سلسلہ معمہ

2019-12-09 11:58:46 Written by امان سعید خان

سلسلہ: معمہ

کیس نمبر: 29

"پراسرار ریڈیو اسٹیشن"

 

"امان سعید خان" 

 

      جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بہت کم لوگ ہوں گے جو DXing کے بارے میں جانتے ہوں گے۔

یہ بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی بات ہے جب ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں معلومات اور تفریح فراہم کرنے سے لے کر قدرتی آفات اور جنگوں جیسے مسائل کو بر وقت کور کرنے کے لیے واحد زریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔

اسی لیے دنیا میں ہزاروں لوگ ریڈیو سنا کرتے تھے۔

ان ہی لوگوں میں سے کچھ لسنرز کو DXer کہا جاتا تھا کیونکہ یہ وہ لسنرز ہوتے تھے جن کا مشغلہ DXing ہوا کرتا تھا۔

ڈی اکسرز عام ریڈیو لسنرز کی طرح علاقائی ریڈیو اسٹیشن نہیں سنتے تھے بلکہ انہیں شوق ہوتا تھا کہ وہ دور دراز کے دیگر ممالک سے AM بینڈ پر براڈکاسٹ ہونے والے ریڈیو اسٹیشنز سنے۔

 

ڈی ایکسنگ کو اپنا مشغلہ بنانے والوں نے اپنے کمرے میں بہت سارے ریڈیو رسیورز اور اپنے گھروں کی چھتوں پر بڑے بڑے اینٹینیں لگائے ہوتے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دور دراز کے ریڈیو اسٹیشن سن سکے۔ ان کے پاس دنیا بھر سے براڈکاسٹ ہونے اسٹیشنز کے نام، فریکوئنسیز اور براڈکاسٹنگ کے اوقات لکھے ہوتے تھے۔

 

سنہ 1930 سے 1950 تک کا دور اس مشغلے کے عروج کا زمانہ تھا کیونکہ یہ جنگی دور تھا اور جنگی حالات کی وجہ سے علاقائی ریڈیو اسٹیشن اور دوسرے ذرائع ابلاغ اگر متاثر بھی ہوتے تھے تو DXers اپنے سسٹم سے دور دراز کے اسٹیشنز ٹیون کر کے خود کو حالات سے باخبر رکھتے تھے۔

 

ان دنوں چونکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی سہولتیں میسر نہیں تھیں تو ملٹریز بھی ریڈیو سگنلز کا سہارا لیتی تھیں۔

ملٹریز کے احکامات ریڈیو سگنلز پر نمبرز اور کوڈز کی سورت میں جاری کئے جاتے تھے جسے مطلوبہ لوگ وائرلیس سیٹس پر سنتے تھے۔

اسی لیے ڈی اکسرز جہاں دور کے سگنلز پکڑنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے وہیں یہ لوگ اپنے سسٹم سے ملٹریز اور ایجنسیوں کے جاری کردہ کوڈز پکڑ کر انہیں ڈی کوڈ، یعنی سمجھنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔

 

آج کے سلسلہ معمہ کی پوسٹ میں ایک ایسے ہی پراسرار ریڈیو اسٹیشن کی بات کریں گے جس نے آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ڈی اکسنگ کے مشغلے کو زندہ رکھا ہے۔

چالیس سال سے چلنے والا یہ پراسرار ریڈیو چینل آج بھی اپنا وجود رکھتا ہے، اسے ہزاروں لوگ سنتے ہیں اور تحقیق کاروں کے لیے یہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

 

      اگر آپ کے گھر میں پرانے طرز کا کوئی ایسا ریڈیو سیٹ رکھا ہو جو FM بینڈ کے علاوہ AM بینڈ بھی سپورٹ کرتا ہو تو آپ اسے آن کر کے، اس کی فریکوئنسی کو 4.625 MHz پر سیٹ کر کے پوری دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر ایک پراسرار ریڈیو اسٹیشن کو سن سکتے جسے عام طور پر لوگ The Buzzer کے نام سے جانتے ہیں۔

اگر آپ کے پاس AM بینڈ ریڈیو نہیں بھی ہے تو آپ انٹرنیٹ پر کسی بھی آنلائن ریڈیو اسٹیشنز کی ویبسائٹ پر اسے سن سکتے ہیں۔

 

۔UVB-76 ایک پراسرار ریڈیو اسٹیشن ہے جسے The Buzzer کے علاوہ اور بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ پراسرار ریڈیو اسٹیشن پچھلے 40 سالوں سے دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن اپنی مخصوص فریکوئنسی پر چلتا رہتا ہے مگر آج تک کسی نے اس کے متعلق دعویٰ نہیں کیا کہ اسے کون آپریٹ کرتا ہے۔

 

پراسرار ریڈیو اسٹیشن UVB-76 پر 24 گھنٹے ایک مخصوص ٹون بجتی رہتی ہے اور اسی مخصوص بھنبھناہٹ کی وجہ سے اسے "The Buzzer" کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو اس چینل کا آغاز 1970 سے 1980 کے درمیان ہوا مگر اس پر پہلی باقاعدہ رپورٹ سنہ 1982 میں سامنے آئی۔

 

مسلسل بجنے والی یہ ٹون کبھی کبھی کسی خاص انجانے موقعوں پر چند سیکنڈوں کے لیے خاموش ہوتی ہے اور پھر کسی مرد یا عورت کی آواز میں کچھ ہندسوں اور ناموں پر مشتمل روسی زبان میں کوئی خفیہ پیغام نشر کیا جات ہے اور پھر چینل واپس اپنی مخصوص ٹون پر آجاتا ہے۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریڈیو اسٹیشن کی آن لائن فین فالونگ ہزاروں میں ہے۔ دنیا بھر میں اس چینل کو سننے کے لیے ہزاروں افراد بیٹھے رہتے ہیں جو ان خفیہ پیغامات کو ریکارڈ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور پھر کئی سال ان ہندسوں اور کوڈز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جینل پر پراسرار مختصر نشریات میں کبھی کبھی سالوں کا وقفہ دیا جاتا ہے تو کبھی ہفتے بعد بھی کوئی پیغام سنائی دے دیا جاتا ہے۔

 

ریڈیو ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پراسرار ریڈیو اسٹیشن ملک روس میں کسی نامعلوم مقام سے نشر ہوتا ہے اور یہ لائیو براڈکاسٹنگ کرتا ہے۔

یعنی ریڈیو اسٹیشن پر کوئی ساؤنڈ ریکارڈ کر کے نہیں چلایا جاتا بلکہ مینولی کسی اسپیکر نما ڈیوائس کو ریڈیو مائک کے قریب آن رکھ کر اس کی ٹون کو لائیو براڈکاسٹ کیا جاتا ہے۔

 

سنہ 1991 کے اختتام کے بعد کئی لوگوں کا خیال تھا کہ UVB-76 چونکہ سویت یونین کا خفیہ چینل تھا لہذا سویت یونین کی تباہی کے بعد اب اس چینل پر کوئی پیغام جاری نہیں ہوگا مگر ان سب کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ کئی ڈی اکسرز نے 1991 کے بعد بھی پیغامات سننے کا دعویٰ کیا اور پھر 24 دسمبر 1997 کو پولینڈ کا ڈی اکسر، جین مائیکلسکی پہلا شخص تھا جو کئی سالوں کی محنت کے بعد آخر ایک پیغام کو ریکارڈ کرنے میں کامیاب ہوا۔

یہ پیغام روسی زبان میں تھا جس میں سب سے پہلے چینل کا نام UVB-76 لیا جاتا ہے اور پھر کچھ ناموں اور ہندسوں پر مشتمل پیغام دیا جاتا ہے۔

 

اصلی پیغام۔

(Ya UVB-76, Ya UVB-76. 180 08 BROMAL 74 27 99 14. Boris, Roman, Olga, Mikhail, Anna, Larisa. 7 4 2 7 9 9 1 4)

 

نومبر 2001 کو ریکارڈ ہونے والی ایک اور ریکارڈنگ میں کوئی شخص کہتا ہے "میں 143 ہوں اور ہارڈویئر روم سے آنے والا مواد موصول نہیں کر پا رہا"

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس چینل پر دو طرفہ رابطہ قائم رہتا ہے۔ مطلب اسے سننے والے نامعلوم لوگ بھی اسی فریکوئنسی پر ریڈیو آپریٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

 

سنہ 2010 UVB-76 کے لیے سب سے اہم سال رہا۔

اسی سال اس چینل کو انٹرنیشنل میڈیا نے توجہ دی اور چینل پر تحقیقات نے اتنا زور پکڑا کے آخر چینل کچھ دن کے لیے بند ہوگیا۔

 

اسی دوران ایک تحقیقاتی ٹیم نے نوٹ کیا چینل بند ہونے کے ساتھ ساتھ روس کے دارالخلافہ ماسکو کے مضافاتی علاقے میں قائم ملٹری بیس وہاں سے کسی دوسرے علاقے شفٹ ہوگیا۔

 

اسی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ جب ملٹری بیس وہاں سے شفٹ ہوا تو انہوں نے وہاں کا دورہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ماسکو کے قریب اس علاقے کا نام Povarovo ہے اور یہ ایک دلدلی علاقہ ہے جو سینٹ پیٹرزبرگ سے زیادہ دور نہیں۔

 

یہاں چوکور لوہے کے دروازوں کی بنی ایک عمارت ہے جس کے زنگ آلود دروازے کی سلاخوں کے پیچھے کئی پرانے ختم ہوئے ریڈیو ٹاور ہیں۔

یہ عمارت سرد جنگ کے زمانے سے ہی روسی ملٹری کے استعمال میں رہی ہے اور یہی پراسراریت میں لپٹی ہوئی عمارت The Buzzer ریڈیو اسٹیشن کا ہیڈکوارٹر تھا جو اب کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر لیا گیا ہے۔

 

اس تحقیقاتی ٹیم نے اس پراسرار عمارت کی کئی ساری تصاویر بھی اپنی ویبسائٹ پر شیئر کی جن میں دیواروں پر لگے ریڈیو اسٹیشن کے پرانے سسٹم کی باقیات نظر آرہی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عمارت سے انہیں کچھ کاغذات بھی ملیں جن پر کوڈ ورڈز میں کچھ لکھا ہوا تھا۔

 

چینل پر پراسرار خفیہ پیغامات کے علاوہ روسی زبان میں گفتگو بھی سنی گئی ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چینل چونکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگیا تھا تو نئے انسٹال سسٹم کی وجہ سے کچھ غلطیوں کی باعث ایسا ہوا۔

 

نومبر 2010 میں چینل کی ٹون اچانک خاموش ہوئی اور کسی غلطی کے باعث چینل گروپ میں ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ریڈیو فریکوئینسی پر ٹرانسمٹ ہوگئی۔ آدھا گھنٹہ روسی زبان میں کچھ لوگوں کے درمیان کورڈ ورڈز میں کئی ساری مختصر ٹیلیفون کالز سنی گئیں۔

یہ تمام کالز ملٹری زبان سے ملتی جلتی تھی اور ان میں مختلف لوگوں کی ڈیوٹیوں کے باتیں تھیں۔

 

سنہ 2010 میں ہی، کہا جاتا ہے کہ چینل کا مقام تبدیل ہونے کی وجہ سے اس کا نام UVB-76 سے تبدیل کر کے MDZhB رکھا گیا جو 2016 میں کسی نامعلوم وجہ سے دوبارا تبدیل کر کے ZhUOZ رکھ دیا گیا۔

 

سنہ 2013 میں بھی ایک خاص پیغام سنا گیا جس میں کہا جاتا ہے کہ "Command-135 صادر کر دیا گیا"۔ Command-135 کیا تھا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔

 

مخصوص فریکونسی پر مسلسل آتی اس پراسرار آواز اور خفیہ پیغامات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 2018 اور 2019 میں بھی کئی پیغامات کو ریکارڈ کیا گیا مگر آج تک کسی بھی کوڈ کو کوئی بھی شخص ڈی کوڈ نہیں کر سکا، نہ ہی کوئی درست طور پر یہ معلوم کر سکا کہ اسے کہاں سے نشر کیا جا رہا ہے اور کس مقصد کے لیے نشر کیا جا رہا ہے۔ البتہ اس نشریات کے متعلق دنیا میں مختلف نظریات گردش ضرور کر رہے ہیں۔

 

۔UVB-76 کے بارے میں عام خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ روسی ایجنسی کا چینل ہے جس کے زریعے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روسی جاسوسوں کو ہدایات دی جاتی ہیں۔ جاسوسوں کے لئے نشر کئے جانے والے پیغامات کو دنیا سے خفیہ اور محفوظ رکھنے کے لئے ریڈیو فریکوئینسی کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ ٹیلیفون، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی ٹرانسمیشن دوسرے ملکوں کے اداروں کی سخت نگرانی میں رہتی ہے۔

 

چینل پر مسلسل سنائی دینے والی پراسرار ٹون کے متعلق بھی خیال ہے کہ اس میں بھی پیغامات چھپے ہو سکتے جنہیں موصول کرنے والے مطلوبہ لوگ انہیں ڈی کوڈ کرنا جانتے ہوں گے مگر ریڈیو ٹیکنالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ٹون میں اگر کوئی دوسرا معمولی ڈیٹا بھی شامل ہوتا تو ساؤنڈ ویوز ڈیوائس اس کا تعین کرتی۔

 

ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج کے جدید دور میں جہاں کسی بھی خفیہ پیغامات کی ترسیل کے لیے ڈارک ویب جیسی سہولتیں بھی موجود ہیں تو وہاں ایک ایسے رسکی زریعے کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے۔ یعنی ایک ایسے ریڈیو اسٹیشن کا استعمال، جسے پوری دنیا سے لاکھوں لوگ سن سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اگر یہ کسی خفیہ ایجنسی کا چینل ہے تو اس طرح کوئی بھی ملک اسی فریکوئنسی پر اس سے زیادہ طاقت کے سگنلز استعمال کر کے کم از کم اپنے ملک میں ان کا کام آسانی سے خراب کر سکتا ہے۔

تیسری نا سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ اگر یہ چینل کسی خفیہ ایجنسی کا ہے تو اس خفیہ ایجنسی کو اس فریکوئنسی پر مسلسل ٹون بجانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح تو ایجنسی خود کو دوسروں کی نظروں میں لا رہی ہے جس سے دنیا میں پھیلے ان کے جاسوس خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ایسے چند اور سوالات اس خیال کو بے بنیاد ظاہر کرتے ہیں۔

 

دوسری اہم تھیوری جو The Buzzer کے بارے میں عام ہے وہ ہے "dead hand switch"۔

روس امریکی سرد جنگ کے زمانے میں ایک بات مشہور ہوئی تھی کہ روس نے امریکہ کو ایٹم بم استعمال کرنے کے جواب میں ایک ایسا خودکار سسٹم انسٹال کیا ہے کہ اگر امریکہ نے روس پر ایٹم بم چلایا تو روس کے مکمل تباہ ہونے کے باوجود بھی روس کا خودکار ایٹم بم امریکہ پر چل جائے گا۔ اس سسٹم کو dead hand switch کا نام دیا گیا تھا۔ The Buzzer کو کئی لوگ روس کا dead hand switch کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل بجنے والی پراسرار ٹون رکنے کا مطلب روس کی تباہی ہے۔ جس دن یہ ٹون رک گئی تو خودکار سسٹم امریکہ پر جوابی ایٹم بم چلا دیگا۔ اس تھیوری کو 2010 کے بعد مکمل طور پر رد کر دیا گیا کیونکہ 2010 میں پراسرار اسٹیشن کچھ دنوں کے لیے بند ہوگیا تھا اور چینل ٹون مکمل طور خاموش ہوگئی تھی۔

مگر تھیوری پیش کرنے والے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ دورانِ چینل منتقلی dead hand switch کو کچھ دن کے ڈی ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہو۔

 

کچھ لوگ تو یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ غالباً یہ آوازیں خلائی مخلوق کی طرف سے بھیجے جانے والے سگنلز ہیں جبکہ کچھ اسے آسیب زدہ چینل سمجھتے ہیں مگر چینل پر بجنے والی ٹون میں کبھی کبھی کمرے میں مائک کے آس پاس موجود لوگوں کی گفتگو بھی سنائی دے دی جاتی ہے جو اس خیال کو غلط ثابت کرتی ہے کہ چینل آسیب زدہ ہے یا اسے خلائی مخلوق آپریٹ کرتی ہے۔

 

پراسرار The Buzzer کے بارے میں اگر کوئی منطقی تھیوری سمجھ میں آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اسے روسی ملٹری آپریٹ کرتی ہے۔ کیونکہ ملٹری پوسٹ کی منتقلی کے بعد ایک تو چینل کچھ دنوں کے بند ہوا اور دوسری بات چینل کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا۔

اور پھر نئے مقام سے پہلا پیغام یہی تھا کہ "Command-135 جاری کردیا گیا" جس کا مطلب ممکنہ طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ چینل کا مقام تبدیل کر دیا گیا۔

 

مگر اس تھیوری میں بھی کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ روسی ملٹری نے 40 سال میں اسے اپنی ملکیت کے طور پر قبول کیوں نہیں کیا جب کہ یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں۔

 

دوسری بات یہ ہے کہ ملٹری کو فریکوئنسی پر مسلسل ٹون بجانے کی کیا ضرورت جبکہ اسے سننے والوں کو معلوم ہوگا کہ کس وقت اور کس فریکوئنسی پر انہیں ہدایات جاری کئے جاتے ہیں۔

 

تیسری بات یہ ہے کہ پاکستانی ملٹری یا کسی بھی دوسری ملٹری کس طرح آپس میں رابطے میں رہتی ہے۔ یعنی ملٹری کے پاس اور بھی کئی ذرائع موجود ہیں پھر ایک 50 سالہ پرانے سسٹم پر رابطے کی کیا ضرورت جسے دنیا میں کوئی بھی عام شخص سن سکتا ہے۔

 

ایسے ہی کچھ سوالات ہیں جن کی وجہ سے مخصوص فریکوئنسی پر مسلسل آتی اس پراسرار آواز کو دنیا بھر سے ہزاروں لوگ سنتے ہیں اور ریڈیو ماہرین کے ساتھ ساتھ دیگر تحقیق کاروں کے لیے بھی یہ تاحال ایک معمہ ہے۔

نوٹ: اس کیس کو ویڈیو میں نیچے دیے گئے لنک سے ضرور دیکھیں۔

کیونکہ وہاں ریڈیو پر چلنے والی مخصوص پراسرار ٹیون اور پیغامات کی اصلی ریکارڈنگ بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے تمام کیسز کی ریکارڈنگ بھی آئیں گی۔

وڈیو اچھی لگے تو چینل ضرور سبسکرائب کریں 

Watch video