سلسلہ معمہ

2019-12-05 11:20:12 Written by امان سعید خان

سلسلہ: معمہ

کیس نمبر: 28

خون آشام (Vampire)

"امان سعید خان" 

 

(نوٹ: یہ پوسٹ صرف اور صرف معلومات فراہم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اور تمام تر معلومات مختلف ویبسائٹس سے لی گئی ہے۔)

 

      خون کی تلاش میں سرگرداں انسان کا ذکر کس نے نہیں سنا ہوگا۔ جسے عام زبان میں ویمپائر، خون آشام، ڈریکولا یا پھر خونخوار انسان کہتے ہیں۔

فلموں اور کہانیوں میں ویمپائر انتہائی مقبول کرداروں میں سے ایک ہے۔ اکثر ڈراؤنی فلموں یا کہانیوں میں خون چوسنے والے اس کردار کو توجہ دی جاتی ہے۔

رات کو نکل کر انسانوں کا خون پینے والے اس کردار کو اکثر لوگ مشہور ناول نگار "بریم اسٹوکر" کے 1897 میں پبلش ہونے ناول "کاؤنٹ ڈریکولا" کے ایک داستانی کردار ڈریکولا سے جوڑتے ہیں۔ گو کہ اسٹوکر نے ویمپائر کے کردار کو ایک بالکل ہی نرالا رنگ دیا اور آج تک مشہور مصنفین اور ڈائریکٹر انہی کے ناول کے زیر اثر ہیں مگر حقیقت میں ویمپائر کی تاریخ بریم اسٹوکر کی پیدائش سے بھی کئی صدیاں پہلے کی ہے۔

ویمپائر کی تاریخ اگر پڑھی جائے تو اس کی جڑیں رومانیہ میں ملتی ہیں۔ روایات کے مطابق 15 ویں صدی کے وسط میں یہاں ولاد ٹیپیس Vlad Tepes (ولاد ڈریکولا) نام کا ایک شہزادہ لوگوں کا خون پیتا تھا۔

 

ویمپائر کی تاریخ:

 

      بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ خون پی کر زندہ رہنے والا ویمپائر درحقیقت صرف فلمی کردار کا نام نہیں بلکہ ایک حقیقی تاریخی کردار ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا تاریخی دور یا کوئی ایسی تہذیب گزری ہو جس میں ویمپائر کا ذکر نہ ملے وہ الگ بات ہے کہ مختلف روایات میں اس کے مختلف نام اور مختلف خصوصیات بتائی جاتی ہیں۔

 

      تہذیب مصر، یونان اور روم کی روایات میں ویمپائر کو Strigoi کا نام دیا گیا ہے۔ سٹریگوئی ایسے انسان کو کہتے ہیں جو مرنے کے بعد قبر سے نکل کر انسانوں کا خون پیتا ہے۔

 

      بابلی داستانوں میں آتا ہے کہ جس انسان کو اچھے طریقے سے نہ دفنایا جائے تو وہ قبر سے دوبارہ اٹھ کر "Ekimmu" ویمپائر بن جاتا ہے۔

 

      اس طرح قدیم چینی روایات میں ویمپائر کو Kiang Shi کا نام دیا گیا ہے۔

 

      انڈین اور نیپالی کتابوں میں ایک مخلوق کا نام راکشس بتایا گیا۔ ہندو مذہب کی کتاب ویدہ میں بھی راکشس ویمپائر کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مخلوق جو کے چمگادڑ کی طرح درخت سے الٹا لٹکتی ہے کا ذکر بھی ملتا ہے جیسے "بیٹل" کہا گیا ہے۔

 

      ایشیائی تاریخ اگر دیکھی جائے تو ملاوی کتابوں میں ویمپائر کے لیے "Penanggalen" کا نام استعمال کیا ہے۔

 

      میکسیکو کے تاریخ دان کہتے ہیں کہ میکسیکو کی تاریخ اگر پڑھی جائے تو یہاں بھی کسی وقت میں ویمپائرز ہوا کرتے تھے۔

 

      عربی کہانیوں میں بھی ویمپائر کا ذکر ملتا ہے جس کے لیے لفظ "الغول" استعمال ہوتا ہے۔ الغول کے معنی انسانوں کا خون پینے وال جن۔

 

      پیرو کے قدیم روایات میں ویمپائر کو Canchu کہا گیا ہے۔ کینچو ایسے انسان کو کہتے ہیں جو شیطان کی پوجا کرتا ہے اور انسانی خون پیتا ہے۔

 

      قدیم افریقیوں کی تاریخ میں یہ بات عام رہی ہے کہ جو انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتا ہے تو وہ انسانی خون پی کر پلتا ہے۔

جنوب مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں آج بھی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ ابھی پچھلے سال نومبر 2017 میں ویمپائر کی افواہیں اور خوف اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ لوگ ہیجان کے شکار ہوکر عام بے گناہ افراد کو ویمپائر کے شبے میں قتل کر رہے تھے۔

 

      ویمپائرز کے بارے میں یہ تصور عام رہا ہے کہ یہ لوگ انسانی خون پی کر زندہ رہتے ہیں اور جس کا خون پیتے ہیں وہ بھی ویمپائر بن جاتا ہے۔ اس لیے ان وقتوں کے مذہبی پیشوا ویمپائرز کو زندہ دفن کر کے ان کے جسموں میں لوہے کی سلاخ پرو دیتے تھے اور ان کے منہ میں ایک بڑا سا پتھر ڈال دیتے تھے تاکہ کہیں شیطانی روح واپس آکر دوسرے لوگوں میں منتقل نہ ہو جائے۔ اسی لیے دنیا کی قدیم آبادیوں سے آج بھی ایسے ڈھانچے ملتے رہتے ہیں جن کے جسموں میں ایک لوہے کی سلاخ پروئی گئی ہوتی ہے اور ان کے منہ میں ایک بڑا سا پتھر ڈالا ہوتا ہے۔

 

حقیقی ویمپائر:

 

      قدیم روایات یا افسانوں سے ہٹ کر بھی اگر بات کی جائے تو تاریخ میں ویمپائر کا ذکر ملتا ہے۔

 

      جب خلافت عثمانیہ دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی تو اس وقت محمد دوم (محمد الفتح) نے مشرقی یورپ کو فتح کرنا شروع کیا۔ والاشیا جو حالیہ رومانیہ کا حصہ ہے، ہنگری اور خلافت عثمانیہ کے درمیان واقع تھا اور اس وقت بہت کمزور تھا، خود کو ٹرانسلینیا کے قہر سے بچانے کیلئے یا تو اس نے خلافت عثمانیہ کا حصہ بننا تھا یا پھر ہنگری سے جڑنا تھا۔

محمد الفتح نے آفر کی کہ اگر والاشیا کے حاکم (ولاد دوم) کے دونوں بیٹے وفاداری کو ظاہر کرنے کیلئے عثمانیوں کے پاس رہتے ہیں تو عثمانی ٹرانسلوینیا سے والاشیا کی حفاظت کریں گے۔

ولاد دوم نے فوراً ہی خلافت عثمانیہ کے سلطان کی یہ آفر قبول کرلی۔

اس طرح والاشیا کے حاکم کے دونوں بیٹوں ولاد سوئم اور راڈو نے مسلم دنیا کے مرکز میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ دونوں شہزادوں نے جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کی۔ راڈو نے اسلام قبول کر لیا تھا جبکہ ولاد سوئم نے ایسا نہ کیا۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد عثمانیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی مسلمان کو عیسائیوں پر حکومت کیلئے نہیں بھیج سکتے، اس لئے انہوں نے ولاد سوئم کو واپس والاشیا پر حکومت کیلئے بھیجا۔

والاشیا واپس جانے کے بعد ولاد سوئم نے عثمانیوں سے غداری شروع کی جس کے لیے اس نے انتہائی خوفناک طریقہ اپنایا۔

اس نے یورپ میں خلافت عثمانیہ کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے "آرڈر آف ڈریگن" نام تنظیم بنائی۔ مشرقی یورپی زبان (سلاوک) کے مطابق ڈریکولا کا مطلب ڈریگن کا بیٹا، جبکہ رومانین زبان میں اس کا مطلب شیطان کا بیٹھا ہے۔

ولاد سوئم ایک خالص شیطان نما انسان تھا، اس نے سزائے موت کے نت نئے اور ظالمانہ طریقے ایجاد کئے۔ جن میں ایک سولی چڑھانا تھا، جس شخص کو یہ سزا دی جاتی اس کے جسم کے نچلے سرے سے ایک نوک دار چیز گھسائی جاتی جو پورے جسم سے ہو کر منہ سے باہر آجاتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ انسانوں کو قتل کر کے اس کے تازہ خون میں روٹی ڈبو کر کھاتا تھا۔

اس کی ڈراؤنی اور خوفناک خصلت کے باعث عیسائیوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کی ظالمانہ ساکھ کے باعث وہ میخیں گاڑنے والا ولاد، ڈریکولا اور ڈریکول کے نام سے پکارا جانے لگا۔

جب محمد دوم نے ولاد سے خراج تحسین لینے کی درخواست کیلئے اپنے قاصد بھیجے تو اس نے انکار کردیا، اور قاصدوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے سامنے اپنے سر سے پگڑیاں اتاردیں۔

مسلم قاصدوں کا ماننا تھا کہ ایسا کرنا صرف اور صرف اللہ کے سامنےجائز ہے۔ اس لئے انہوں نے انکار کردیا۔

ولاد نے حکم دیا کہ ان کی پگڑیاں ان کے سروں میں میخوں کے زریعے ٹھوک دی جائیں۔ یہ حکم خلافت عثمانیہ کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا اعلان تھا۔

عثمانوی قاصدوں کے قتل کے بعد سلطان محمد دوم نے نکوپولس کے حاکم حمزہ پاشا کو ولاد سوئم کو ختم کرنے یا اس سے امن کی بات کرنے کی غرض سے بھیجا۔

ولاد سوئم کے آدمیوں نے راستے میں ہی گھات لگا کر حمزہ پاشا کو اس کے بیس ہزار ساتھیوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔

اس کے بعد عثمانوی فوج نے ڈریکولا کا مقابلہ کیا اور بالآخر 1476 میں سلطان محمد دوم کی فوج نے بوشارست میں ڈریکولا کی فوج کا سامنا کیا اور وہ اپنی فوج سمیت مارا گیا۔

ولاد سوئم عرف ڈریکولا کا خوف ختم کرنے کے لیے اس کا سر دھڑ سے الگ کر کے  کونسٹینٹینوپل (موجودہ استنبول) کے دروازے پر لٹکا دیا۔ اس کا سر 2-3 مہینے تک اس دروازے پر لٹکا رہا۔

کہا جاتا ہے کہ برام اسٹوکر نے اپنے ناول ڈریکولا کا تخیلاتی کردار ولاد سوئم جو اصلی ڈریکولا تھا، کو مد نظر رکھ کر بنایا کیونکہ وہ بھی انسانی خون پیتا تھا۔

 

      ٹرانسلوانیا کی ملکہ الیزبتھ بتوری کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ویمپائر تھی اور اپنے آپ کو خوبصورت اور جوان رکھنے کے لیے انسانی خون سے نہاتی تھی جس کے لیے اس نے اپنے دورِ حکومت میں 650 انسانوں کی جان لی۔

 

      یوں تو مختلف روایات میں ویمپائر کی کئی خصوصیات بتائی گئی ہیں جن میں انسانی خون پینا، لہسن سے ڈرنا، شیشے میں اس کا عکس نہ دکھنا اور دن میں روشنی سے بچنے کے لیے تابوت میں سونا خاص ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ ادوار میں یہ عقیدہ بھی عام رہا ہے کہ ویمپائر مرنے کے بعد قبر سے دوبارہ اٹھ کر انسانی خون پیتا ہے یعنی وہ مردہ ہوتا ہے۔ اسی لیے جب کسی علاقے میں ویمپائر کی افواہیں گردش کرتی تھی تو وہاں کے قبروں کو کھول کر دیکھا جاتا تھا کہ ان میں کوئی ویمپائر تو نہیں۔

ایسے کیسز میں مرسی براؤن کا کیس بہت مشہور ہوا تھا۔

 

      یہ 1892 کی بات ہے جب 19 سالہ امریکی لڑکی مرسی براؤن کا پورا خاندان ٹی-بی کے مرض سے باری باری مرنے لگا جن میں مرسی براؤن بھی شامل تھی۔ آخر میں جب مرسی براؤن کا آخری بھائی ایڈون رہ گیا تو وہاں کے لوگوں نے ایک جرگہ بٹھایا اور یہ فیصلہ کیا کہ تمام خاندان کی قبریں کھود کر دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کون ویمپائر ہے جس کی وجہ سے تمام خاندان کے لوگ باری باری جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ بلآخر جب تمام قبریں کھودی گئی تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رھ گئے کہ مرسی کا جسم ثابت تھا اور اس کے منہ پر خون لگا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ مرسی کے بال اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے۔

گاؤں کے لوگوں نے قدیم روایات کے مطابق مرسی کو قبر سے نکال کر اس کا دل اس کے جسم سے الگ کیا اور اسے جلا کر اس کی راکھ پانی میں ملا کر مرسی کے آخری بچے بھائی ایڈون کو پلایا جس کے بعد ایڈون 2 مہینے زندہ رہ سکا۔

اس کیس کے بعد امریکہ میں لوگوں کا ویمپائر پر عقیدہ مزید پختہ ہوگیا۔

ویمپائر آج کے دور میں:

 

      2015 کے ایک سوشل سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت بیشمار لوگ ایسے ہیں جو اصلی ویمپائر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے کام (خون پینا) کو خفیہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے زیادہ تر ویمپائر ڈارک نیٹ پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔

ڈارک نیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈارک نیٹ پر اکثر ایسے لوگ خون پینے اور پلانے کی آفر اور ریکوسٹ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکہ میں کئی ایسے ویمپائر ہیں جو صرف ان لوگوں کا خون پیتے ہیں جو خود اسے خون پلانے کے لیے راضی ہو۔

امریکہ میں خون پینے والے ویمپائرز کے علاوہ ایسے خون کے ڈونرز بھی کافی مل جاتے ہیں جو کسی بھی ویمپائر کو اپنا خون پلانے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔

نیشنل جیوگرافک اور دیگر کئی ٹی وی چینلز نے ایسے کئی افراد کے انٹرویؤز لیے ہیں جنہیں انسانی خون پینے کی عادت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی خون پینے سے ان کو توانائی ملتی ہے۔

 

      ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ڈونر بلٹ بھی ہے۔ 28 سالہ بلٹ کاٹزچین کا تعلق ٹیکساس سے ہے جو پچھلے دس سالوں سے سارا امریکا گھومتی ہے اور ایسے مردوں اور عورتوں کو جنہیں خون پینا پسند ہو، اپنا خون پلاتی ہے۔ اس کا تازہ ترین شکاری 43 سالہ مائیکل واچمیل ہے، جس کا تعلق ہوسٹن ،ٹیکساس سے ہے۔ مائیکل کا کہنا ہے کہ بلٹ کا خون اسے زندگی دیتا ہے، توانائی دیتا ہے۔

بلٹ اور مائیکل سال میں چند دفعہ ملتے ہیں اور پھر مائیکل بلٹ کا خون پیتا ہے۔ بلٹ خود کو بلیک سوان کہتی ہے، یعنی ایسی عورت جو دوسروں کو اپنا خون پینے دے۔ بلٹ کا کہنا ہے کہ اس نے بچپن میں اپنی بہن کی ایک کتاب پڑھی تھی، جو ویمپائر سے متعلق تھی، اسے پڑھ کر اسے خون پلانے کا شوق ہوا جو عادت بن گیا۔ 43 سالہ مائیکل کا کہنا ہے اسے خون پینے کی عادت 13 سال کی عمر میں حادثاتی طور پر لگی۔ ایک دفعہ خون اس کے ہونٹوں پر لگ گیا اور اسے عادت پڑ گئی۔ تاہم مائیکل سال میں چند دفعہ ہی خون پیتا ہے۔

 

      2014 میں ایک برطانوی جوڑے نے دعوا کیا تھا کہ وہ ویمپائرز ہیں اور جبھی قبرستان سے قریب گھر میں رہتے ہیں۔

ان کا کہتا تھا کہ وہ عام انسانوں کی طرح کی خوراک نہیں لیتے ۔ بلکہ ایک دوسرے کا خون پی کر جی رہے ہیں۔

 

      جولائی 2018 میں روس کے 21 سالہ نوجوان دمتری لوچین نے اپنی محبوبہ کے سر میں شراب کی مار کر پہلے اسے شدید زخمی کیا، پھر چھری سے اس کا سر کھول کر دماغ نکالا اور اسے فرائی کرکے کھا گیا اور اس کا خون بھی پی لیا۔ دمتری نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ روایتی انسانی قربانیوں کے متعلق انٹرنیٹ پر سرچ کرتا رہتا تھا۔ ان کہانیوں کی وجہ سے وہ آدم خوری کی طرف راغب ہو گیا۔

 

چار سال پہلے پاپوا نیو گنی میں ایک شخص نے اپنی معصوم بیٹی کا گلا کاٹ کر اس کا خون پی لیا تھا جسے اسی دن پولس نے گرفتار کر لیا۔

 

ایک اور برطانوی شہری ڈار کنیس ولاد ٹیپیس پچھلے 13 برس سے ایک ویمپائر کی زندگی گزار رہا ہے جس میں وہ جانوروں کا خون پینے کا عادی ہے۔ برطانوی علاقے لنکا شائر کے رہائشی ڈارکنیس  نے 25 سال کی عمر میں اپنا نام بدل کر ڈار کنیس ولاد ٹیپیس رکھ لیا تھا اور خود کو ویمپائر کہنا شروع کر دیا تھا ۔ اس نوجوان کو دن کی روشنی سے خوف نہیں آتا لیکن رات ہوتے ہی یہ ایک لکڑی کے تابوت میں سوتا ہے اور گائے اور سور کا خون پیتا ہے۔

 

      نومبر 2016 میں گلگت، پاکستان کی پولیس نے شہریوں کی درخواست پر ایک ویمپائر کو گرفتار کیا جو بچوں کی گردن میں دانت گاڑھ کر خون پینے کی کوشش کرتا تھا جبکہ وہ جانوروں اور پرندوں کا کچا گوشت بھی چبا جاتا تھا۔

 

      اس کے علاوہ ایست کئی لوگ ہیں جنہیں پولیس اس لیے کچھ نہیں کہتی کہ ایک تو وہ اپنے کام کو خفیہ رکھتے ہیں اور دوسرا وہ صرف ایسے لوگوں کا خون پیتے ہیں جو خون پلانے پر خود راضی ہوتے ہیں۔ اے-بھی-سی نیوز کی ویبسائٹ پر تصاویر کے ساتھ 6 ایسے اصلی ویمپائرز کے انٹرویو موجود ہیں جو ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ خون پینے کی عادت بھی رکھتے ہیں۔ ان میں اکثر ویمپائر کے گوشت کھانے والے جانوروں کی طرح نکیلے دانت بھی ہوتے ہیں۔

 

ویمپائر سائنس کی نظر میں:

 

      سائنس اس بات کو تو تسلیم کرتی ہے کہ ویمپائرز کا وجود تھا، اسی لیے ان سے منسلک کئی کہانیاں تاریخی کتابوں میں ملتی ہیں اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے کئی ساری ویمپائر کی قبریں بھی دریافت کی ہیں۔

آج کے دور میں بھی ممکن ہے کسی میں ویمپائر کی کوئی خصوصیت پائی جاتی ہو مگر ویمپائر اصل میں کیا ہو سکتا سائنس اس کی میڈیکل وجوہات بیان کرتی ہیں۔

"لائیو سانس" کی ایک آرٹیکل کے مطابق اصلی ویمپائر کا دراصل کوئی وجود نہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد قبر سے نکل کر انسانی خون پیتے ہیں البتہ ایسی

کئی بیماریاں ہیں جنہیں کم علمی کے باعث ویمپائر کی کوئی خصوصیت سمجھی جا سکتی ہے۔ جیسے خون پینے کا دل کرنا، سورج کی روشنی اور لہسن سے الرجی ہونا یا پھر جانوروں کی طرح قدرے  لمبے اور نوکیلے دانت ہونا۔

 

      ہائڈروفوبیا ایک اعصابی بیماری ہے جیسے Rabies بھی کہتے ہیں Rabies لاتینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پاگلپن ہے۔ اس بیماری کے جراثیم اعصاب پر حملہ کرتے ہیں جس کے باعث انسان کا کسی کو کاٹنے کا دل چاہتا ہے اس کے علاوہ اس صورتحال میں سورج کی روشنی کا سامنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ اکثر رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ جیسا کہ ویمپائرز کے بارے میں مشہور ہے کہ رات کو جاگتے رہتے ہیں۔

 

      ویمپائر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شیشے میں اس کا عکس نظر نہیں آتا اس لیے ویمپائر ہمیشہ شیشے سے خوف کھاتا ہے۔

شیشے سے خوف کھانا اور شیشے میں اپنے عکس کے بجائے کچھ اور نظر آنا بھی ایک اعصابی بیماری ہے جسے Catoptrophobia کہتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے شیشہ نہیں دیکھ سکتے کہ انہیں شیشے میں اپنے عکس کے بجائے عجیب غریب چیزیں نظر آتی ہے یا اکثر سب کچھ خالی نظر آتا ہے۔

 

      اس طرح Porphyria بھی ایک اعصابی بیماری ہے جو کہ انسانی کی جلد پر اثر کرتی ہے اس بیماری میں مبتلا شخص دھوپ کا سامنا نہیں کر پاتا کیونکہ کہ سورج کی روشنی سے اس کی جلد جلتی ہے۔ اور اس بیماری میں مبتلا شخص کا پیشاب بھی خون کے رنگ کی طرح ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ xeroderma pigmentosum میں بھی انسان روشنی کا سامنا نہیں کر سکتا۔

 

ویمپائر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے لہسن سے الرجی ہوتی ہے۔ Alliumphobia ایک اعصابی کنڈیشن ہے جس میں انسان لہسن جیسے کسی بھی تیز بو والی سبزی، جڑی بوٹی یا پودے سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ اگر اسے لہسن سونگھا دیا جائے تو اسے گھبراہٹ کا دورا (Panic Attack) پڑ سکتا ہے۔

 

      یورپی ممالک میں اکثر ایسے لوگ خود کو ویمپائر تصور کرنے لگ جاتے ہیں جن کے دانت کتے یا بلی کے مشابہ نوکیلے اور قدرے لمبے ہوتے ہیں۔ Hypohidrotic ectodermal dysplasia ایک بیماری ہے اور یہ اکثر کم عمری میں حملہ کرتی ہے اس بیماری کا اثر انسان کے دانتوں پر ہوتا ہے اور جسے یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو اس کے دانت جانوروں کی طرح نکیلے ہو جاتے ہیں۔

 

کیا خون پینا صحت کے لیے مضر ہے؟

 

      ویمپائر کی روایتی فلموں میں اسے جوان لڑکیوں کا خون پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس کے بعد وہ خود بھی توانا اور چاق و چوبند رہتا ہے جسے ویمپائر تھراپی کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں بھی کئی ویمپائر انسانی خون پینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے انہیں اینرجی ملتی ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ میڈیکلی انسانی خون انسانی معدے کے لیے مضر ہے کیونکہ کہ اس میں بہت زیادہ آئرن اور جراثیم ہوتے ہیں جو کہ انسان کے معدے کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دوسری طرف بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں ہزاروں لوگ خون پیتے ہیں اور ان میں سے آج تک کسی نے بھی خون پینے سے معدے کی خرابی کی کوئی کوئی شکایت نہیں کی۔

 

ویمپائر تھراپی کیا ہے؟

 

      یونیورسٹی کالج لندن کی ممتاز جینیات داں ڈاکٹر ڈیم لنڈا پیرٹرج اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بیمار بزرگوں میں نوجوانوں کے خون کی منتقلی سے انہیں امراضِ قلب، کینسر اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر پیرٹرج نے بوڑھے چوہوں کو جب مسلسل جوان چوہوں کا خون دیا تو ان میں عمررسیدگی سے جڑے امراض پیدا نہیں ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر جوان چوہوں کو جب بوڑھا خون چڑھایا گیا تو اس کے الٹ اور مضر نتائج برآمد ہوئے۔

 

      ایک اور کمپنی امروسیا نے اس ضمن میں طبی آزمائشیں کی تھیں جس میں تقریباً 70 رضاکار شامل کیے گئے تھے۔ جس میں ماہرین نے دیکھا کہ صرف 24 گھنٹوں میں بوڑھوں میں جوان خون کی منتقلی کے مثبت نتائج مرتب ہوئے۔ 2017ء میں کیے گئے امبروسیا بلڈ ٹرائلز میں بزرگوں کے خون میں وہ تمام بایو مارکرز ایک ماہ کے اندر تیزی سے کم ہوگئے جو الزائیمر، کولیسٹرول، امراضِ قلب اور دیگر مہلک بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک 55 سالہ الزائیمر کے مریض کو جب جوان خون کا عطیہ دیا گیا تو اس کےجسم میں فوری طور پر مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور دماغ میں زہریلے مرکبات بننے کا عمل 20 فیصد کم دیکھا گیا۔ اسی بنا پر ماہرین ویمپائر تھراپی کو بہت امید افزا قرار دے رہے ہیں۔