ری ویو /الف

2020-02-11 19:39:47 Written by شعیب اعظم

ڈرامہ 

الف 

تنقید نگار... 

شعیب اعظم 

 

جیو ٹی وی پہ لگنے والا ڈرامہ ’ الف ‘ جس کی رائٹر ’ عمیرہ احمد ‘ اور ڈائریکٹر ’ حسیب حسن ‘ ہیں پروڈکشن ہاؤس ’ نیکسٹ لیول انٹرٹینمنٹ ‘ کی پیشکش ہے جن کی مالکان ’ ثمینہ ہمایوں اور "ثنائی شاہنواز‘ ہیں۔ نیکسٹ لیول کا یہ انفرادی طور پہ پہلا پروجیکٹ ہے کیونکہ اس سے قبل یہ ’ سکس سگما ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے ۔ایک اسکرپٹ کو پروڈکشن ٹیم اچھی ملنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ڈرامے کا بجٹ اچھا ہے اور کاسٹنگ زبردست رہے گی جو ڈرامے کی کامیابی کی ضامن ہیں کیونکہ کسی بھی ڈرامے کی کامیابی صرف اچھے اسکرپٹ سے ممکن نہیں ، اس کے لئے ڈائریکٹر ، پروڈیوسر اور کاسٹ کا اچھا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔عمیرہ احمد کی ہمیشہ سے یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انھیں ایک اچھی ٹیم مل جاتی ہے جو ان کے سکرپٹ کو نہ صرف اٹھا کر جان ڈال دیتی ہے بلکہ کامیاب ڈراموں میں شمار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

ناول ’ الف ‘ کی ڈرامائی تشکیل بہت جاندار ہے کہ تمام اداکار اپنے اپنے کرداروں میں بخوبی رنگ بھرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ڈرامے کی مقبولیت اور کامیابی سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اسی ڈرامے میں مجھے بطور ناظر کچھ جھول بھی دکھائی دیے جنھوں نے نہ صرف حیران کیا کہ اتنی شاندار ٹیم سے ایسی غلطیاں کیسے ہو گئیں وہیں عمیرہ احمد کے اسکرپٹ پہ بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ دیے ۔

 

قلب ِ مومن کا کردار شروع میں بے حد بدتمیز ، پر اعتماد اور مغرور دکھائی دیا جس کو شہرت نے ساتویں آسمان پہ چڑھا رکھا تھا ۔ بعد از محض چند سوالات نے اسے یکدم ایک نرم خو انسان میں ایسا ڈھالا کہ وہ خود پہ سے اتنا اعتماد بھی کھو بیٹھا کہ ایک پریس کانفرنس میں چند سوالات کے جوابات تک نہیں دے پایا۔اور یہ کام اس کیلئے مومنہ سلطان نے بخوبی کیا ۔

پہلی قسط میں یہ راگ الاپنے والا قلب ِ مومن کہ وہ اپنی کوئی لیڈ کاسٹ دوبارہ دہراتا نہیں ہے ، چوتھی فلم بناتے ہوئے بھی ’ شیلی ‘ کو ہی بطور ہیروئن مسلسل کاسٹ کئے جا رہا ہے ۔ شاید یہاں رائٹر اپنے لکھے سابقہ ڈائیلاگز کو بھول گئیں اور ڈائریکٹر بھی جلدی ڈرامہ بنانے کے چکر میں یہ غلطی دیکھ ہی نہیں پائے کہ انکے ہیرو نے کیا الفاظ کہے تھے ۔ چلئے اس غلطی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ مان لیتے ہیں قلب ِ مومن نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا اور انھیں ’ شیلی ‘ اس قدر پسند آ گئی کہ وہ اسے ہی اب اپنی ہر آنے والی فلم میں کاسٹ کر رہا ہے ۔

 

دوسری طرف مومنہ سلطان جو کہ ایک ڈرامہ آرٹسٹ ہے ، فلم کا آڈیشن دینے جاتی ہے تو کیا وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں بھی اب دوپٹہ شاز ہی دکھائی دیتا ہے ، تو فلم میں کام کرنے والی لڑکی دوپٹہ کیسے لے سکتی ہے ۔ ۔۔؟ سکرپٹ پڑھ کر گئی تھی تو یہ کیوں نہیں جانتی تھی کہ وہ ایک بولڈ رول کیلئے بلائی گئی ہے بھلے وہ رول ایک سائیڈ ہیروئین کا ہی ہو اسے فلم میں کس قسم کا لباس پہننا ہو گا ۔مومنہ سلطان فلموں میں کام کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی ، شروع سے ہی اسے اس فیلڈ سے بیزار دکھایا گیا ہے لیکن اس کی مجبور ی اسکا بیمار بھائی ہے جسے بچانے کیلئے وہ یہ کام کرنے کیلئے تیار ہے ۔بھائی کی موت پہ ہسپتال کے عملے کو یہ کہنے والی مومنہ سلطان ’ میں اپنی حرام کمائی کو حلال بنانے کیلئے مر ے جا رہی ہوں اور آپ تو حلال کو ہی حرام بنا رہے ہیں ‘ بعد میں اسی فیلڈ کو بنا کسی مجبوری کے اپنا لیتی ہے ۔ حالیہ اقساط میں اس کا قرض اتر چکا ہے ، وہ ایک اچھی زندگی گزار رہی ہے ، گاڑیوں میں گھوم پھر رہی ہے، ایک پوش علاقے میں اچھے گھر میں شفٹ ہو چکی ہے جبکہ نہ اب بھائی کی بیماری جیسی مجبوری رہی ہے نہ ہی اسکی اس فیلڈ سے بیزاریت آڑے آ رہی ہے۔۔۔ اب وہ اس فیلڈ میں کیوں کام کر رہی ہے ۔ ۔۔۔؟وہ کیا وجہ ہے کہ وہ اب بنا کسی وجہ کے اسی فیلڈ میں آگے بڑھتی جا رہی ہے ۔۔۔؟ کیا اپنا سارا قرض اتار کر اسے ایک طرف نہیں ہو جانا چاہئے تھا ۔۔؟ میری ذاتی رائے ہے کہ رائٹر کو ایک آدھ سین میں یہ بھی دکھانا چاہئے تھا کہ اسی کمائی کو حرام کہنے والی کیسے اب اسے ہی حلا ل سمجھ کر کمائے جا رہی ہے ۔ کیلی گرافی کرنے والے ہاتھ کیسے اپنی صورت اور جسم کی بنیاد پہ پیسہ بنا رہے ہیں ۔کیا دنیا میں اور کام ختم ہو گئے ہیں یا مومنہ کو بھی ان آسائشات کی عادت ہو گئی ہے جو اسے اس فیلڈ میں کام کرنے سے مل رہی ہیں۔۔؟

ایک بڑا جھول جو نظر سے گزرا وہ یہ تھا کہ ماضی کی کہانی میں جہاں حسنِ جہاں آئینے کے سامنے بیٹھی بناؤ سنگھار کر رہی ہے وہیں پاس میں سلطان کی بیٹی مومنہ جو کہ کم از کم بھی سات آٹھ سالہ بچی ہے ، بیٹھی بیوٹی باکس سے کھیل رہی ہے ۔ اس وقت حسنِ جہاں کی شادی بھی نہیں ہوئی ، شادی تو دور وہ طہٰ سے ملی تک نہیں ہے۔تو اس کا مطلب کہ قلب ِ مومن کا وجود تو ابھی دنیا میں ہی نہیں جبکہ مومنہ سلطان اتنی بڑی بچی کے روپ میںسیٹ پہ موجود ہے ۔ کیا قلب ِ مومن ، مومنہ سلطان سے اتنا چھوٹا دکھایا گیا ہے ۔۔؟ یہاں بھی رائٹر سین لکھتے ہوئے شاید وقت اور عمروں کے اس فرق کو بھول گئیں شاید... جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔

 

اس کے علاوہ بھی ماضی بہت سے سوالات میرے لئے چھوڑ گیا جن کے جوابات شاید مجھ ناقص العقل کو آپ میں سے کوئی دے سکے ۔

طہ ٰ جو شادی کے بعد بیروزگار ہو چکا ہے، ایک اچھے فرنشڈ گھر کو کیسے چلا رہا ہے۔۔۔؟ اور اسکے اتنے سال غائب رہنے پہ اسکی بیوی اسکے پیچھے کیسے زندگی کی گاڑی کو کھینچتی رہی ہے ۔۔۔؟ طہٰ کی وفات کی خبر ملنے کے بعد اب جبکہ عبد العلی کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور وہ حسنِ جہاں کو ایک اچھی عورت کے روپ میں تسلیم کر چکے ہیں ، بہو اور پوتے سے راضی ہوتے ہوئے بھی ایک گناہ کی زندگی میں اسے کیوں لوٹنے دیتے ہیں، وہ بھی اکلوتے بیٹے کی اکلوتی نشانی کو ۔۔۔؟ جس زندگی کو حسن ِ جہاں نے برا سمجھ کر چھوڑ دیا اسی زندگی کا حصہ بنانے وہ اپنے بیٹے کو کیوں لیجاتی ہے ۔۔۔؟وہ ترکی میں ہی عبدالعلی کے پاس کیوں نہیں رہ جاتی ۔۔۔؟

پاکستان لوٹ آنے پہ مومن کی سالگرہ پہ اسکے دوستوں کے سامنے وہ کیوں اپنا اور اس کا رشتہ واضح کرتی ہے جبکہ وہ جانتی ہے کہ اس کی ایک شناخت رہی ہے، مومن کا باپ اب نہیں رہا اور لوگ ان دو باتوں کو بنیاد بنا کر اسکے بیٹے کی ذات پہ انگلیاں اٹھاتے ، اسے ایک سوالیہ نشان بنا چھوڑیں گے ۔۔۔؟ ان سب سوالوں کی کوئی وجہ کم از کم ڈرامے میں نہیں دکھائی گئی جو مجھ جیسے ناظر کو جس نے کہانی کو ناول کی صورت میں نہیں پڑھ رکھا ، الجھن میں مبتلا کر گئی ہے ۔

 

کہانی کا ایک اور بڑا جھول جو حالیہ قسط میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک طرف مومنہ سلطان ماسٹر ابراہیم سے سوال کرتی ہے کہ عبدالعلی صاحب کا کوئی رشتے دار پاکستان میں ہے اور ساتھ ہی اگلا ڈائیلاگ یہ بول دیتی ہے مجھے لگتا ہے میں انکے پوتے سے مل کر آ رہی ہوں ۔۔۔۔ مجھ ناچیز کی سمجھ میں نہ آسکا کہ یکدم قلب ِ مومن کیسے مومنہ کو انکا پوتا لگا ۔ کسی کے پاس کیلی گرافی کے شاہکار ہونےکا مطلب یہ تھوڑا ہی ہوتا ہے کہ وہ اس خطاط کا پوتا ہو گیا ۔۔ ۔؟ پھر اگلے ہی ڈائیلاگ میں مومنہ سلطان کیسے جان گئی کہ قلب مومن.. حسن ِ جہاں کا بیٹا ہے جبکہ پیچھے کہیں نہیں دکھایا گیا کہ وہ جانتی ہے کہ حسن ِ جہاں عبد العلی صاحب کی بہو تھی ۔کہانی کو کھولنے کے اس انداز نے ذہن کچھ الجھا ڈالا ۔ ۔ کہانی میں بہت سے سین ڈالے جانے چاہئے تھے جن میں پہلے یہ باتیں کھولی جاتیں اور بعد میں مومنہ پہ یہ حقیقت آشکار کی جاتی ۔

 

خیر ان تمام جھول کے باوجود ڈرامہ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے مین کامیاب رہا ہے کیونکہ عمیرہ احمد کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ کہانی کا کلائمکس ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں ۔ ان کے ڈراموں کے سین بے مقصد نہیں ہوتے، دیگر ڈراموں کی طرح یہ نہیں ہوتا کہ پوری قسط میں ایک ہی بات ایک کے بعد ایک کردار ایک دوسرے سے کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ ۔ اب مزید دیکھنا باقی ہے کہ کہانی کس ڈھب سے آ گے بڑھائی جاتی ہے اور مزید آگے چل کر کتنی کمیاں ، کتنے جھول اس کہانی کا حصہ بنتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       شکریہ