میرے پاس تم ہو۔۔یہ ڈرامہ لکھا ہے خلیل الرحمن قمر صاحب نے۔۔۔۔۔جن کے لکھے گئے مکالمے سننے لائق ہوتے ہیں اور دل کو چھو جاتے ہیں۔۔ اس ڈرامے کی کہانی کسی حد تک روایتی ڈراموں کے برعکس ہے کہ اس میں عورت کی بیوفائی دکھائی گئی ہے اور اپنی بیوی پہ جان چھڑکنے والا شوہر۔۔۔۔ دونوں کا ایک بچہ ہے رومی۔۔۔دانش جو کے ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہے۔۔۔اور حرام کی کمائی کے بے شمار مواقع ہونے کے باوجود رزق حلال کمانے پہ یقین رکھتا ہے ۔۔وجہ اس کے مرحوم والد کی تربیت ہے ۔۔اور دانش رشوت لینا ایسے ہی سمجھتا ہے جیسے اپنے باپ کی قبر کو لات مارنا۔۔۔۔لیکن مہوش جو کے دانش کی بیوی ہے وہ چاہتی ہے کہ وہ لوگ بھی امیر ہوں۔۔۔۔۔چاہے دانش کو اسکے لیے رشوت ہی کیوں نہ لینی پڑے۔۔۔اور دانش کوشش بھی کرتا ہے رشوت لینے کی تاکہ مہوش کو خوش رکھ سکے۔۔۔لیکن اپنے باپ کی وجہ سے لے نہیں پاتا۔۔ اب جا کے کہانی میں ٹوسٹ آتا ہے ۔۔ایک شادی میں شہوار نامی بندہ جو کے بے حد امیر اور سارے امیروں والے چونچلے رکھتاہے وہ مہوش پہ دل ہار بیٹھتا ہے اور مہوش اسکے امیر ہونے کی وجہ سے اس کی کسی بات کے لیے انکار نہیں کرتی۔۔ شہوار دانش سے روابط بڑھاتا ہے صرف اور صرف مہوش کے لیے۔۔ یوں شہوار اور مہوش کا چوری چھپے روابط شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔اور بات مہوش کے شہوار کے آفس میں جاب کرنے اور پھر مہوش کا دانش سے جھوٹ بول کر شہوار کے ساتھ اسلام اباد جانے اور غیر اخلاقی تعلق تک جا پہنچتی ہے۔۔۔ لیکن واپسی میں دانش ائیرپورٹ جا پہنچتا ہے اور دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر گھر پہنچ کرمہوش کو آفس جانے سے روک دیتا ہے۔۔۔پر مہوش مکمل طور پہ بیوفائی پہ اتر آتی ہے۔۔۔اور دانش کی بات ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔۔۔ دوسری طرف جب مہوش کو ملی ہوئی ایڈوانس سیلری دانش واہس کرنے جاتا ہے شہوار کو تو شہوار اسکو اسلام اباد ہوٹل میں لی جانے والی مہوش کی تصویریں دکھا کر اور دانش کے آفس پہنچنے سے قبل مہوش سے ہونے والی فون کال سنوا کر دانش سے مہوش کو طلاق دینے کو مطالبہ کردیتا ہے۔اورساتھ ہی طلاق کے بدلے پچاس میلن آفر کرتا ہے۔۔اس پر دانش پیسے لینے سے انکار کردیتا ہے۔۔۔اورگھر آ کر مہوش کو اچھے سے رخصت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔اب آتا ہے وہ ڈائیلاگ جس نے اب تک دانش کے کردار پہ تنقید کرنے والوں کے منہ بند کردیے کہ اتنا بے غیرت شوہر کہاں ہوتا یہ وہ۔۔۔ مہوش کو لے کر جاتے وقت شہوار سے دانش کا یہ مکالمہ " دیکھنے اور سننے میں تو آپ سمجھدار بزنس میں لگتے ہین لیکن اس دو ٹکے کی عورت کے آپ مجھے پچاس ملین دے رہے تھے" اس مکالمے نے ڈرامے کو پیک پہ پہنچا دیا۔۔۔۔مطلب اگر عورت پیسے کی خاطر اپنے شوہر سے بیوفائی کرنے پہ آجائے تو وہ دو ٹکے کی بھی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔عورت تو نام ہی وفا کا ہے۔۔۔محبت پہ پیسے کو ترجیح دینے والا انسان کبھی خوش نہیں رہتا اب جبکہ مہوش کو چھوڑے کچھ مہینے گزر چکے۔۔۔رومی بورڈنگ میں جا چکا ۔۔۔دانش اب بزنس کرنا چاہتا ہے۔۔اور اسکے لیے اپنا فلیٹ بیچ دیتا ہے۔۔۔ دانش کو رومی کے سکول والوں کی طرف سے رومی کی خراب کارکردگی کی وجہ سکول بلایا جاتا ہے۔۔۔دانش کی ترقی ہوجاتی ہے۔۔لیکن چونکہ دانش بزنس کرنا چاہتا ہے اس لیے اپنا فلیٹ بیچ دیتا ہے۔۔متین صاجب جو کے دانش کے کولیگ اور دوست ہیں۔۔دانش کو نوکری نہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔۔۔ساتھ ہی اپنی سابقہ بیوی کے حوالے سے بتاتے ہوئے رو پڑتےہیں۔۔۔۔ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں دانش کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر انہیں ہسپتال لے جاتا ہے اور کال کرکے متین صاحب کی بیٹی کو اسکے والد کے ہارٹ اٹیک کی اطلاع دیتا ہے۔۔۔۔لیکن متین صاحب جانبر نہیں ہوپاتے۔۔۔متین صاحب کی بیٹی رومی کی کلاس ٹیچر ہی ہے۔۔۔ دوسری طرف مہوش شہوار کے ساتھ بغیر شادی کے ناجائز تعلق رکھتے ہوئے دنیا گھوم پھر رہی ہے۔۔۔اور جب شہوار سے شادی کا مطالبہ کرتی ہے تو شہوار اسے ٹال جاتا ہے۔۔۔ ۔۔دیکھیے اب آگے کیا بنتا ہے۔۔کیا دانش امیر ہوپائے گا۔۔۔؟ کیا رومی کی ٹیچر ہی دانش کی زندگی میں وفا کے اصل مفہوم متعارف کروائے گی؟؟ کیا شہوار شادی کرے گا مہوش سے یا چھوڑ دے گا بیچ راستے میں۔۔۔؟؟ یہ سب تو انے والی اقساط سے ہی پتہ چل سکے گا۔۔ لیکن بقول خلیل سر لکھے ہوئے اہک ڈائیلاگ کہ۔۔"کہ محبت کی اتنی جزا نہیں ملتی ہوگی جتنی بےوفائی کی سزا ملتی ہے