معمہ. کیس نمبر 12

2019-11-14 11:02:55 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 12

"بڑی سازش"

 

           کینیڈی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ اسے یہ جان کر شدید دھچکا لگا تھا کہ خود اس کے ملک کی اپنی ایجنسی سی آئی اے منشیات کی ترسیل میں ملوث تھی۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ کیسے اتنی سکیورٹی کے باوجود دیگر ممالک سے منشیات امریکہ کی یونیورسٹیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ اب تک کا واحد امریکی صدر تھا جو خالص عوام کی طاقت سے میدان میں آیا تھا۔ اس پہ جس دن سے یہ راز کھلا تھا کہ سی آئی اے نہ صرف منشیات کے دھندے میں ملوث ہے بلکہ دیگر پڑوسی ممالک میں اپنے ہی مرضی کے بندوں کو انتخابات میں کامیاب کروا کر ان ممالک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر کے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اس نے سے آئی اے کے ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔

صدر کینیڈی اور سی آئی اے کے درمیان اب بات بہت بگڑ چکی تھی۔ کینیڈی نے پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور ایجنسی کے دیگر عہدیداروں کو برطرف کیا اور اب وہ ایجینسی کے اختیارات بھی محدود کرنا چاہتا تھا۔

کینیڈی آج ڈلاس میں اپنے انتخابی مہم پر اپنے چاہنے والوں سے ملنے جارہا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہاں کھڑے لوگوں میں اس کے ووٹرز سے زیادہ تعداد اس کے دشمنوں کی ہو سکتی ہے۔

کینیڈی نے بیان دیا تھا کہ وہ سی آئی اے کے پُرزے پُرزے کر کے ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ آج ایک مہینے بعد وہ دن آچکا تھا کہ اسے اپنے کہے ہوئے جملے کی قیمت چکانی تھی۔ اور اس جملے کی قیمت صرف موت تھی۔

 

* * * *

 

          اس خفیہ شراب کلب میں آج شراب نوشی سے زیادہ ضروری وہ گفتگو تھی جو اس وقت ارب پتی انڈر ورلڈ ڈرگز مافیا کے درمیان چل رہی تھی۔ وہ لوگ جو حکومت منتخب کرواتے تھے حکومت کے بھائی نے انکا منشیات دھندہ بند کروا دیا تھا۔ جان کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینڈی سے پہلے سی آئی اے نے بھی کبھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ انہیں اس بات کا غصہ تھا کہ صدر کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اسی طرح اگر اگلا الیکشن بھی کینیڈی نے جیتا تو ان کا دھندہ ہمیشہ کے لئے ختم کرا دیا جائے گا۔ ان کے درمیان بیٹھے شوٹر کو تمام ہدایات دے دی گئی تھیں۔ شوٹر کے لئے گو کہ کام تو بہت بڑا تھا مگر اتنے پیسوں کی آفر سے اس کی آنے والی نسلیں بھی بہترین زندگی گزار سکی تھی۔ اس کے لئے 1891 ماڈل کی ایک بہترین دوربین لگی ملٹری رائفل کا بندوست کر لیا گیا تھا اور ایک ہفتہ پہلے ہی اسے تمام پلاننگ سمجھا دی تھی۔ شوٹر اور اور دیگر ایجنٹس آج صدر کینیڈی کو قتل کنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔

 

* * * *

 

          ملحد یہودی تنظیم ایلومیناٹی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک اقلیتی فرد بھی شدید مذہب پرست امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔ لیکن امریکی ووٹر تین صدیوں سے بڈھے کھوسٹ صدر دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے تھے۔ اب تک ان کے ذہن پر ہالی ووڈ کی فلموں کا اثر بھی ہو چکا تھا۔ تو انہوں نے جب ایک ہیرو جیسے شخص کو صدارتی امیدوار دیکھا تو دین دھرم سب بھول کر اسے ووٹ دیے اور کینیڈی کو امریکہ کا صدر بنا دیا۔

ایلومیناٹی دنیا سے ہر طرح کے مذہب کا خاتمہ چاہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی توسیع اور کینیڈی ان دونوں باتوں کا مخالف تھا۔

 

        ڈیوڈ، ایلم اور ڈین کے اصل نام ایک دوسرے کو بھی معلوم نہیں تھے۔ اور نہ ہی انہیں اس سے پہلے یہ معلوم تھا کہ وہ ایک ہی سیکرٹ سوسائٹی، ایلومناٹی کے خفیہ میمبرز ہیں۔ وہ ملک کے مختلف شعبوں کے اعلیٰ حکومتی اداروں میں بھی اپنی "خدمات" سر انجام دے رہے تھے۔ انہیں مرکز نے ایک ایسا کام دیا تھا جو آسان تو نہیں تھا پر پلان کامیاب ہونے پر ان کے تنظیمی کیریئر کو چار چاند لگا سکتا تھا۔ وہ ایک سیون سٹار ہوٹل میں موجود ایسے بات کر رہے تھے جیسے کوئی کاروباری میٹنگ ہو اور تینوں ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہو حالانکہ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر دوسرے سے پلاننگ کے علاوہ کوئی بات کرتا تو اس بات کی سزا صرف موت تھی۔ انہوں نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے موجودہ صدر کو قتل کرنے کا پلان تیار کر لیا تھا۔

 

* * * *

 

          وہ جو سویت یونین کو مزہ چکھانے کی باتیں کرتا تھا وہ خود اپنی ہی ایجنسی کے ساتھ الجھ پڑا تھا۔

سویت یونین کے لئے اس سے بہترین موقع اور کونسا ہوسکتا تھا۔ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے۔ ایسے میں کینیڈی کو مروا کر جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنا بے حد ضروری تھا۔ یہ وہی کینیڈی اور سی آئی اے تھی جنہوں سویت یونین کے ہر معاملے میں مداخلت کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا تھا۔ کینیڈی کی صدارت میں امریکہ کے جاسوس طیاروں نے کیوبا میں روس کا میزائل اڈا دریافت کیا اور سویت یونین کو مجبور کیا کہ وہ سویت جوہری راکٹ ہٹا دیں جو انہوں نے خفیہ طور پر کیوبا میں نصب کئے تھے۔ اربوں روپے کی لاگت کے منصوبے کو کینیڈی نے ناکام بنا دیا تھا۔ آج سویت یونین کو بھی اپنا فرض پورا کرنا تھا انہیں روکنے والے سی آئی اے ممبرز برطرف کردیئے گئے تھے۔ سویت یونین نے صدر کو ڈلاس میں قتل کرنے کے لئے اپنے ایجنٹوں کا پورا جال بچھا دیا تھا۔ جس سے صدر کینیڈی کے بچنے کا امکان کم تھا۔

 

* * * *

 

          اس کی نظر میں سیاست کی مثال بھی جنگ کی طرح تھی جس میں ہر حد تک جانے کی اجازت تھی۔ کینیڈی اگر صدر نہ ہوتا تو جانسن آج اس کا نائب نہیں بلکہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کا صدر ہوتا۔ اسے کبھی یہ ہضم نہ ہوتا کہ آنے والے الیکشن میں پھر کینیڈی کو ٹکٹ ملے۔ کینیڈی نے ایک باری پوری کرلی تھی مگر آنے والے الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی دوبارہ اس کو ٹکٹ دے سکتی تھی کیونکہ کینیڈی عوام کا ہیرو بن چکا تھا۔ جانسن کے صدر بننے میں کینیڈی سب سے بڑی اور واحد رکاوٹ تھی۔ وہ اسے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ اس نے پورا پروگرام تیار کر لیا تھا اور اس پلاننگ میں اس کو سپورٹ کرنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی۔

 

* * * *

 

          اسے اپنے ہی ملک کے صدر کینیڈی سے شدید نفرت تھی۔ وہ ایک جذباتی کمیونسٹ نوجوان تھا اور ایک مذہبی شخص کو امریکی صدر کے طور پر دیکھتا تھا تو اس کا خون کھولتا تھا۔ کہتے ہیں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ روس امریکہ کا دشمن تھا مگر اوسوالڈ کا دوست تھا۔ وہ لبرلزم کی وجہ سے روس کو پسند کرتا تھا۔ اس کی بیوی روسی تھی اور اس نے اپنی بیوی سے روسی زبان بھی سیکھی تھی۔

اوسوالڈ آج کا موقع بالکل ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا اس نے اپنے ٹارگٹ، امریکی صدر کینیڈی کو ہٹ کرنے کے لئے 1891 ماڈل کی ایک بہترین دوربین لگی ملٹری رائفل کا بندوست کر لیا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ سکیورٹی کے باوجود مع رائفل اس خالی بلڈنگ کی چھٹی منزل پر پہنچا تھا۔ کینیڈی کے استقبال کے لئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈلاس میں اس جگہ کھڑی تھی جہاں سے ان کے ہر دلعزیز صدر نے گزرنا تھا۔

پھر سپیکروں پہ اعلان ہوا کہ صدر صاحب ہمارے درمیان پہنچنے والے۔ کینیڈی کا کارواں قریب آنے لگا تو اوسوالڈ نے اسے بلڈنگ کی کھڑکی سے دیکھ کر اپنی رائفل کاک کی۔ وہ صدر کو قتل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا کام اتنی آسانی سے کر پائے گا۔ اوسوالڈ نے صدر کی گاڑی کو قریب آتے ہوئے دیکھ کے اپنی ایک آنکھ رائفل کی دوربین سے لگائی وہ ایک اعلیٰ درجے کا نشانے باز تھا۔

 

* * * *

 

          کالے رنگ کے مکمل لباس میں کالا ہیٹ پہنا ہوا وہ واحد شخص تھا جس کے ہاتھ میں چھتری تھی جب کے اس دن نہ بارش کا امکان تھا اور نہ ہی ایسی دھوپ تھی کہ چھتری استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی۔ وہ ایک نامعلوم شخص تھا اور کسی خفیہ ٹیم کا حصہ تھا۔ وہ اس سڑک کے کنارے کھڑا تھا جہاں سے صدر کینیڈی کے کارواں نے گزرنا تھا۔

جیسے ہی کارواں میں موجود صدر کینیڈی کی گاڑی نامعلوم شخص کے پاس پہنچی تو اس نے چھتری کو حرکت دے کر کینیڈی کے ڈرائیور کو گاڑی سلو کرنے اور شوٹر کو فائر کرنے کا سگنل دیا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی چھتری بھی اصل میں جدید ٹیکنالوجی سے بنی ایک گن تھی جو بوقت ضرورت گولی چلانے کے لئے استعمال کی جاسکتی تھی۔

 

* * * *

 

          کینیڈی ایک امیر اور بااثر خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور امریکہ کی تاریخ کے کم عمر ترین اور واحد رومن کیتھولک صدر تھا۔

1961 میں جب اس نے صدارت کا حلف اٹھایا تھا تو اس وقت دنیا کے حالات بہت مختلف تھے۔ وہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ہی دیوارِ برلن، کیوبا کے میزائل کا تنازعہ اور ویت نام کی جنگ سامنے آئی۔ بہت سے لوگوں کے لیے کینیڈی ایک نوجوان اور کرشماتی صدر تھے اور وہ انہیں ’جیک‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اپنے دور صدارت کے آغاز میں ہی صدر کنیڈی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔ اس کے علاوہ اس کا دوسرا مشن کمیونزم کو ختم کرنا تھا۔

ڈیلاس اور ٹیکساس کو جان ایف کینیڈی کی ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہ جمعے کا روشن دِن تھا جب کینیڈی اور خاتون اوّل ڈیلاس ایئرپورٹ پر پہنچے۔ قدامت پسند ریاست ٹیکساس میں اس کی انتخابی مہم کا یہ دوسرا دِن تھا۔

اس وقت اس کی اہلیہ جیکی کینیڈی اور اس کے میزبان، ٹیکساس کے گورنر جان کونیلی اپنی اہلیہ نیلی کے ساتھ ڈیلاس کے دورے میں اس کے ساتھ موجود تھے۔

شہر سے کارواں گزرنے سے پہلے کینیڈی نے خود ہی اپنی لیموزین کا اوپری حصہ کھولنے کی تجویز دی۔

لوگوں نے اسے اپنے درمیان دیکھا تو خوشی سے ہاتھ ہلانے لگے۔ جواباً کینیڈی نے بھی ان کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلا رہے تھے۔

وہ اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ وہاں اس کے چاہنے والوں کے درمیان سینکڑوں لوگ ایسے بھی موجود تھے جو اسے مزید زندہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

یہی وقت تھا جب کہیں سے ایک گولی آکر اس کی کمر پر لگ کر دوسری جانب کو نکل آئ۔ پھر ایک اور گولی اس کی گردن میں لگی وہ جیکی کی طرف جھکا اور جیکی اس کی طرف پھر تیسری گولی آئی اور جیکی نے قریب سے دیکھا کہ گولی اس بار اس کے سر کو لگی اور اس کے سر کو جیسے کھول کر رکھ دیا۔ جیکی کو لگا کہ وہ کوئی برا خواب دیکھ رہی ہے اور ابھی جاگ جائے گی۔

 

* * * *

 

          اپنی آمد کے ایک گھنٹہ بعد، امریکا کے 35 ویں صدر کو ڈیلے پلازہ کے قریب گولیاں ماری گئیں۔ اسے پارک لینڈ میموریل ہسپتال پہنچایا گیا تو اس کے دِل کی دھڑکن باقی تھی، لیکن اس کے سر پر لگنے والی گولی نے اس کا بچنا مشکل بنا دیا اور وہ دم توڑ گئے۔ اس کا قتل امریکی شعور کے لیے ایک خوفناک دھچکا تھا۔

صدر پر گولیاں بظاہر ایک پبلیشنگ ہاؤس کی چھٹی منزل سے چلائی گئی تھیں۔ اس میں استعمال ہونے والی بندوق اوسویلڈ نامی شخص کی تھی جسے دراصل صدر پر حملے سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایک پولیس اہلکار کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اوسویلڈ سے تفتیش کے دوران پولیس نے اس پر صدر کے قتل کا شبہ ظاہر کیا۔

24 نومبر کو اوسوالڈ کو ایک دوسری جیل میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ ایک ٹیلی وژن کا عملہ اس کارروائی کو ریکارڈ کر رہا تھا کہ ایک نائٹ کلب کا مالک جیک رُوبی نے مشتبہ قاتل کے سامنے آ کر اسے گولی مار دی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ منظر ٹیلی وژن پر دیکھا۔ اوسوالڈ کو بھی پارک میموریل ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ چل بسا۔

چار روز بعد، جانسن نے قتل کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ تاہم وارن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے تفتیش کے نتائج متنازعہ رہے۔

صدر کا قتل ایک امریکی ذہنی امراض میں مبتلا 26 سالہ اوسوالڈ کی فائرنگ کا نتیجہ تھا لیکن امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت اب بھی اس موقف کو قبول کرنے پر تیار نہیں ان کے خیال میں جان ایف کینیڈی کا قتل محض ایک اکیلے پاگل شخص کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اس قتل پر نہ صرف لا تعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں بلکہ کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ 

اس کے باوجود آج سالوں گزرنے کے بعد بھی کوئی نہیں بتا سکا کہ اسے کس نے قتل کیا۔۔