ندرت خیال
"تم یہی کہنا" ، "لنڈا بازار"، "بنٹی آئی لو یو" ، "ان سنی"، "صدقے تمہارے" ،" ذرا یاد کر" ، " من جلی" اور " محبت تم سے نفرت ہے" جیسے خوبصورت اور لا زوال ڈراموں کے لکھاری خلیل الرحمن قمر جنہیں پاک و ہند میں سب سے بڑا ڈائیلاگ رائٹر کہا جاتا ہے، کا ایک اور تازہ ترین ڈرامہ "میرے پاس تم ہو" جوحال ہی میں اختتام پذیر ہوا ہے۔اس ڈرامہ کے نشر ہونے سے قبل بھی منجھے ہوئے لکھاری خلیل الرحمن قمر اپنے منفرد تخیل اور انداز تحریر کے باعث عوام میں بے حد پسند کیے جاتے رہے ہیں ۔ خلیل الرحمن قمر کے کام سے متعلق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عموما خواتین ہی کو ڈراموں کا رسیا کہا جاتا ہے لیکن خلیل الرحمن قمر صاحب شاید وہ واحد لکھاری ہیں کہ جن کا نام اگر کسی ڈرامے کے لکھاری کے خانے میں لکھا ہو تو مرد حضرات بھی اس ڈرامے کو نظر انداز نہیں کر پاتے بلکہ بڑے اہتمام سے دیکھتے ہیں ۔پس پردہ یہی تمام پہلو تھے کہ ان کے تازہ ترین ڈرامہ " میرے پاس تم ہو " کی فالوونگ اس ڈرامے نشر ہونے سے پہلے ہی اچھی خاصی تھی ۔ اور نشر ہونے کے بعد اس کی ہر گزرتی قسط اس کے دلدادہ خواتین و حضرات کی تعداد میں اضافہ کرتی چلی گئی ۔ " پچاس ملین " اور " دو ٹکے " جیسی "تاریخی ضرب الامثال" کے بعد تو ڈرامہ اس قدر مقبول عام ہوا کہ اگر کسی شخص کے منہ سے یہ جملہ سنا گیا "میں نے تو یہ ڈرامہ نہیں دیکھا" تو سننے والے کے چہرے پر ایسی حیرت چھائی نظر آئی گویا گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا جس کا فوری کفارہ ادا کرنا لازم ہو ۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہو گا کہ یہ ڈرامہ ہر اس خطہ ارض میں دیکھا گیا جہاں جہاں اردو تھوڑی بہت بھی سمجھی جا سکتی ہے ۔ تو اس مقبولیت کی سن گن سرحد پار موجود دشمن کی سماعتوں تک نہ پہنچتی ، یہ کیسے ممکن تھا؟ یہاں تک کہ وہاں کی فلمی صنعت سے متعلقہ افراد نے ناصرف ڈرامہ دیکھا بلکہ خلیل الحمن قمر پر ان کی کہانی کا تخیل چرا لینے کاالزام بھی عائد کر دیا جو گزشتہ برس کے " عظیم ترین" لطائف میں سے ایک ہے ۔میرے نزدیک اس ڈرامہ نے جہاں خلیل الرحمن قمر کے لیے صف اول کے لکھاریوں میں ایک نئے مقام کا تعین کیا ہے وہیں ان پر کئی بار ایسی کڑی تنقید بھی کی گئی کہ انہیں ڈرامہ نشر ہونے کے دوران کچھ ڈائلاگ کے حوالے سے وضاحتیں بھی دینا پڑیں ۔ڈرامے کی کہانی کے حوالے سے بات کی جائے تو دو قسم کی رائے سامنے آئی ۔ ایک گروہ وہ ہے جو لکھاری کی سوچ سےمکمل طور پر متفق ہے اور ہر ڈائلاگ اور ہر موڑ پر اسے سراہتا اور اس کی تائید کرتا ہے۔ یہ گروہ کہیں دانش کے ہاتھوں شہوار کی درگت بنتے دیکھ کر جشن مناتا رہا اور کہیں مہوش اور شہوار کی عین شادی کے موقع پر پہنچی ماہم کے ہاتھوں مہوش کے چہرے پر زناٹےدار تھپڑ کی آواز پر اچھلتا کودتا رہا ۔ گویا ان کے دل کی آرزوئیں پوری ہوئی ہوں، دعائیں رنگ لائی ہوں۔دوسرا گروہ وہ ہے جسے ہر حال میں عورت سے ہمدردی ہے ۔ مہوش کو دو ٹکے کی عورت کیوں کہا؟ ، عورت مرد کو معاف کر سکتی ہے۔ پھر مرد کیوں معاف نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔لیکن میں اگر نہایت ایمانداری سے کام لیتے ہوئے ڈرامے پر تنقید کروں تو یہ ڈرامہ بہت سی خوبیوں اور کچھ خامیوں سے بھرپور تھا ۔پہلے بات کر لیتے ہیں ڈرامے کے روشن پہلؤوں کی ۔سب سے پہلی خوبصورت بات یہ کہ کہانی کو بے حد خوبصورت انداز میں تحریر کیا گیا ۔ایسے مکالمے جو بے حد خوبصورت اور عمدہ تخیل لیے ہوئے تھے، نا قابل شمار ہیں ۔ کہانی میں مکالمہ کا معیار اس قدر عمدگی اور نفاست کا حامل تھا جسے بلا شبہ اردو ادب عالیہ میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔کہانی کے موضوع کی بات کی جائے تو اگرچہ معاشرے میں عورت کے حوالے سے حقیقتا ایسی کہانیاں زمانوں میں کہیں ایک آدھ بار دیکھی جاتی ہیں ۔ لیکن لکھاری کا اس موضوع کا انتخاب کرنا اس صورتحال میں بہت اہم تھا کہ جہاں ایک طرف طلوع صبح سے لے کے رات کے آخری پہروں تک ایسی کہانیوں پر مبنی ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں جن میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کے پیچھے ، کوئی لڑکی کسی لڑکے کے پیچھے پاگل نظر آتی ہے ۔ ان سب کا واحد مقصد حیات صرف اور صرف مخاف خاتون یا مرد کو کسی بھی طرح پچھاڑ کر اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ رستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو اپنے رستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں ۔ چاہے وہ معاشرتی و خاندانی روایات ہوں یا مزہبی حدود و قیود نا صرف یہ بلکہ رشتوں کی حرمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے ۔ ایک لڑکی کی خاطر کبھی ایک بھائی اپنے کا جانی دشمن ہو جاتا ہے تو کبھی بہن ہی اپنی بہن کا بسایا بسایا یا بسنے والا گھر برباد کرنے پر تلی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی رکاوٹ ان تمام کرداروں کے ناپاک عزائم کے حصول کی راہ میں حائل نظر نہیں آتی ۔ یہ تمام امور کہیں نہ کہیں ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہوں گے - ڈرامہ " میرے پاس تم ہو " کی
میں دراصل عورت کو اس کے مقام اور اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا گیا ہے ۔ پاکستان میں خواتین کی آبادی کل آبادی کا نصف ہے ۔ ایسی صورت میں خواتین کے گھر سے باہر نکل کر گھر کے اخراجات میں مرد حضرات کی معاونت کرنا وقت کی ضرورت بنتاجا رہا ہے ۔ ایسی صورت میں مرد و خواتین کا باہمی ٹکراؤ بھی بڑھا ہے ۔ تو معاشرے کی تیزی سے بدلتی اس صورتحال میں خواتین کو رنگ رنگ کے مرد حضرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسی صورت میں ؎خواتین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نا صرف اپنے شخصی وقار اور ایمان کی حفاظت کریں بلکہ خود سے جڑے تمام رشتوں کی حرمت اور اعتماد کو برقرار رکھنے کا خیال ہر دم ذہن میں زندہ رکھیں ۔ بصورت دیگر خدا نخواستہ سنگین ترین اور ناقابل تلافی نقصان اور انجام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ میری نظر میں یہی اس ڈرامہ کا سب سے بڑا سبق تھا ۔ ایک اور احسن بات یہ رہی کہ ڈرامے میں برائی کی تفصیلات پر کم جبکہ تنائج پر بہت تفصیلا بات کی گئی جو یقینا ہر عورت کو اندر سے ہلا گئی ۔ میرے نزدیک یہی انداز درست ہے کہ برائی کی نشاندہی ضرور کی جائے لیکن اس کی تفصیلات بیان کرنے کی بجائے اس کے بھیانک اور عبرتناک انجام پر زیادہ بات کی جائے ۔ جبھی کہانی زیادہ اثر انگیز بھی ہوتی ہے اور جبھی اپنا مقصد بھی پورا کرتی ہے ۔ڈرامے میں اداکاری کے معیار کی بات کی جائے تو ہر اداکار نے اپنا کردار بے حد خوبصورتی سے نبھایا ۔ کسی بھی کردار کے فن اداکاری میں کوئی خامی نظر نہیں آئی ۔ڈرامہ کا آفیشل ساؤنڈ ٹریک بہت خوبصورت تھا ۔ دھن ، گائیکی ، بول ۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی کچھ بہت خوبصورت تھا ۔ راحت فتح علی خان کی خوبصورت اور درد بھری آواز نے گانے کی دھن اور شاعری کو چار چاند لگا دیے ۔اب بات ہو جائے کچھ اختلافی پہلوؤں پر ۔سب سے پہلے تو مجھے دانش کا کردار کچھ الجھا ہوا دکھائی دیا ۔ دوسرے اس کی بیوی کی تعریف کرتے ہیں تو وہ صرف سن لیتا ہے ۔ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتا ۔ڈرامے کا کردار مونٹی ابتدائی اقساط میں جس طرح اس کے سامنے مہوش کے حسن کی ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے اس پر دانش ناگواری تک کا اظہار نہیں کرتا ۔ ہمیں وہ اپنی بیوی کی بے وفائی کا رونا روتا تو دکھائی دیتا ہے لیکن آخر کیوں اس نے اسے پہلے ہی مرحلے روک نہیں دیا ۔ شہوار نے اس کی آنکھوں کے سامنے مہوش کو نیکلس پہنایا لیکن اس نے بیوی کے سامنے کسی نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا ۔ پھر اگر مہوش دانش کو طیش دلانے کے لیے کچھ باتیں کرتی ہے تو
وہ کہتا ہے کہ " میں نے ایسا کب کہا؟ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔" شہوار کے گھر دعوتوں پر لے جاتا ہے ۔گویا اس نے مہوش کو شتر بے مہار چھوڑ دیا اور پھر جب پانی سر سے گزر گیا تو بیوی کو دو ٹکے کا کہہ کر زندگی سے بے دخل کر دیا ۔ کیا یہ طرز عمل درست تھا؟ اگر ہاں تو نہی عن المنکر کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ مرد و خاتون میں سے کوئی بھی جو چاہے کرتا پھرے؟ آپ بس چپ چاپ دیکھتے رہیں اور پھر ساری زندگی خود کو مظلوم سمجھتے رہیں ؟ مہوش رکتی یا نہیں ، یہ اس کی ذمہ داری نہیں تھی لیکن اسے غلط رستے کی طرف جانے سے روکنے کے لیے تمام کوششیں کرنا بحرحال اس پر لازم تھا ۔ مہوش کے اس قدر بے باک اور نڈر طرز عمل کا کچھ ذمہ دار کیا دانش بھی نہیں ہے ؟ڈرامے کا اک اور متنازعہ کردار ۔۔۔۔۔۔ شہوار ۔گویا نو سو چوہے کھا کے بلی گھر کو چلی ۔ ایک شریف آدمی کی بیوی کو پیچھے لگایا ۔ اس کا گھر تڑوایا ، اس کے ساتھ ملا ، دونوں نے اپنے اپنے شریک حیات کو دغا دیا ۔ آخر میں بیوی نے رنگے ہاتھوں پکڑا تو میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اور آخری اقساط میں سارے معاملے میں سات دودھ کا دھلا بن گیا؟ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے کے بعد مجھے کہانی بہت حد تک تعصب پر مبنی نظر آئی ۔ یوں لگا جیسے ہولناک انجام کی ذمہ دار صرف اور صرف مہوش تھی ۔ جبکہ ایسا نہیں تھا ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ "میرے پاس تم ہو" نے نا صرف ناظرین اور ڈراما ساز اداروں کی سوچ بدلی بلکہ پاکستانی ڈرامہ کی صنعت کو ایک نئی جہت عطا کی ہے ۔ عوام کی طرف سے ڈرامے کے لیے بھرپور پسندیدگی نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دنیا کا واحد مسلہ صرف شادی نہیں ہے ۔ " فلاں کی اس سے ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مجھے کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس سے ہو گئی تو کیا کیا جائے ۔" اب اس گھٹیا اور گھسے پٹے موضوع کو لازما بدلے جانے کی ضرورت ہے اور یہ مقصد اس ڈرامہ نے بخوبی پورا کیا ہے ۔آپ میری رائے سے کتنا اتفاق کرتے ہیں ؟ ضرور بتائیے گا ۔(تنقید نگار ندرت خیال )