تنقیدی جائزہ :
ڈرامہ سیریل ۔۔۔میرے پاس تم ہو
مصنف :خلیل الرحمن قمر
تنقید نگار :ناہید اختر بلوچ
پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جب پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اپنے عروج پر تھی ،تب ایسے ایسے لازوال ڈرامے اور بے مثال کردار تخلیق ہوئے کہ جن میں لوگ اپنا عکس تلاش کرتے تھے ۔۔۔۔ان ڈراموں کے مشہور ہونے کی بنیادی وجہ ان کے موضوعات تھے ۔۔وہ موضوعات جو ہمارے زندگیوں سے جڑے تھے ۔۔وہ جو ہمارے گھر آنگنوں کا ایک لازمی جزو تھے ۔۔۔جو بھی یہ ڈرامے دیکھتا اسے لگتا کہ یہ اس کی اپنی اس کے گھر کی کہانی ہے ۔
اگر اسی اور نوے کی دہائی کے ڈراموں کے سکرپٹ کا مقابلہ آج کے سکرپٹ سے کیا جائے تو فرق واضح طور سامنے آ جاتا ہے ۔
اصغر ندیم سید ،نورالہدی شاہ ،منشاء یاد ،حسینہ معین ،
بانو قدسیہ ،اشفاق احمد اور ان جیسے کئی رائٹرز نے اپنے دور میں ڈرامہ انڈسٹری کو بہترین ڈراموں سے بامِ عروج پر پہنچا دیا ۔ان کے لکھے گئے ڈراموں کا ہر کردار یوں تو انگوٹهی میں نگینے کی طرح فٹ تھا ۔۔۔مگر ان میں پاکستانی عورت کا خوبصورت ترین اور حقیقی تصور پیش کیا گیا ۔۔۔۔ایک ایسی عورت جو اپنے سماج کی نمائندہ عورت تھی ۔۔۔۔وہ ایک حقیقی ماں ،باوفا بیوی ،
حیادار بیٹی اور با کردار بہن تھی ۔۔۔اس کا ہر روپ با وقار تھا اور بلا شبہ ایک مشرقی معاشرے کا آئینہ دار تھا ۔
مگر اس کے برعکس اگر آج کے ڈرامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو آج کل کے سکرپٹ میں عورت کا ہر روپ باغیانہ اور قدرے کمزور فطرت کا حامل نظر آتا ہے ۔کہیں ایک روتی دھوتی احساسِ کمتری کی ماری بہو ،کہیں اپنے ہی بچوں کے خلاف سازشیوں کے تانے بانے بنتی ماں ،کہیں باپ کے سامنے دھڑلے سے اپنی محبت اور شادی کا ذکر کرنے والی بیٹی اور کہیں بھائیوں کا ہنستا بستا گھر اجاڑنے والی ظالم بہن ۔ہر ڈرامے میں کم و بیش عورت کے کردار کو مسخ کر کے ہی پیش کیا جا رہا ہے ۔
اور اس میں خواتین اور مرد دونوں رائٹرز شامل ہیں ۔۔۔
آئیے اب ایسے ہی ایک ڈرامے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں ۔
”میرے پاس تم ہو “ جس کے مصنف جناب خلیل الرحمن قمر ہیں ۔۔۔جن کے بارے میں عمومی خیال یہی ہے کہ وہ ایک بہترین سکرپٹ رائٹر ہیں ۔
ڈرامہ لو ٹرائینگل پر مشتمل ایک ایسی کہانی کے گرد گھومتا ہے ۔۔۔جو اس سے پہلے بھی اکثر ڈراموں اور فلموں کا موضوع رہا ہے ۔۔۔ اس ڈرامے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اس میں مہوش نامی عورت کو جو کہ ایک بچے کی ماں بھی ہے ، دولت کے لیے اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ بے وفائی کرتے دکھایا گیا ہے ۔
کہانی یہاں تکنیکی طور قدرے کمزور لگتی ہے ۔۔ہمارے جیسے مذہبی اور بنیاد پرست معاشرے میں جہاں عورت شادی کے بعد ایک بچے کے ہوتے ہوئے اگر صرف غربت سے بچنے کے لیے کسی اور مرد کی طرف متوجہ ہو جائے تو ہمارے معاشرے کی عورت کے منہ پر اس سے بڑا کوئی طمانچہ نہیں ہے ۔
ہمارے ہاں کی ستر فیصد عورتیں جو کسی نشئی یا چرسی کے ساتھ بھی اپنے والدین کی عزت کی خاطر ہنس کر گزارا کرتی ہیں ۔۔۔۔اور تمام عمر کسی مرد کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتیں ۔مہوش جیسی عورتوں کا کردار ان کے لیے ایک تازیانہ ہے ۔
مہوش جس نے اپنے شوہر دانش سے لو میرج کی تھی وہ شادی کے چند سال بعد ہی صرف مادی آسائشوں کے لیے اپنے شوہر سے بے وفائی کرتے ہوئے ہوئےایک امیر آدمی شہوار سے چکر چلانا شروع کر دیتی ہے ۔۔۔جو کہ سراسر ایک غلط روش ہے ۔۔۔عموماً ہمارے معاشرے کی حقیقی زندگی میں اگر کوئی عورت کسی سے لو میرج کرتی ہے تو پھر دنیا کی باتوں سے بچنے اور اپنے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بھی وہ اس شادی کو مرتے دم تک نبھانا چاہتی ہے ۔
رائے عامہ کا ایک اور تاثر جو دانش اور مہوش کے تعلق کے حوالے سے ہے کہ دانش ،مہوش کو طلاق کے بعد جس قسم کے الفاظ اس کے لیے استعمال کرتا ہے وہ سراسر اس کے مجنوں جیسے شوہر والے امیج پر پورا نہیں اترتے ۔
ایک طرف تو وہ بیوی کی بے وفائی جان کر بھی اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے ۔۔۔اس کی محبت کا دم بھرتا ہے اور طلاق کے بدلے شہوار کی پیسوں کی بہت بڑی آفر بھی ٹھکرا دیتا ہے ۔۔۔۔مگر دوسری طرف طلاق دیتے ہی اسے ”دو ٹکے کی عورت“ کہہ کر اپنے اندر کے مرد کی انا کو تسکین پہنچاتا ہے ۔
جس طرح دانش ،مہوش کو بڑی آسانی سے کسی غیر مرد کے حوالے کر دیتا ہے ویسے ہمارے معاشرے میں ہرگز یہ عمل اتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ہمارے ہاں دانش جیسے مرد پر معاشرتی اور مذہبی طور پر اتنا پریشر ہوتا ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں محبوب بیوی کی بے وفائی اس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتا ۔۔۔۔بلکہ اپنے بچوں کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار کر اپنی مردانگی کا شملہ ہر صورت اونچا رکھتا ہے ۔۔۔۔مگر ڈرامے میں دانش نے شہوار اور مہوش کو اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ”ڈائیلاگ “ کی مار ماری ۔۔۔جو کہ حقیقت سے کوسوں دور لگا ۔اگر اپنے
بچے کے لیے وہ شہوار کی پٹائی کر سکتا ہے تو اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کو سونپتے ہوئے اسے غیرت کیوں نہ آئی ؟
ایک اور پہلو جس پر بہت سارے ناظرین نے انگلی اٹھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس ڈرامے میں ہیرو اور ہیروئین کے ساتھ ساتھ ہر کردار نے ”افلاطون “ بننے کی بھرپور کوشش کی ۔۔۔۔۔ڈرامے میں موجود چھوٹے سے چھوٹا کردار بھی اپنی طرف سے خلیل جبران بن کر فلسفہ بگھارتا رہا ۔۔۔
اور ایسے تمام سینز میں رائٹر اپنے کرداروں کو پچھاڑ کر خود میدان میں اترتے محسوس ہوئے اور یہ ایک رائٹر کی کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے کہ وہ اپنے کرداروں پر حاوی ہونے کی کوشش کرے ۔۔۔شعوری یا لاشعوری طور پر ۔۔۔
ڈرامے میں رومی کا کردار بھی کچھ ایسی ہی مثال لگا ۔۔۔۔ اپنے والدین کی ناچاقی اور لڑائی جھگڑے سے پریشان ایک بچہ جو اپنی باڈی لینگویج سے کوئی فلسفی ہی معلوم ہوا ۔۔۔
عموماً خلیل صاحب کے ڈراموں میں ایسا مافوق الفطرت بچہ ضرور ہوتا ہے جو بڑے بڑے فلسفیوں کی بینڈ بجا کے رکھ دیتا ہے ۔۔۔
خلیل صاحب اپنے ڈائیلاگ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔۔۔اس ڈرامے کے ڈائیلاگز نے بھی خوب شہرت سمیٹی ۔۔۔۔
”اس دو ٹکے کی عورت کے لیے آپ مجھے پچاس ملین دے رہے تھے“
”عورت بےوفا نہیں ہوتی اور اگر بےوفا ہو تو وہ فطرتا عورت نہیں ہوتی“
”شرک تو خدا بھی معاف نہیں کرتا“
یہ سارے ڈائیلاگز بھی اس سارے تناظر میں متنازعہ ہی رہے۔
دو ٹکے کی عورت والے ڈائیلاگ کو جس طرح عورت کی تحقير اور تضحیک کے لیے استعمال کیا گیا وہ قابلِ مذمت ہے ۔۔۔کیونکہ اس معاشرے میں نجانے کب سے عورت مرد کی بے وفائی برداشت کرتی آ رہی ہے اور اگر ایک مرد کی بے وفائی اور ہرجائی پن سے اس کی شان اور عزت میں کوئی کمی نہیں آئی تو پھر ایک ہی ڈرامے کی سیچوئیشن سے فائدہ اٹھا کر اپنے اندر کی مردانہ سوچ کو پروموٹ کر کے عورت ذات کو دو ٹکے کا کر دینا کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔۔؟
مرد بے وفائی کرے تو وہ مرد ہی رہتا ہے ۔۔۔۔مگر عورت اگر وفادار نہ رہے تو وہ دو ٹکے کی ہو جاتی ہے ۔۔یہ انتہائی جانبدارانہ رویے سے لتھڑا ہوا ڈائیلاگ ہے ۔
شرک تو خدا بھی معاف نہیں کرتا ۔۔۔
یہ ڈائیلاگ ہمارے مذہبی نظریات سے بھی متصادم نظر آتا ہے ۔۔۔کیونکہ ہمارے مذہب اسلام نے بھی عورت کو یہ حق دیا ہے کہ اگر وہ اپنے شوہر سے ناخوش ہے اور اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تو وہ اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے ۔۔۔
دوسرا اہم ترین نکتہ کہ شرک صرف اللہ رب العزت کی ذاتِ بابرکات اور صفات میں کسی اور کو شریک ٹھہرانے کا نام ہے ۔۔۔اور اس اصطلاح کو صرف انہی معنوں میں استعمال کیا جائے تو بہتر ہے ۔۔۔۔۔باقی محبت اور دنیاوی تعلقات کے لیے اور بھی بہتیرے الفاظ اور تشبیہات موجود ہیں ۔۔۔اس لیے ایسی بے ادبی سے بچنا اور بچانا چاہیے ۔۔
عورت بےوفا نہیں ہوتی اور اگر بےوفا ہو تو وہ فطرتا عورت نہیں ہوتی“
یہ ڈائیلاگ بھی بس ایک جذباتی تجزیہ لگا ۔۔۔۔کیونکہ عورت بھی ایک انسان ہے اور وہ بھی بے وفا ہو سکتی ہے ۔۔۔اسے ایک مقدس دیوی نہ سمجھا جائے بلکہ ایک مرد کی طرح انسان سمجھا جائے ۔
انسان جو خطا کا پتلا ہے ۔۔۔۔اور خطا کرنے کے بعد بھی وہ دو ٹکے کا ہرگز نہیں ہوتا ۔
بلاشبہ خلیل الرحمن قمر ایک بہترین ڈرامہ رائٹر ہیں ۔۔۔اور ان کی صلاحیتوں سے کسی کو بھی انکار نہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ان عشق ،محبت اور بے وفائی جیسے عام موضوعات کے بجائے پاکستانی سماج کے اصل معاملات جیسے غربت ،بھوک ،چائلڈ لیبر،کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی ،انسانی اسمگلنگ ،تعلیم اور اس جیسے کئی اہم مسائل پر لکھ کر اپنے قلم کا حق ادا کریں ۔
کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ آج کا ڈرامہ رائٹر ایک ”یوٹوپیا“ میں رہ رہا ہے ۔
جس کے نزدیک پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ محبت اور شادی ہے ۔۔۔۔
تمام رائٹرز سے دست بستہ گزارش ہے کہ پاکستانی سماج کے حقیقی مسائل کو احاطہ تحریر میں لا کر انہیں ٹیلی ویژن اسکرین پر پیش کریں تاکہ ڈرامہ انڈسٹری پر چھائے ایک ہی جیسے موضوعات کے جمود کو توڑا جا سکے ۔
ختم شد