جادوگروں کا جزیرہ

2019-11-17 21:12:00 Written by بشکریہ گوگل

** جادوگروں کا جزیرہ ایسٹر لینڈ **

 

چلی کے ساحل سے قریباً 3,600کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ جزیرہ ’’ایسٹر لینڈ‘‘ دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ اس جزیرے سے متعلق سب سے نمایاں بات جو آج بھی سیاحوں اور ماہرین آثاریات کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیتی ہے، وہ یہاں کھلے میدانوں میں کھڑے پتھر کے بلند قامت بت ہیں جنہیں ’’موئی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ بت مجموعی طور پر چھ سو کی تعداد میں جزیر ے میں کوئی ایک میل کے رقبے میں پھیلے ایک میدان میں موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے سے سب سے دراز قد بت 65فٹ لمبائی کاہے جبکہ اس کا وزن 270 ٹن سے زیادہ ہے۔

آتش فشانی کے عمل سے وجود میں آنے والے اس جزیرے پر موجود یہ بت لاوے کے سخت ہوجانے والے ٹکڑوں ہی سے بنائے گئے ہیں اور ایسی اعلی مہارت سے ان کی تعمیر کی گئی ہے کہ جو اس قدیم ترین آبادی کے بارے میں ماہرین آثاریات کو کئی طرح کے مفروضات قائم کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ مثلاً یہی کہ اس جزیرے پر کبھی آباد لوگ غیر معمولی طور پر ترقی یافتہ تھے اور نہوں نے فن تعمیرات میں نہایت کمال حاصل کرلیا تھا۔ یہاں رہنے والے لوگوں کے بارے میں ماہرین آثاریات کے مفروضات اس بنا ء پر بھی غیر معمولی ہوجاتے ہیں کہ اس ویران جزیرے سے اس بات کے واضح آثار ملے ہیں کہ یہاں آباد لوگ آدم خور تھے اور ان کے ختم ہوجانے کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی کہ وہ ایک دوسرے کو ہی کھا گئے تھے۔ یہ بات آج بھی ایک لاینحل بھید کے طور پر موجود ہے اور جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہنوز تحقیقات جاری ہیں کہ آخر کیوں ان لوگوں نے آدم خوری کو اپنایا اور کیوں ایک دوسرے ہی کو کاٹ کر کھا گئے؟ کیا یہ لوگ کسی طرح کے جنون میں گرفتار ہوگئے تھے یا پھر انہوں نے کسی اور وجہ سے ایک دوسرے کو کھانا شروع کردیا تھا۔ انسانوں کو کھانے کے حوالے سے یہاں پتھروں پر کھدی شبیہوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل خاص طرح کی رسومات کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ جیسے آدم خوری ان لوگوں کے لیے محض پیٹ کی بھوک مٹانے کے مقصد کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ ان کے لیے کسی اور حوالے سے اہمیت اختیار کرگئی تھی۔ آج یہ جزیرہ سیاحوں کی دلچسپیوں کا مرکز بنا ہواہے لیکن یہاں سے ملنے والے آثار ہمیں بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی موت کا ناچ نچایا گیا تھا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کبھی جنگلوں سے آباد یہ جزیرہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اتنے لوگوں کی غذائی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہوگیا اور یہاں موجود آبادی نے ایک دوسرے کو کھانے کی عادت اپنا لی۔ لیکن یہ توجیہ کئی حوالوں سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ یہاں اس وقت درخت موجود نہیں ہیں جبکہ کبھی یہ گھنے جنگلوں کی آماجگاہ تھا۔ ان جنگلوں کے آثار بھی یہاں ملتے ہیں۔ لیکن جنگل ہی تو غذا کی فراہمی کا واحد ذریعہ نہیں تھے۔ سمندر میں مچھلیاں غذا کا ایک بہتر متبادل تھیں۔ جبکہ یہاں ماہی گیری کا بہت زیادہ سامان ملا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ ماہی گیری بھی کرتے تھے اور شاید ان کے دوسرے 

امریکی ماہر آثاریات البرٹو میگرین نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات کو سمیٹتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہاں آباد لوگ ایک خاص طرح کے وائرس کا شکار ہو گئے تھے جس نے ان میں آدم خوری کے رجحان کوپیدا کیا اور اسے فروغ دیا۔اس وائرس کے بارے میں البتہ البرٹو میگرین خاموش ہیں کہ یہ کیوں اور کیسے پھیلا اور یہ کہ اس کے بعد کیوں اس وائرس نے کسی دوسرے جزیرے پر حملہ نہیں کیا اور دنیا میں کہیں اور اس قسم کے وائرس کے آثار موجود نہیں ہیں۔ قدیم تہذیبوں کی تاریخ میں مہارت رکھنے والے زیادہ تر افراد اس واقعہ کو جادوگری کے فن کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں موجود لوگ جادو کے فن کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچ چکے تھے اور جزیر ے میں موجود دیو قامت بت اصل میں ان کی جادوئی مشقوں کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیار تھے۔ جادو کے فن سے متعلق قدیم مصری دستاویزات میں ’’موئی‘‘ سے مشابہ بتوں کی تصویریں موجود ہیں۔ یہ بت مختلف شیاطین کی شبیہیں ہیں اور مختلف شیطانی قوتوں سے منسوب کی جاتی تھیں۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسٹر لینڈ کا ہر فرد جادو کے فن میں یکتا تھا۔ سو کسی طور پر جب وہ ایک دوسرے سے بھڑ گئے تو انہوں نے ایک دوسرے کو ختم کردیا۔ اس نظریے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جزیرے میں ملنے والے گھروں کے کھنڈرات میں چھوٹی چھوٹی انسانی پتلیاں بھی ملی ہیں جو افریقہ کے زومبی جادوگر اکثر استعمال کرتے ہیں۔ اس جزیرے کا قدیم ترین نام جو مختلف تاریخی تذکروں میں ملتا ہے ۔’ ’ٹی پیٹو او ٹی ہینوا‘‘ ہے جس کا مطلب ’’دنیا کا مرکز‘‘ہے۔ یہاں رہنے والے اس جزیرے کو دنیا کا مرکز تصور کرتے تھے اور اسی لیے انہوں نے دیوقامت بت تخلیق کئے۔1860ء میں سیاحوں نے پہلی بار اسے دریافت کیا تو

انہوں نے اس کا نام ’’راپا نوئی‘‘ رکھا جس کا مطلب عظیم راپا ہے جبکہ ایک اور جزیرہ’ ’چھوٹا راپا‘‘ کے نام سے پولینیشیا میں موجود ہے جہاں اسی طرح کے حجم میں چھوٹے بت موجود ہیں۔پولینیشیا کے جزیرے کی مناسبت سے ہی اسے ’’راپا نوئی‘‘ کا نام دیا گیا۔ تاہم جب 1722میں ڈنمارک کا کپتان جیکب روگوین اس جزیرے پر پہنچا تو اس روز ایسٹر کا دن تھا۔ اس دن کی مناسبت سے اس نے اس کا نام ’’ایسٹر لینڈ‘ ‘رکھا اور تب سے خاص طور پر یورپ بھر میں اس جزیرے کا یہی نام معروف ہے کیونکہ جیکب روگوین پہلا یورپی تھا جس نے اس جزیر ے پر قدم دھرا۔ اس جزیرے سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں اور ہڈیوں کے ڈی این اے کے مطالعے سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں انسانی آبادی کا آغاز ایک سے دس عیسوی کے درمیان کسی وقت ہواجبکہ اس جزیرے کو آباد کرنے والے پولینیشیا کے جادو کے ماہرین تھے جنہیں ان کے اپنے جزیرے سے شیطانی علم سے تعلق کی بنا پر باہر نکال دیا گیا تھا اور پانچویں قبل مسیح میں ان کا قتل عام کیا گیا۔ ان میں سے جو اس قتل عام سے بچ گئے‘ وہ بھاگ کر اس جزیرے میں آ گئے اور چونکہ یہ جزیرہ جہازرانوں کی پہنچ سے باہر تھا اور قطعی غیر آباد تھا‘ سو انہوں نے اسے اپنے لیے محفوظ تصور کیا اور یہاں آبادکاری شروع کی۔ وہ مختلف جادوئی مشقوں کے لیے یہاں موجود جنگلوں کی لکڑی کثرت سے جلاتے تھے اور یہاں پائے جانے والے جانوروں کی قربانیاں دیتے تھے۔ یہ سارا عمل اس کثرت سے کیا گیا کہ کچھ ہی عرصہ میں یہاں درخت اور جنگلوں کے جانور ختم ہوگئے۔ شاید تبھی آدم خوری کا عمل شروع ہوا ہوگا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں آباد ہونے والے ابتدائی لوگ تعداد میں سو سے بھی زیادہ نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی آبادی میں تیزی سے اضافہ کیااور جلدہی ان کی آبادی ہزاروں میں پہنچ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس جزیرے میں ایک وقت میں 17ہزار کے قریب قبائل آباد تھے۔ہر قبیلے کا ایک سردار تھا اور تمام قبیلوں کا بھی ایک سردار تھا جس کے دربار میں پروہتوں اور جادوگروں کا غلبہ تھا۔ چونکہ ہر فرد جادو کے فن میں کمال کا درجہ رکھتا تھا سو ضروری تھا کہ یہ دوسرے جزیروں کی طرف ہجرت کریں اور وہاں اپنے فن کے کمالات دکھائیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی اپنے آبائی جزیرے کو چھوڑنے کی خواہش نہیں تھی اور سبھی ایک دوسرے کو جزیرے سے باہر دھکیلنے یا مار دینے کے درپے ہوگئے۔ اس جزیرے میں موجود چھ سو عظیم القامت بتوں کے علاوہ یہاں سینکڑوں دوسرے بت بھی موجود ہیں جو سالم حالت میں نہیں ہیں بلکہ لگتا ہے کہ انہیں بری طرح مسخ کرنے اور توڑنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مکمل تباہی سے پہلے انسانوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تھا اور خوب خون خرابہ ہوا ہوگا۔ یہاں آبادی کے آغاز سے اس کی مکمل تباہی کے درمیان 12سو سال کا وقفہ ہے۔

چھ سو کے قریب باقی رہ جانے والے ’’موئی‘‘ بت جزیرے بھر میں ایک سے زائد گروپوں میں مختلف پلیٹ فارموں پر کھڑے ہیں۔ ان پلیٹ فارموں کو’’آہو‘‘ (Ahu) پکارا جاتا ہے۔ اس جزیرے کے حوالے سے موئی بتوں کے علاوہ یہ بات بھی ماہرین آثاریات کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتی ہے کہ اس جزیرے کے کناروں سے آگے سمندر کے پانیوں میں بھی اس جزیرے کے آثار موجود ہیں جس سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کبھی یہ جزیرہ اصل میں موجودہ حجم سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات ہمیں بتاتی ہیں کہ موجودہ جزیرہ مجموعی جزیرے کا وسطی حصہ تھا کیونکہ اس کے ہر طرف قریب قریب ایک جتنے رقبے پر تباہ شدہ جزیرے کے آثار موجود ہیں۔ یا یہ جزیرہ کسی بڑی سلطنت کا ایک حصہ تھا اور یہ کہ وہ سلطنت کون سی تھی؟ اور کیا تاریخ میں اس سلطنت کا تذکرہ موجود ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں یہ سلطنت مؤرخوں کی نظر میں آنے سے رہ گئی؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بارہ ہزار سال پہلے جب برفانی دور کے آخری گلیشیر پانی کا حصہ نہیں بنے تھے اور سمندر موجود سطح سے کوئی سو میٹر مزید نیچے موجود تھا تو یہاں جزیروں کا ایک سلسلہ موجود تھا جو ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا۔ تاہم پھر جوں جوں گلیشیر میں پگھلاؤ کا عمل شروع ہوا‘ سمندر کی سطح بلند ہوتی گئی اور یہ جزیرے ایک ایک کر کے سمندر میں غرقاب ہوتے گئے اور ان کی آبادی موجودہ جزیرے پر منتقل ہوتی گئی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تمام جزیرے آباد تھے تو کیوں دنیا کے دوسرے ممالک اور جزیرے ان سے غیر آگاہ رہے اور کیوں یہ جزیرے گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے۔ ایسٹر لینڈ میں موجود دیو قامت بتوں کے مصرف کے حوالے سے بھی ماہرین آثاریات مسلسل تحقیق کررہے ہیں۔ ان تحقیقات کے نتائج پر مشتمل کتاب ’Uriel's Machine‘ میں یہ مفروضہ پیش کیا گیا ہے کہ ان بتوں کی تعمیر کا ایک مقصد جادوئی عمل کے ذریعے غیب کا علم حاصل کرنے کی کوشش تھا۔ یہ جزیرہ ہمہ وقت سمندری طوفانوں کی زد میں رہتا تھا اور جب کبھی ایسا کوئی طوفان آتا‘ وہ بہت تباہی مچاتا تھا۔ ایسٹر لینڈ کے جادوگروں نے ان بتوں کے ذریعے شیطانی قوتوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور یوں وہ خود کو ان طوفانوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ تاہم اس ذریعے سے وہ دنیا میں آئندہ ہونے والے واقعات سے بھی خود کو آگاہ کرلیتے تھے اور اتنی قوت انہوں نے حاصل کرلی تھی کہ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ جزیرہ تباہ نہ ہوتا تو شاید دنیا کی تاریخ کسی اور دھارے پر بہہ رہی ہوتی۔ اقوام متحدہ کے آثاریات کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی ادارے نے ایسٹر لینڈ کو دنیا کے متبرک اور پراسرار آثاریات میں شمار کرلیا ہے اور یہاں کے کلچر کو سیاحوں کی آمدورفت سے ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے ان بتوں پر مشتمل میدانوں کو لوہے کی باڑ لگا کر محفوظ کرلیا ہے۔ جبکہ ان بتوں کے حوالے سے ماہرین آج بھی تحقیق میں مصروف ہیں اور ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان بتوں اور یہاں کبھی آباد ہونے والی تہذیب سے متعلق متجسس ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔