خانہ بدوشوں کے دیس میں
قسط نمبر6
جب دو تین دن گزر گئے تو ملعوم ہوا کہ وہ یہاں سے بھی مفرور ہوچکا ہے
اسی طرح کے وہاں کئی کیس آتے تھے اسی مطلب یہ بستیاں جرائم پیشہ لوگوں کی بہترین پناہ گاہیں تھیں
چھپنے اور بوقت ضرورت فرار کے بہت سارے راستے اور جگہیں یہاں موجود تھیں قانون نافذ کرنے والے لوگ اندر آتے بھی تو سامنے نظر کے سامنے ننگ دھڑنگ بچے ٫ غربت زدہ آنکھیں مسکین اور غریب لوگ دکھائ دیتے کسی کو کیا معلوم کہ یہاں نامی گرامی جارئم پیشہ لوگ چھپے بیٹھے ہیں۔
اسی طرح اس بستی میں کچھ عجیب و غریب رواج بھی تھے ۔ جیسے ایک رواج یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی عورت خریدتے تھے اور قیمت کا تعین خوبصورتی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی یہ کوالٹی ہوتی تھی کہ مانگنے کا ہنر کس میں ذیادہ ہے کون سی عورت ذیادہ مانگ کر لاتی تھی اس حوالے سے یہ لوگ کئی بار شادی شدہ خواتین کی بولیاں بھی لگاتے تھے ۔
اس کے علاؤہ ان لوگوں کا ایک اور رواج بھی تھا کہ یہاں اگر کسی فرد نے کسی لڑکی کو پسند کرلیا تو وہ بھاگ جاتے تھے اور بعد ازاں ان کا راضی نامہ کچھ ان شرائط پہ ہوتا کہ جو لڑکا ہے اس کا خاندان لڑکی والوں کو چند لاکھ روپیہ بھی دے گا اور ساتھ میں اپنے خاندان سے دو رشتے بھی دے گا۔
اور یہ رواج اتنا قبیج تھا اور وہ لوگ اس میں اتنا دھنسے ہوئے تھے کہ
اس میں عجب طرح کی چالیں بھی کھیلتے ۔
کئی بارایسا ہوتا کہ لڑکی کے والدین یا دیگر سرپرست لڑکی اور لڑکے کو خود کھل کر کھیلنے کا موقع دیتے بلکہ لڑکی کو ہرطرح سے گائیڈ بھی کرتے اور بالآخر اس نہج پہ لے آتے کہ لڑکا اسے لیکر فرار ہوجاتا چونکہ لڑکی اپنے والدین سے رابطے میں ہوتی اس لیے جلد ہی ٹریس بھی کرلیے جاتے اور بعد میں لڑکی والے پیسے بھی بٹور لیتے اور لڑکیاں بھی ۔
اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک آٹھ سال کی لڑکی کی لڑکی کا نکاح اسی رواج کے تحت چالیس سالہ مرد سے کیا گیا کیونکہ اس حوالے سے کسی جوان عورت کی شرط نہ ہوتی تھی خاندان میں جو غیر شادی شدہ دستیاب ہوتی اسی سے نکاح کردیا جاتا
بہن ٫ بیٹی بھتیجی یا جو بھی ہو
پھر ان کا وہاں بڑا جشن ہوتا جس پہ دشمنوں کی لڑکی سے نکاح کرنے پہ ناچ گانا ہوتا البتہ لڑکی کے نکاح کے بعد اتنا ضرور کرتے تھے کہ اس کے بالغ ہونے تک رخصتی نہیں کرتے تھے ٫
اس کے علاؤہ چونکہ یہ پیشہ ور بھکاری تھے اس لیے یہ بہترین اداکار بھی ہوتے تھے مانگتے وقت ان کے چہروں سے جو لاچاری اور مسکینی ٹپکتی ہے اصل میں یہ سب اداکاری ہوتی ہے اور جو ان کو مانگنے پہ نہ دے اسے یہ لوگ وہ وہ گالیاں دیتے ہیں کہ بسسس۔۔
ان کا اصل روپ دیکھنا ہو تو ان کی بستی میں ان کی باطنی لڑائیاں دیکھنی چاہیں خاص طور پہ عورتوں کی لڑائیاں۔
یہ لڑائی خالصتاً گالیوں کی ہوتی ہے مجھے یقین ہے کہ قدرت اللہ شہاب اگر ان کی گالیاں سن لیں تو مہاراجہ گلاب سنگھ کے دربار میں جس عورت کو گالی دینے پہ انعام ملا تھا اس کا ذکر کرنے کی بجائے ان کا ذکر کریں
گالی سے ذیادہ گالی دینے کا انداز دلچسپ ہوتا ہے وہ نظارہ قابل دید ہوتا ہے جو عورت گالی دیتی ہے وہ بالکل جاپانیوں کی مانند (جیسے وہ سلام کرتے وقت جھکتے ہیں)
جھک جاتی ہے اور لمبا سانس لیتی ہے اس کے بعد اسی سانس کے دوران آہستہ آہستہ سیدھی ہوتی ہے اور اس سیدھے ہونے کے دوران اس کے منہ سے ایک طویل گالی نکلتی ہے جو اس کے کھڑا ہونے کے کچھ دیر بعد تک جاری رہتی ہے اس کے بعد وہ خاموش ہوجاتی ہے اور سامنے والی کی باری آجاتی ہے اور وہ بھی اسی سٹائل سے گالی دیتی ہے
مجھے یہ نظارہ دیکھنے کا اتنا شوق ہوتا تھا کہ جیسے ہی شور مچتا میں سب کچھ چھوڑ چھڑا کر وہاں پہنچ جاتا اور سکون سے تماشا دیکھتا ۔
اسی طرح ان لوگوں کے کچھ عجیب سی عادتیں تھیں بحثیت مجموعی ہم ان کو بگڑی ہوئی قوم کہہ سکتے ہیں سارا سال یہ لوگ باہر سے مانگ کر کھاتے تھے بہت کم ایسا ہوتا کہ ان کے چولہے جلتے مگر جیسے ہی رمضان المبارک آتا ان کی ٹائمنگ یکسر تبدیل ہوجاتی ۔۔ صبح سات بجے ان کے تندور جل اٹھتے دن کو چولہے جلتے اور کھانے پکتے اور شام تک یہ لوگ کھاتے پیتے موج مارتے شام ہوتے ہی یہ مانگنے نکلے جاتے اور افطاری کے ٹائم مانگ کر لے آتے ہٹے کٹے لوگ روزہ نہ رکھتے کئی بار پانی بھرنے آتے تو سگریٹ لگائے ہوتے اس ٹائم میرا دماغ گھوم جاتا کئی بار میں ان سے الجھ بھی پڑتا لیکن بہرحال یہ بگاڑ تو تھا ان کے اندر ایک دن ہم نے اپنے چوکیدار کو کہ سن کر اور شرمندہ کرکر کے روزی رکھوا دیا کہ شرم کرو دو دو شادیاں کی ہوئ ہیں چھے بچے ہیں تمہارے اور ایک دن روزہ نہیں رکھ سکتے ابا جی نے کہا بھی کہ یہ روزہ نہیں رکھ پائے گا لیکن میں نے اور قاری صاحب نے رکھوا دیا
اور وہی ہوا شام تین بجے تک اس کی حالت خراب ہوگئی بڑی مشکل سے افطاری تک پہنچا اور رات کو اسے دست اور الٹیاں شروع ہوگئے اگلے تین دن وہ دوائ لیتا رہا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔