کڑوا سچ

2020-03-11 19:30:19 Written by Lal Khan

جسم کی مرضی جیسے موضوعات سے پرہیز کریں

مظہر کلیم کو کسی نے خط میں لکھا "آپ نے اب تک بے شمار جھوٹ بولے ہیں اب سچے دل سے توبہ کریں اور اللہ اللہ کریں " مظہر کلیم صاحب کا جواب تھا "جناب تخلیق اس دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے"

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جب کسی نقطے پر لکھتے ہیں تو اپنی طرف سے سچ کو تخلیق کی صورت پیش کر رہے ہوتے ہیں مگر کیا وہ نقطہ اس اہل بھی ہے کہ ہم اس کے لیے سچ کو تخلیق میں ڈھالنے کی محنت کریں۔۔۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ۔۔۔۔آپ خلیل الرحمن قمر صاحب کی مثال لے لیجیے ۔۔۔چند دن پہلے ان کی تخلیق کو سچ مان کر انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا اور آج عامر لیاقت جیسے لوگ بھی ان پر انگلی اٹھا رہے ہیں کیوں۔۔۔۔کیونکہ وہ ایسے نقطے کو سچائی میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے جو دراصل خود کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ۔۔۔۔اسی کوشش میں انہوں نے عورت کو گالی بھی دے ڈالی اینکرز سے متھا بھڑا دیا اور اپنی شخصیت کے کئی روپ بے نقاب کر دیے۔۔۔۔سوشل میڈیا تو بس ایک ریلا ہے جو کل کسی اور طرف مڑ جائے گا پیچھے کون رہے گا ۔۔۔۔حد تو یہ ہے کہ لکھنے والوں میں سے بھی کوئی ان کے ساتھ نہیں کھڑا اور میرے پاس تم ہو کا دانش بھی سر کھجا کر دائیں بائیں دیکھ رہا ہے 

جب بات عورت کی ہورہی ہو تو ہم پاکستانی منافقت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں اور یہ ہماری مجبوری ہے ۔۔۔۔ایک طرف مولانا صاحب ہیں جو کہتے ہیں عورت پر پردہ فرض ہے اور یہ وہ خود سے نہیں کہتے انہیں بھی شریعت پابند کرتی ہے اور دوسری طرف وہ عورت ہے جس کے جسم پر معاشرہ آئے دن زخموں کے نشانات چھوڑتا جا رہا ہے اور وہ اپنے جسم کو بچانے کے لیے پہلے سے زیادہ زور سے پھڑپھڑا رہی ہے اور تیسری ماروی سرمد جیسے لوگ ہیں جو اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ایسے حالات میں ہم منافق بننے کے علاوہ کچھ بن بھی نہیں سکتے ۔۔۔۔کیونکہ ہم دوزخ سے بھی ڈرتے ہیں ہم اپنی ماں بہن بیٹی اور بیوی پر سوال بھی برداشت نہیں کر سکتے اس لیے ہم انہیں "میرا جسم میری مرضی" کہنے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے اس لیے ہم اس منافقت کو جائز سمجھتے ہیں۔۔۔۔پیچھے رہ گئے وہ زخم جو عورت کے جسم پر بڑھتے جا رہے ہیں تو اس کے لیے ہم قلم اٹھاتے آئے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے کیونکہ وہ تمام زخم ایسے نقطے ہیں جن کو نعروں کی طرح تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی ۔۔۔۔۔ہر فرعون را موسی مگر میرا یہ بھی یقین ہے کہ اس فرعونیت کو توڑنے کے لیے جو بھی آئے گا وہ بے معنی نعروں کو ہتھیار نہیں بنائے گا

تو آپ بھی ان نعروں پر کچھ تخلیق کرنے کی حماقت مت کیجیے کیونکہ اس سے آپ کا سچ آلودہ ہو جائے گا اور سچ جب آلودہ ہو جائے تو پھر عامر لیاقت اور خلیل الرحمن قمر میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔۔۔۔۔۔لکھتے رہیے