گونگی کی دستک

2019-12-13 19:59:20 Written by لعل خان

 

صائمہ عبد الرحمن ساہیوال کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئی ،یہ عبد الرحمن کی پانچویں اولاد اور پانچویں ہی بیٹی تھی۔یہ پیدائشی گونگی اور بہری تھی اس لئے گاؤں میں اسے ’’گونگی‘‘ کہہ کر بلایا جاتا تھا۔گھر میں غربت تھی ،باپ شرابی اور نکما تھا،ماں معذور تھی،بہنیں بد چلنی اختیار کر چکی تھیں۔صائمہ چھ سال کی تھی جب پہلی مرتبہ اس کا ’’گینگ ریپ ‘‘ ہوا۔وہ گونگی ،بہری اور غریب شرابی باپ کی بیٹی تھی ،اس کے ساتھ ہونے والے ظلم پر گاؤں کا کوئی آوارہ کتا تک نہ بھونکا،دس سال کی تھی جب دوسری مرتبہ ہوس پرستوں کے زیر عتاب آئی،اس مرتبہ بھی آسمان پھٹا نہ ہی زمین ہلی ،گونگی صائمہ دس برسوں میں دنیا کی چال اور اپنے نصیب کو اچھی طرح جان چکی تھی،اس نے اس مرتبہ آنسو بہائے نہ کسی کو بد دعا دی ،اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر اسے ’’بنانے والے‘‘ تک سے شکوہ نہ کیا۔سولہ سال کی ہوئی تو محلے کے ایک آوارہ کا دل اس پر آ گیا،باپ نے شراب کی چند بوتلوں کی عوض اسے شادی کے نام پر لفنگے عادل کو بیچ دیا۔پانچ سال بعد اس کا دل بھر گیا اور اس نے گونگی صائمہ کو دو بچوں کے تحفے کے ساتھ گھر سے باہر نکال دیا۔ان پانچ برسوں میں باپ مر چکا تھا ،ماں کسی گمنام گلی کی بھکارن بن چکی تھی اور بہنیں غائب ہو چکیں تھیں۔اب صائمہ کے پاس اس کے دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔اس کے پاس دو راستے تھے ،ایک یہ کہ وہ بھی ماں کی طرح بھکارن بن جاتی اور دوسرا یہ کہ اپنے بچوں کا گلہ گھونٹ کر خود کشی کر لیتی مگر گونگی بہری صائمہ نے ان دونوں راستوں کو ٹھکرا کر تیسرا راستہ چنا....امید کا راستہ ،کوشش کا راستہ ۔

گاؤں کے باہر ایک غیر آباد پرائمری اسکول تھا،اس خستہ حال اسکول کے اکلوتے کمرے کی چھت آدھی گری ہوئی تھی ،صائمہ نے اس کمرے کے ایک کونے کو اپنا ٹھکانہ بنایا ،بچوں کو ٹاٹ کے ایک ٹکڑے پر سلایا،اپنی بوسیدہ چادر کو سر اور کمر سے باندھ کر تھیلا بنایا اور کھیتوں سے لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور سوکھا ہوا گوبر جمع کر نا شروع کر دیا،تھیلا بھرتے ہی اس نے گاؤں کی راہ لی اور ہر دروازے پر دستک دینا شروع کر دیا۔اس زمانے میں گیس کا کوئی تصور نہیں تھا،ہر امیر غریب کو جلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت رہتی تھی ،گونگی صائمہ نے لوگوں کی اس ضرورت کو پورا کرنا شروع کر دیا،شروع شروع میں لوگ اس پر ترس کھا کر ایندھن لیا کرتے تھے مگر دھیرے دھیرے وہ ’’گونگی کی دستک ‘‘کے عادی ہوتے چلے گئے۔دو سال بعداس نے اسکول کی آدھی چھت والے کمرے کو چھوڑا اور اپنے ہاتھ سے بنے گھاس پھوس کے جھونپڑے میں شفٹ ہو گئی ،اب اس نے ایندھن جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اون خرید کر موزے ،جرسیاں اور سویٹر بنانے شروع کر دیے ،گاؤں کے چیئرمین کو اس کا کام پسند آیا ،اس نے گونگی صائمہ کو کام بھی دیا اور اسے جھونپڑے سے نکال کر دو کمرے کے مکان میں لے آیا۔صائمہ نے دونوں بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوایا اور ایندھن اور اون کی کمائی سے انہیں پڑھا لکھا کر بڑا کیا۔وہ دونوں صائمہ کے فولادی وجود کے ٹکڑے تھے ،پہاڑ کیسے نہ بنتے ۔صائمہ دو کمروں کے مکان سے نکلی اور بیٹوں کی کمائی سے بنائے ہوئے بڑے گھر میں آ گئی۔اس نے دونوں بیٹوں کی شادیاں کیں اور اپنے پوتوں پوتیوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔مرنے سے پہلے وہ دو پہاڑ جیسے بیٹوں کے ساتھ دو خوبصورت بہوؤں اور پانچ پوتوں پوتیوں ،بڑے سے گھر اور بے شمار عزت کی مالک ایک باوقار عورت تھی ۔اپنے آخری دنوں میں اکثر وہ اپنی مہنگی گاڑی سے باہر نکلتی اور راستے پر پڑے ہوئے کچرے کو اٹھانا شروع کر دیتی ،لوگ حیران ہو کر اس کی طرف دیکھتے تو وہ اشاروں میں ان سے کہتی ۔

’’اس کچرے نے مجھے میرے حصے کی زندگی لوٹائی...اس کچرے نے میرے اندر امید جگائی‘‘

میں نے گزشتہ رات کو ایک خواب دیکھا، میں نے دیکھاکہ میں ’’خواتین کے عالمی دن‘‘ پر گونگی صائمہ کو خراج تحسین پیش کر رہاہوں ۔جواب میں گونگی صائمہ اپنی بھدی اور بے ہنگم آواز میں قہقہہ لگاتی ہے اور کہتی ہے۔

’’خواتین کا عالمی دن کسی ایک خاتون کا عالم بھی تبدیل نہیں کر سکتا ....مگر خاتون چاہے تو وہ پورے عالم کو تبدیل کر سکتی ہے ...خاتون وہ ہے جو اس کچرے سے زیادہ بدبودار معاشرے میں کچرہ بیچ کر دنیا کے منہ پر تھپڑ مار کر اپنے حصے کی زندگی جی سکتی ہے ...364دنوں کے بعد آنے والا یہ 365واں دن خاتون کے سامنے بہت حقیر ہے پیارے‘‘

میرا خواب تو یہیں ختم ہو گیا مگر اس معاشرے کے دروازے پر ’’گونگی کی دستک‘‘ جانے کب ختم ہو گی۔