ری ویو/میرے پاس تم ہو

2020-02-15 19:36:01 Written by حمیرا سرور

حمیرا سرور

 

میرے پاس تم ہو ایک ایسا ڈرامہ ہے جس نے ہفتوں مہینوں ناظرین کو سحر میں جکڑے رکھا اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ناظرین نے ہر کردار کے سحر کو اپنے اوپر طاری کیا۔کوئی شک نہیں کے خلیل الرحمان ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ انہوں نے ہر کردار کو خوبصورتی سے پیش کیا۔

جاندار اور مدتوں یاد رہنے والے مکالمے،کرداروں کی بہترین اداکاری نے اس ڈرامے کو بام عروج تک پہنچایا۔۔

کہانی کا آغاز مہوش کے کردار سے کیا گیا۔مہوش چونکہ مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔اور ہم مڈل کلاس عورتیں اپنے گھر اور بچوں کے لیے ہر خواب قربان کر دیتی ہیں۔ 

لیکن مہوش کے چلتے پھرتے کردار ہماری حقیقی زندگی میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر حد سے گزر جاتی ہیں۔ لیکن دانش کے کردار میں حقیقت کی جھلک دور دور تک نظر نہیں آتی۔کیونکہ اس معاشرے کے مرد عورتوں کے بدکردار ثابت کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتے۔ کہاں ہوتے ہیں ایسے مرد جو مر جاتے ہیں وفا میں۔

گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو ماں قبول کرتی ہے بھائی باپ آخری حد پہ قبول کرتے ہیں لیکن شوھر وہ بھی سابقہ شوہر اور اتنا باوفا بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔

ہاں متین صاحب کی بیوی کی اعلی ظرفی نے حیران نہیں کیا کہ عورت کا خمیر ہی اعلیٰ ظرفی پر ہے کہ وہ اپنے سابقہ خاوند کو بھی معاف کر دیتی ہے۔

شهوار کا کردار حقیقت کے قریب تر ہے کیونکہ جب اوقات سے زیادہ مل جائے تو بندہ اوقات سے باہر ہو ہی جاتا ہے۔

کہانی کی ایک اور اچھی بات اچھے دوست چاہے وہ متین صاحب ہوں یا عائشہ یا دوست جیسی بہن مطیرہ۔

بہرحال دنیا اچھے لوگوں کی اچھائی کی وجہ سے قائم ہے۔

بچے کےکردار میں غیر ضروری بھرتی کی جس نے اچھی اداکاری کے باوجود بچے کی معصومیت کو متاثر کیا۔

ہانیہ کا کردار ایک اچھےاستاد کے طور پہ بہترین رہا ہاں بیچاری کو محبت میں تشنگی ہی ملی۔

آخر میں کہانی کے انجام کو منطقی شکل نہیں دی گئی۔بہت سے سوالات کو مب مبہم چھوڑ گیا۔کہاں ملتے ہیں ایسے مرد جو بے وفائی کے بعد مر جاتے ہیں۔بہرحال ایک اچھے ڈرامے اور کہانی کا بہترین اور منطقی انجام بنتا تھا۔ جہاں شرمندگی ہوتی ڈھٹائ نہ ہوتی۔جہاں کچے ذہنوں کے لیے کچھ سبق ہوتے جہاں معاشرے کی حقیقتوں کو زیادہ نزدیک سے دکھایا جاتا۔۔۔

جہاں اچھوں کے ساتھ اچھا ہوتا۔۔

بہرحال یہی قانون فطرت بھی ہے۔

حقیقتوں سے دور ڈرامے سے بہتر تھا کہ ناظرین کی تلخ سچ کا سامنا کرنا سکھایا جاتا۔ ہمارے ڈرامہ نگاروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ میڈیا جیسا پلیٹ فارم ذہنوں کی آبیاری ایسے کرتا ہے جیسے مٹی پودوں کی۔ جیسے ایک ماں اپنے بچے کی۔اس لیے روايتی کردارں سے ہٹ کے کچھ انفرادیت متعارف کروانی چاہیے جو حقیقی زندگی میں انقلاب پیدا کرے جو دیکھنے والوں کے ذہنوں میں سوال چھوڑ جائیں۔ایسے کردار جو رہتی دنیا تک اپنا اثر چھوڑ جائے۔ 

بقول شاعر۔

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبّت کے سوا 

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا۔۔