تاریخ کی خوفناک حقیقت

2020-03-15 19:36:02 Written by Aitzaz Saleem Wasli

کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔عام بولے جانے والے یہ چند الفاظ حقیقت میں اپنے اندر کتنے گہرے معنی رکھتے ہیں اس سے ہم جیسے لوگ ناواقف ہیں۔موجودہ وقت کا سب سے بڑا مسئلہ کورونا وائرس ہے۔شہر کے شہر لاک ڈاؤن ہو چکے ہیں۔اسکول و کالج بند ہیں۔امتحانات بھی ملتوی ہو چکے ہیں اور کھیل کے میدان بھی ویران ہو گئے ہیں۔کورونا وائرس ایک سو اکتیس ممالک میں پھیل چکا ہے جن میں کچھ ممالک میں ہونے والی اموات نے ہر طرف خوف پھیلا رکھا ہے۔کورونا کیسے پھیلا یا کورونا کیا ہے اس بحث سے ہٹ کر آج ہم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے چند افراد کیلئے ایک دلچسپ مگر خوفناک حقیقت لائے ہیں۔کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے ہر سو سال بعد ایک ایسی وبا پھیلتی ہے جو کئی لوگوں کی جان لے جاتی ہے۔۔تاریخ کی یہ روایت شاید صدیوں پرانی ہو مگر ہم ان میں سے چار ایسی خوفناک بیماریوں پر بات کریں گے جو وبا بن کر ہر سو سال بعد پھیلی ہیں۔آئیے نظر ڈالتے ہیں کچھ اعداد و شمار اور حقائق پر۔۔

1۔مارسیل کا طاعون

یورپ میں پھیلنے والی آخری وبا طاعون کی وبا تھی۔یہ فرانس کے شہر مارسیل میں 1720 میں پھیلی۔اکثر تاریخ کی کتابوں اور کہانیوں میں طاعون کا تذکرہ سننے میں آتا ہے مگر حقائق کہانیوں سے ہٹ کر زیادہ خوفناک ہیں۔صرف دو سال کے عرصے میں اس شہر میں پچاس ہزار افراد طاعون کی وجہ سے مر گئے اور پچاس ہزار مزید لوگ شہر کے اردگرد موجود علاقوں میں طاعون کا نشانہ بنے۔اتنی زیادہ تعداد میں لوگ مرنے کے باوجود مارسیل کی انتظامیہ نے اس پر تیزی سے قابو پایا اور1765 تک اپنی آبادی کو دوبارہ پینتالیس سال پہلے والے لیول پر لے آئے۔

طاعون کیسے پھیلا۔۔یہ ایک اور سوال ہے جو دماغ میں ابھرتا ہے۔اصل میں مارسیل کے لوگ وباؤں سے خوفزدہ تھے۔اس لئے انہوں نے انتظامیہ میں ایک میڈیکل بورڈ شامل کیا تھا جو باہر سے آنے والے لوگوں کو مکمل چیک کرتے تھے۔یہ سخت چیکنگ تھی جس کیلئے شپ کے کپتان سے لے کر ہر مسافر تک کو گزرنا پڑتا پھر ہی شہر میں داخل ہونے کی اجازت ملتی۔1720 میں ایک شپ کا کچھ عملہ طاعون کی وجہ سے مر گیا مگر اس شپ پر جو سامان تھا وہ بے حد قیمتی تھا اس لئے جب یہ شپ مارسیل پہنچا تو شہر کے امیر تاجروں کے پریشر کی وجہ سے چیک ہوئے بغیر گزر گیا۔۔اور پھر شہر میں تباہی مچ گئی۔طاعون کے مرض کو قابو کرنے کی کوشش جب تک کامیاب ہوتی تب تک اس مرض نے کئی لوگوں کی جان لے لی۔

یہ چھوٹی سی غلطی تھی جس کا خمیازہ اگلے دو سال تک بھگتنا پڑا۔۔1997 میں دو سو ڈھانچے لے کر ان پر تحقیق کی گئی جس کے بعد اس مرض اور لوگوں کے مرنے کے عرصے کا دوبارہ اندازہ لگایا گیا۔

2۔ایشیا کا ہیضہ

ٹھیک سو سال بعد یورپ کی بجائے ایشیا ایک مرض کا نشانہ بن گیا۔یہ مرض ہیضہ تھا۔1817 میں شروع ہونے والی اس بیماری نے 1820 میں وبا کی شکل اختیار کی۔انڈیا کی ریاست بنگال تک تین سال محدود رہنے کے بعد یہ کئی ممالک میں پھیل گیا۔اس کے پھیلنے کی وجہ معلوم نہیں۔کہتے ہیں دریائے گنگا کے کنارے پر رہنے والے لوگ اس کا نشانہ بنے تھے جس کے بعد یہ ممبئی میں پھیلا اور پھر پورے ایشیا میں پھیل گیا۔آج سے ٹھیک دو سو سال پہلے مارچ میں یہ وبا تھائی لینڈ میں پھیل گئی۔اس کے بعد روس اوراومان کے علاقے بھی محفوظ نہ رہے۔برٹش آرمی کے کئی جوان اس مرض کا نشانہ بن گئے۔1824 میں یہ وبا اچانک ختم ہو گئی۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سردیوں میں یہ وبا ختم ہو جاتی ہے کیونکہ کم ٹمپریچر پر بیکٹریا مر جاتا ہے۔

اس کے بعد ہیضہ کی یہ وبا تین مختلف ادوار میں پھیلی۔اس وقت چونکہ دور اتنا جدید نہیں تھا اس لئے اس بیماری سے مرنے والوں کی ٹھیک تعداد کا علم نہیں۔تحقیق کے مطابق صرف بنکاک میں اس بیماری سے ایک سال میں تیس ہزار لوگ مرے۔

3۔ہسپانوی فلو

جنوری 1918 میں ایک زکام غیرمعمولی طور پر جان لیوا ثابت ہوا۔پچھلی وبا سے ٹھیک سو سال بعد یہ زکام بھی وبا کے طور پر پہچانا گیا۔ایچ ون این ون وبائی زکام کا وائرس اتنا خطرناک تھا کہ اس نے اس وقت کی ستائیس فیصد آبادی کو متاثر کیا۔اس لئے اسے دنیا کی سب سے بڑی وبا مانا جاتا ہے۔مہذب آبادی سے ہٹ کر جزائر پر موجود لوگ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔زندگی محدود ہو گئی اور شہروں کو بند کر دیا گیا۔کورونا وائرس کی طرح اس وائرس سے بھی بوڑھے اور بچے نشانہ بنے۔امریکہ میں ہر قسم کا داخلہ بند کر دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ جرمنی اور امریکہ جیسے ممالک کے اخبارات پر اس وائرس کے متعلق خبر لگانے پر پابندی تھی البتہ سپین نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی اس لئے یہ وائرس صرف سپین کی خبر کی وجہ سے سپینش فلو کے نام سے مشہور ہوا۔

یہ وائرس صرف زکام کا نہ تھا۔۔اصل میں یہ پورا امیون سسٹم تباہ کر دیتا تھا۔یہ فلو بھی سردیوں میں پھیلا اور سردیوں کے اختتام پر ختم ہوا مگر اس نے صرف دو سال کے عرصے میں پچیس سے انتالیس ملین لوگوں کی جان لے لی۔اسے تاریخ کی سب سے خوفناک بیماری بھی کہا جا سکتا ہے۔

صرف چائنہ میں مرنے والوں کی تعداد چالیس لاکھ سے نوے لاکھ تک تھی۔کورونا سے مماثلت رکھنے والے اس وائرس نے ایک اور بات میں بھی کورونا کو ساتھ رکھا ہے وہ یہ کہ اس نے بھی چین کے علاوہ ایشیا کے کسی علاقے کو نشانہ نہیں بنایا۔اس مرض کے علاج کیلئے سب سے زیادہ اسپرین استعمال کی گئی جو کافی حد تک حالات سنبھالنے میں موثر ثابت ہوئی۔شاید اخبارات پر پابندی کی وجہ سے سپینش فلو بہت کم لوگوں کے علم میں آیا

4۔کورونا وائرس

کورونا یا کرونا وائرس اصل میں وائرس کا ایک گروپ ہے جس کے جینوم کی تعداد چھبیس سے بتیس قواعد تک ہوتی ہے۔یہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کے اثرات معمولی ہیں جو کبھی مہلک ثابت ہو جاتے ہیں۔سپینش فلو کے ٹھیک سو سال بعد یہ وائرس بھی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔مختلف شہروں میں ایمرجنسی نافذ کی جا چکی ہے۔اب تک کئی ممالک میں پھیلنے والے اس وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد سب سے زیادہ چائنہ میں ہے جو کہ اٹھائیس سو سے اوپر ہے۔اس کا ڈیتھ ریٹ چار سے پانچ فیصد ہے۔

کرونا لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب تاج یا ہالہ ہوتا ہے۔اس نام کی وجہ کرونا کی شکل ہے جو سورج کے ہالے جیسی ہے۔

سب سے پہلے اس کی دریافت 1960 میں ہوئی جب یہ سور سے انسان میں منتقل ہوا تھا۔2019 میں یہ چین میں عام ہوئی اور صرف تین ماہ میں مختلف ممالک میں پھیل گئی۔کورونا وائرس دودھ دینے والے جانوروں کے نظام تنفس اور انسان کے نظام ہضم پر حملہ کرتا ہے۔

کورونا وائرس کا باقاعدہ کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔عام نزلہ اور کورونا کے درمیان فرق کرنا بھی مشکل ہے۔۔اسی لئے فی الحال اس وبا سے لڑنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

 

سپینش فلو کے سو سال بعد 2020 میں کورونا نے ایمرجنسی نافذ کی ہے پر سوال یہ ہے کہ کیا یہ روایت سو سال بعد بھی جاری رہے گی؟سو سال بعد یقینا آج کے انسانوں میں سے شاید کو ایک آدھ زندہ ہو یہ گواہی دینے کیلئے۔۔لیکن چار سو سال کی تاریخ دیکھتے ہوئے اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو ضرور دہرائے گی

 

اس تحریر کا وڈیو لنک یہ ہے۔۔۔۔

Watchvideo