اہرام مصر

2019-11-11 16:39:41 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 10

"اہرام مصر"

 

           مصر کے ساتھ ہی اہرام مصر کا نام ذہن میں نہ آئے۔۔۔ ہمارے لئے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مصر کی شہرت کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کے لئے جتنی خدمات اہرام مصر کی ہیں اتنی کسی وزیر سفیر یا ثقافتی نمائندے کی نہیں۔

یوں تو مصر میں 138 اہرام ہیں اور قاہرہ کے مضافاتی علاقے غزہ میں تین اہرام موجود ہیں. صرف غزہ کا ‘عظیم اہرام’ ہی قدیم دنیا کے سات عجوبوں کی فہرست میں ہے. دنیا کے سات قدیم مقامات میں باقی یہی ایک ایسی یادگار ہے جسے وقت کا بہاؤ بھی ختم نہیں کر سکا.

یہ اہرام 455 فٹ بلند ہے. 43 صدیوں تک یہ دنیا کی سب سے اونچی ساخت رہا. 19 ویں صدی میں ہی اس کی اونچائی کا ریکارڈ ٹوٹا. اس کا رقبہ 13 ایکڑ میں پھیلا ہے جو قریب 16 فٹ بال میدانوں جتنا ہے. سبھی جانتے ہیں کہ اہرامِ مصر کی برسہا برس سے قائم و دائم مقبولیت میں اصل ہاتھ اس پراسراریت کا ہے جو صدیوں سے ان عجائب عالم سے وابستہ چلی آرہی ہے۔ فرعون، موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات تو دنیا زمانے کو معلوم ہیں لیکن آج تک کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ آخر کار اہرام مصر کی تعمیر کس نے، کب، کیوں کیسے کی؟​

اہرام مصر کی پراسرار فن تعمیر کی وجہ سے اس کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ہم ان حیران کن اور پراسرار حقائق کی بات کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے اہرام کی تعمیر سے متعلق نظریہ کہ اسے انسانوں نے بنایا، کو اکثر لوگوں نے رد کیا۔ اور اس عام نظریے میں کئی سوالات اٹھا کر اس کی تعمیر کو دنیا کے لئے ایک معمہ بنا دیا۔

 

اہرام مصر کی حیران کن حقائق:

1۔ عظیم اہرام 25 لاکھ پتھروں کے بڑے بلاکس سے تعمیر کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک کا وزن 25 سے 80 ٹن کے درمیان ہے. عظیم اہرام کو اتنی عمدگی سے تعمیر کیا گیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی بهی ایسی شاہکار کی نقل تعمیر کرنے سے قاصر ہے.

2۔ ایک اندازے کے مطابق اہرام کا کل وزن 60 لاکھ ٹن ہے۔

3۔ ماہرین کے مطابق پیرامائڈ کے باہر پتھر کے حصوں کو اتنی موثر طریقے سے تراشا اور فٹ کیا گیا ہے کہ جوڑوں میں ایک بلیڈ بھی نہیں گھسائی جا سکتی.

4۔ عظیم اہرام میں پتھروں کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ اس کے اندر کا درجہ حرارت ہمیشہ مستحکم اور زمین کے اوسط درجہ حرارت 20 ڈگری سیلسیس کے برابر رہتا ہے.

5۔ اگر اس کے پتھروں کو 30 سینٹی میٹر موٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جائے تو ان سے فرانس کے چاروں طرف ایک میٹر اونچی دیوار بن سکتی ہے.

6۔ اہرام میں بنیاد کے چاروں کونے کے پتھروں میں بال اور ساکٹ بنائے گئے ہیں تاکہ گرمی کی حدت اور زلزلوں سے محفوظ رہے.

7۔ مصری لوگ اہرام کا استعمال طب، کیلنڈر، سنڈايل اور سورج کی کلاس میں زمین کی رفتار اور روشنی کی رفتار کو جاننے کے لئے کرتے تھے.

اہرام کو ریاضی کی جاء پیدائش بھی کہا جاتا ہے جس سے مستقبل کا حساب کیا جا سکتا ہے.

8۔ اس کی بنیاد تقریباً 54 یا 55 ہزار میٹر کی ہے. اندازہ ہے کہ 3200 سال قبل مسیح اسے بنایا گیا تھا. اس کے باوجود کہ اس وقت کی مصریوں کے پاس ٹیکنالوجی صفر کے برابر تھی.

9۔ مصر کے اہراموں کی تعمیر میں کئی فلکیات کی مدد سے کی گئی انجنیئرنگ کے شواہد بھی پائے گئے ہیں۔

10۔ غزہ کے تینوں اہرام ارين رقم کے تین ستاروں کی سيدھ میں ہیں.

11۔ اہرام میں استعمال کیا گیا مٹیریل سیمنٹ اور پتھر سے ذیادہ مضبوط ہے جس کا فارمولا آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔

12۔ اہرام کے اوپری سطح کے پتھر ایسے طریقے سے پالش کئے گئے ہیں کے وہ رات میں آسمان سے ایسے دکھتے ہیں جیسے زمین سے آسمان پہ تاریں۔

13۔ عظیم اہرام کو چاند سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

14۔ اہرام میں رکھا تابوت اتنا بڑا ہے کہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اہرام بنانے سے پہلے ہی رکھا گیا تھا۔

15۔ تابوت خالص سخت پتھر کا بنا ہوا ہے اور ایسے طریقے سے پیک کیا ہے کہ اسے پیک کرنے کے لئے آج کے دور کی دو ٹن کی طاقت دینے والی مشین درکار ہوگی۔

16۔ کہتے ہیں جب اسے پہلی بار کھولا گیا تو اس پہ 20 ٹن کا ایک مین گھومنے والا گیٹ لگا ہوا تھا۔ جو بہت ہلکا زور لگانے سے کھل گیا تھا۔

17۔ غزہ کے مشہور تین اہراموں سے کچھ فاصلے میں شیر کا ایک مجسمہ بنا ہے۔ اگر شام کو اس مجسمے سے دیکھا جائے تو سورج دو اہراموں کے درمیان ایسے غروب ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان انچ کا فاصلہ بھی کم یا زیادہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح سورج نکلتے وقت اہرام سے دیکھا جائے تو عین مجسمے کے اوپر سے نکلتا ہے۔

18۔ اہرام کے چاروں اطراف مشرق مغرب شمال اور جنوب کے بالکل سیدھ میں ہے۔

19۔ عظیم اہرام کے دو اطراف دریا نیل کے اس طرح سامنے ہے کے دونوں اطراف کے کونے بالکل دریا کے کناروں کی سیدھ میں ہے جب کے دریا اہرام سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے اتنا ہی پھیلتا جاتا ہے۔ اور جہاں تک دریا جاتا جا رہا ہے اہرام کی سیدھ میں ہے۔

 

 

اہرام انسان کی تعمیر:

        کہتے ہیں کہ اہرام مصر اس وقت کے فرعون (بادشاہ) خوفو کے لئے بنائے گئے یادگار مقامات ہیں، جن میں بادشاہوں کے لاشوں کو دفنا كر محفوظ رکھا گیا ہے. ان لاشوں کو ممی کہا جاتا ہے. اس کی تعمیر تقریبا 2560 سال قبل مسیح مصر کے حکمران خوفو کے چوتھے خاندان کی طرف سے قبر کے طور پر کیا گیا تھا. تین چهوٹے اہرام خوفو کی تین بیویوں کی آرام گاہ ہیں.

مصری فرعون خوفو کے وزیر ہیمون یا ہیمیونو نے اس اہرام کا نقشہ تیار کیا تها، اس کے وزن کے حساب سے اسے بنانے میں 20 سال کا عرصہ لگا اور ہر ایک دن میں 800 ٹن پتهر لگایا گیا. ہر ایک گهنٹے میں 12 سے 13 پتهر کے بلاکس لگائے گئے۔

جدید تحقیق بتاتی ہے کہ عظیم اہرام مصر کے چونا پتهر کے بلاکس کو 800 کلومیٹر دور سے لایا گیا ہے، مصری کاریگر ان چونا پتهروں کو پہلے پانی میں ڈبو کے رکهتے جس سے چونا پتهر ٹوٹ جاتا پهر اسے ہتهوڑوں سے تراشا جاتا اور کشتی کے ذریعے دریائے نیل سے اس مقام تک منتقل کر دیا جاتا تها. ایک اندازے کے مطابق 5.5 ملین ٹن چونا پتهر، 8,000 ٹن گرینائٹ اور 500,000 ٹن مارٹر اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوئے تهے.

اہرام کی تعمیر کے لئے 100,000 محنتی کاریگروں اور مزدوروں کے 5 گروہ بنائے گئے. ہر گروہ 20,000 قابل اور محنتی کاریگروں پر مشتمل تھا۔

یہ تھا اہرام مصر کا عام نظریہ جو آپ کو اکثر ویبسائٹس اور کتابوں میں ملے گا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں غلام تھے تو ہر ایک ہرم کے پاس وسیع و عریض رہائشی علاقے بھی ملنے چاہئے تھے۔ لیکن اب تک جتنے آثار بھی ملے ہیں وہ غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کی نفی کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

آج انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود بھی ایسی امارت نہیں بنا سکتا تو اس وقت جب پہیہ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا تو کیسے یہ سب ممکن ہوا۔ اہرام مکمل میدانی علاقے میں واقع ہے اور 800 کلو میٹر تک پتھر موجود نہیں اور اگر اس کے بعد موجود بھی ہے تو اتنے بڑے پیمانے پہ نہیں۔

ٹنوں وزنی پتھروں کو آدھے راستے تک تو دریا نیل کے راستے کشتی کے زریعے لائے ہونگے مگر اس کے بعد کے راستے کا کیا کیا ہوگا؟

 

گیلی ریت:

          ایک تحقیقی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ بھاری پتھروں، مجسموں اور دوسرے وزنی سامان کو ’’ سلیج ‘‘ پر رکھ دیا جاتا تھا جسے مزدور کھینچتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مصری صحرائی ریت پر پانی چھڑک کر اسے نم کرلیتے تھے تاکہ سلیج کو گھسیٹنے میں آسانی رہے۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر ریت کو مناسب طور سے گیلا کر لیا جائے تو اس پر سے سامان کو کھینچنے کے لیے درکار قوت نصف رہ جاتی ہے۔

اس نظریے کی آزمائش کرنے کے لیے سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں ایک اسی طرح کی سلیج ریت سے بھری ہوئی ٹرے میں رکھی جیسی قدم زمانے میں مصری استعمال کرتے تھے۔ رَو پیما کی مدد سے سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ ریت کے سخت ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سے سامان کو کھینچنے کے لیے درکار قوت میں بھی کمی آتی چلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی مناسب مقدار ملانے پر گیلی صحرائی ریت خشک ریت کے مقابلے میں دو گنا زیادہ سخت ہوجاتی ہے اور اس سخت ریت پر سے سلیج پھسلتی چلی جاتی ہے۔ خشک ریت پر سے سلیج کو کھینچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک قدیم پینٹنگ میں بھی اس ترکیب کی وضاحت ملتی ہے۔ یہ پینٹنگ 1900 قبل مسیح میں مصر پر حکومت کرنے والے بادشاہ Djehutihotep کے مقبرے کی دیوار پر بنائی گئی ہے۔ اس میں واضح طور پر ایک شخص سلیج کے آگے کھڑا ہوکر ریت پر پانی چھڑکتا ہوا نظر آرہا ہے۔

لیکن اگر اس طریقے کو سچ مان لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے۔ اتنے ٹن وزنی پتھروں کو کشتیوں میں لادا گیا پھر انکو ریت پر گھسیٹ کر اہرام تک پہنچایا گیا۔ لیکن ان کو اہرام کے اوپر کیسے پہنچایا گیا؟

 

چڑھائیاں، ڈائنوسارز یا پتنگ:

           بھاری پتھروں کو زمین سے 455 فٹ کی بلندی تک لیجانا جو آج کے مشینی دور میں بھی ایک مشکل ترین عمل ہوگا تو کیسے اس دور کے لوگوں نے اسے ممکن بنایا۔

کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اہرام کو ڈھلوانیں اور چڑھائیاں بنا کر تعمیر کیا گیا، لیکن سائنسی جائزہ بتاتا ہے کہ اتنے بڑے پتھروں کو حرکت دینے کے لیے اگر کوئی چڑھائی بنائی جاتی ہے، تو اس کی لمبائی ایک میل تک ہو گی بلکہ خود وہ چڑھائی اہرام مصر سے دو گنے حجم کی ہو گی۔

مصری لوگوں کے پاس ضرور کچھ ایسا تھا جو آج کے انسان کے پاس نہیں۔

ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کے نظریہ کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی جب انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلی صدیوں کے لوگوں نے بھی وزن اٹھانے کے ساتھ ساتھ دیگر کاموں میں جانوروں کی مدد لی ہے۔ اور ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ قدیم زمانے میں ڈائنا سار نامی ایک دیوقامت جانور موجود رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جیسے آج کے انسان نے اونٹ، ہاتی اور یہاں تک کے مچلی کو بھی ایسی تربیت دی ہے کہ ان سے اپنے مطلب کے کام نکلوائے ہیں تو قدیم مصریوں نے بھاری پتھروں کو اٹھانے میں ڈائناسار کو استعمال کیا ہوگا۔ اس نظریے کا اکثر لوگوں نے مذاق اڑایا کیونکہ تاریخ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انسان اور ڈائنوسارز کبھی ساتھ رہے ہوں۔

ایک اور تھیوری مارین کلمنیز کی ہے۔ ان کو ایک تصویری تحریر (Hieroglyphs) کی پینٹنگ ملی جن میں بہت سارے لوگوں نے رسیوں کے ذریعے اڑنے والے پرندے کو کنٹرول کیا ہوا تھا جس کے پر کافی لمبے اور بڑے تھے۔ پہلے تو ان کو سمجھ نہیں آئی مگر پھر ان کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ شاید ایک پتنگ کو ہوا کے زور سے قابو کیا گیا ہے اور اس کو اہراموں کے پتھر اٹھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس نے اپنی تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے مختلف یونیورسٹیوں سے رابطہ کیا آخر کار کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ نے انکو سپانسر کر لیا اور انکے ساتھ ایک ایرانی سائنسدان نے کام کرنا شروع کردیا۔

پہلے پہل انھوں نے چھوٹے پتنگوں سے پتھروں کو عمود میں سیدھا کرنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے۔ پھر انھوں نے کچھ ٹن وزنی پتھروں کے ساتھ تجربات کیے اور ہوا کی سپیڈ اس وقت بیس سے تیس ناٹیکل ہونے کے باوجود انھوں نے کئی ٹن وزنی پتھروں کو عمود میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے مگر انکو ہوا میں اڑانے کے قابل نہ ہوسکے۔

اس کے علاوہ اہرام کے پتھر کو اگر ہوا کی طاقت سے اوپر لیجایا بھی گیا ہو تو ان پتھروں کو آپس میں جوڑا کیسے ہوگا۔ کیونکہ اہرام کے پتھر آپس میں ایسے جڑے ہیں کہ ان کے درمیان سوئی بھی نہیں جاسکتی۔

اس طرح یہ تھیوری بھی تھیوری ہی رہی۔

 

خلائ مخلوق کی مہارت:

 

         جیسے جیسے اہرام مصر پر تحقیقات ہوتی گئیں تو اس کی ایسے حیرت انگیزیاں سامنے آئی کے مجبوراً اس نظریے سے انکار کرنا پڑا کہ اسے انسان نے بنایا۔

3 اہراموں کا آرین ستاروں کی سیدھ میں ہونا اور اہراموں کے چاروں اطراف زمین کی چار بنیادی سمتوں کی سیدھ میں ہونا اور دیگر کئ حقائق ایسے ہے جو اس وقت کے انسان کے لئے کسی طور ممکن نہ تھا۔ اس لئے اہرام سے متعلق ایک نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اسے کسی خلائی دنیا کی مخلوق نے بنایا ہے جو اس دور کی دنیا سے ترقی میں بہت آگے تھی۔

مگر یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود وہ مخلوق دوبارہ کیوں نظر نہ آئی ؟

یا اس مخلوق نے اس دنیا پہ حملہ کیوں نہیں کیا؟

 

جنوں کی مہارت:

         اہرام مصر پر احمد رضا خان بریلوی کی تحقیق بھی لاجواب ہے۔ جسے وکیپیڈیا نے بھی نقل کیا ہے۔

وہ فرماتے ہیں ان کی تعمیر حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (140000) برس پہلے ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو 10 رجب کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر 800 آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے(حضرت آدم وحضرت نوح علیہم السلام)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھااور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا 30 ہاتھ اونچا ہو گیا تھا۔ دسویں محرم کو چھ(6) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹھہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد و منارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر المومنین حضرت علی سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔

”بنی الھرمان النسر فی سرطان”

یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12640) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑھے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (644) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (27)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں(166) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (66) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔

آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (5750سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (7000) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے یہ قوم جن کی تعمیر ہے ان کی پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (600000) ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔

فورشے ملر ہٹلر ایک جرمن ماہر فلکیات تھا۔ ایک دن وہ اہرام کی چھت کا معائنہ کر رہا تھا کہ اسے ایک سوراخ ملا جو خوش قسمتی سے ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے بند نہیں ہوا تھا. پہلے اسنے سوچا یہ سورج کی روشنی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن یہ تو بالکل شمال میں تھا جہاں سورج کی روشنی کبھی آ بھی نہیں سکتی۔ اسنے باقی تین اہراموں کا معائنہ کیا وہاں بھی اسی طرح کے سوراخ موجود تھے مگر مٹی کی وجہ سے بند ہوچکے تھے ملر نے لوہے کی سلاخوں سے ان کو دوبارہ کھلوایا۔

اسی دوران جرمنوں پر مصر میں سختی ہونے لگی اور وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر امریکا چلا گیا اور وہیں کی شہرت حاصل کر لی اسی دوران وہ پیرامڈز سے جڑی ہر کتاب کا مطالعہ کرتا رہا۔ ایک دن اسنے ایک ماہر فلکیات کا بیان پڑھا کہ مصریوں کا کسی عمارت کی عمر معلوم کرنے کا عجیب طریقہ کار ہوتا ہے وہ عمارت میں قطبی تارے کی سیدھ ایک لمبا سوراخ بناتے ہیں جس میں اگلے سال قطبی تارا نظر نہیں آتا۔ اس طرح قطبی تارے کا سوراخ کی سیدھ سے فاصلے سے کسی بھی عمارت کی عمر معلوم کی جا سکتی ہے۔

ملر یہ بات پڑھ کر اچھل پڑا۔ وہ فوراً مصر کے سفر پر نکل پڑا اس بار وہ اپنے ساتھ جدید قسم کے آلات بھی لایا تھا۔ اب اس نے سوراخ سے قطبی تارے کا فاصلہ ناپا اور اچھل پڑا کیونکہ اس طرح خوفو کے اہرام کی عمر پندر ہزار (15000) سال بن رہی تھی جبکہ باقی دونوں اہراموں کی عمر چودہ ہزار آٹھ سو اور ساڑھے چودہ ہزار بن رہی تھی۔

تو کیا مصری اس تخلیقات کے بانی نہیں تھے کیونکہ مصری تو آج سے پانچ ہزار سال پہلے ہی دریائے نیل کے کنارے آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔

تو کیا احمد رضا خان بریلوی کی تحقیق درست ہے؟

مگر سوال یہ ہے کہ جنوں کو انسانوں کی اس دنیا میں ایسی تعمیر کی کیا ضرورت تھی؟

 

جدید تحقیق اور قرآن:

       فرانس اور امریکہ کے محققین یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ بڑے پتھر جو فرعون نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے استعمال کیے صرف گارا تھا جسکو بہت زیادہ حرارت پر پکایا گیا تھا۔

یہ نیا نظریہ فرانسیس ڈاکٹر جوزیف ڈیو یڈو یٹس نے پیش کیا جو ارضیاتی علوم کے ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ اہرام کو گارے سے تعمیر کیا گیا اور اس سے بنے ہوئے پتھروں کو منتقل کرنے کے لیے خصوصی ریلوے کا نظام استعمال کیا گیا۔ 

تحقیق بتاتی ہے کہ مٹی وغیرہ دریائے نیل سے حاصل کی گئی۔ اور اس مٹی کو پتھر کے مضبوط سانچوں میں ڈالا گیا اور پھر ان کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر پکایا گیا اور ان کے باہمی عمل سے یہ پتھروں میں تبدیل ہو گئے جیسا کہ آتش فشاں پہاڑ سے نکلے ہوئے پتھر جو لاکھوں سال پہلے بنے تھے ان پر خاص قسم کی ماہرانہ انجئنرنگ کے تجربات کیے گئے ( Nanotechnology یہ ٹیکنالوجی کسی چیز کے سائز سے 100 گنا چھوٹی چیز کا مشاہدہ کرتی ہے) اور ان تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ ان چٹانوں میں پانی کی ایک بڑی مقدار موجود تھی اور اتنی بڑی مقدار عمومی طور پر قدرتی پتھروں میں نہیں پائی جاتی۔ 

مزید پتھروں کےاندرونی ڈھانچے کا ربط اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ بے مقصد اور بے وجہ دکھائی دیتا ہے کہ پہلے پتھروں کو لایا گیااور پھر ان کو تراشا گیا اور حقیقت میں اس کا امکان موجود ہے کہ مٹی کے گارے کو سانچوں میں‌ ڈالا گیا تا کہ وہ ایک شکل اور سائز کے پتھر بن جائیں ، بالکل اسی طرح جیسے ہم پلاسٹک کے کھلونے وغیرہ بناتے ہیں تاکہ تمام حصے ایک جیسے اور سیدھے رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر ہمارے پتھر ایسے نہیں ہوتے اور یہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان پتھروں کو فرعون نے بنایا اور تجزیہ جو ایک چھوٹے الیکٹرانک وزن کرنے والی مشین ( mini E Scale )

سے کیا گیا، اسکی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسمیں سلیکون ڈائی آکسائڈ بھی موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پتھر قدرتی نہیں۔

ان تمام حقائق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں جو یہ ہے: فرعون کے زمانے میں اتنی بڑی عمارتیں جیسا کہ اہرام کو تعمیر کرنے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا، کافی حد تک اس میں گارے کو استعمال کیا گیا جو نزدیک میں واقع دریائے نیل سے لایا گیا۔ پھر اس میں پانی ملایا گیا اور ان کو سانچوں میں ڈال دیا گیا اور آخر میں انکو آگ میں پکایا گیا جب تک کہ انہوں نے پتھر کی شکل نہ لے لی، جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں۔

 

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

"تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ، جن کے مانند (ترقی یافتہ) کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں (اونچے اونچے گھر بنانے کے لیے) چٹانیں تراشتے تھے۔ اور اہراموں والے فرعون کے ساتھ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی"۔۔۔

 

قوم عاد کے افراد قد کاٹھ کے لحاظ سے لحیم جسیم تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں جسمانی قوت سے بھی نوازا تھا۔ وہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں اور یاد گاریں تعمیر کرتے تھے۔ قرآن کہتا ہے کہ ان قوموں جیسی ترقی یافتہ کوئی قوم آج تک ساری دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں کی گئی۔ مندرجہ بالا آیات کے الفاظ واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ ماضی کی قومیں بھی ترقی یافتہ تھی۔ ہمیں قرآن کی بات کو ماننا پڑے گا۔ اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنی ترقی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے سائنس دان اور ریسرچر، عالمی شہرت یافتہ ماہرین آر کیٹکٹس اور انجینر ز مل کر بھی غزہ کے ایک عظیم اہرام جیسا اہرام تیار نہیں کر سکتے، اور یہ بات آج سائنسدان خود تسلیم کرتے ہیں۔

       جب فرعون ظالم اور جابر حکمران بن گیا تو فرعون نے اپنے آپ کو مصر کا خدا ہونے کا دعوٰی کیا۔ قرآن میں لکھا ہے،

"اور فرعون نے کہا، اے اہل دربار میں‌اپنے سوا کسی کو تمھارا خدا نہیں جانتا​"

فرعون کا چیلنج اور تکبر اس حد تک چلا گیا، وہ اللہ تعالٰی کی طاقت کو للکارنا چاہتا تھا، اور ایک بڑا مینارہ تعمیر کروانا چاہتا تھا۔ تاکہ اس پر چڑھ کر یہ دیکھ سکے کہ اللہ تعالیٰ کون ہیں۔ اس لیے فرعون اپنے لوگوں کے سامنے جو اس کو پسند کرتے تھے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ نعوذباللہ حضرت موسٰی علیہ السلام ایماندار نہیں اور فرعون اس کائنات کا حقیقی رب ہے۔ 

فرعون نے ہامان کو کہا جو اس کا نائب اور شریک کار تھا کہ ایک بہت بڑا مینار تعمیر کرے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ ثابت کیا جا سکے کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں۔ فرعون نے تعمیر کے لیے اس وقت یہ مہارت استعمال کی کہ مطلوبہ پتھروں کو آگ پر پکایا جائے جو اس مینار کی تعمیر کے لیے درکار تھے۔ اسکے بعد فرعون نے کچھ یوں کہا:

"سن اے ہامان، تو میرے لیے مٹی کو آگ پر پکوا پھر میرے لیے ایک محل تعمیر کر تو میں موسٰی کے معبود کو جھانک لوں۔ اسے تو میں جھوٹوں میں ہی گمان کر رہا ہوں​"

اور پھر اس کے بعد قرآن نے فرعون کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔

ایک تو قرآن ایسی قوموں کی تصدیق کرتا ہے جو بہت طاقتور ہوا کرتی تھی جس سے ہم کہہ سکتے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان طاقتوں انسانوں کے لیے یہ ممکن ہو کہ اتنے محنت طلب کام یعنی اہراموں کی تعمیر ان کے لیے ممکن ہو۔

پھر قرآن ان کے انتہائی ترقی یافتہ ہونے کی بات کرتا ہے اور وہ قومیں ستاروں کے علم میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے ایسے انسانوں کے لیے ممکن ہے کے ایسے اہرام بنائے جو ایک عام عمارت سے مختلف ہو۔ یعنی ان میں کچھ الگ اور حیران کر دینے والی باتیں ہوں۔

اس لیے اہرام مصر آج بھی دنیا کا ساتواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے، صدیوں سے عام انسانوں کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کے لیے بھی یہ ایک معمّہ بنے ہوئے ہیں۔

 

حوالہ جات:

ہم سب۔

وکیپیڈیا۔

یوٹیوب۔

دی پیرامڈ فیکٹ۔

ایکسپریس۔

سائنس اردو۔