سلسلہ معمہ

2019-11-23 12:10:59 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 22

"ندائے غیبی"

(ال بھنبھنا - The Hum)

 

      انسان کا دماغ دن میں جس طرح سوچتا ہے رات میں اس طرح نہیں سوچتا۔ رات میں انسان کا دماغ بہت باریکیوں میں جاتا ہے اور شاید ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ رات میں دماغ کو باریکیوں میں جانے سے روکنے والے عناصر یعنی دنیا کا دیگر شور شرابہ، دن کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ ایسے میں رات کو دیر تک جاگنے والے لوگ اگر رات کی خاموشی میں کوئی معمولی آواز بھی سنتے ہیں تو ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ اس انجان آواز کو دوبارہ سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ باہر سے اگر کسی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز بھی آئے تو کچھ لمحوں کے لئے اس کے ذہن میں اس گاڑی کے متعلق کئی قسم کے خیالات آ کر گزر جاتے ہیں۔

اب آپ فرض کریں،

آپ ایک ایسے خاموش گاؤں میں رہتے ہیں جہاں ہر رات مسلسل ایک ایسی آواز سنائی دیتی ہو جیسے کسی دور دراز مقام پر ڈیزل انجن چل رہا ہو اور تحقیقات کے باوجود کسی کو معلوم نہ ہو کہ وہ آواز کس چیز کی ہے اور کہاں سے آتی ہے تو آپ کے ذہن میں کتنے قسم کے خیالات آئیں گے۔۔۔؟

آج ایک ایسے ہی معمے پر بات کریں گے جس کی وجہ سائنسدان اب تک جاننے میں ناکام رہے ہیں۔

 

      امریکا، برطانیہ اور شمالی یورپ کے خاموش اور کم شور والے مقامات میں بعض اوقات ایک دھیمی لیکن گہری سی آواز سنی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دور دراز مقام پر ڈیزل انجن چل رہا ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے برابر میں کوئی ریفریجریٹر یا کمپیوٹر چل رہا ہو۔

اس آواز کو عام طور پر The Hum کہتے ہیں کیونکہ اس میں مسلسل "ہمممم" طرح کی آواز آتی ہے اور معلومات فراہم کرنے والی ویبسائٹ وکیپیڈیا پر اس کا اردو نام "ال بھنبھنا" لکھا ہوا ہے۔

ویسے تو یہ آواز دنیا میں کئی مقامات پر سنی جاتی ہے مگر نیو میکسیکو کے ایک چھوٹے سے قصبے ٹاؤس کے باسیوں کو اکثر بہت واضح سنائی دی جاتی ہے جو Taos Hum سے مشہور ہے۔ یہ قصبہ شہر کے شور شرابے سے خاصا دور بھی ہے اور یہاں کی راتیں خاصی سناٹے دار ہوتی ہیں۔ ہرچند اس آواز کا اعادہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس کے باوجود بعض لوگ اسے سن کر خوف اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خوف کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ آواز بجائے خود ایک اسرار ہے اس کی دوسری اور تیسری پراسراریت یہ ہے کہ اسے ہر کوئی نہیں سن سکتا اور اسے انسانی کان تو سن پاتے ہیں لیکن انتہائی حساس مشینی کان (آلات سماعت) اسے ریکارڈ کرنے سے قاصر ہیں حتیٰ کہ VLF انٹینے لگا کر بھی اس آواز کو سننے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔

ایک رپورٹ کے مطابق تین لوگوں نے اس آواز سے تنگ آکر خودکشی کی جب کے کئی لوگ ذہنی بیماریوں کے شکار ہو چکے ہیں۔

1997 میں امریکا کی کانگریس میں اس حوالے سے سوال بھی اٹھایا گیا تھا اور سائنس دانوں اور مشاہدہ کاروں کو معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہدایت کی گئی، دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ اس سنائی دینے والی آواز کے اسرار کو کھولیں۔ بہت کوششیں کی گئیں لیکن کوئی بھی اس آواز کو سمجھ نہیں پایا کہ اس کی نوعیت کیا ہے، اس کا منبع کہاں ہے اور یہ پیدا کیسے ہوتی ہے۔

یہ آواز پہلی بار برطانیہ میں 1960 میں سنی گئی اور اس کے بعد ٹاؤس، میکسیکو میں 1980 میں وہاں کے لوگوں نے اسے سنا۔

تحقیق کاروں نے مختلف نظریات کے تحت اس پر تحقیق کی مگر کسی بھی تحقیق سے کوئی جواب نہ مل سکا۔ آج کے ٹاپک میں ان نظریات اور ان کے متعلق ہونے والی کچھ تحقیقات پر بات کرتے ہیں۔

 

قدرتی توجیہات:

      جون 2008 میں امریکی ادارے US Array Earth Scope کے محققین نے اس آواز کے متعلق اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ یہ آواز جن علاقوں میں سنی جاتی ہے ان تمام علاقوں سے فاصلے پر سمندر ہے۔ ان علاقوں میں سمندری ہواؤں کا ٹکراؤ ہوتا ہے جسے colliding ocean waves کہتے ہیں۔ مخالف سمتوں سے چلنے والی ہواؤں کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی یہ آواز ہوا کے ساتھ سفر کرتے ہوئے فاصلے پر خاموش علاقوں میں سنائی دی جاتی ہے۔ چونکہ اس کی فریکوئنسی بہت کم ہوتی ہے اس لئے اسے صرف وہ لوگ سنتے ہیں جن کے کان باقی لوگوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ ہواؤں کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی اس آواز کو کسی آلے سے کیوں رکارڈ نہیں کیا جا سکتا؟

شاید ایسا اس لئے ہوتا کہ جب ہوا کو کسی پتلے پائپ سے گزارا جائے تو وہ آواز پیدا کرتا ہے اور انسانی کان کے پردے تک جب کوئی آواز جاتی ہے تو وہ بھی اسی طرح کے ایک پائپ سے گزر کر جاتی ہے۔ شاید انسانی کان کے پائپ اور ہوا کی فریکوئنسی کی میچنگ کی وجہ سے ایسی آواز بنتی ہو۔ مگر جنہیں یہ آواز سنائی دیتی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر دونوں ہاتھوں سے کانوں کو دبا کر رکھیں تو بھی انہیں یہ پراسرار آواز سنائی دیتی ہے۔

 

کچھ آبی حیات کے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ آواز مچھلیوں کی آواز ہے۔ Toadfish مینڈک نما ایک مچھلی ہے جو کہ سمندر کے کنارے پتھروں اور ریت میں بہت کم پانی میں رہتی ہے۔ یہ مچھلی دن میں سمندر کے کنارے پر پتھروں میں چھپ جاتی ہے اور رات میں زمین کے اوپر آجاتی ہے۔ جب کوئی نر Toadfisd کسی مادہ Toadfish کو جماع کے لئے بلاتی ہے تو وہ اپنے پروں سے اس طرح آواز نکالتی ہے جیسے کوئی مشین چل رہی ہو جسے مادہ مچھلی سن کر سمجھ جاتی ہے۔

 

ایک ماہر ارضیات نے اس آواز کو میگما کی آواز کہا ہے۔ میگما کئی قسم کی گیسوں، پگھلی ہوئی چٹانوں اور دیگر ٹھوس اجزاء سے مل کر بنتا ہے جو زمین کی سطح کے نیچے پایا جاتا ہے۔ یہ زیر زمین حرکت کرتا ہے اور جب پھٹ کر باہر آتا ہے تو لاوا کہلاتا ہے۔

 

شور کی آلودگی:

    جس طرح آلودگی دنیا کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے اسی طرح Noise Pollution، یعنی شور کی آلودگی بھی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ کچھ سائنسدان The Hum کو شور کی آلودگی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آواز صنعتوں کی مشینوں، جہازوں، ٹریفک اور دنیا کی باقی چیزوں سے پیدا ہونے والی آوازوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ شور خشکی سے پیدا ہو کر سمندر کی طرف جاتا ہے اور سمندری ہوا کہ زریعے واپس ان علاقوں کی طرف آتا ہے جہاں مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ اسی لئے پہلے یہ کچھ ہی علاقوں میں سنا جاتا تھا مگر اب اس کی اطلاعات کئی علاقوں سے موصول ہو رہی ہیں۔

 

آواز کی وجہ بیماری:

     ہسٹیریا ایک نفسیاتی بیماری ہے جسے عام زبان میں پاگل پن کے دورے بھی بولا جاتا ہے۔ اس دماغی ڈس-آرڈر کے بارے میں ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ اس کا شکار کوئی مخصوص پورا علاقہ بھی ہو سکتا ہے جو ماس ہسٹیریا کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس ڈس-آرڈر کا تعلق کسی بھی فکر یا خوف سے ہوتا ہے۔

2005 میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ آیا تھا۔ زلزلے میں بچ جانے والے ان علاقوں کے لوگ جہاں زلزلے کی شدت زیادہ تھی٬ عارضی طور پر ماس ہسٹیریا کے شکار ہوگئے تھے۔ انہیں بیٹھے بیٹھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے زمین ہل رہی اور وہ خوف کے مارے اپنے گھروں سے باہر نکل جاتے تھے۔ The Hum کے متعلق بھی ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ یہ ماس ہسٹیریا ہے۔

ہو سکتا ہے ان علاقوں میں دور دراز سے کوئی آواز کسی دور میں میں انہیں سنائی دی گئی ہو جس کی تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے کئی پراسرار کہانیاں جوڑی گئی ہو اور اسی وجہ سے آج اعصابی طور پر کمزور لوگوں کو خوف کی وجہ سے آواز آج بھی سنائی دیتی ہو۔

 

دوسری ایک اور وجہ بھی ڈاکٹر بیان کرتے ہیں اور وہ ہے بیماری Tinnitus، یعنی کان بجنا۔

کان بجنا ایک ایسی عام بیماری ہے جس کی کئی ساری وجوہات ہیں اور اس معمولی بیماری پر کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ میڈیکل سرویز کے مطابق ہر 5 افراد میں سے ایک فرد tinnitus کا شکار ہوتا ہے۔

(مجھے خود تقریباً 2-3 سال ہونے والے ہیں کہ جب سردی بڑھتی ہے تو نزلے اور الرجی کی وجہ سے میرے ایک کان میں گھنٹیاں بجنے لگ جاتی)۔

اس پراسرار آواز، یعنی The Hum کو جو لوگ سننے کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ اسے الگ الگ طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ اور Tinnitus میں بھی جن کے کان بجتے ہیں ان کو سنائی دینے والی بھنبھناہٹ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔

مگر جن محققین نے یہ آواز خود سنی انہوں نے ڈاکٹروں کی اس بیان کو نہیں مانا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ Tinnitus کے شکار ہیں تو انہیں دنیا کے دوسرے خاموش مقامات پر کیوں اس طرح کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

 

سازشی نظریات:

      سازشی نظریات یا کونپیریسی تھیوریاں وہ ہوتی ہیں جن میں آفیشل نظریات کو رد کیا جاتا ہے۔

اس پراسرار آواز کے بارے میں بھی کئی سازشی نظریات انٹرنیٹ پر پائی جاتی ہیں۔

کچھ لوگ انہیں خلائی مخلوق کی نظر نہ آنے والی طشتریوں کی آواز کہتے ہیں تو کوئی اسے امریکا کی بدنام زمانہ HAARP ٹیکنالوجی کا اثر کہتے ہیں۔

کوئی انہیں امریکی گورنمنٹ کی مائنڈ کنٹرول سگنلز کی آواز کہتے ہیں تو کوئی اسے زیر زمین خفیہ سرنگوں سے جوڑتا ہے۔

اسی سلسلے میں کچھ سائنسدانوں نے مل کر ایک ویبسائٹ

www.thehum.info

کھولی ہے جس پر لوگ اس آواز سے متعلق اپنے تجربات بھیجتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ دنیا میں کہاں کہاں یہ پراسرار آواز سنی جاتی ہے۔ ویبسائٹ ان علاقوں کا پورا نقشہ موجود ہے اور وہاں کوئی بھی اپنا کوئی نیا نظریہ پیش کر سکتا ہے۔ ویب سائٹ پر چندہ دینے کا بھی آپشن موجود ہے تاکہ کوئی بھی شخص چاہے تو سائنسدان کی اس آواز پر مذید تحقیق کے لئے مالی مدد کر سکے۔

 

اس پراسرار آواز پر اب تک کئی کہانیاں، رپورٹیں اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں مگر آج بھی اس "ندائے غیبی" کے منبع کا کچھ پتا نہیں چل رہا نہ اس کی صحیح نوعیت کا علم ہوتا ہے۔