ہتھوڑا گروپ

2019-11-07 12:36:18 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 7

"ہتھوڑا گروپ"

 

1985 کراچی پاکستان۔۔۔

      رات کافی ہو گئی تھی مگر شاہ رخ کی دادی ابھی جاگ رہی تھی۔ وہ اپنے گھر میں اکیلی تھی کہ اسے گھر کی چھت پر کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ اس نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی کی آواز بلند کی تا کہ اگر کوئی چور ہو تو سمجھے کہ گھر موجود افراد ابھی جاگ رہے ہیں۔ رات کی اس تنہائی میں اچانک برابر کے کسی دوسرے گھر سے ایک شخص کی تیز آوازیں آنے لگی "چور چور چور"۔

تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص کی آواز آئی ، "وہ رہا پکڑو اسے جانے نہیں پائے"

شاہ رخ کی دادی کی دل کی دھڑکنیں اب انتہا کو چھونے لگی تھی اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے اس بات کا شکر بھی ادا کیا کے اس نے چور کے بھاگنے کی آوازیں اچھی طرح سنی۔ اس کے بعد محلے کے کافی افراد باہر نکلے اور معاملے کا جائزہ لیا۔ محلے والے جسے ایک عام چور سمجھ کے واپس سو گئے تھے انہیں صبح معلوم ہوا کہ وہ چور نہیں بلکہ ایک بے رحم قاتل تھا۔ وہ بھاگنے میں کامیاب تو ہو ہی گیا تھا پر ساتھ ساتھ اسی رات وہ اپنا ہدف بھی پورا کر چکا تھا۔ وہ اس رات اپنے ظالم ہھتیار سے پڑوس میں کسی بے گناہ رہائشی کا سر کچل چکا تھا۔

یوں تو کراچی کوئی پرامن شہر نہیں پر پھر بھی کراچی کی عوام اس وقت شدید خوف میں مبتلا ہوئی جب شہر کے مختلف علاقوں سے قتل کی ایسی کئی وارداتیں سامنے آئیں جس میں قتل کا طریقہ کار ایک تھا۔

شہر کے مختلف مقامات پر رات باہر گلیوں اور پارکوں میں راہگیروں اور گھروں میں سوئے لوگوں کے سر کچل کر انہیں اذیت ناک طریقے سے ہلاک کیا جانے لگا۔ تمام مقتولین کے سر پہ کسی بھاری چیر سے وار کیا گیا تھا۔ مگر وہ پراسرار قاتل کون تھا اور اس کا مقصد کیا تھا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے پولس کو ہمیشہ چکرائے رکھا۔

اموات کی تعداد میں اب اضافہ ہو چکا تھا۔ پولیس اور دیگر اداروں پہ دباؤ بڑھ چکا تھا.

پورے سات افراد کے قتل کے بعد بھی نا قاتل گرفتار ہوا اور نا ہی پولیس کو کوئی سراغ مل سکا۔

عوام کے خوف نے مذید شدت تب اختیار کی جب اخبار میں ایک بھکاری کا بیان چھپا۔

کہتے ہیں کراچی شہر غریبوں کی ماں ہے۔ وہ غریب ہی نہیں بلکہ بھکاری تھا۔ دن بھر بھیک مانگ کر وہ رات کو کسی بھی سڑک کے کنارے کو اپنی ماں کی گودھ سمجھ کے سو جایا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ برنس روڈ کی کسی سڑک کے کنارے ابھی کچی نیند ہی سویا تھا کہ اسے سوتے ہوئے گاڑی کے انجن کی آواز سنائ دی وہ ابھی اٹھا نہیں تھا کہ اس نے دیکھا ایک سوزوکی ایفکس کار سے چہروں پر ماسک پہنے ہوئے چار لمبے لمبے آدمی تیزی سے اترے اور اس کی طرف بڑھنے لگے۔ اس نے خطرہ محسوس کیا اور اٹھنے میں تیزی دکھائی ۔ وہ اٹھ کے بھاگنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے ایک بھاری چیز زور سے اس کے سر سے ٹکرائی اس کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چاہ گیا۔ دو دن بعد جب اسے ہوش آیا تو خود کو جناح ہسپتال میں پایا۔ اس کا کراچی شہر میں کوئی نہیں تھا مگر جب وہ ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کچھ لوگ آپس میں اس کے ہوش میں آنے کی باتیں کر رہیں تھے۔ ڈاکٹروں نے ہوش میں آنے کے کچھ دیر بعد اس سے حال پوچھا اور اسے بتایا کے کچھ پولیس اور اخبار والے اس کا بیان لینا چاہتے ہیں کینکہ وہ واحد خوش نصیب شخص ہے جو اس پراسرار قاتلانہ حملے کے بعد زندہ بچ گیا ہے۔

اس نے پولیس اور اخبار والوں کو بتایا کہ قاتل ایک نہیں بلکہ گروپ کی شکل میں تھے اور ان میں ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑا تھا۔

اور اس بھکاری کے بیان کے بعد اگلے دن کرچی کے تمام اخبارات کی اہم سرخی "ہتھوڑا گروپ" تھی۔

پولیس نے کاروائیاں تیز کر دی اور چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا مگر اس کے باوجود شہر کے کسی نہ کسی علاقے سے ہتھوڑا گروپ کی کاروائی کی خبر سننے میں آ جاتی تھی۔ اس لئے شہر کے کافی علاقوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چوکیداری کا نظام شروع کیا۔ مگر کئی مہینوں تک یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔

کراچی کے علاوہ اب دیگر شہروں میں بھی ہتھوڑا گروپ کی موجودگی کی افواہیں گردش کرتی رہی۔

اور بالآخر یہ سلسلہ آہستہ آہستہ خود ہی ختم ہوگیا مگر عوام کو آج بھی معلوم نہ ہوسکا کہ اس سلسلے کے پیچھے کون تھا اور اس کا مقصد کیا تھا۔

اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ تمام کاروائیاں صرف کراچی کی عوام کو خوفزدہ کرنے کے لئے کی گئیں تھی مگر خوفزدہ کرنے کا مقصد کیا تھا اس پہ آج بھی لوگوں کا اپنا اپنا خیال ہے۔

 

ہتھوڑا گروپ نہیں ڈکٹیٹر ضیاء گروپ:

 

یہ ضیاءالحق کا دور تھا۔ ضیاءالحق نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں پہ پابندی لگا کے فوجی حکومت قائم کردی تھی اور ظاہر ہے کے ملک کے کافی سویلین اداریں اس حکومت کے خلاف تھے۔ جمہوریت کے ہامی آج بھی ہتھوڑا گروپ کو ضیاءالحق کا گروپ کہتے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ضیاءالحق نے عوام اور میڈیا کو خوفزدہ کر کے ان کا دھیان سیاست سے ہتایا اور اس کی آڑ میں اپنی ڈکٹیٹرشپ کو مکمل تور پر مسلط کیا اور جب یہ مقصد پورا ہوا تو گروپ ختم کردیا گیا۔

 

روسی ایجنسی کا ہتھوڑا گروپ:

ہتھوڑا گروپ جن دنوں سرگرم تھا انہی دنوں سویت یونین اور افغانی مجاہدین کے درمان جنگ جاری تھی روسی سویت یونین کا پاکستان پہ یہ الزام تھا کہ پاکستان ان کے خلاف افغانی مجاہدین کی پوری مدد کر رہا ہے۔ روسی ایجنسی اس وقت امریکہ کی ایجنسی سی آئی اے کی طرح طاقتور اور بدنام زمانہ ایجنسی سمجھی جاتی تھی اس لئے عوام کا خیال تھا کہ یہ روسی ایجنسی کا پاکستان کا افغانی مجاہدین کو سپورٹ کا رد عمل ہے۔

 

لیبین حکومت قذافی کا ہتھوڑا گروپ:

 

جمہوریت کے حامیوں نے ہتھوڑا گروپ کو ڈکٹیٹر قذافی کا گروپ بھی کہا۔ ان کا کہنا ہے ڈکٹیٹر قذافی چونکہ ڈکٹیٹر ضیاء کا حامی تھا اور جمہوریت کا سخت مخالف تھا۔ وہ ضیاء کو پاور میں دیکھنا چاہتا تھا اس لئے ضیاء کی حکومت کو مسلط کروانے کے لئے لیبین ایجنسی کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ پاکستان میں خوف کا سما قائم کرے تاکہ ضیاء کو آسانی سے حکومت قائم کرے۔ اس خیال کے لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ان باتوں کے بعد میں کئی ثبوت ملے مگر ایک مسلم ملک ہونے کی وجہ سے لیبیا کی ان کاروائیوں پہ پردہ ڈالا گیا۔

 

ہتھوڑا گروپ ایک شیطانی مذہب:

ایک انگریزی اخبار نے دعوی کیا تھا کہ ہتھوڑا گروپ کراچی میں موجود شیطان کے پجاریوں کا گروپ ہے جو اپبے شیطانی مقاصد پورے کرنے اور شیطان کو خوش کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے کئی افراد کے انٹرویو بھی شائع کیے تھے جنہوں نے کراچی میں ایسے لوگوں کو شیطان کی عبادت کرتے دیکھا تھا۔

 

ہتھوڑابگروپ یا کراچی کی پولیس۔

کراچی کی پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہر میں کوئی بھی جرم کی بڑی واردات ایسی نہیں ہوتی جس میں پولیس شامل نا ہو۔ ہتھوڑا گروپ سے پہلے ایسے کئی کیسز سامنے آئے تھے جس میں خود پولیس کے اعلی حکام شامل تھے۔ ایک ڈکیت گروپ ایسا بھی پکڑا گیا تھا جس کے تمام ممبران پولیس والے تھے وہ رات کو دوران ڈیوٹی وردی تبدیل کر کے شہر میں وارداتیں کیا کرتے تھے۔

 

انڈین ایجنسی:

 

پاکستان کی زیادہ تر عوام نے ہتھوڑا گروپ کا الظام اپنے روایتی دشمن "را" پہ لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈین ایجنسی کو پاکستان میں فوجی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لئے انہوں نے ملک میں انتشار پھیلانے اور فوجی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے ایسا کیا۔

 

جرائم پیشہ افراد:

انہی دنوں کے ایک عوامی سروے کے مطابق زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال بھی تھا کے ہتھوڑا گروپ کوئی گروپ نہیں بلکہ عام جرائم پیشہ افراد کا گروپ ہے۔ جو لوگوں میں اپنا خوف پیدا کر کے انہیں لوٹتے ہیں۔ پولیس سے معاملہ سنبھلا نہیں تو معاملے کو عوام کی نظر میں پیچیدہ دکھانے کے لئے اسے ہتھوڑا گروپ کا نام دیا۔

 

ڈیتھ سکواڈ :

 

ہتھوڑا گروپ کے زیادہ تر شکار سڑکوں پہ آوارہ لوگ اور بھکاری ہوا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کراچی چونکہ ایک بڑا اور اہم شہر ہے تو اس شہر کو ایسے لوگوں سے صاف کرنے کے لئے حکومت نے یہ خفیہ گروپ بنایا تاکہ شہر سے ایسے لوگوں کا صفایا کیا جائے اور سیاحت پہ آئے لوگ پاکستان کے اس مشہور شہر سے متاثر ہوں۔

 

پاکستانی سیاست۔

بدقسمتی سے پاکستان کو کبھی مخلص سیاستدان میسر نہیں آئے۔ حال ہی میں بدنام زمانہ ڈاکٹر عاصم حسین نے رینجرز کے ریمانڈ میں جہاں ہزاروں جرائم کا اقرار کیا وہاں ڈاکٹر عاصم نے یہ اعتراف کر کے اداروں کو حیران کردیا کہ وہ ہتھوڑا گروپ کا ممبر بھی رہا ہے۔ اس بیان کی تفصیلات ابھی تک نہ آسکی مگر اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ہتھوڑا گروپ ایک سیاسی کھیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔

 

پولیس کے مطابق ہتھوڑا گروپ کا آخری کیس 1986 میں ریکارڈ ہوا۔ مگر آج تک کوئی ایک بھی گرفتاری وجود میں نہیں آ سکی۔ آج تقریباً تینتیس سال گزرنے کے بعد بھی ہتھوڑا گروپ پاکستان کی عام عوام کے لئے ایک معمہ ہی ہے۔