میرے پاس تم ہو ری ویو از روبینہ عبدالقدیر

2020-02-10 19:21:56 Written by روبینہ عبدالقدیر

 

"ہر جگہ میرے پاس تم ہو کہ چرچے پھیلے ہوئے تھے۔ اففف کیا ڈائیلاگ ہیں، زبردست ایکٹنگ، رومی کی معصومیت، سب کچھ بہت جاندار ہے۔ ڈرامہ ٹاپ ٹرینڈ پر تھا۔ جس وقت ڈرامہ لگتا ہے سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں فلاں فلاں۔" اتنی تعریفیں سن کر ہم نے سوچا کہ کیوں نا یہ ڈرامہ دیکھ ہی لیا جائے۔ آخر اس میں ایسا کیا انوکھا ہے کہ جس طرح لوگ بچپن میں عینک والا جن یا نیلام گھر کے دیوانے تھے اب "میرے پاس تم ہو" کے دیوانے ہیں۔

 

لیکن اس ڈرامے میں تو بےحیائی کی وہ تمام حدود توڑی گئی تھیں۔ اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کے پاکیزہ رشتے کو اتنا مضبوط سمجھا جاتا ہے کہ جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو پورے خاندان اجڑ جاتے ہیں، نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن واہ رے اس ڈرامے کی ہیروئن مہوش صاحبہ بڑے مزے سے افیئر چلاتی ہیں اور افئیر کی وجہ کیا ہوتی ہے "دولت"۔

 

پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم وہ ماں کے روپ میں کبھی بھی دوغلی نہیں ہوتی۔ اسے چاہے دولت سے محبت ہو یا وہ لالچی ہو لیکن جب اس کے پاس اولاد ہو تو وہ اپنی اولاد کی خاطر ہر چیز کی قربانی دے دیتی ہے۔ اپنی خواہشات مار دیتی ہے۔ اس ڈرامے میں ماں کے تقدس کو بری طرح مجروح کیا گیا۔ ڈرامے میں موجود مہوش لالچی تھی اور وہ اتنی لالچی تھی کہ اسے افئیر چلاتے وقت رومی یاد ہی نہیں آتا تھا؟؟ اور طلاق کے وقت بھی اسے اپنے بیٹے کی محبت یاد نہیں آئی؟ پہلے اس نے چکر چلایا، پھر دانش سے لڑائیاں کی، پھر اسے چھوڑنے کی باتیں کی، دانش کو ڈرایا اور طلاق لے کر مزے سے شہوار کے ساتھ رہنے لگ گئی۔ اور پھر تب اچانک اسے رومی یاد آنے لگ گیا؟؟ کیا ایک ماں اتنی پتھر ہو سکتی ہے جتنی اس فضول ڈرامے میں دکھائی گئی۔

 

چلیں مہوش لالچی تو تھی ہی لیکن اتنی تیز تھی کہ اس نے دانش کو ڈرا کے رکھا ہوا تھا۔ عورت فطرتاً نرم مزاج ہوتی ہے اس کا دل کانچ کا ہوتا ہے۔ حدیث میں بھی عورت کو نازک آبگینے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ لیکن اس ڈرامے کی عورت تو مرد سے زیادہ طاقت ور تھی۔ دانش بیوی تھا اور مہوش شوہر تھی۔ وہ اسے ڈراتی اور وہ ڈر جاتا۔ اس کے سامنے دم نہیں مارتا مجھے تو وہ زن مرید لگا۔ لیکن ایکسٹرا زن مرید۔

 

ڈرامے میں رومی کی ایکٹنگ کی سب تعریف کر رہے تھے لیکن رومی تو ایسے ڈائیلاگ بول رہا تھا جیسے ڈرا ہوا ہو یا سبق سنا رہا ہو۔ اس کی ماما سے محبت میں زرا بھی گرمجوشی نہیں نظر آتی تھی۔ بلکہ جب اس کی ماما بےوفا نہیں ہوئی تھی تب بھی وہ اسے بس کھانا کھلا رہی ہوتی تھی یا سلا رہی ہوتی تھی اور تو کوئی کام تھا ہی نہیں رومی کی ماما کا۔ یا پھر پاپا بس انڈے پھینٹ رہے ہوتے تھے اور اتنے انڈے رومی نے کبھی نہیں کھائے ہونگے جتنے اس ڈرامے کی شوٹنگ میں کھا لیے ہونگے۔ دوسری طرف دانش نے اتنے انڈے بنائے کہ گینز بک آف ورلڈ میں انڈے بنانے والا کے نام سے اس کا نام لکھ دینا چاہیے۔

 

اور دنیا کے عظیم فلاسفر بھی قبر میں بیٹھے خون کے آنسو رو رہے ہونگے کہ وہ "متین صاحب" جیسے عظیم فلاسفر سے کیوں محروم رہ گئے۔ دنیا کے سارے فلسفے ایک طرف اور متین صاحب کے مشورے دوسری طرف رکھے جائیں تو ان مشوروں کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اور دانش نامی ہیرو میں زرا بھی دانش مندی نہیں تھی۔ دنیا کے فارغ ترین لوگوں کی طرح چائے والے ہوٹل میں بیٹھ کر پراٹھے اور چائے کھا کھا کر فلسفے بگھارنا شاید متین صاحب اور دانش کا ہی کام تھا۔ ورنہ چائے پراٹھے کھاتے ہوئے بندہ بےوفائی کی باتیں نہیں کرتا یا پھر وہ چائے پراٹھے نہیں کھا رہا ہوتا۔ اور متین صاحب گاڑی میں جا کر مزے سے بیٹھ کر کیوں مرے؟؟ ہوٹل سے نکلتے وقت یا سڑک پر انہیں اٹیک کیوں نا آیا؟؟ وہ ہارٹ اٹیک کار میں ہی کیوں آیا؟؟ 

 

بات کریں ہانیہ ٹیچر کی تو وہ دنیا کی واحد استانی تھی جو اسکول میں صرف رومی سے گپیں لگانے اور اپنا رشتہ ڈھونڈنے آتی تھی۔ ساڑھی باندھ کر فلسفے جھاڑتی استانی رومی جیسے فلاسفر کے ساتھ بالکل نہیں جچتی تھی۔ ٹیچر، اسٹوڈنٹ کے رشتے سے زیادہ ان دونوں کا گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ والا رشتہ زیادہ لگتا تھا۔ اور پھر اس دو فٹ کے رومی نے اپنے پاپا کے لیے ہانیہ کو پروپوز بھی کردیا۔ اگر رومی جتنا کوئی بچہ ایسے کسی لڑکی کو کہے، وہ لڑکی تو تھپڑ مار مار کر اس بچے کا بھرکس ہی نکال دے۔ لیکن ہانیہ ٹیچر تبھی تو رومی کے ساتھ اتنی میٹھی بن رہی تھی تاکہ وہ اس کی ماں بن جائے۔

 

ہانیہ کی بہن بھی فلسفے بولنے میں کسی سے کم نہیں تھی۔ پہلے اس نے زبردستی ہانیہ کو پیار کروایا۔ دانش کی تعریفیں، دانش کے ساتھ شادی کے مشورے اور جب ہانیہ بےچاری کو محبت ہوئی تو پھر اس کے طنز شروع توبہ کیسے کیسے دوغلے پن دکھائے گئے اس ڈرامے میں۔

 

پھر شہوار کا جیل میں جانے والا سین تو بالکل بوگس تھا۔ وہ جیل گیا اور گیڈر بن گیا۔ مہوش کو ایسے دھوکہ دینے والا وہ سین بہت بورنگ اور عجیب تھا۔ 

 

اور مہوش پر تو قدرت کی دیوی مہربان تھی۔ دانش کو چھوڑا تو شہوار جیسا کڑور پتی ملا اور جب شہوار نے چھوڑ دیا تو اس کی بیوی ماہم نے آکر کڑوروں روپے دے دیے۔ مہوش کے تو وارے نیارے ہوگئے۔ حقیقت سے کوسوں دور اس سین کو دیکھ کر پیسے بھی ہنسے ہونگے کہ بھائی ہم اتنے فالتو کب سے ہوگئے.

 

مہوش جب پچھتا رہی تھی تو لگ نہیں رہا تھا کہ وہ پچھتا رہی ہے۔ بلکہ اس کی شکل دیکھ کر لگتا تھا زبردستی کوئی اسے پچھتانے کا کہہ رہا ہو۔ زرا سی بھی شرمندگی نہیں تھی۔ اور شرمندگی کیسے ہوتی اتنے نوٹ مل گئے تھے تو اس کنگلے دانش کا کیا کرتی۔ خیر دانش تو اس وقت بہت امیر ہوگیا تھا۔ 

لیکن مہوش اسے ملنے کیوں بلاتی تھی؟ خود کیوں نہیں گئی؟؟ اور جب مہوش نے خودکشی کی کوشش کی تو اس کا خون یا زخم نظر کیوں نہیں آیا؟؟ بہت ہی فضول سین تھا۔ 

 

اور دانش صاحب نے فلیٹ بیچا، نوکری چھوڑی اور بزنس شروع کیا۔ لوگوں کو صدیاں لگ جاتی ہیں بزنس میں ترقی نہیں ہوتی لیکن دانش تو اتنا امیر ہوا کہ اسٹاک ایکسچینج والے گھبرا گئے ہونگے کہ پیسے کم نا ہوجائیں۔ دانش کا دوست سلمان تو شکل سے ہی مسکین لگتا تھا وہ پرانا بزنس مین تھا لیکن اس نے اتنا کبھی نہیں کمایا تھا جتنا دانش نے۔ اس سین میں رائٹر نے کچھ زیادہ ہی امیر کردیا تھا۔

 

مونٹی کے دو چہرے دیکھنے کو ملے۔ ایک میں وہ بہت بگڑا ہوا ہوتا ہے اور مہوش کو چھیڑتا ہے لیکن پھر وہ شادی کے بعد اتنا شریف بن جاتا ہے کہ دور کھڑا شیطان بھی ششدر رہ گیا ہوگا کہ اتنی جلدی تو ہم بھی پانسا نہیں پلٹتے جتنی جلدی مونٹی بدل گیا۔ بیوی کے سامنے بھیگی بلی بن کر مہوش سے معافی مانگ رہا تھا۔

 

مونٹی کی بیوی عفرا تو کسی پیرنی سے کم نہیں تھی لیکن مہوش جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ سے مانگنے کے بجائے بلبلے والے سیون اپ نما پانی پر دم کر کے پی رہی تھی۔ اور وہ کونسا وظیفہ تھا جو سات مرتبہ پڑھنے سے دانش واپس آگیا؟؟ عفرا پیرنی کا آستانہ عالیہ کہاں ہے؟؟ پوری پاکستانی خواتین اس آستانے پر حاضر ہو کر ان کے شرف سے فیضیاب ہو کر اپنے اپنے شوہروں کو مٹھی میں کرنے کا جنتر منتر سیکھنا چاہتی ہیں۔

 

اور پھر ڈرامے کے آخر میں تو خلیل الرحمٰن نے حد ہی ختم کر دی۔ دانش مہوش کے پاس گیا۔ سکون سے بیٹھ کر چائے نوش کی، مہوش سے باتیں کی، دو گھنٹے بیٹھا لیکن مجال ہے کوئی زرا بھی کچھ ہوا ہو اسے۔ جیسے ہی جانے کا وقت آیا تو اسے اٹیک ہوگیا اور وہیں گر گیا۔ پھر اسپتال میں آئی سی یو میں دانش دنیا کا انوکھا مریض تھا جو بیڈ پر لیٹے جان کنی کے عالم میں بھی فلاسفر بنا ہوا تھا۔ رومی کے ساتھ فلسفے کی زبان میں باتیں کرتے ہوئے اس نے آکسیجن ہٹا دی۔ ساری باتیں کہنے کے بعد اسے یاد آیا کہ اب سانس اکھڑنا ہے اور پاس کھڑے ڈاکٹر نے تب تو آکسیجن نہیں لگائی جب وہ فلسفوں کی دکان کھولے بیٹھا تھا۔ سانس اکھڑنا اتنا آسان ہے کہ دانش نے بس ایک جھٹکا کھایا اور ختم ہوگیا۔ 

 

اور مہوش تو قصور وار تھی ہی لیکن ہانیہ بےچاری کے ساتھ بہت برا ہوا۔ اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اسے دانش سے پیار ہو گیا تھا، رومی کا پروپوزل بھی وہ مان گئی تھی لیکن دانش نے اسے دھوکہ دیا وہ رو رہی تھی لیکن جب رومی نے انگوٹھی واپس کی تو چپ ہو گئ۔ شاید اسے پہلے انگوٹھی کا ہی صدمہ ہو کہ دانش قبر میں ہی نا لے جائے۔

 

"میرے پاس تم ہو" جیسا ڈرامہ دیکھنے کے بعد اس ڈرامے کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ ایک عورت کے لیے بغیر نکاح کے کسی مرد کے ساتھ رہنا، اپنی اولاد کو چھوڑ دینا اور شوہر کو قابو کرنا قطعاً غلط کام نہیں۔ اس ڈرامے سے کوئی سبق تو نہیں ملا ہوگا البتہ بےحیائی کو خوب فروغ دیا گیا۔