ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-06 18:41:55 Written by فرحت شاہین

مقابلہ : ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

 کہانی : خالی آسمان 

 لکھاری : سائرہ رضا

 تبصرہ نگار : فرحت شاہین

٭ ٭ ٭

 مائیں ولی اللہ نہیں ہوتیں ۔۔۔ مگر ولی اللہ کو پیدا ضرور کرتی ہیں ۔

 مائیں پیغمبر بھی نہیں ہوتیں مگر پیغمبروں نے انکی انگلی پکڑ کر چلنا ضرور سیکھا۔

 

 ’’سائرہ رضا‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے کہ بہت کم وقت میں ہی انھوں نے شاہکار کہانیاں لکھ کر قارئین کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی اور کیوں نہ بناتیں کہ انکا طرز ِ تحریر ہی ایسا شاندار ہے جو عام کو بھی خاص بنا دیتا ہے۔۔۔۔ انکی بہت سی کہانیاں قابل ِ تعریف ہیں لیکن جیسے اولادوں میں کوئی ایک اولاد ایسی نکلتی ہے جو سب سے منفرد ، قابلِ ستائش اور ذہین ہو اسی طرح کہانی کار کی کہانیوں میں بھی ایک آدھ کہانی ایسی ہوتی ہے جو سب سے جدا اور صدیوں یاد رکھے جانے کے قابل ہوتی ہے ۔۔ ۔ دلوں میں جگہ بنا لینے لائق۔۔۔ امر ہو جانے لائق۔۔۔ ’’ خالی آسمان ‘‘ ایسی ہی ایک کہانی ہے ۔

 2015 جون کے شعاع ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے مکمل ناول ’’ خالی آسمان ‘‘ کی کہانی اپنے جداگانہ پلاٹ ، یادگار ڈائیلاگز، جاندار کردار، مضبوط بنت ، بہترین فلسفہ زندگی اور جذباتی مناظر کی وجہ سے خاص و عام مقبول ہوئی ۔اس سے پہلے کبھی اس موضوع پہ لکھا گیا ہے کہ نہیں یہ تو میں نہیں جانتی لیکن اس قدر جاندار نہیں لکھا گیا یہ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں ۔

   کہانی ہے ایک صابر و شاکر ماں اور اسکے نامکمل بیٹے کی۔۔۔ کہانی ہے بے جی اور انکے لاڈلے تارے کی۔

 بے جی۔۔۔ جو ایک نوحہ ۔۔ مرگھٹ کی شام ۔۔ جنگل کا بھٹکا رستہ جس کا کوئی انت نہیں ۔

 اور 

 بے جی کی عرضی ۔۔ بے جی کا سائیں ۔۔ بے جی کا صبر ۔۔ بے جی کا شکر ۔۔ بے جی کی آزمائش۔۔ محمد طاہر پرویز عرف تارے ۔

 کہانی کے شروع سے ہی ایک بھید اور تجسس کہانی سے قاری کو باندھ دیتا ہے کہ آخر وہ کونسا سچ ہے جو بے جی اپنی چھوٹی بہو معصومہ سے بولنے کا کہتی ہیں۔بار بار ایک ہی بات دہراتی ہیں کہ ’ اسے کہو یہ سچ بولے ۔ ‘ انکی پوتے کیلئے دعا بھی اسی ایک بات سے مشروط ہوتی ہے کہ معصومہ سچ بولے لیکن معصومہ اس بات سے کبھی سکتے میں آتی ہے تو کبھی غصہ دکھا جاتی ہے۔

 

 پھر کہانی ماضی کا سفر کرتی بے جی کی زندگی دہراتی ہے جہاں سات سال کی دعاؤں اور مناجات سے بے جی کے ہاں اولاد ہوتی ہے ۔۔۔۔ تنومند، سرخ و سفید بیٹا جس کا سر معمول سے کچھ چھوٹا ہے ۔جہاں دائی اسکے سر کو معمول پہ لانے کیلئے بہترے ٹوٹکے آزماتی، تسلی تشفی دیتی ہے وہیں بے جی کی ایک سوچ ہم جیسوں کیلئے سوچنے کا در وا کرتی ہے کہ ’ اتنا بڑا پورا مکمل انسان بنانے کے بعد اللہ ایک سر کیا بندے کے بنانے کیلئے چھوڑ دے گا ۔‘ ۔۔۔ سائرہ کا ایک یہ جملہ ہر اس برادری اور خاندانی سسٹم کے منہ پہ طمانچہ ہے جو بچوں کے سر بنانے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کرتے ۔۔۔کبھی سر کے نیچے چاولوں کا تکیہ تو کبھی سخت چینی کی پلیٹ۔۔۔

 

 جلد ہی بے جی اس راز سے واقف ہو جاتی ہیں کہ انکے ہاں کو ئی عام بچہ نہیں بلکہ ایک ایسا بچہ پیدا کیا گیا ہے جسے عرف عام میں ’’ شاہ دولا یا دولے شاہ کا چوہا ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہیں سے ایک ماں کی آزمائش شروع ہوتی ہے جسے وہ ایسے بچے کو جی جان سے لگا کر ، بنا سنوار کر ، اللہ کا شکر ادا کر کے ، اپنا لاڈلا بناتے کاٹتی ہے ۔بچے کا نام طاہر رکھا جاتا ہے لیکن سب کیلئے وہ ’ تارے ‘ ہے ۔۔۔۔ اللہ ایسی ماں پہ مہربان کیوں نہ ہوتا جس نے اسکی رضا میں راضی ہو کر دکھایا ۔ رب نے پھر بے جی کو طالب اور طارق جیسی اولادوں سے نوازا جو ایسی اولاد تھیں جنکی طلب ہر ماں باپ کرتے ہیں ۔تارے طالب سے خار کھاتا اور طارق پہ جان دیتا ہے ۔

 

 تارے کا خیال سب ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ پورا نہیں، ادھورا ہے۔ اسے اللہ لوک ، اللہ کا پیارا ، سائیں سمجھتے ہیں ۔ اپنا کوئی کام کرنے سے قاصر تارے ، گاؤں بھر کو ستانے اور انکے جانوروں کو مارتا پیٹتا تارے ، فصلوں کو تباہ کرتا تارے ، کوئی بات نہ سمجھنے لیکن اپنی ساری سمجھانے والا تارے، غصے میں ہر چیز تہس نہس کر دینے والا اور محبت میں بھتیجے کیلئے ماں بن جانے والا تارے، قارئین کو کبھی ہنساتا اور کبھی رلاتا ہے ۔۔۔ وہ کبھی وحشی بن جاتا ہے اور کبھی بے ضرر معصوم سے بچے کا روپ دھار لیتا ہے ۔۔۔ وہ کبھی خوشی سے دھمالیں ڈالتا ہے تو کبھی چپ سادھ کر مسجد میں ہی پڑا رہتا ہے ۔۔۔ کہیں قارئین کیلئے پہیلی بن جاتا ہے تو کہیں کھلی کتاب کا ورق ورق روشن دکھائی دیتا ہے ۔

 

 طالب کی بیوی عابدہ، ایک اچھی بہو اور اچھی بھابھی ، تارے کا خیال کرتی اسکی ’ عابا ‘ ۔۔۔ ہمدرد اور مہربان ’ عابا ‘۔۔۔ ۔

 اسی عابدہ کے ہاں ہونے والی اولاد سے تارے کی لگاوٹ و محبت کسی ماں سے کم نہیں ۔ ایسے میں سائرہ کا اس منظر کو لکھنا جہا ں تارے ’’ کاکے ‘‘ کو لوری دیتا اسکی بھوک کو مٹانے کیلئے خود اسکی ماں بن جاتا ہے ، قاری کو رلا ہی ڈالتا ہے ۔ یہ کیسی محبت ، کیسی لگاوٹ، کیسا جذبہ تھا جو اس اللہ لوک میں اللہ نے ڈال دیا۔محبت کا کیسا سمندر ہے تارے، اس ایک منظر نے سب کھول کر رکھ دیا ۔ جسے اپنا ہوش نہیں وہ اپنے بھتیجے کو کیسے جند جان سے سنبھال لیتا ہے ۔ ۔۔۔؟ لکھاری کا قلم عروج پہ لکھتا، قاری کے منہ سے کہلواتا ہے کہ اللہ تُو کیسے کیسے انسان بناتا ہے ۔ یہ کمال تُو ہی کر تا ہے ۔یہ کمال تُو ہی کر سکتا ہے۔

 طالب کا بیوی بچوں کواپنے ساتھ لے جانا ، تارے کا ’ کاکے ‘ کی رٹ لگائے بے چین ہو کر گھر بھر کو ادھیڑ دینا اور پھر خود کی ذات میں کھو جانا ۔۔۔ حرف حرف موتی۔۔۔ لفظ لفظ ہیرا۔

 

 کہانی میں ایک نیا ، منفی کردار اس وقت جنم لیتا ہے جب طارق ماں سے چاچا خیر دین  ابا کے رشتے دار کی بیٹی معصومہ سے رشتے کی بات کرتا ہے ۔ دیکھ ریکھ کے بعد دونوں خاندانوں میں رشتہ طے پاتا ہے اور طارق گھر کی نئی بہو معصومہ کو بیاہ لاتا ہے ۔ معصومہ جو اپنی عاشق آپ، خود پیر خود ہی مرید ، ’ میں ‘ کا کلمہ پڑھنے والی ۔۔۔ تارے سے جو سلوک روا رکھتی ہے وہ قاری کا دل نہ صرف دکھی کرتا ہے بلکہ معصومہ کے لئے شدید نفرت بھی جگا دیتا ہے ۔پھر وہی معصومہ کس طرح سوانگ بھرتی اس اللہ لوک کو اسی کے چھوٹے لاڈلے بھائی سے پٹوا کر نکلوا دیتی ہے ، یہ سب پڑھنے لائق ہے ۔ 

 تارے جو بے جی کے آسمان کا تارہ تھا ، ٹوٹا تارہ بن کرایسی رات کا حصہ بن جاتا ہے جسکی کبھی سحر نہیں ہوتی ۔

 بے جی اپنے شہزادے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک ہار جاتی ہیں اور پانچ سال کافراق کاٹنے کے بعد یہی سوچتی ہیں کہ زندہ کی نہ سہی مرے کی کوئی خبر مل جائے کیونکہ جو مر جاتے ہیں ان پہ تو صبر آجاتا ہے مگر جیتے جی پہ کوئی کیسے صبر کرے ۔

 

 پانچ سال معصومہ کی کوکھ بھر کر اجڑ جاتی ہے ۔۔۔ پانچ سال بے جی اللہ سے ایک ہی دعا مانگتی ہیں کہ جو الزام انکے تارے کے سر تھا وہ اسے مٹا سکیں ۔ ۔۔ پھر اللہ وہ وقت لاتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے کہ مجرم کیسے اپنا جرم قبول کرتا اور تارے کیسے بے گناہ ثابت ہوتا ہے ۔ایک ماں اپنے بیٹے کا مقدمہ جیت جاتی ہے ۔

 

 کہانی کا ہر منظر قابل ِ ستائش ہے ، اس لئے سمجھ سے بالاتر کہ کسے لکھا اور کسے چھوڑ ا جائے۔

 کہانی کے بہت سے مناظر قاری کی آنکھ نم کر دیتے ہیں اور کوئی بھی حساس دل رکھنے والا اپنی آنکھ سے ٹوٹے آنسو کو روک نہیں پاتا ۔ کبھی وہ منظر گاؤں کی پنجائیت میں تارے کا سر جھکائے سزا کیلئے اسلم کے حضور موجود ہونا ہوتا ہے تو کبھی تارے کا بھتیجے کواسکی ماں بن کر پچکارنا ، دودھ پلا نا ۔۔۔ کبھی معصومہ کے ہاتھوں زچ ہوتے تارے پہ دل بھر آتا ہے تو کبھی دل طارق کے ہاتھوں پٹتے تارے پہ آٹھ آٹھ آنسو بہاتا ہے ۔۔۔ ’ خالی آسمان ‘ پہ داد دینا یا ہاتھ اٹھا کر تالی بجا دینا ناکافی ہے ۔ یہ ناول جذباتیت کا شاہکار ہے جسے اردو کا قاری شاید ہی کبھی فراموش کر پائے ۔

 

 ان تمام باتوں کے باوجود کہانی کے کچھ غور طلب پہلو بھی ہیں جو مزید وضاحت کے متقاضی دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ ان میں سے ایک عابدہ کا خط، جسے دیکھ کر بھی بے جی زچگی کیلئے جانے سے انکاری ہوتی ہیں اور دوسرا بے جی کا زردے کے رنگ پہ ضد دکھانا اور اڑ جانا ۔ کئی بار پڑھنے کے بعد بھی میں ان دو واقعات کے پیچھے چھپے مقصداور کردار کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر رہی اور اسی نتیجے پہ پہنچی کہ یہاں کردار کے ردِ عمل کو مزید کھول کر واضح کرنے کی ضرورت تھی ۔

 

 کہانی کے اختتام سے بہت سے قارئین کی طرح میں بھی لکھاری سے متفق نہیں ہوں۔۔ ۔ ایک ماں کا انتظار ختم ہوجانا چاہئے تھا ۔۔۔ اسکا تارے اسے واپس مل جانا چاہئے تھا ۔۔۔۔ اسکے خالی آسمان کا تارہ پھر سے روشن ہوجانا چاہئے تھا ۔۔۔  

 وہ ماں جو ولی نہ تھی پھر بھی ولی بن بیٹھی ۔۔۔ وہ ماں جس نے بددعا دیے بنا ہی اللہ سے اسی دنیا میں انصاف حاصل کر لیا ۔۔۔ اس ماں کی ساری اولادوں میں پیاری اولاد، اسکی سات سالہ عرضی کو کسی بھی صورت مل جانا چاہیے تھا ۔یہی بے جی اور انکے تارے کی کہانی کا اصل اختتام تھا ۔

 

           ٭ ٭ ٭ ٭