سلسلہ معمہ

2019-11-21 14:17:26 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 20

"اجنبی" (ایلین)

 

نوٹ: یہ ایک تفصیلی پوسٹ ہے۔ طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

 

      رات کے وقت اگر ہم آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ستارے نظر آتے ہیں۔ ہم بنا کسی آلہ بصارت کے اپنی آنکھ کی طاقت سے زیادہ سے زیادہ 4,500 ستارے دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ہم معمولی طاقت کی دوربین سے دیکھیں تو ان ستاروں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ جاتی ہے اور اگر اچھی طاقت کی دوربین سے دیکھیں تو یہ تعداد کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔

صرف ہماری کہکشاں میں 30 ارب سے زیادہ ستارے موجود ہیں اور ان ستاروں کے درمیان کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے کلو میٹر یا میلوں میں ناپنا ممکن نہیں۔ اس لئے یہ فاصلہ نوری سال میں ناپا جاتا ہے۔ اور ایک نوری سال 5,878,499,810,000 میل کے برابر ہوتا ہے۔ اگر ہم کہکشاں کے کسی ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک جانا چاہے تو ہمیں 4 سے 5 نوری سال لگ سکتے ہیں۔ یعنی روشنی کی رفتار سے جانے پر بھی 4-5 سال لگ سکتے ہیں۔ اور کائنات میں کہکشاؤں کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔

 اس خوفناک حد تک وسیع خلاء میں ہمارا نظام شمسی ایک ذرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔

تو کیا اس وسیع ترین نظام میں زمین ہی واحد ایک جگہ ہے جہاں زندگی موجود ہے؟

کیا اس وسیع ترین نظام میں ہم واحد مخلوق ہیں یا ہم سے لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں میں بھی کہیں کوئی ان دیکھی مخلوق رہتی ہے۔۔۔؟؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس پہ سینکڑوں کتابیں، کہانیاں لکھی اور فلمیں بنائیں جا چکی ہیں اس کے علاوہ آج تک ہزاروں تحقیقات کے باوجود بھی کوئی واضح ثبوتوں کے ساتھ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا۔

 

      یوں تو یہ سوچ بہت پہلے کے لوگوں کی بھی ہوا کرتی تھی کہ ہماری زمین کے علاوہ بھی کہیں کوئی مخلوق رہتی ہوگی مگر پھر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ایسے لوگوں کو بھی خلائی مخلوق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا جو ان باتوں میں زرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

یہ 2 جولائی 1947 کی بات ہے جب رات کو امریکی قصبے روزویل میں کئی لوگوں نے کسی عجیب چیز کو آسمان میں اڑتے دیکھا۔ اور پھر اگلی ہی صبح ایک چرواہا قریبی پہاڑی سے گزر رہا تھا تو اسکی نظر ایک چمک دار ملبے کے ڈھیر پر پڑی۔ چرواہے نے لوگوں کو بتایا تو بات اوپر تک پہنچی اور حکومت نے اس سارے ملبے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اگلی صبح حکومت اور ملٹری نے اخبارات میں یہ خبر چھپوائی کہ انہوں نے خلائی مخلوق کی اڑن طشتری پکڑی ہے۔ مگر دوسرے ہی دن وہ اپنی بات سے مکر گئے اور نئی خبر یہ چلوائی کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی اور روزویل پر گھرنے والے عجیب وغریب دھات کے ٹکڑے دراصل موسمیاتی (مصنوعی) غبارے کے تھے۔ اس کے 30 سال بعد اس کی تحقیق میں شامل ریٹائرڈ میجر جیسی مارسل نے ایک تفتیش کار کو بتایا کہ روزویل کے حادثے میں ملنے والے دھات کے ٹکڑے کسی اور دنیا کے تھے اور موسمیاتی غبارے کی کہانی امریکی حکومت کی ایما پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اصل میں وہ ٹکڑے کسی خلائی مخلوق کی سواری کے تھے۔ ان ٹکڑوں میں لمبی لمبی انگلیاں، بڑی بڑی آنکھیں اور نازک ہڈیاں شامل تھیں۔ جنہیں امریکی حکومت نے اپنے قبضے میں لیا تھا۔ میجر جیسی نے ایک ویڈیو بھی پیش کی جس میں مری ہوئی خلائی مخلوق پر تحقیق کی جا رہی ہوتی ہے۔ وہ ویڈیو کئی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی اور درجنوں ماہرین نے اس پر بحث کی۔

اس بیان اور ویڈیو کے بعد روزویل کا واقعہ جہاں ایک طرف ہمیشہ کے لئے معمہ بن گیا تو دوسری جانب دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا واقعی زمین کے علاوہ بھی کائنات میں کہیں زندگی موجود ہے۔۔۔

اگرچہ دنیا میں کئی لوگ یہ دعویٰ کر چکے کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا ہے مگر آج تک کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ البتہ اڑن طشتریاں دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھی جا چکی ہیں۔ جن کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ خلائی مخلوق کی سواری ہے جس پر وہ دوسرے سیارے سے ہماری زمین کا دورہ کرنے آتے ہیں۔ اڑن طشتریوں کے وجود سے انکار اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ اسے دیکھے جانے کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ نیز بیک وقت دیکھنے والوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہے کہ ان سب پر کسی وہم، تخیل یا جھوٹ کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اڑن طشتریوں کو دیکھے جانے کی مشہور واقعات کی ایک لمبی فہرست آپ کو کئی کتابوں اور انٹرنیٹ پر کئی معروف اور مستند ویب سائٹس سے مل سکتی ہے۔

 

آج اسی لئے دنیا میں خلائی مخلوق کے وجود پر یقین رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جس میں دنیا کے عظیم سائنسدانوں سے لے کر ایک عام انسان بھی شامل ہے۔

ایک سروے کے مطابق یورپی ممالک میں 60 فیصد سے زیادہ لوگ اجنبی مخلوق (ایلین) اور اڑن طشتریوں کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔

مگر ان سب کے نظریات اور خیالات اس مخلوق کے لئے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

ذیل میں کچھ ایسے ہی مشہور نظریات کی بات کرتے ہیں۔

 

اجنبی مخلوق، ایک خفیہ حقیقت:

      کچھ لوگ خلائی مخلوق پر ایسے یقین رکھتے ہیں جیسے وہ انسانوں پر یقین رکھتے ہیں۔

وہ کہتے خلائی مخلوق نہ صرف دنیا میں موجود ہیں بلکہ بہت پہلے ہماری زمین پر قبضہ بھی کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہماری زمین پر خلائی مخلوق کا خفیہ بیس امریکی علاقے ایریا 51 میں ہے جہاں سے وہ دنیا کی بڑی طاقت امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔ اور ان کی کئی نسلیں دنیا کے مختلف شعبوں میں انسانی روپ میں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ امریکہ اور خلائی مخلوق کا آپس میں معائدہ ہو چکا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔

 

سب پہلے سوویت یونین نے گزشتہ صدی میں خلاء کے راز جاننے کے لئے اپنے راکٹ خلاء میں بھیجنے شروع کئے۔ اس وقت سوویت یونین کا اپنے خلائی پروگراموں میں امریکہ پر بالادستی اڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق سے متعلق تحقیق اور بہت سے رازوں سے آگاہی کی وجہ سے تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جہاں اس کے خلائی اور دفاعی پروگراموں کو ضعف پہنچا، وہاں اس کے بہت سے راز بھی اہل مغرب کے ہاتھ لگے۔ اسی طرح کے اہم رازوں میں سے خلائی مخلوق کی مختلف نسلوں سے متعلق تیار کی گئی وہ کتاب بھی ہے جو "Alien Races" یا خلائی مخلوق کی نسلیں کے نام سے پہلی بار 1946 میں شائع کی گئی، اس کے بعد مختلف وقفوں سے 1988 تک تازہ حقائق شامل کرکے شائع کی جاتی رہی۔ یہ کتاب صرف روسی حکومتی حکام، مسلح افواج کے سربراہوں، چند اہم سفارت کاروں اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں کو دی جاتی تھی یا چند سائنسدانوں کی اس تک رسائی تھی، کتاب کے آغاز میں اس بات کی سخت ممانعت کی گئی تھی کہ یہ کتاب متعلقہ شخض کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کو نہیں دکھائی جانی چاہئے۔

ایک امریکی نوجوان تفریحی دورے پر یوکرائن میں تھا، جہاں پیٹرو نامی ایک روسی نوجوان سے اس کی دوستی ہو گئی، جس کا والد کسی وقت سوویت یونین کا اہم سفارت کار تھا۔ امریکی نوجوان اپنے روسی دوست پیٹرو کے ہمراہ اس کے والد سے ملنے پرتگال گیا، جہاں اس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی کتابوں سے اس کے ہاتھ یہ کتاب لگ گئی، جسے اس نے انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد شائع کرنے کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی عام لوگوں کے لئے دے دیا۔اس میں مختلف سیاروں سے آنے والی مخلوقات کے نام حلیے اور ان کی اوسط عمر، صلاحیت کار، انہیں کرہ ارض پر سب سے پہلے اور آخری بار کہاں دیکھا گیا، کے متعلق معلومات دی گئی ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بعض انسانوں اور جانوروں کا خون پینے والی نسلیں بھی ہیں۔ بعض ایسی مخلوقات بھی ہیں، جنہوں نے دوسرے سیاروں کو اپنی کالونی بنا رکھا ہے، بعض کا حلیہ اور صلاحیت کار بالکل ویسی ہی بتائی گئی ہے جیسی کہ ہم اپنی روائتی کہانیوں میں جن یا بھوت کی بتاتے ہیں۔ زیادہ کے قد چار فٹ سے چھ سات یا آٹھ فٹ تک ہی بتائے گئے ہیں۔ ان میں ایسی مخلوق کے متعلق بھی بتایا گیا ہے جو ہماری کہکشاں کے باہر دوسری کہکشاؤں سے آتی ہیں، یعنی ہمارے راکٹ اگر ادھر کا سفر شروع کریں تو وہاں روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے بھی سینکڑوں برسوں بعد پہنچیں۔

ان مخلوقات میں عموماً دو سو سے لے کر تین چار سو برس تک زندہ رہ سکنے والی مخلوقات موجود ہیں۔ ان سے تقریباً ہر مخلوق انسان کے مقابلے میں بہت ذہین اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ ان میں ایسی مخلوقات بھی ہیں جو کروڑوں میل کا فاصلہ پندرہ بیس منٹ میں طے کرکے ہماری زمین پر پہنچ جاتی ہیں۔ ان کی اڑن طشتریاں یا سفر کے ذرائع مختلف اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ مختلف سیاروں سے تعلق رکھنے والی ایسی پانچ بے حد مضبوط مخلوقات کی ایک کونسل بن چکی ہے جو کرۂ ارض پر ہم انسانوں کی زندگی کا تحفظ کرنا چاہتی ہے۔ یہ مخلوقات ہمیں دوسری ظالم قسم کی مخلوقات سے تحفظ دے رہی ہیں۔ ان کے پاس دوسری مخلوقات کو تباہ کر دینے والے ہتھیار بھی ہیں۔ دوسرے سیاروں پر ایسی مخلوقات مختلف مواقع پر ایک دوسرے کو تباہ کر چکی ہیں یا دوسرے سیاروں کو اپنی کالونی بنا چکی ہیں۔ کتاب میں اس طرح کی تمام مخلوقات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک الگ ویب سائٹ میں مختلف سیاروں سے تعلق رکھنے والی ان چھ مخلوقات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ہماری زمین پرقبضہ کرکے ہمیں اپنا غلام بنا لینا چاہتی ہیں۔

ایک مخلوق کے مختلف مواقع پر زمین پر آ کر دو سے زیادہ امریکی صدور سے ملاقات کرنے کی دلچسپ بات بھی بتائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مخلوق کے نمائندے سوویت یونین کی حکومت سے بھی کئی بار مل چکے ہیں۔

یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ اس مخلوق کی طرف سے امریکہ اور روس کو محدود قسم کی ٹیکنالوجی بھی دی گئی ہے اور اس کے عوض زمین پر اپنے تجربات جاری رکھنے کا تعاون حاصل کیا گیا ہے، لیکن ان طاقتور مخلوقات کی طرف سے انسان کے ساتھ کسی سمجھوتے کی اہمیت ایسی ہی ہے، جیسی امریکہ جیسی طاقت کے کسی بھی کمزور افریقی یا ایشیائی ملک سے معاہدے کی! ان تمام مخلوقات کے شپ (اڑن طشتریاں) جن پر وہ سفر کرتی ہیں، اپنی رفتار کے لحاظ سے انسانی عقل و فہم سے بالا تر ہیں۔ ایک سیارے کی مخلوق جس کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے، اس کے پاس ایک ایسا شپ بھی ہے، جس پر بیک وقت پچیس لاکھ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثر مخلوقات انسانی اور اپنی نسل کی مخلوط نسل تیار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

بعض کے زمین پر آنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ بعض مخلوقات تو اپنے سیارے کے علاوہ ہماری زمین کو بھی تقریباً اپنا دوسرا گھر بنا چکی ہیں۔

ان میں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جو مسلسل انسانوں اور بڑے ملکوں کی حکومتوں سے رابطے میں ہیں۔ ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کا بڑا سا انڈے جیسا سر اور بڑی بڑی آنکھیں ہیں اور چار فٹ لمبا کمزور سا جسم ہے، لیکن ذہانت اور ٹیکنالوجی میں ہمارا ان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ایک مخلوق کا چوڑا سا مینڈک جیسا چہرہ ہے۔ کچھ سیاہ اور خوفناک سی آنکھوں والی مخلوقات ہیں۔ کتاب میں سیرین مخلوق کا خصوصی ذکر ہے، جس کا صدیوں پہلے سے ہماری زمین سے رابطہ چلا آرہا ہے۔ وہ قدیم ترین مخلوق ہے اور ہر طرح کے علوم وفنون میں ماہر۔ اس نے قدیم مصریوں کو علم فلکیات، علم تعمیرات، طب وغیرہ کی تربیت دی تھی۔ اسی مخلوق کی مدد سے مصری اپنے اہرام تعمیر کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ سیرین کا جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب سے بھی گہرا تعلق تھا۔ مایا تہذیب اور مصری قدیم تہذیب کے علاوہ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں دوسرے سیاروں سے آنے والوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے رہے ہیں۔ انسان نما ایسی مخلوق کا ذکر بھی ہے جو انڈے دیتی ہے۔ تقریباً چھپکلی کے منہ والی مخلوق بھی بہت باکمال اور ظالم قسم کی مخلوق ہے۔

کم سے کم قد والی مخلوق دو فٹ کی ہے۔ ہر مخلوق کی گلیکسی یا سیارے کا نام بھی کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کتاب کے ماحول سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے سیاروں کی ان انتہائی طاقتور اور ترقی یافتہ مخلوقات کی موجودگی میں کرہ ارض پر ہماری موجودگی محض ان کی خوشنودی پر منحصر ہے۔ شاید وہ اسی طرح زمین پر اس کائنات کی ایک منفرد مخلوق ہونے کی بناء پر ہمارا وجود برقرار رکھنے کے حق میں ہیں جس طرح ہم انسان اس کرۂ ارض پر اپنے علاوہ دوسرے ہر قسم کے جانداروں کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ بعض مخلوقات کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ دوسرے سیاروں سے بھی خاص قسم کی معدنیات حاصل کرتی ہیں اور ہماری زمین سے بھی کچھ ایسی ہی نایاب قسم کی معدنیات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انسان انہیں نہ خود کو اغوا کرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ان کی دوسری سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

(اس نظریے کی مزید تفصیل کے لئے انٹرنیٹ پر Reptilian لکھ کر پڑھ سکتے ہیں)

 

فطری طاقتوں کا نتیجہ:

      برطانوی وزارتِ دفاع اور برطانوی سائنسدانوں نے مل کر سن دو ہزار میں سرکاری سطح پر ایک تحقیق کی جس کا دورانیہ چار سال پر مشتمل تھا۔ اس تحقیق کا مرکزی سوال تھا۔

"کیا وہاں کوئی ہے؟"

مطالعے کے بعد تحقیق کاروں کا جواب تھا:

"نہیں۔"

چار سو صفحات والی اس رپورٹ کا کہنا تھا:

ایسے شواہد کا وجود نہیں ہے جن سے یہ اخذ کیا جاسکے کہ اڑن طشتریوں کے مشاہدات خطرناک ہیں یا انہیں کوئی کنٹرول کررہا ہے، وہ فطری طاقتوں کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اڑن طشتریاں نہیں ہیں تو وہ آخر کیا ہیں جنہیں دنیا کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اڑتی ہوئی طشتری کی طرح فضا میں بارہا دیکھا ہے۔

 برطانوی سائنسدانوں نے اس بات کے جواب میں کہا کہ اس تحقیق کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ غیرشناخت شدہ فضائی مشاہدات یعنی اڑن طشتریاں ٹوٹتے ہوئے ستاروں اور ان کے اثرات کے نتیجے میں دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی اڑن طشتری خلاء میں مقناطیسی، برقی، طبیعاتی اور موسمیاتی فورسز کے درمیان ردعمل سے وجود میں آتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق خلاء میں مختلف برقی، مقناطیسی اور موسمیاتی حالات کے نتیجے میں کچھ اس طرح چند وقفوں کے لیے وجود میں آتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے وہ انوکھے نظر آتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو، جو یہ کہتے ہیں کہ ان کا اڑن طشتری کا قریبی مشاہدہ ہوا ہے، یہ سمجھانا مشکل ہے کہ انہوں نے وہی چیز نہیں دیکھی جسے وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا۔

اڑن طشتریوں کے مشاہدات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ہر شخص کو یہ سمجھانا مشکل ہوگا کہ اس طرح کے پراسرار عوامل کا ایک سائنسی جواب ہے۔

خلائی مخلوق کا زمین کا دورہ:

      کچھ سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کائنات اور بیرونی خلاء میں نا صرف زندگی کا وجود ہے، بلکہ وہ لوگ انتہائی ترقی یافتہ بھی ہیں اور اپنے خلائی جہازوں میں بیٹھ کر ہماری زمین کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اپنے نظریے کے حق میں وہ کچھ دلائل پیش کرتے ہیں جو بلا شبہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دوسری دنیا کی مخلوق کسی وقت میں ہماری دنیا کا دورہ کر چکی ہے اور یہاں اپنی کچھ نشانیاں بھی چھوڑ چکی ہے۔

 

کوسٹاریکا وسطی امریکا کا ملک ہے۔ 1930 کی دہائی میں کیلے کے باغات لگانے کے لیے ایک بہت ہی گھنے جنگل کے وسط میں درختوں اور جھاڑیوں کی صفائی کی جا رہی تھی کہ اسی اثناء میں کارکنوں نے پتھر کے بڑے گولے دیکھے۔ ان میں اکثر حیران کن طور پر مدوّر ہیں۔ ان گولوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا گولا ٹینسں کی گیند کے برابر ہے جب کہ بڑے گولے آٹھ آٹھ فٹ قطر کے ہیں اور یہ قدرتی پتھر نہیں ہے بلکہ انہیں بنایا گیا ہے۔ مگر کس نے؟

کئی سال تحقیق کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں کس نے بنایا ہے، ان کا مقصد کیا تھا اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ بالکل درست گولائی میں کیسے بنا لیے گئے تھے؟

انہیں بھی خلائی مخلوق کی نشانی بتایا جاتا ہے۔

 

1927 میں پرو کے ماہر آثار قدیمہ توریبو میجیا نے نازکا میں 500 مربع کلومیٹرز پر پھیلے سینکڑوں اشکال دریافت کی جنہیں نازکا لائنز کہا جاتا ہے۔ زمین کی سطح کو کرید کر بنائے گئے 150 فٹ سے لے کر 890 فٹ تک کی ان اشکال میں پرندوں، جانوروں اور مختلف ڈیزائن کی شبیہ شامل ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں زمین پر کھڑے ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ آپ سوچیں یہ تصویریں جب زمین پر کھڑے ہو کر دیکھی نہیں جا سکتی تو اسے زمین پر کھڑے ہو کر بنایا کیسے جا سکتا ہے۔ وہ بھی صدیوں سال پہلے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اس حصے پر کبھی بیرونی دنیا کے خلاء نوردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور یہاں اپنا ائیر پورٹ بھی بنا رکھا تھا۔ نازکا خطوط میں کچھ جگہوں پر آج کے دور کے رن وے کی سی لمبی لمبی لکیریں بھی کھینچی گئی ہیں۔ آج سے ہزاروں سال قبل جب ہوائی جہازوں کا تصور بھی نہیں تھا، پھر یہ تصویریں کیسے بنائی گئی ہونگی؟

اور ہزاروں سال قبل اس طرح کے لمبے لمبے اور جدید رن وے بنانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکا مطلب یہ ہے وہ لوگ ادھر اپنے خلائی جہاز اتارتے تھے۔ ماہرین کے مطابق رن وے کی طرز کا یہ ایریا انتہائی مہلک دباؤ کے تحت بنایا گیا ہے جو آج کے انسانوں کے لئے بھی آسان نہیں۔

 

 

پیرو کے ایک اور علاقے کیوزکو میں سیکسا ہیومان (Sacsayhuamán) کے نام سے کچھ دیواریں دریافت ہوئیں۔ ان دیواروں میں 360 ٹن تک وزنی ہزاروں پتھر استعمال ہوئے ہیں جن کو آپس میں ایسے جوڑا گیا ہے کہ ان کے درمیان آج تک کوئی گھانس پھونس بھی نہ اگ سکی۔ ان پتھروں کو 22 میل کے فاصلے سے نامعلوم طریقے سے لانے کے بعد ایسے ترتیب سے کاٹ کر ایک دوسرے کے اوپر رکھا ہے جو بغیر ٹیکنالوجی کے ممکن نہیں۔ "انکا سلطنت" کے لوگوں کس نے 22 میل کے فاصلے سے اتنے وزنی ہزاروں پتھر لا کر دئے؟

 

اہرام مصر کے بارے میں تو ہر کسی نے سن رکھا ہوگا۔ اکثر لوگ اسے قدیم انسان کی ایجاد بتاتے رہے ہیں مگر جیسے جیسے اہرام مصر پر تحقیقات ہوتی گئیں تو اس کی ایسے حیرت انگیزیاں سامنے آئ کہ مجبوراً اس نظریے سے انکار کرنا پڑا کہ اسے انسان نے بنایا۔ 3 اہراموں کا آرین ستاروں کی سیدھ میں ہونا اور اہراموں کے چاروں اطراف زمین کی چار بنیادی سمتوں کی سیدھ میں ہونا، اہرام میں ہر وقت ہر موسم میں سینٹی گریڈ 20 ہونا، 2 سے 5 ٹن کے ہزاروں پتھروں کو بغیر جدید مشینریوں کے ایسے طریقے سے لگانا جو آج کے انسان کے لئے بھی چیلنج ہو اور کئ حقائق ایسے ہے جو اس وقت کے انسان کے لئے کسی طور ممکن نہ تھا۔

اس لئے اہرام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے خلائی مخلوق نے بنایا ہے جو اس دور کی دنیا سے ترقی میں بہت آگے تھی

(اہرام مصر کی تفصیل کے لئے سلسلہ معمہ، کیس نمبر: 10 ملاحظہ کریں)

 

چلی کے ساحل سے قریباً 3,600 کلومیٹر کی دوری پر واقع جزیرہ "ایسٹر آئلینڈ" دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس جزیرے سے متعلق سب سے نمایاں بات جو آج بھی انسان کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے، وہ یہاں کھلے میدانوں میں کھڑے پتھر کے بلند قامت بت ہیں جنہیں ’’موئی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ بت مجموعی طور پر چھ سو کی تعداد میں جزیرے میں کوئی ایک میل کے رقبے میں پھیلے ایک میدان میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے بڑے قد کا بت 65 فٹ لمبائی کا ہے جبکہ اس کا وزن 270 ٹن سے زیادہ ہے۔ یہ بت لاوے کے سخت ہوجانے والے ٹکڑوں سے بنائے گئے ہیں۔ ان بتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں خلائی مخلوق نے دنیا میں اپنی نشانی کے طور پر لگایا ہے۔ کیونکہ ہزاروں سال پہلے کے انسانوں کے لئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ انہوں نے لاوے سے ایسے بت بنائے اور پر اوسطاً 13 فٹ لمبے اور 14 ٹن کے 600 بتوں کو کیسے زمین پر لمبا کھڑا کیا گیا ہوگا۔ اگر ان کے پاس اس کے لئے مشینریاں تو ان مشینریوں کی باقیات کیوں نہیں مل سکی۔

 

سٹون ہینچ زمانہ قبل از تاریخ کے دور کی ایک یاد گار ہے۔ یہ جنوبی برطانیہ میں سالسبری سے 13 کلومیٹر شمال میں ہے۔ اس کے بارے میں اندازا ہے کہ یہ آج سے 5,000 سال قبل موجود تھی۔ سٹون ہینج بڑی بڑی جسامت کے کھڑے ہوۓ پتھروں کی شکل میں ہے جو ایک گول دائرے میں ہیں۔ اور ایک پتھر کا وزن تقریباً 50 ٹن ہے۔

پتھروں کے اس دائیرے کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خلا سے آنے والی مخلوق نے زمین پر نشانی کے طور پر بنایا تھا کیونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان پتھروں کو اس طرح کھڑا کرنا بغیر جدید ٹیکنالوجی اور جدید مشینریوں کے ممکن نہیں۔

 

جنوبی افریقہ میں چند دہائیوں سے کان کنوں کو کھدائیوں کے دوران کچھ خاص طرح کی دھاتی گولیاں مل رہی ہیں جن کا قطر ایک انچ یا ان سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ کسی اجنبی سی نیلی دھات کے بنی ہوئی ہیں اور ان پر عجیب سا مادہ ہے جو اسپنج کی طرح کا ہے کہ دبانے سے دب جاتا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان گولیوں کی عمر کرہِ ارض پر وجود میں آنے والی اوّلیں چٹانوں سے کچھ ہی کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ عرصہ لگ بھگ 28 ارب سال بنتا ہے۔ نہ تو سائنس نے دنیا یہ مادہ کہیں دیکھا ہے اور نہ ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ اسے کس نے اور کس طرح دفن کیا ہے۔

 

چین میں ایک سلسلۂ کوہ ہے جسے بائیان کارا یولا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک معروف چینی ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر چی پو تی کو کچھ غار ملے۔ وہ ان غاروں میں داخل ہوا تو وہاں صدیوں سے جمع ہونے والی گرد کے نیچے انہیں گراموفون کے ریکارڈ کی شکل کی بے شمار طشتریاں ملیں۔ ان کا قطر تقریباً 9 انچ ہے اور یہ پتھر سے بنے ہوئی ہیں۔ ان کی قدامت کا اندازہ 10 سے 12 ہزار برس لگایا گیا ہے۔

ان ریکارڈوں پر ہیرو غلیفی سے مماثل خط میں کسی اور دنیا سے آنے والی خلائی گاڑیوں کا واقعہ درج ہے۔ ان خلائی گاڑیوں کو اس مقام پر معلوم نہیں ہنگامی طور پر اترنا پڑا یا انہوں نے عمداً یہاں قیام کیا۔ ان لوگوں نے خود کو ڈروپا کا نام دیا ہے اسی نام کے حوالے سے یہاں سے برآمد ہونے والی سنگی الواح کو Dropa Stones کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ مذکورہ غاروں میں ان ہی لوگوں کی نسل کی باقیات ہیں۔ یہ کون لوگ تھے؟ اور کس دنیا سے یہاں آئے تھے؟

 

      اب کچھ قدیم تاریخی پینٹنگز کی بات کرتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہماری زمین پر کبھی خلائی مخلوق اتر چکی ہے۔ 

 

1۔ اٹلی کی وادی Val Camonica میں ایک غار سے 10,000 قبل مسیح ایک پینٹنگ دریافت ہوئی جس میں واضح طور پر دو آدمی خلائی ہیلمٹ پہننے ہوئے ہیں اور دونوں کے ہاتھ میں ٹارچ قسم کی کوئی چیز ہے۔

 

2۔ نیپال میں ایک ڈسک نما پلیٹ دریافت ہوئی جس کا نام "The Lolladoff plate" ہے.

اس پلیٹ پر گولڈن ریشیو کے حساب سے ایک سپائرل قسم کا ڈیزائن بنا ہے اور اسی ڈیزائن میں ایک چھوٹا خلائی مخلوق بھی صاف نظر آرہا ہے۔ اس ڈسک نما پلیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً 7,000 قبل مسیح کا ہے۔

 

3۔ 1966 میں میکسیکو کے صوبے Querétaro میں 7,000 سالا پرانی پینٹنگ دریافت ہوئی جس میں چار آدمی ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیں اور ان کے سروں کے اوپر ہوا میں ایک چیز نظر آرہی ہے۔ اڑنے والی اس نامعلوم چیز سے روشنی بھی نکل رہی ہے۔

 

4۔ سہارا ریگستان کے علاقے Tassili میں ایک غار سے 6,000 قبل مسیح کی ایک پینٹنگ ملی جس میں ایک شخص ہیلمٹ پہنا ہوا ہے اور اس کے پیچھے ہوا میں ایک طشتری نظر آرہی ہے۔

 

5۔ امریکی ملک Utah میں Sego Canyon نام سے 5,500 قبل مسیح کی پہاڑی پینٹنگز میں کئی جگہ خلائی مخلوق کی شبیہ بنی ہیں۔

 

6۔ یوکرین کے شہر Kiev میں 4,000 قبل مسیح کی ایک پینٹنگ میں چھوٹے قد کے ایک آدمی نے عجیب سا لباس پہنا ہوا ہے جس کے ساتھ ہیلمٹ بھی ہے۔

 

7۔ Wandjina آسٹریلیا میں دریافت ہونے والے تقریباً 5,000 قبل مسیح کی پہاڑوں پر بنی پینٹنگز ہیں جس میں خلائی مخلوق قسم کے لوگ بنے ہوئے ہیں۔

 

8۔ 1350 کی حضرت عیسیٰ کی سولی پر لٹکانے کی ایک پینٹنگ میں واضح طور پر دو چھوٹی اڑن طشتریاں نظر آرہی ہیں دونوں میں ایک ایک فرد بھی سوار نظر آرہا ہے۔

 

9۔ تیرویں صدی کی ایک کرسچین مذہبی پینٹنگ میں کچھ لوگ زمین پر کھڑے ہیں اور ان کے اوپر بہت ساری طشتریاں نظر آرہی ہیں جن میں سے سب سے قریبی طشتری سے دو آدمی نیچے کھڑے لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

 

10۔ بارہویں صدی کی ایک مذہبی پینٹنگ "Annales Laurissenses" میں ایک آدمی گھوڑے پر بیٹھا آسمان پر نظر آنے والی طشتری کی طرف انگلی کئے کھڑا ہے۔

 

اور ان سب پینٹنگز سے بڑھ کر 1848 میں مصر کے "سیٹی" فرعون کے گرجا سے پتھر پر کندہ ایک تصویر دریافت ہوئی۔ تصویر میں واضح طور پر جدید دور کے جہاز، ہیلی کاپٹر اور آبدوز نظر آرہے ہیں۔ یہ تصویر لاکھوں سال پرانی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے نے ضرور کچھ ایسا دیکھا ہوگا جسے اس نے ایک پتھر پر محفوظ کر لیا تھا اور پھر کسی طرح یہ پتھر فرعون سیٹی کے گرجا پہنچا۔

کیا یہ بھی خلائی مخلوق کا کوئی تحفہ یا نشانی ہے؟

 

اس طرح کی اور بھی کئی پینٹنگز اور سنگی رکارڈ دریافت ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پینٹنگز کو بنانے والے مصوروں نے ضرور کچھ ایسا دیکھا ہوگا جسے انہوں نے کہیں بنا کر محفوظ کر دیا۔ جیسے ہم کچھ اچھا، نیا یا عجیب دیکھتے ہیں تو اسے کیمرے سے تصویر کی صورت میں محفوظ کر لیتے ہیں۔

 

خلائی مخلوق نہیں امریکی مخلوق:

     صرف امریکی دشمن روس اور مسلمانوں کا ہی نہیں، بلکہ جن امریکی محققین نے غیر جانبداری کے ساتھ اڑن طشتریوں پر تحقیق کی ان کا بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں جیسا کہ ان کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی بلکہ ہماری اسی دنیا کے انسان ہیں، البتہ وہ اپنی جدید ٹیکنالوجی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ انسان نہیں بلکہ خلائی مخلوق ہیں۔ اڑن طشتریوں میں موجود خلائی مخلوق کا جسم ہمارے جسم کی طرح ہے، ناک کان، منہ، ہاتھ، پاؤں اور دیگر اعضاء بھی عام انسانوں کی طرح ہیں، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اڑن طشتری والوں کے ذریعے جن افراد کو اغواء کیا جاتا رہا ان کے بیان کے مطابق اغواء کرنے والے ہماری طرح انسان ہی ہیں۔

مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا بھی اس بارے میں یہی نظریہ تھا۔ ہفت روزہ "الاسبوع العربی" نے 29 جنوری 1979 کے شمارے میں لکھا "البرٹ آئنسٹائن کے مطابق بلا شک و تردید اڑن طشتریاں موجود ہیں اور یہ اڑن طشتریاں جن ہاتھوں کے کنٹرول میں ہیں وہ بھی انسان ہی ہیں"۔

اس خیال کے حامی لوگ روزویل کے واقعے کے بارے میں کہتے ہیں کہ روزویل میں تباہ ہونے والی اڑن طشتری امریکہ کی تھی جسے بنانے کے بعد آزمایا جا رہا تھا اور اس دوران وہ گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اپنی اس ٹیکنالوجی کو خفیہ رکھنے کے لئے امریکہ نے طرح طرح کی کہانیاں بنائیں۔

 

افغان امریکی جنگ کی ایسی کئی ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں جس میں اڑن طشتریوں کو بمباری کے لئے استعمال کیا ہے۔ ایک ویڈیو میں تو افغان مجاہدین ایک اڑن طشتری کو مار گرا دیتے ہیں جسے پھر امریکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اٹھا کر لے جاتے ہیں اس کی بالکل واضح ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں نے ایسی ویڈیوز بھی انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی ہیں جس میں امریکی فضائیہ اور اڑن طشتریاں ایک ساتھ مشقیں کرتی نظر آتی ہیں۔

اگر آپ انٹرنیٹ کی ویڈیوز پر یقین نہیں بھی کرتے تو زرا سوچیئے، یہ طشتریاں صرف امریکی ممالک میں ہی کیوں زیادہ تر دیکھی گئی ہیں پاکستان میں کیوں نظر نہیں آتی۔ اور ان طشتریوں کا وجود ابتدا میں خیالی تھا تو ایک خیالی تصور سے ملتی جلتی چیز ہی منظر عام پر کیوں آئی۔ جیسے انسانوں نے سوچا تھا اس سے مختلف شکل و صورت کے خلائی جہاز کیوں نہی دکھائی دیے۔ کیا خلائی مخلوق کو خبر ہو گئی تھی کہ اس شکل کے جہاز میں آئیں گے تو ہی انہیں خلائی مخلوق سمجھا جائے گا یا انہوں نے خود فکشن رائٹرز کے دماغوں میں اس کی شکل اتاری تھی۔ خلائی مخلوق کا وجود اور کچھ نہیں بس ایک جدید ٹیکنالوجی والی امریکی خفیہ فورس ہے جس کے دیگر نام "one wolrd government"، "الومیناٹی" اور "فری میسن" ہے۔ اور اس کا شوشہ تیسری جنگ عظیم میں چھوڑا جائے گا۔

 

اسلام اور خلائی مخلوق:

      معروف مذہبی اسکالر، ڈاکٹر ذاکر نائک اکثر اپنے بیانات میں کہتے ہیں کہ قرآن نشانیوں کی کتاب ہے یہ سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں ہر فارمولہ اور اصول لکھا ہوا ہے اس میں کچھ نشانیاں دی گئی ہیں جن پر غور کرنا ہمارا کام ہے۔

تو کیا قرآن میں ایسی کوئی نشانی موجود ہے جو اس طرف اشارہ کرتی ہو کہ کسی طرح کی خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے۔

اسلامی سوال جواب کے ویبسائٹ "فتویٰ آنلائن" پر جب علماء سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا۔

 

"بلاشبہ یہ کائنات بہت وسیع و عریض ہے، اس میں آئے روز نت نئی مخلوقات کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ قرآنِ مجید نے جا بجا کائنات کی وسعت اور اس میں اضافے کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO

 

تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین (کی تمام وسعتوں) کا پیدا فرمانے والا ہے، فرشتوں کو جو دو دو اور تین تین اور چار چار پَروں والے ہیں، قاصد بنانے والا ہے، اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے، بیشک اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔

 

فَاطِر، 35: 1

 

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

 

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَO

 

اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔

 

الذَّارِيَات، 51: 47

 

کائنات میں موجود مخلوقات کی حتمی تعداد بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم میں ہے۔ ارشاد ہے:

 

وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَO

 

اور وہ (ایسی مخلوقات کو) پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم (آج) نہیں جانتے۔

 

النَّحْل، 16: 8

 

دوسرے کرّات، سیاروں اور کہکشاؤں میں کسی زندہ مخلوق کا وجود انسان کے لیے صدیوں پرانا سوال ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی انسان اس کے جواب کی تلاش میں رہا ہے، لیکن ابھی تک اس کا حتمی جواب حاصل نہیں کر سکا۔ قرآن مجید کی بعض تعبیرات میں آسمان میں دوسری مخلوقات کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

 

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌO

 

اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور اُن چلنے والے (جانداروں) کا (پیدا کرنا) بھی جو اُس نے اِن میں پھیلا دیئے ہیں، اور وہ اِن (سب) کے جمع کرنے پر بھی جب چاہے گا بڑا قادر ہے۔

 

الشُّوْرٰی، 42: 29

 

دوسرے مقام پر فرمایا:

 

وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلَآئِكَةُ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَO

 

اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتے۔

 

النَّحْل، 16: 49

 

قرآنِ مجید میں العالمين کا لفظ 61 بار آیا ہے جو زمین اور ہمارے نظامِ شمسی کے علاوہ دیگر نظاموں اور ان میں مخلوقات کی موجودگی کا احتمال رکھتا ہے۔

 

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO

 

سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔

 

الْفَاتِحَة، 1: 1

 

درج بالا آیات خلاء اور دیگر سیاروں پر مختلف قسم کی مخلوقات کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اگرچہ ابھی تک سائنسدانوں نے قطعی طور پر اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور اجمالی طور پر اس کے امکانات ظاہر کیے ہیں، تاہم قرآنِ مجید نے واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ آسمانوں میں بھی زندہ، چلنے والی مخلوقات موجود ہیں۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسنِ تقویم بنایا ہے اور اس کے سر پر اشرف الخلق کا تاج سجایا ہے۔ یہ دعویٰ کہ کائنات میں انسان سے بھی ذہین مخلوقات موجود ہیں، سراسر وہم ہے۔ کوئی بھی مخلوق انسان کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔"

(مفتی: محمد شبیر قادری)

 

یہ تو تھا "فتویٰ آنلائن" کے علماء کا جواب مگر کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق کا وجود اس لئے نہیں کہ حضور اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک پیش آنے یا ظاہر ہونے والے تمام بڑے اور چھوٹے مگر اہم واقعات کے بارے میں احادیث میں بتایا ہے جن میں یاجوج مجوج کی مخلوق کا ظاہر ہونا بھی ہے۔ مگر کسی خلائی مخلوق کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر نہیں کیا۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ خلائی مخلوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔

دیکھا جائے تو قرآن مجید میں اللہ نے انسان کے علاوہ جن مخلوقات کا ذکر کیا ان میں فرشتوں اور جنات کا بھی ذکر کیا اگر انسان، فرشتوں اور جنات کے علاوہ کوئی مخلوق ہوتی تو ان کا ذکر بھی قرآن میں ہونا چاہئے تھا۔ اور انہیں بھی پیغمبر بھیجے جاتے مگر اس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی۔

(واللہ اعلم)

خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے مگر۔۔۔ :

       عدم علم سے عدم وجود ثابت نہیں ھوتا-

اگر ہم خلائی مخلوق کو اب تک اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ وجود ہی نہیں رکھتی- جس طرح آج سے کئی سال پہلے ہم بہت سی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے مگر آج ہم نے وہ سب کھوج ڈالی۔

جس طرح زمین پر کہیں بھی پانی کی موجودگی کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں زندگی بھی کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہو گی تو اسی طرح کسی سیارے پر اگر پانی بہتا ہو تو وہاں بھی زندگی کے وجود سے آسانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

وہ الگ بات ہے کہ وہ کس صورت میں ہوگی۔

خلا میں حیات کی کھوج کے سلسلے میں مریخ ماہرین فلکیات کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس ضمن میں کی جانے والی ایک تحقیقات کے اہم نتائج سامنے آئے اور ایک زبردست پیش رفت بھی ہوئی۔ سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ ماضی میں مریخ پر پانی بہتا تھا، اور اب بھی اس پر کھارا پانی موجود ہے۔

اس طرح زحل کا چاند Enceladus بھی سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک تحقیق سے اس کی فضا میں آبی بخارات کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

ان کے علاوہ سوئٹزر لینڈ مین واقع جنیوا کے ماہر فلکیات مایکل میئر نے دو نئے نئے سیارے دریافت کیے ہیں جو زمین سے بہت زیادہ مشابہ ہیں۔ ان کی جسامت بھی زمین جتنی ہے اور ایک سیارہ اپنے ستارے سے نہایت مناسب فاصلے پر موجود ہے جہان مائع پانی ک موجودگی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ ان سیاروں کے نام گلیز-ڈی اور گلیز-ای ہیں۔ یہ دونوں سیارے برج میزان میں ہیں جس کا زمین سے فاصلہ تقریباً 20۔5 نوری سال ہے۔ تو بعید نہیں کہ اس کائنات کے کسی گوشے میں ہماری زمین جیسی خسوصیات کا حامل سیارہ موجود ہو اور وہاں زندگی بھی اپنا وجود رکھتی ہو۔

مگر کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کائنات میں زندگی کا وجود اگر ہوا بھی تو انسان کبھی بھی اس مخلوق کے مسکن تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی طبعی عمر اتنی کم ہے کہ وہ کائنات کے دور دراز مقامات تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ مثلا، ہماری زمین سے قریب ترین ستارہ بھی چار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ ایک خلائی جہاز خلا میں زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے، اور اس قریب ترین ستارے تک پہنچنے کے لئے بھی انسان کو ایک ارب، بانوے کروڑ بہتر لاکھ سال درکار ہونگے۔ پھر اگر ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک محض الیکٹرونک پیغام ہی بھیجا جائے تو وہ بھی ہزاروں سالوں میں اپنے مقام پر پہن سکے گا اور زمین سے پیغام بھیجنے والے ہزاروں سال پہلے وفات پاچکے ہونگے۔

آئین سٹائین کے نظریہ اضافیت (E= Mc²) کے حساب سے دیکھا جائے تو اس نظریے کے مطابق مادہ (mass) کو انرجی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ایک تو یہ نظریہ ممکن نظر نہیں آتا اور دوسری بات اگر اس نظریے کو عملاً بھی کر دیا جائے تو بھی اس کے لئے اتنی انرجی چاہئے ہوگی کہ اس پر لاتعداد مادہ خرچ ہوگا۔

 

      کیا واقعی ایک دن ایسا آئے گا کہ جب ہم کسی اور کائنات کی مخلوق سے رابطے میں ہونگے؟

یہ نئی مخلوق کیسی ہو گی اور اس کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ ہونگے یا دشمنی پر مبنی ہونگے؟

کیا کسی دن یہ معمہ حل ہو پائے گا۔۔۔۔؟