لئے، تمہاری خوشبو کو تلاش کرتا ہوا، وہی پھولوں کا گلدستہ ہاتھوں میں لئے، تم سے ملنے جاتا ہوں۔ جہاں اب تم بہت پرسکون لگتی ہو۔ جہاں اب کوئی تمہیں تمہاری نیند سے نہیں جگاتا۔ مجھے وہاں ہی تمہاری خوشبو ملتی ہے۔ وہاں تمہارے قدموں میں بیٹھ کے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں۔ تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تمہاری محبت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے بھی دنیا میں آنے کا مقصد مل گیا ہے۔ تمہاری محبت نے مجھے پاک کر دیا ہے اور میں اب تمہاری محبت کو لئے اس لالچی دنیا کو لالچ سے پاک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس معاشرے کو محبت کی خوشبو میں مہکانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
افسانہ لکھتا ہوں میں،
تمہارا اور اپنا،
نام لکھتا ہوں میں،
افسانہ لکھتا ہوں میں،
)مسافر(