قفس کا قیدی
رشتوں کی نادیدہ بیڑیوں میں جکڑا وہ شخص دنیا کی ہر شئے سے بیزار ہوچکا تھا ... وہ اداسی کی تیلیوں سے بنے تاریک قفس میں تنہائیوں سے بندھے ایسے پرندے کی ماند تھا کہ جس کا محبوب قفس کے پار خوشنما درخت کی ایک سرسبز شاخ پر قائم پرسکون گھونسلے میں چہچہا رہا تھا.... وہ محبوب تک پہنچنے کی چاہت میں تڑپ تڑپ کر تیلیوں سے سر ٹکراتا ... اپنے ارمانوں کے خون سے قفس کی تیلیوں کو رنگین کرتا .... حسرت و یاس بھری خاک آلود نگاہوں سے اس پر سکون گھونسلے کو تکتا .... پھر مسکراتے ہوئے اپنے خوابوں کو اشکوں کی مے میں گھول کر کرب و ملال کا جام بھرتا اور اپنی ویرانیوں کا جشن مناتا ۔
پھر ایک دن اس نے ان نادیدہ بیڑیوں سے رہائی پا لی .... وہ سکون کا متلاشی تھا چنانچہ وہ چلا گیا .... سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک ایسی جگہ جہاں چہار سو بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ قدرت کے شوخ و دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے .... جہاں تاریک تخیلات میں بھی اجالے ہی اجالے تھے ... جہاں مایوس سانسوں میں بھی پرمسرت حرارت در آتی تھی.... جہاں نسیم صبح کشاں کشاں کرب و ملال سے چھٹکارے کی نوید سناتی تھی.... جہاں سورج کی کرن مصائب و آلام کی تاریکیوں سے نجات دلاتی تھی.... ایک ایسی جگہ جہاں چین و سرور کا ٹھاٹھیں مارتا دریا بہتا .... کیف و قرار کی آبشاریں گرتیں .... طرب و نشاط کی محفلیں جمتیں .... جہاں آرام و اطمینان کی گھنگھور گھٹائیں چھاتیں.... جہاں راحت و سکون کی لامتناہی برکھائیں برستیں .... جہاں کے درختوں پر خوشیاں انگڑائیاں لیتیں .... ان درختوں کی ٹہنیوں پر رنگ برنگی کوئلیں بیٹھ کر سکون کا نغمہ گاتیں.....
بالآخر اس کے خوابوں کی تکمیل ہوگئی تھی .... اس کے ارمان پورے ہوگئے تھے .... وہ سکون کی تلاش میں کامیاب ہوگیا تھا .... وہ اس سبزہ زار سے خوشیاں چنتا رہا حتیٰ کہ دن کی روشنی رات کی تاریکی میں ڈھل گئی تب اسے احساس ہوا کہ ایک چبھن بدستور اسے بے چین کئے جارہی ہے .... وہ ہر زمہ داری سے راہ فرار اختیار کرکے بھی بھاگ نہیں سکا تھا .... وہ اس ویران سبزہ زار میں بھی ان نادیدہ سلاخوں سے چھٹکارہ نہیں پاسکا تھا .... وہ یہ جان کر کانپ اٹھا کہ وہ تاعمر بھاگتا رہے تب بھی قفس کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ قیدی پرندہ تو خود اس کی روح تھی اور قفس اس کا جسم ۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ قفس کی جگہ بدلنے سے پرندہ آزاد نہیں ہوتا فقط کچھ پل کیلئے بہل جاتا ہے