کیرئیر کونسلنگ،پروفیشن اور ہم۔۔
میں جب بھی اپنے اسکول یا کسی اور اسکول کے بچوں سے سوال پوچھتا ہوں کہ بیٹا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کیا بننا
چاہتے ہو تو اکثر بچوں کا جواب ڈاکٹر، انجینیر،پائلٹ اور فوجی ہوتا ہے۔جب اُن سے مزید پوچھا جاتا ہے کہ آپکی اپنی دلچسپی
کیا ہے یا میلان کیا ہے تو خاموشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ وہ جوابات ہیں جن کو سنتے عمر گزر گئی ہے مگر یہ تبدیل نہیں
ہوئے ہیں۔
میں اپنی بات کرو تو بنا راہنمائی کے اپنی ھر ڈگری مکمل کی۔ماسٹر آف انگلش لٹریچر بھی اس لیے کیا کیوں کہ پنجاب
یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں میرٹ پر نہ آ سکا۔دوست انگلش لٹریچر میں ایڈمشن لے رہا تھا تو اُس کے کہنے پر لے
لیا۔ڈگری مکمل کرنے تک مجھے کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ میں کس شعبے میں جاؤ گا اور کیا پروفیشن اختیار کرو گا۔
اسکول کی سطح سے یہ کام شروع ہوتا ہے کہ ہم ہجوم کے ہاتھ میں بنا سمت اور ذہنی میلان کو دیکھے بنا ڈگری تھمائے جا
رہے ہیں۔یہ سلسلہ یونیورسٹی تک آ کر اور پیچیدہ ہو جاتا ہے کیوں کہ کاغذ کا ٹکڑا تو ہجوم کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر
تجربہ،مہارت اور سمت ناپید ہوتی ہے۔ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنا اور کاروبار کرنا ہم لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہاں جس کو آرٹ کے شعبے سے وابستہ ہونا چاہیے وہ ڈاکٹر ہوتا ہے۔جسے ادب کی خدمت کرنی چاہیے وہ کاروبار کر رہا
ہوتا ہے۔جسے آڑھت سے وابستہ ہونا چاہیے وہ صحافت سے منسلک ہوتا ہے اور جسے خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہوتی
ہے وہ مبلغ اور موٹیویشنل اسپیکر بنا ہوتا ہے۔یہ پورے معاشرے کا المیہ ہوتا ہے۔ہماری صلاحیتیں صرف مناسب رہنمائی نہ
ہونے کی وجہ سے غلط سمت میں ضائع ہو رہی ہوتی ہیں۔
میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ بچوں کی ہر ممکن کونسلنگ کرو۔انکو مختلف شعبوں کے بارے میں تفصیلی آگاہی
دو اور اُن کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنکی راہنمائی کرو۔ساتھ میری یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دیگر ٹیچرز کو بھی
اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے پے تیار کرو۔
والدین کا کردار اس معاملے میں بہت ضروری ہوتا ہے کیوں کہ وہ خود جس شعبے میں ناکام ہوتے ہیں اپنی اولاد کو اُس
شعبے اور پروفیشن میں پیک پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے خود چاہے زندگی میں کوئی کامیابی کوئی کارہائے نمایاں سرانجام
نہ دیا ہو اولاد سے ہمیشہ 100 فیصد چاہتے ہیں۔اول آنا اور ہر صورت میں اولاد کو کامیاب دیکھنا والدین کی ضد اور انا بن
جاتی ہے جسکا انتقام وہ بچوں سے یوں لیتے ہیں کہ انکا پورا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کچھ کیسز میں رزلٹ
ڈپریشن،فرسٹریشن سے آگے جا کر خود کُشی تک جا پہنچتے ہیں۔
بچوں کو ڈاکٹر،انجینیر اور پائلٹ کی احمقانہ دوڑ سے نکالنا ہوگا۔دنیا میں اور بہت سے شعبے ہوتے ہیں۔والدین کو بچوں کو
ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے اُنکی مرضی اور رجحان کو مدنظر رکھنا ہوگا۔یہ مارکس مارکس کھیلنے اور
ڈپریشن طاری کرنے والی فضول دوڑ سے بچنا ہوگا۔پروفیشن کا انتخاب کرتے وقت سکون قلب اور ذہنی میلان کو بھی پیش نظر
رکھنا ہوگا۔
کیرئیر کونسلنگ وقت کی ضرورت ہے اور یہ زمہ داری ٹیچر اور والدین دونوں کی ہے کہ بچے کو صحیح سمت میں گائیڈ
کریں۔جو رنگوں سے کھیلنا چاہتا ہے اُس کو کمپیوٹر پر بیٹھانا اُس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم سے بھی زیادتی ہوگی۔