بھوت

2019-11-08 12:46:05 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 8

"بھوت"

از قلم

"امان سعید خان" 

 

            بھوتوں کے وجود کا نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسانی تاریخ۔ کئی قبل از تاریخ کھنڈرات اور قدیم غاروں کی دیواروں پر بنی تصویریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اپنے شعور کے ابتدائی دور میں بھی انسان بھوتوں پر یقین رکھتا تھا۔

آج کی دنیا میں بھی ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو بھوتوں کو دیکھنے، یا ان سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھوتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

بھوت (ghost) کا لفظ اپنے عام ترین مفہوم میں کسی جاندار (بطور خاص انسان) کے اپنی موت کے بعد اپنے جسمانی وجود سے باہر ظاہر ہونے پر ادا کیا جاتا ہے۔ اپنے اس بنیادی یا لغوی مفہوم کے علاوہ بھی یہ لفظ متعدد مواقع پر مستعمل ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا تصور کہ جس میں کوئی جاندار یا جاندار نما (متحرک) شے، جسم یا ہَیولٰی تخیل کیا جاتا ہو بھوت کے زمرے میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کے ملتے جلتے تصورات کے لیےچھلاوا اور آسیب کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ گو عام طور پر بھوت کے تصور میں کسی خبیث روح کا خیال شامل ہوتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا اور بعض اوقات اس کو نہایت معتبر افکار کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے جیسے عیسائیت کے نظریۂ تثلیث میں عام طور پر اردو میں مقدس روح کا لفظ ملتا ہے لیکن انگریزی میں اس کو مقدس بھوت (holy ghostt) بھی لکھا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ مظہرِ اللہ (manifestation of God) کے نزدیک آجاتا ہے۔ بچوں کے قصے کہانیوں میں بھی ہمیں بھوت کا بے تحاشا ذکر ملتا ہے- اور اس بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بھوت درحقیقت انسان کا تخیل ہی ہے اور اس تخیل کے مطابق بھوت اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتا ہے اور مردانہ جنس کی سبھی خصوصیات اپنے اندر کمال درجے میں رکھتا ہے بعینہ ایسے ہی جیسے قصے ،کہا نیوں کی پریاں بے حد حسین ہوتی ہیں۔

 کیا واقعی دنیا میں بھوتوں کا وجود ہے؟

یہ ایک مشکل سوال ہے۔

 سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ سب ایک لغو بات ہے اور بھوت جیسی کسی ہستی کا کوئی وجود نہیں ہوتا لیکن بھوتوں سے متعلق اتنی روایات لوگوں میں عام ہیں کہ اس مظہر کے بارے میں شک کی گنجائش زیادہ نہیں رہتی۔ دنیا بھر میں قریباً ہر قوم اور معاشرے میں بھوتوں کے بارے میں مسلمہ اعتقادات موجود ہیں اور اس حوالے سے ایسے شواہد بھی موجود ہیں جنھیں جھٹلانا آسان نہیں ہے۔

بھوتوں کی ایسی کئ تصویریں اور ویڈیوز بڑی تعداد میں یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی کئی سائٹس پر موجود ہیں جس کی ڈیجیٹل دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے تصدیق کی ہے کہ ان تصاویر میں کوئ ایڈیٹنگ نہیں کی گئ ہے اور سو فیصد اصلی تصاویر ہیں۔

لیکن کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زمین کے مخصوص مقناطیسی میدان، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض مقامات پر ایسے چھوٹے چھوٹے برقی دائرے بن جاتے ہیں، جو الیکٹرانک آلات پر بھوت کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔

 

بھوت کے متعلق مشہور واقعات ۔

         بروک سمتھ کا تعلق نیوزی لینڈ کے معروف جہاز رانوں میں ہوتا تھا اور اس نے طویل عمر پائی اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر ہی میں گزارا۔ وہ کتاب میں ایک واقعہ بیان کرتا ہے جسے یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ 1920ء کی دہائی میں پیش آیا تھا۔ اس واقعہ میں بروک سمتھ ایک سائے کا ذکر کرتا ہے جو ایک رات جہاز Orowaiti کے ٹینکر پر چھا گیا تھا۔ ہوا یوں کہ جہاز کے عملے کے ایک شخص نے خود کشی کرلی۔ بعدازاں اس شخص کے بھوت کو جہاز میں کئی جگہوں پر دیکھا گیا جس سے جہاز کے عملے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اکثر عملے کے اراکین کو تیز سنسناتی ہوئی آواز سنائی دیتی تھی لیکن مرے ہوئے شخص کا ہیولہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک صبح چار بجے کے قریب بروک سمتھ جہاز کے جنگلے کے قریب کھڑا تھا کہ اسے کسی شخص کی سرگوشی سنائی دی جو اسی شخص کی آواز میں تھی جس نے کچھ عرصہ پہلے خود کشی کی تھی اور جس کے بھوت کے بارے میں عملے کے اراکین میں چہ میگوئیاں گردش کر رہی تھیں۔ سرگوشی سن کر بروک سمتھ بھاگتا ہوا سیڑھی سے نیچے اترا اور جہاز کے عرشے تک گیا۔ اس نے دیکھا کہ کالے کوے جیسی تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ آگے فاصلے پر کچھ موجود تھا۔ بروک سمتھ لکھتا ہے کہ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور غور سے سننے کی کوشش کرنے لگا۔ شروع میں اسے معمول کی چرچراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دی جو تیز ہوا کے چلنے سے جہاز میں اکثر پیدا ہوتی ہے۔ تاہم وہ عرشے کے پچھلے حصے میں چلا گیا جہاں اسے پھر سے وہی پراسرار سرگوشی سنائی دی۔ اسے یہ تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہا جا رہا تھا لیکن اتنا انداز ہوا کہ کوئی اسے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ آواز میں کرب کا احساس موجود تھا۔ بروک سمتھ نے آواز کے منبع کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا بس ایک طرح کی شدید تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی شے کا سایہ سا جہاز کے ٹینکر پر چھایا ہوا تھا ۔ تاہم یہ واحد واقعہ نہیں تھا جو اسے پیش آیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ بہت سال پہلے جب وہ جہاز میں ملازم نہیں ہوا تھا‘ اسے پیش آیا تھا اور اس نے اس واقعہ کو بھی اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بروک سمتھ نیوزی لینڈ کے ایک شہر کرائسٹ چرچ میں ایک بینک میں ملازم تھا۔ اسے بینک ہی میں اوپر کی منزل میں ایک فلیٹ رہائش کے لیے ملا ہوا تھا۔ بینک نے اسے ایک ریوالور بھی دیا ہوا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ بینک کی حفاظت کرے اور اسے ڈاکوؤں کے ممکنہ حملے سے بچائے۔ اس حوالے سے اسے چوکنا رہنا پڑتا تھا۔ بروک سمتھ نے ڈاکوؤں سے متوقع مقابلے کے پیش نظر ریوالور چلانے کی ریاضت بھی خود کو بہم پہنچائی تھی اور وہ ریوالور کو ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھتا تھا خاص طور پر رات کو سوتے ہوئے وہ ریوالور اپنے سرہانے کے پاس ہی رکھتا تھا۔ ایک رات وہ کسی طرح کے کھڑاک کے نتیجے میں اچانک بیدار ہوا اور اس نے دیکھا کہ اس کا سانس پھولا ہوا تھا لیکن یہ دیکھ کر اس کی سٹی گم ہوگئی کہ اس کے بستر کے پاس سفید کپڑوں میں ملبوس ایک عورت عبادت کررہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی۔ عورت کو دیکھ کر اس کے دماغ میں سے بچی کھچی نیند بھی رفع ہوگئی اور اس نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے فوراً یہ سوچا کہ یہ ڈاکوؤں ہی کی ساتھی کوئی عورت ہے۔ اس نے فوراً اپنے سرہانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ریوالور اٹھا کر عورت کا نشانہ باندھا لیکن اتنی دیر میں عورت اچانک ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہوگئی۔ وہ فوراً ہی بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور فلیٹ میں ادھر ادھر بھاگا تاکہ اس عورت کا سراغ پا سکے لیکن اسے عورت کہیں بھی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی وہ یہ جان سکا کہ عورت اس کی فلیٹ میں کہاں سے داخل ہوئی تھی کیوں کہ فلیٹ کے سبھی دروازے بند تھے اور کھڑکیاں بھی بندتھیں۔ نہ ہی کہیں کوئی نقب لگی ہوئی تھی کہ جس سے اندازہ ہوتا کہ عورت کس طرح فلیٹ کے اندر داخل ہوئی تھی۔ یہ سارا واقعہ اتنا حقیقی تھا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی خود کو یقین نہیں دلا سکا کہ وہ عورت اس کا وہم تھی لیکن اس واقعہ کی کوئی توجیہہ وہ کبھی بھی تلاش نہیں کرسکا۔ بروک سمتھ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند بھوتوں وغیرہ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف ایسے لوگوں کے بھوت دیکھیں جنہیں آپ نہیں جانتے بلکہ بہت سے واقعات ایسے بھی ہیں جن میں ایسے افراد کے بھوت دکھائی دیئے جو معروف تھے اور جنہیں لوگ جانتے تھے۔

امریکا کا عظیم سیاسی لیڈر اور صدر ابراہام لنکن توہم پرست تھا اور بھوتوں وغیرہ پر بہت زیادہ یقین رکھتا تھا۔ اس کی سوانح عمری کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس کے مختلف مری ہوئی شخصیات کے بھوتوں سے رابطے بھی تھے جن سے وہ مختلف امور میں صلاح و مشورہ بھی کرتا تھا۔ یہ بھوت ہی اسے آنے والے زمانے کے متعلق مختلف معلومات فراہم کرتے تھے۔ مثلاً ابراہام لنکن سے متعلق اس کے باڈی گارڈ کا بیان ہے کہ اپنی موت سے کچھ روز پہلے لنکن نے اسے بتایا کہ اس نے رات کو ایک خواب دیکھا تھا جس میں اس نے دیکھا کہ ایک میت جا رہی تھی اور جب اس نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ کس کا تابوت ہے تو اسے بتایا گیا کہ امریکا کے صدر کا۔ یوں اسے اپنی موت سے پہلے ہی اپنے قتل کے بارے میں اطلاع ہوچکی تھی تاہم خود لنکن کے بھوت نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ امریکی صدر روزویلٹ نے ایک موقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے ایک سے زائد موقعوں پر ابراہام لنکن کابھوت وہائٹ ہاؤس میں دیکھا تھا۔ کچھ ایسا ہی بیان وہائٹ ہاؤس کے سٹاف نے بھی دیا کہ انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ ابراہام لنکن کابھوت وہائٹ ہاؤس کی کھڑکی میں دیکھا تھا اور ہمیشہ وہ اسی کھڑکی میں دیکھا گیا جس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اپنی زندگی میں بھی لنکن اسی کھڑکی میں کھڑے ہو کر شہر کو دیکھا کرتا اور غور و فکر کرتا تھا۔ کچھ ایسا ہی بیان روحانیت میں گہری دلچسپی لینے والی ماہر عامل اور نیدر لینڈز کی ملکہ ولہ لمینا نے بھی دیا۔ اس کے بیان کے مطابق وہ ایک روز لنکن کے کمرے میں سونے کے لیے گئی تو رات کے کسی پہر اسے دروازے پر دستک سنائی دی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے لنکن کھڑا تھا لیکن فوراً ہی وہ منظر سے غائب ہوگیا اور ملکہ کو ایسا لگا کہ جیسے وہ نیند میں ہونے کی وجہ سے یہ ہیولہ دیکھ پائی تھی لیکن یہ واقعہ ملکہ ولہ لمینا ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ ایک بار ونسٹن چرچل بھی لنکن کے کمرے میں سونے کے لیے گیا تو اسے بھی وہاں کمرے میں لنکن کا بھوت ایک طرف کرسی میں بیٹھا دکھائی دیا۔ اس کے بعد سے لنکن کے کمرے کو آسیب زدہ قرار دے دیا گیا۔ یہی نہیں امریکی صدر ٹرومین کو بھی ایک سے زائد موقعوں پر لنکن کے بھوت کو دیکھنے کا اتفاق ہوا لیکن اس بات کو اس نے ایک نیک شگون ہی سمجھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ لنکن کا بھوت ملکی سیاست کے معاملات میں دلچسپی لیتا تھا اور اسی لیے ہر مشکل مرحلے پر وہ راہنمائی کرنے کے لیے وہاں آتا تھا اور اس کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس مشکل مرحلے سے نکلنے کے لیے کوئی مشورہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ جان ایف کینیڈی اور اس کی سٹینوگرافر کو بھی ایک سے زائد موقعوں پر لنکن کا بھوت دکھائی دیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ امریکا کے ایک سے زائد صدور کو لنکن کا بھوت دکھائی دیا جس میں ظاہر ہے کچھ نہ کچھ صداقت تھی۔ کیوں کہ یہ سوچنا محال تھا کہ سبھی صدور توہم پرست تھے اور وہ جھوٹ بول رہے تھے یا ان سب کو بصری دھوکے سے واسطہ پڑا تھا اور نہ ہی آپ سب عظیم ہستیوں کی ذہنی صحت پر شک کرنے کے بارے میں سوچ سکتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک شخص کا بھوت کیوں دکھائی دیتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بے چین موت مرتا ہے اور اس کی کوئی خواہش پوری ہونے سے رہ جاتی ہے یا پھر بھوتوں کے دکھائی دینے میں بھی کوئی حکمت ہوسکتی ہے اور بھوت سوچنے سمجھنے والی مخلوق ہے اور وہ ان جگہوں اور افراد سے اپنا رابطہ نہیں توڑتے اور ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ بھوت اصل میں کسی ہونے والے واقعہ کی پیشین گوئی کی صورت میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یوں بھوت اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور وہ کسی اعلیٰ طاقت کے کارندے کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔ تاہم بہت سے واقعات بھوتوں کے بارے میں ایسے ہیں جن میں کسی فرد کا بھوت اس کی موت کے فوراً بعد اس کے جاننے والوں کو دکھائی دیا جس کا مطلب انہیں یہ اطلاع دینا تھا کہ وہ مرچکے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ یوں ہے۔ 1973ء کی ایک صبح بلینڈ فورڈ کی رہنے والی مسز مارتھا اپنے گھر کے باغیچے میں پھولوں کو پانی دے رہی تھی کہ اس نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی موجودگی وہاں محسوس کی۔ اسے لگا جیسے اس کی بیٹی وہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک گئی تھی اور اس نے واضح طور پر سنا کہ وہ اسے الوداع کہہ رہی تھی اور الفاظ یوں تھے کہ ’گڈ بائے مارتھا‘۔ ان الفاظ میں کچھ ایسی بات تھی کہ مارتھا کو فوراً ہی احساس ہوا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ کچھ افسوس ناک واقعہ ہوچکا تھا اور یہ خیال اس کے ذہن میں آیا کہ کہیں اس کی بیٹی فوت تو نہیں ہوگئی تھی جبکہ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی کیلی فورنیا میں ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئی تھی۔

 

بھوت پاکستان میں۔

         پاکستان میں بھی کافی ایسی جگہیں ہیں جہاں کئی افراد نے کچھ غیر معمولی ‘سائے’ یا سرگرمیوں کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پہلی جگہ کوہ چلتن بلوچستان ہے، چلتن کے پہاڑی علاقہ میں واقع سب سے بلند چوٹی جسے کوہ چلتن کہا جاتا ہے ایک پراسرار جگہ ہے۔ چلتن دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب 40 مردے ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہاں 40 بچوں کی رونے کی آوازیں اکثر و بیشتر سنائی دیتی ہیں۔ موہٹہ پیلس کراچی میں کام کرنے والے عملہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اکثر یہاں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ یہاں چیزیں خود بخود اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہیں۔ ڈالمیا روڈ کراچی پر آدھی رات کو سفر کرنے والے اکثر افراد نے ایک ‘دلہن’ کو دیکھا ہے۔ اسے کارساز کی دلہن کا نام دیا جاتا ہے اور وہ خوفناک چڑیل کا روپ دھار لیتی ہے۔ جھیل سیف الملوک ناران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت یہاں پریاں اترتی ہیں اور اپنی ساتھی کی موت پر روتی اور بین کرتی ہیں۔ ہاکس بے ہٹ کراچی آسیب زدہ مشہور ہے اور اسے کوئی کرایہ پر نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی یہ حماقت کرے تو وہ صبح ہونے سے قبل ہی چیختا ہوا ہٹ سے باہر آجاتا ہے۔ شمشان گھاٹ حیدر آباد بھی آسیب زدہ مشہور ہے۔ عملے کا کہنا ہے کہ رات کے وقت یہاں اکثر بچے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صبح سورج نکلنے سے قبل غائب ہوجاتے ہیں۔رات بھر پراسرار آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔شیریں سینما کراچی کو بند کردیا گیا کیونکہ یہاں غیر معمولی ‘سرگرمیاں’ دیکھنے میں آرہی تھیں۔ عملے کے مطابق سینما جب خالی ہوتا تو وہاں سے اکثر گانے اور ہنسنے کی آوازیں آتیں۔ اکثر بڑی سکرین پر کچھ لوگوں کے ہیولے بھی نظر آتے حالانکہ سینما میں کوئی نہیں ہوتا۔چوکنڈی قبرستان کراچی 600 سال قدیم اور اسے آسیب زدہ کہا جاتا ہے ۔قریب کی آبادیوں میں رہائش پذیر افراد کا کہنا ہے کہ شام ہوتے ہی یہاں پراسراریت کا راج ہوجاتا ہے اور یہاں سے غیر مانوس آوازیں اور ہیولے نظر آتے ہیں۔ قلعہ شیخوپورہ نہایت ابتر حالت میں ہے اور کوئی بھی اسے درست کروانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی افراد کے مطابق کئی صدیاں قبل اس قلعہ میں رہنے والی ملکہ کی روح اب بھی یہیں رہتی ہے اور وہ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی سخت ناپسند کرتی ہے۔

 

کراچی کی مشہور شاہراہ، شاہراہ فیصل کے متعلق کافی لوگوں کا خیال ہے کہ آسیب زدہ ہے۔ اس شاہراہ پر ایکسیڈنٹ سے مرنے والوں کے بھوت اکثر لوگوں نے دیکھے ہیں۔ یہاں اکثر اجیب و غریب واقیات ہوتے ہیں۔

میرا دوست Redio-FM میں رات کی جاب کرتا تھا۔ ہم باقی دوست اکثر اس کے ساتھ رات وہاں تفریح کرنے جاتے تھے۔ اس دن بھی میرا ایک اور دوست اس کے ساتھ تھا۔ رات کے 3 بجے وہ دونوں باہر نکلے تو انہوں نے بہت دور سے ایک بائیک والے کو دیکھا جو شاہراہ فیصل جیسی تیز ترین سڑک پہ سڑک کے مخالف سمت سے فسٹ پٹی پہ بائیک چلا رہا تھا۔ وہ سیکنڈوں کا کھیل تھا۔ میرے دوست دیکھ کے ہی سمجھ گئے کے اس بائیک والے کے ساتھ اب کیا ہوگا۔ اور پھر وہی ہوا سامنے سے سیکنڈوں میں ایک کار دکھائی دی اور اس کے بعد بائیک ہوا میں نظر آئی۔ گاڑی والا تو رکا نہیں میرے دوست وہاں پہنچے تو وہ موقے پہ ہی مر چکا تھا۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ایک تو وہ مخالف سمت سے آرہا تھا دوسرا وہ پیچھے دیکھ رہا تھا۔ جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو۔ اور مرنے کے بعد بھی اس کے چہرے پہ خوف کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔

اس وقت سڑکیں خالی تھی وہ سروس روڈ پہ بھی تیزی سے بائک چلا سکتا تھا۔ یا کم از کم اسے فسٹ پٹی پہ تو بلکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے پیچھے کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا پھر بھی وہ پیچھے کی طرف کیوں دیکھ رہا تھا۔

 

بھوت یا انسان۔

آرمی، پولیس اور دیگر فورسز سے جڑے لوگوں نے کبھی بھی کوئی ایسا کیس نہیں پکڑا کہ جس میں براہ راست کسی بھوت کا عمل دخل ہو۔ وہ اکثر ایسے کیسز کو انسان کی کارستانیاں قرار دیتے ہیں۔ اور ایسے کئی کیسز سامنے بھی آئے ہیں جس میں لوگ کسی جرائم پیشہ افراد کی کسی کاروائی کو بھوت کی کاروائی سمجھتے رہے ہیں۔

اس کا انداذہ سلسلہ معمہ کے پہلے کیس "خون" پر اسی گروپ کے ایک پولیس والے حبیب پلیجو صاحب کے کمنٹس سے لگایا جا سکتا ہے۔

اب آپ کو جاوید چودھری کے کالم سے نقل کیا گیا ایک واقعہ سناتا ہوں۔

انڈیا کے ضلع نینیتال کے ایک گاؤں میں ایک سر کٹا بھوت تھا جو اکثر آدھی رات کے وقت گاؤں کی شہر کو جاتی بڑی سڑک پر دکھائی دیتا تھا اور آنے جانے والوں کو نقصان پہنچایا کرتا تھا۔ اگر وہ دکھائی نہ بھی دے تو رات بھر گاؤں والے اس کے رونے کی آواز سن سن کر خوف زدہ رہتے تھے۔ تب گاؤں کے چند جوانوں نے اس بھوت کا کھوج لگانے کی ٹھانی اور ایک رات اکٹھے ہوکر اس طرف چل نکلے جدھر یہ بھوت اکثر دکھائی دیتا یا اس کی آواز آتی تھی۔ ان میں ایک نوجوان اوم تارا تھا جسے کالے جادو کی کچھ شد بد تھی اور وہی باقی جوانوں کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ اسی نے بعدازاں ایک اخبار کو اپنی کہانی سنائی۔وہ نوجوان ایک جگہ درخت کی اوٹ میں ہو کر بھوت کا انتظار کرنے لگے۔ رات گہری ہوگئی تو ان نوجوانوں کو فاصلے پر وہی آواز سنائی دی جیسے کوئی چیخ رہا ہو اور جیسے کوئی شدید تکلیف میں مبتلا ہو۔ تمام نوجوان چوکنے ہوگئے اور انتظار کرنے لگے کہ کیا واقعی بھوت ظاہر ہوتا ہے یا پوشیدہ رہتا ہے۔ آخر انھوں نے فاصلے پر ایک ہیولہ دیکھا جو آہستہ آہستہ ان کے قریب ہو رہا تھا اور اس بات میں بھی اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا تھا کہ آواز اسی ہیولے کی سمت سے ہی آرہی تھی اور یہی وہ بھوت تھا جس کے خوف نے سارے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جب وہ ہیولہ قریب آیا تو نوجوان ایک دم سے کود کر سامنے آگئے اور اس ہیولے کی طرف بڑھے۔ یہ دیکھ کر ہیولہ ٹھٹھکا اور فوراً ہی معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگا کر واپس ہوگیا اور بھاگنے لگا لیکن نوجوان جانتے تھے کہ ایسا ہوسکتا تھا اس لیے انھوں نے اسے بھاگنے کی مہلت نہ دی اور جلد ہی اس جا لیا۔ تب انھوں نے دیکھا کہ وہ ان کے گاؤں ہی کا ایک کسان تھا اور اپنا سر چادر میں ڈھانپے ہوئے تھا۔ نوجوانوں کو جب اندازہ ہوا کہ یہ کوئی بھوت نہیں تھا بلکہ ان کا جانا پہچانا شخص تھا تو انھوں نے اسے زد و کوب کرنا شروع کیا‘ تب اپنی جان بچانے کے لیے وہ کسان گڑگڑایا کہ اسے معاف کردیا جائے اور تب اس نے انھیں بتایا کہ ایسا وہ اس لیے کرتا تھا کیوں کہ اس نے اپنے کھیتوں کو پانی دینا ہوتا تھا۔ یوں آوازیں نکالنے سے وہ لوگوں میں خوف پیدا کرنا چاہتا تھا تاکہ کوئی اس طرف نہ آئے اور نہ یہ دیکھ سکے کہ وہ کسی دوسرے کے کھیت میں سے پانی کاٹ کر اپنے کھیت میں لگا رہا ہے۔ یوں اس بھوت کا راز بستی والوں پر آشکارا ہوا۔

ایک اور کہانی جو کچھ مہینے پہلے سوشل ویب سائٹس پہ بہت نظر آئ۔

 ایک ”چڑیل“ جسے اسلام آباد کے علاقے راول ڈیم میں بارہا دیکھا گیا۔

اس خبر کے منظرعام پر آنے کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تجسس کی ایک لہر دوڑ گئی مگر جب خبر روزنامہ پاکستان کی ٹیم تک پہنچی تو انہوں نے اس معاملے کی تحقیق کرنے کی ٹھانی اور انکشاف ہوا کہ یہ کوئی جن بھوت یا چڑیل نہیں بلکہ کوئی انسان ہی تھا جو ماسک پہن کر جن بھوت کا روپ دھارے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے میں مصروف تھا۔

 

بھوت یا ہمارا وہم۔

     یہ 2011 کی بات ہے جب میں دوستوں کے ساتھ اپنے گاؤں گیا تھا۔ ہم سب دوست ایک دوست کے گھر سویا کرتے تاکہ گاؤں کی ٹرپ کا پورا پورا لطف اٹھایا جائے۔ میں دن کے پیچ میں تھوڑا وقت نکال کے اپنے تایا کے گھر بھی چلا جایا کرتا تھا۔ کئ سال بعد گاوں جانے کی وجہ سے تایا اور کزن مجھ سے اس بات پہ ناراض رہتے تھے کے میں ان کے ہاں بہت کم وقت کے لئے جاتا تھا۔ ایک دن کزن نے ضد پکڑی اور مجھے کہا آج دوستوں کو فون کرو آج رات تم ہمارے ساتھ کھانا کھاوگے اور رات بھی یہیں گزارو گے۔ مجھے مجبورا ہاں کرنی پڑی۔

ہمارے اور تایا کے گھر کا مین گیٹ ایک ہی ہے اس لیئے کزن کو وہاں سونا پڑتا ہے تاکہ رات میں کوئی چور وغیرہ نہ آئے۔ رات کے کھانے اور طویل گپ شپ کے بعد ہم سونے سے پہلے سخت سردی کے بائیس چارپائیوں کو رضائیوں سے پیک کیا اور رضائیوں کے اندر اپنے اپنے موبائل میں لگ گئے۔ ہمارا گھر ہمیشہ خالی رہتا ہے اس لئے گاؤں والے اس گھر کو آسیب زدہ بھی تصور کرتے ہیں۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد مجھے کمرے کی لکڑی کے دروازے کی کنڈی کی کھلنے کی آوازیں آنے لگی۔ میں نے آوازوں کو غور سے سنا اور وہ بالکل ہی کنڈی کی آواز تھی مجھے ڈر محسوس ہوا کے کمرے میں کوئی آنا چاہتا ہے۔ اتنے میں کزن نے رضائی سے سر نکالا اور کانوں میں لگی موبائل کی ہینڈ فری نکالی تو اسے بھی آواز آئ۔ اس نے میری طرف دیکھ کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کے مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی اور دبے قدموں کے ساتھ نیچے اترا۔ میں اب اصل خوف محسوس کرنے لگا تھا۔ کزن نے اچانک بلب آن کیا تو اس کے ہاتھ میں مجھے اس کی پشاوری کھیڑی نظر آئی اور اس کے بعد اس نے گندم کے ڈرم کی طرف زوز سے کیڑی دے ماری۔ کمرے میں چوہے کی چیخنے کی آوازیں آئ۔

میں جسے دروازے کی کنڈی کی آواز سمجھ رہا تھا وہ گندم کے بڑے ڈرم کی آواز تھی جس سے ایک چوہا گندم نکانے کی کوشش کر رہا تھا۔

میرے وہم نے اس آواز کو بالکل کنڈی کی آواز بنا دیا تھا کیونکہ میں وہاں سونے سے پہلے ہی ڈر محسوس کر رہا تھا۔

اس طرح کچھ لوگ کسی بے جان چیز کا ہیولی دیکھ کے اپنے وہم کی وجہ سے اسے بھوت سمجھ لیتے ہیں۔

 

بھوت اور سائنس۔

مائنڈ سائنس کے ماہرین نے دماغ کو دھوکا دے کر بھوت کی موجودگی کا احساس دلانے کا کامیاب تجربہ کیا۔

ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے سوئٹزر لینڈ میں یہ دلچسپ تجربہ کیا جس میں لوگوں کے دماغ کو بے وقوف بنا کر بھوتوں کی موجودگی کا احساس دلایا گیا۔ تجربے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ آسیب نامی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ہمارا دماغ ہمارے اعصاب کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ماہرین نے ایک روبوٹ کو استعمال کیا جس نے سنسر سگنلز کا استعمال کرتے ہوئے رضاکاروں کو آسانی سے بھوت یا غیر مرئی چیز کی موجودگی کا احساس دلا دیا۔ تجربے سے پہلے رضاکاروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔ سائسندانوں کا کہنا تھا کہ غیر یقینی حالات میں کسی کے چھونے کا احساس کسی کے بھی دماغ کو چکرانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ تحقیقی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اب اس چیز کی وضاحت ممکن ہے کہ کیوں لوگوں کو کسی غیر مرئی شے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔

مگر دوسری طرف پیراسائیکالوجی کے ماہر جان کاکوبا نے اپنی کتاب ’گوسٹ ہنٹرز‘ میں لکھا ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھوتوں کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے۔ جس کے مطابق توانائی کو فنا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ روح توانائی کی ایک قسم ہے، جو برقی مقناطیسی قوت کی صورت میں جسم میں رہتی ہے۔ جسم مرجاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، کیونکہ وہ ایک توانائی ہے۔ جس طرح جسم مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوجاتاہے، اسی طرح جسم میں موجود توانائی حرارت میں تبدیل ہوکر فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔

پیرا سائیکالوجی کےاکثر ماہرین جان کاکوبا کے ہی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔

 

بھوت اور اسلام۔

مذہب اسلام میں نا صرف یہ کہ بھوت بلکہ چڑیل ، آسیب ،چھلاوا اور دیو وغیرہ سمیت کسی بھی مافوق فطرت وجود کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ماسوائے جن کے۔ اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جن گو کہ عام طور پر غیرمرئی ہونے کی وجہ سے مافوق فطرت ہونے کے نزدیک محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں جن ، اسلامی تصور کے مطابق فرشتوں اور انسانوں کی طرح اللہ کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہے جو انسان سے قبل وجود میں لائی گئی؛ یعنی جیسے فرشتوں کو اسلامی نظریے کے مطابق مافوق فطرت کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا اسی طرح جن بھی مافوق فطرت کے تصور میں شامل نہیں ہوتے۔ بھوت ، اپنی اساس میں تناسخ (reincarnation) کے تصور سے وجود پاتے ہیں اور اسلام میں تناسخ نا قرآن سے ثابت ہے اور نا حدیث سے۔ یہ ممکن ہے کہ جسے انسان بھوت سمجھتے ہیں وہ شیاطین جن ہوسکتے ہیں۔

 

پھر کیوں؟

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے تو اس کی موت کے بعد کچھ عرصے تک اس گھر میں جہاں وہ شخص رہتا رہا تھا‘ اس کی موجودگی محسوس کی جاتی ہے۔ انڈیا کے اسطوریات کے مطابق اسے ’اوورا‘ کہا جاتا ہے جو کسی فرد کی روح جیسا ہی ایک وجود ہوتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی پسندیدہ جگہ پر کچھ عرصے کے لیے باقی رہ جاتا ہے۔ بہرحال ان تمام واقعات سے ایک بات واضح ہے کہ بھوتوں کی طرح کی کوئی شے موجود ہے جو لوگوں کو مختلف صورتوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ جن بھی ہو سکتا ہے، بھوت بھی ہوسکتی ہے‘ کسی کی روح بھی اور ہمارے اپنے ہی دماغ کی کسی ایسی حس کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے جو عام حالات میں مخفی رہتی ہے اور جونہی کوئی عزیز فوت ہوتا ہے تو بیدار ہو جاتی ہے اور ہمیں ایسے وہم ہوتے ہیں جیسے وہ شخص موجود ہو اور جیسے ہماری بہت سی حسیات کا تعلق زندہ لوگوں سے ہے اسی طرح ہماری اس مخصوص حس کا تعلق مر جانے والے افراد سے ہوتا ہے اور یہ ان سے رابطہ پیدا کرلیتی ہے۔