میرے پاس تم ہو/ری ویو

2020-02-09 19:10:07 Written by Farhat Shaheen

مقابلہ تنقید اور تنقید

 

           ڈرامے کا نام : میرے پاس تم ہو 

              تبصرہ : فرحت شاہین

     ٭ ٭ ٭

 

 خلیل الرحمان قمر ڈرامہ انڈسٹری میں جو مقام حاصل کر پائے ہیں شاید ہی کسی اور لکھاری کو حاصل ہو گا ۔ اس کی وجہ ان کا عام کہانی کواپنے منفرد ڈائیلاگز سے خاص بنانا ہے۔ ان جیسے ڈائیلاگز شاید ہی کبھی کوئی لکھ پائے ۔حال ہی میں ان کا ایک ڈرامہ ’’ میرے پاس تم ہو ‘ ‘ اختتام پذیر ہوا جو اس وقت سوشل میڈیا پہ ایک ڈیبیٹ ٹاپک بنا ہوا ہے ۔جہاں آدھی دنیا اس کی حمایت میں بول رہی ہے وہیں آ دھی دنیا اس کو برا بھلا کہنے میں بھی پیچھے نہیں رہی ۔ جہاں ڈرامے کا اختتام آدھوں کو رلا گیا ، وہیں آدھی عوام نے لکھاری کو گالیاں بھی سنائی ہیں ۔ 

 

 میرا مقصد یہاں ڈرامے کی کہانی یا اختتام پہ بحث کرنا نہیں ہے بلکہ میں تو محض اس ڈرامے کے ان پہلوؤں پہ روشنی ڈالنا چاہتی ہوں جو میرے خیال میں کسی حد تک کمزور رہے یا چند سوالیہ نشان چھوڑ گئے ۔۔۔۔ اسکرپٹ یقینا اپنی مثال آپ ہو گا کیونکہ ڈائیلاگز میں کوئی خلیل الرحمان کا ثانی نہیں ہے لیکن کہانی کے بہت سے پہلو سمجھ نہ آسکے یا یوں کہنا چاہئے کہ انھیں ٹھیک سے بیان نہیں کیا گیا ۔جہاں تک مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ مرکزی خیال ایک ایسی عورت تھی جس نے ایک محبت کرنے والے شوہر کو محض دولت کی بنا پہ ٹھکرا دیا ۔ہم ایسی عورت کی موجودگی سے کسی طور انکار نہیں کر سکتے ۔ایسی عورتیں معاشرے

 میں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں ، فرق یہ ہے کہ چند ایک منظر عام پہ آ جاتی ہیں اور بیشتر روپوش رہتی ہیں ۔

 

 کہانی کے شروع میں انوشے جو مہوش کے ساتھ کم و بیش سائے کی طرح ساتھ دکھائی دی یکدم کہانی سے اس حد تک غائب کر دی گئی کہ بعد ازاں جب نمودار ہوئی تو وہ مہوش کی زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی حالانکہ اسکا شوہر عامر.. شہوار کا کولیگ تھا ۔۔۔ یکدم نمودار ہونے والی انوشے شہوار سے نکاح کے روز مہوش کو تھپڑ پڑتا دیکھ کر پھر سے روپوش ہو گئی ۔ مہوش جو در بدر پناہ گاہ کی تلاش میں تھی، وہ انوشے کی بجائے اپنے ایک کلاس فیلو سلمان ، جس سے شادی کے بعد اس کا اتنا رابطہ بھی نہیں تھا کہ دانش اور مہوش جان سکتے کہ اس نے عائشہ سے شاد ی کی ہے، کے پاس جا کر رہنے لگتی ہے ۔یہ پہلو غور طلب ہے کہ مہوش انوشے کے پاس جانے کی بجائے سلمان کے ہاں کیوں جاتی ہے ۔شاید اس لئے کہ بذریعہ سلمان اور عائشہ وہ اپنی حالت کی داستان دانش کو بہتر طور سے پہنچا سکتی تھی۔خیر یہ بات تو خلیل صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔۔۔؟

 

 کچھ روشنی ماہم اور شہوار کے رشتے پہ بھی ڈال لینی چاہیے۔ ماہم جو شہوار کی بیوی تھی ، وہ اپنے دل پھینک شوہر کو چھوڑ کر امریکہ اپنے والدین کے پاس قیام پذیر دکھائی دی ، جو خود تو شوہر کے ساتھ رہنے میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن اس کے دوسرے نکاح پہ واپس لوٹ کر مہوش کو ہی تھپڑ رسید کرتی گیٹ آوٹ کر دیتی ہے ۔ آخری قسط میں شہوار سے یہ بھی کہتی ہے کہ میں نے مہوش سے کہا ’’ پیسہ دے سکتی ہوں لیکن شہوار نہیں دونگی ‘ ‘۔۔۔ ماہم بی بی کو پہلے سے شہوار کو سنبھال کر رکھنا چاہئے تھا نا، کیوں اسے ایسے کھلا چھوڑ رکھا تھا۔۔۔؟ مہوش نہ ہوتی تو کوئی سحرش ہوتی لیکن ہوتی ضرور کیونکہ شہوار جیسا مرد اکیلے نہیں رہ سکتا۔ مشہور کہاوت ہے کہ اکیلی عورت کھلی تجوری کی طرح ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی مرد ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے تو یہاں میں کہوں گی کہ ’’ عاشق مزاج مرد بھی کھلی تجوری کی طرح ہوتا ہے ، بیوی نظر نہیں رکھے گی توکسی اور کی نظروں میں آنے کیلئے کچھ بھی کر دے گا ۔۔۔‘ ‘ جب ان دونوں میں پہلے سے ہی ناچاقی تھی تو ماہم کو اس بات سے اتنا فرق نہیں پڑنا چاہئے تھا کہ وہ کسی سے شاد ی کرتا ہے یا ایسے ہی رہتا ہے ۔ ۔۔ ۔ ویسے بھی شہوار کونسا پہلی بار یہ سب کر رہا تھا ۔ بقول انوشے ماہم اسے سیکرٹری کے ساتھ پکڑتی ہی رہتی ہے ۔ایک سیکرٹری کو تو ہانگ کانگ بھی لیکر گیا تھا جسے ماہم نے سب کے درمیان تھپڑ مارا تھا۔نہ شہوار کی ایسی حرکت نئی تھی نہ ہی ماہم کا تھپڑ مارنا ۔۔۔ پھرایسی بیوی جو سال کے دس ماہ امریکہ میں رہتی ہے اسکے منہ سے یہ جملہ سننا عجیب لگتا ہے کہ ’’قیمتی تو وہ بھرم تھا شہوار، وہ محبت تھی، وہ اعتبار تھا جو دغا کی پھونک میں بھک سے اڑ گیا۔‘‘ شہوار تو نجانے کتنی بار اس بھرم کو پہلے ہی بھک سے اڑا چکا تھا ۔پھر اس بار اتنا شدید جھٹکا کیوں لگا ماہم کو۔۔۔؟ صرف اس لئے کہ پہلے وہ افیئرز تک محدود تھا اور اس بار نکاح کر رہا تھا ۔۔۔؟

 

 کہانی میں جس بات پہ بہت انگلیاں اٹھائی گئیں وہ دانش کا وہ غیر فطری رویہ تھا جو شہوار کے موبائل میں مہوش کی آواز اور تصاویر دیکھ کر سامنے آیا ۔ کوئی مرد خواہ کتنا ہی ٹھنڈے مزاج کا کیوں نہ ہو ، بیوی کی خود کے لئے نفرین آمیز ریکارڈنگ سن کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’ ’ واٹ آ سوئیٹ وائس ۔۔؟‘‘ نہ ہی بیوی کی نامناسب تصاویر دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے ’ ’ میں نے دیکھا کہ تم کتنی خوش تھی ۔‘‘ مانا کہ ڈرامہ میں حقیقت کا عنصر کم ہی ہوتا ہے لیکن ایسی صورتحال ناظرین کو آگ لگا گئی جس پہ دانش کو آگ نہ لگ سکی ۔کیونکہ شوہر بیوی سے کتنی بھی محبت کیوں نہ کرتا ہو، ایسی صورتحال پہ اتنا پرسکون ہو کر نہیں بیٹھتا نہ ہی یہ کہتا ہے کہ ہو گئی غلطی ، اب بھول جاؤ۔۔۔  

 

 ایک اور بات جو مجھے کھلی وہ ہانیہ کا خود یکدم انگوٹھی لیکر دانش کے پہنچ جانا تھا ۔ایک طرف تو روز ِ اول سے وطیرہ کو انکار کرتی رہی کہ مجھے اس سے محبت نہیں ہے تو دوسری طرف خود ہی انگوٹھی لیکر پہنچ گئی یہ کہتے ہوئے ’ ’ تو رشتہ قبول ہے مجھے ، انگیجمنٹ رنگ بھی ساتھ لائی ہوں ۔‘‘ مس ہانیہ ! آپ کی شخصیت کا ایک تصور قائم تھا کہ اگر محبت ہو ہی گئی ہے تو دل میں چھپا کر رکھیں گی ۔ جتانا بھی ہوئی تو دانش کے بذات ِ خود اظہار کے بعد ہی ڈھکے چھپے لفظوں میں جتا دیں گی ۔ عورت کی ذات کا بھی بھرم ہوتا ہے جو اسے خود قائم رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن آپ نے تو بہت ہی بےتابی کا اظہار کیا کہ بیگ میں انگوٹھی لی اور لڑکے کو پہنانے چل پڑیں ۔اتنی ہی بیتاب تھیں تو رومی سے کہہ دیتیں ’ ’ رشتہ قبول ہے مجھے ، اپنے پاپا سے کہو کہ آکر رنگ پہنا دیں ورنہ میں سمجھوں گی کہ انھوں نے اپنے ابا کی بات نہیں مانی ‘‘ تو زیادہ اچھا لگتا۔

 

 سب سے مضحکہ خیز ’’ مونٹی بھیا ‘‘ سب کے بھیا تھے ۔۔۔ اکیس اقساط تک مہوش کو لائن پہ لائن مارنے کے بعد آخر میں بیوی پا کر مہوش سے کہتا ہے ’’ ویسے بھی بھائی ہوں میں آپکا ، تو سمجھ لیں کہ بھائی ہوں۔۔‘‘ ۔۔۔ مونٹی بھیا اگر شہوار سے زیادہ امیر ہوتے تو یقینا مہوش ان کا ہاتھ تھام کر چل پڑتیں لیکن ان کی دال پیسے کی کمی کے باعث نہیں گل سکی ۔

 

 ویسے تو خلیل صاحب کا ڈرامہ ’’ ذرا یاد کر ‘‘ دیکھ کر مجھے پورا یقین ہے کہ وہ حلالہ کے طریقے سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس ڈرامے میں سب کا بار بار کہنا کہ ’’ مان لیا مہوش سے غلطی ہو گئی ہے تو معافی کیوں نہیں مل سکتی اسے۔۔؟ ‘‘ ذہن کی چولیں ہلا گیا کہ طلاق میں معافی کیسے ہوتی ہے ۔ ۔۔۔ یا تو خلیل صاحب یہ بتا دیتے کہ ابھی طلاقِ رجعی ہوئی تھی اسی لئے رجوع ممکن تھا ، معافی ہو سکتی تھی ، حلالہ ضروری نہیں تھا ورنہ یہ بتلا جاتے کہ ’’ شادی میں ہوتی ہے جو طلاق اس میں معافی پھر کیسے ہوتی ہے ۔۔۔؟مہوش سے اگر غلطی ہو گئی تو اسے معافی کیسے مل سکتی ہے ۔۔۔؟‘‘  

 

 کہانی کا اختتامی سین بالکل ناقص لگا ۔ خلیل صاحب اتنا جاندار لکھتے لکھتے آخری سین تک اس حد تک تھکاوٹ کا شکار ہو گئے کہ ڈائیلاگز کو سر سے ہی اتار پھینکا ۔ مارنا ہی تھا دانش کو تو ڈھنگ کے ڈائیلاگز بلوا کر مارتے یا بہتر ہوتا مہوش کی دہلیز پہ ہی مار ڈالتے جہاں اس کے منہ سے ڈائیلاگز سن کر ترس تو آ رہا تھا ۔ ہسپتال کا سین کو نوے 

 کی دہائی کی کسی سستی پاکستانی فلم کا سین تھا جس میں آکسیجن ماسک اتارے دانش ڈائیلاگ پہ ڈائیلاگ بولے جا رہا ہے ۔۔۔ اورڈاکٹرز خاموشی سے ایک طرف کھڑے اس کے مرنے کے منتظر ہیں ۔۔۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں خلیل بھائی ! یہ سین باقی ڈرامے کے مقابل خاصا ہلکا لگا ۔

 

 تو یہ تھا ہلکا پھلکا تنقیدی تبصرہ جو امید ہے پڑھ کر محظوظ ہونے کا موقع دے گا ۔اب آگے کی باری آپ کی ہے ۔۔۔ جی ہاں صحیح سمجھے آپ ۔۔۔ اس تنقید پہ تنقید کرنے کی اگلی باری آپکی ہے ۔

     ٭ ٭ ٭ ٭