میرے پاس تم ہو..میرے پاس تم ہو اس صدی کا سوری اس دہائی کا سب سے مشہور ڈرامہ ہے-ہر ایک کی زبان پہ ایک کی ورد رہتا ہے "میرے پاس تم ہو"
دکان دار گاہک سے پوچھتا ہے"بھائی کچھ چاہیے؟"
تو جواب آتا ہے "نہیں کچھ نہیں بھائی، میرے پاس تم ہو"
میاں بیوی سے پوچھتا ہے "بیگم باہر سے کچھ چاہیے؟"
تو بیگم شرما کے کہتی ہیں "ارے نہیں میرے پاس تم ہو"
کوئی بھی شخص اب طعنہ مارے کہ "تمہارے پاس کیا ہے؟ "
تو اگلا یہی ایک جواب دیتا ہے"میرے پاس تم ہو"
اس ڈرامے سے زیادہ اس کا گانا اور اس کے ڈائیلاگ مشہور ہوئے بلکہ تاحیات امر ہی ہو گئے-ایسی ایسی باتیں عوام کو سیکھائی گئیں اور بتائی گئیں ہیں کہ عوام نے اپنی انگلیاں منہ میں دبا لیں-
اچھی بھلی گھریلو عورت کو ایک امیر آدمی سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ پانچ چھ سال پرانا رشتہ توڑ کر اس آدمی کے ساتھ ایسے چل پڑتی ہے جیسے کوئی بچے کو لولی پاپ دیکھا کر للچا دیتا ہے-اسی پہ بس نہیں بلکہ اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ غلط ٹرین میں بیٹھ گئی تھی-اب اگلے اسٹیشن پہ اتر جاؤ واہ بھئی واہ اسی طرح ساری عورتیں اگلے اسٹیشنوں پہ اترنے لگیں تو پاکستان میں خاندانی نظام درہم برہم ہی ہو جائے-مہوش نے ایک بے وفا عورت کا کردار نبھا کر خوب گالیاں کھائیں-
اس ڈرامے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مہوش شہوار کے ساتھ بنا شادی کے رہتی رہی، اب اس صورت میں مہوش کا دوبارہ دانیال سے شادی کرنا ہرگز قابلِ قبول نہ ہوتا-اس لیے خلیل الرحمٰن صاحب نے محفوظ شاٹ کھیلتے ہوئے دانش کی ہی وکٹ اڑا دی-
آدھی اقساط میں رومی اپنے والد کی مس ہانیہ سے سیٹنگ کرواتا رہا-جس قدر اس بچے نے ٹیچر اور باپ کا رشتہ کروانے میں محنت کی ہے اتنی محنت پڑھائی میں کر لیتا تو یقیناً فرسٹ آتا اور باپ کو مرنے سے پہلے کوئی خوشی نصیب ہو جاتی-
دانش کا کردار اس ڈرامے کا سب سے مظلوم کردار تھا جس کو مار کے سارے پاکستان کی ہمدردیاں حاصل کر لی گئیں-لوگ نے رو رو کر دریا بہا دئیے-کتنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے دل ٹوٹے تھے کیونکہ سب ماؤں کو دانش کے روپ میں ایک مثالی داماد نظر آ رہا تھا-جو کہ بیٹھے بیٹھائے منتر پڑھ کر کروڑوں کی جائداد کا مالک بن گیا تھا-دانش کے مرنے کے بعد کی ویڈیوز سارے سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئیں اور اسے کافی مذاق کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر جس طرح خلیل صاحب نے دانش مظلوم کا پتہ صاف کیا رونا تو بنتا ہی تھا-
اس ڈرامے کی ہر ہر قسط نے عوام میں پچھلی قسط سے زیادہ بے چینی پیدا کر دی-ہر قسط کے بعد سوشل میڈیا پہ طوفان آ جاتا
کبھی"دو ٹکے کی عورت" ہو رہا ہوتا تو کبھی "اس صدی کا بہترین تھپڑ" ہو رہا ہوتا-کبھی ہر طرف سے آواز آتی "ابا کہتے ہیں" تو کبھی شور مچ جاتا "ہائے دانش مر گیا"
مجھے تو دلی افسوس ہے ان لوگوں پہ جنھوں نے سینما گھروں میں جا کر دانش کو مرتے ہوئے دیکھا-شاید خلیل الرحمٰن صاحب کو سارے ہال کی سسکیاں سن کر دلی سکون ملا ہو گا کہ ان کا تیر نشانہ پہ لگا اور معصوم عوام کے دلوں سے خوب کھلواڑ کیا گیا-آخری قسط میں جہاں ہانیہ المشہور رونی بھڑ کے ہونے والے منگیتر کی موت کا افسوس ہوتا ہے وہیں رومی کے تاثرات نے مجھے حیران کر دیا-باپ کے موت کی خبر سن کر وہ ایسے پرسکون رہا جیسے اپنے فیل ہونے کی خبر سنی ہے-نہ ماں کے گلے لگا نہ رویا نہ چلایا بلکہ سکون سے انگوٹھی ہانیہ کو دیتے بولا
"ابا خوابوں میں آئیں گے" یعنی دادا کا کام پورا ہوا اب میرے ابا کا کام شروع ہو گیا خواب میں آ کر تنگ کرنے والا-
اس ڈرامے کے ذریعے کچھ لازوال مکالمے بھی سننے کو ملے جو یقیناً اس ڈرامے کی کامیابی کی وجہ بنے اور وہ یہ تھے
دانش:"بیوی چھوڑ کر چلی جائے تو بیوی نہیں رہتی ماں چھوڑ کر چلی جائے تو ماں ہی رہتی ہے"
رومی:"ماں بھی چھوڑ کر چلی جائے تو ماں نہیں رہتی" -
........
مہوش:"میں نے سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دیا"
شہوار"ارے نہیں جو بھی کرنا اس سے بچ کر کرنا وہ طلاق لینے والی عورتوں کو پسند نہیں کرتا"
........
متین صاحب کی بیوی :" کیا بےوفاوں کو سزا ملتی ہے"؟
متین صاحب :"ہاں ملتی ہے"
بیوی:" کتنی ملتی ہے"
متین صاحب :"اتنی تو وفاداروں کو جفا نہیں ملتی جتنی بے وفاؤں کو سزا ملتی ہے"
.........
پاکستان کی عوام نے جس طرح کی ریٹنگ اس ڈرامے کو دی ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا چاند پہ پہنچ جائے یہ عوام ڈرامے کرنا اور دیکھنا نہیں چھوڑ سکتی-