ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-07 18:34:54 Written by بنت شعیب

یارم۔۔۔(سمیرا حمید)

تبصرے نگار (بنت شعیب)

ہار جانے والے ان لوگوں سے لاکھ درجے بہتر ہوتے ہیں جو ریس میں حصہ ہی نہیں لیتے۔“

 

 

کچھ کہانیاں ایسی ہوتیں ہیں جنہیں آپ پڑھتے ہیں، پسند کرتے ہیں، اور پھر بھول جاتے ہیں۔ مگر کچھ کہانیاں ایسی ہوتیں ہیں جن میں آپ جیتے ہیں۔ جو کھینچ کے آپکو اپنے اندر موجود دنیا میں لے جاتیں ہیں۔ اور ایسی کہانی آپ کبھی نہیں بھولتے۔ سمیرا حمید کا یارم بھی ایک ایسا ہی ناول ہے۔

 

یہ کہانی ہے ایک لڑکی امرحہ کی۔ جس کی پیداٸش پر کچھ ایسے ناگوار واقعات و حادثات پیش آۓ جن کے سبب سب اسے منحوس ماری کہنے لگے۔ اسکی نحوست کے چڑچے ہر جگہ کۓ جانے لگے۔ امرحہ ہر وقت روتی بسورتی رہتی۔ سوائے پیارے دادا کے نہ وہ کسی سے محبت کرتی نہ کوٸ اس سے۔ پھر تنگ آکر اس نے مانچسٹر یونيورسٹی میں اسکالرشپ کیلیۓ اپلاۓ کیا۔ پہلے تو اسے انکار کردیا گیا پھر امرحہ نے وہی پرانہ مشرقی طریقہ اپنایا، اموشنل بلیک میلنگ کا۔ جسکا اثر مثبت نکلا اور یوں امرحہ اور ہم سب پہنچے مانچسٹر میں اور وہاں سے شروع ہوا سفرِ یارم۔

 

یارم ناول کی سب سے خاص بات اسے لکھنے کا انداز اور الفاظ کاچناٶ ہے۔ ہر لفظ دل پر نقش کر لیتا ہے۔ سمیرا حمید الفاظ کے ذریعے ہنسانا اور رلانا دونوں جانتی ہیں۔ انکے مزاحیہ اور غم زدہ لفظوں نے ناول کا نکھار بڑھا دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا کے ہم مانچسٹر میں ہیں۔ ہم کہانی کا حصہ ہیں۔ شاید ہم کہانی کا حصہ ہی تھے۔

 

یہ کہانی ہر اس شخص کیلۓ ہے جو زندگی میں ہارا ہے۔ یعنی ہر انسان کیلۓ کیونکہ کبھی نہ کبھی سب ہارتے ہیں۔ ہمیشہ کوٸ نہیں جیتتا۔ تو کیا ہار کے بعد کوشش کرنی چھوڑ دینی چاہیے؟ ہرگز نہیں کیونکہ ہمیشہ کوٸ ہارتا بھی نہیں ہے۔ یہی سبق اس ناول میں دیا گیا ہے کہ ہار جانا برا نہیں نہ امید ہونا برا ہے۔ اور کیسے زندگی میں پرامید ہوا جاتا ہے کہ رونا ہر مسٸلہ کا حل نہیں۔

 

امرحہ کا کردار ہمارے معاشرے کا عکاسی بھی تھا اور حقیقت سے پرے بھی۔ اسکا آلس پن، صرف اپنی عزت کی پرواہ کرنا، ڈرپوکی جیسی عادات ہم جیسی ہی ہیں مگر کبھی کبھی اسکی بےوقوفی دیکھ کے سر پیٹنے کا دل کرتا ہے۔ امرحہ کے بارے میں پڑھ کر پہلے اس پر ترس آتا تھا، پھر ہنسی آنے لگی، اور پھر اسکی بونگیوں پر غصہ آنے لگا۔ مگر آہستہ آہستہ ہم امرحہ کی جگہ آگۓ۔ اور ہم اسکے ساتھ سیکھنے لگے۔ پرامید ہونا، محنت کرنا، کوشش کرنا، بہادر بننا، کسی کو جج یا کسی سے نفرت نہ کرنا، اور سب سے بڑھ کر محبت کرنا ٗ خود سے، لوگوں سے، اپنے ملک سے، دنیا سے (اور یارم سے)۔

 

پھر امرحہ کی زندگی میں آتا ہے عالیان۔ عالیان میرے پسندیدہ ہیروز میں سے ایک ہے۔ عالیان کی سب سے خاص بات اسکی معصومیت اور ذہانت ہے۔ امرحہ اور عالیان کی کہانی بڑے خوبصورت انداز میں لکھی گٸ ہے۔ ہنسانے والی، رلانے والی، روایات میں دب جانے والی۔ امرحہ ایک ایسی لڑکی جو عالیان سے دوستی کر سکتی ہے مگر شادی نہیں۔ عالیان اسکے پیچھے پیچھے گھومتا تھا اس نے اسے نہیں روکا۔ عالیان نے اسے شادی کیلۓ پروپوز کیا تو اس نے منع کردیا۔ اور ویرا کے سامنے اس نے وجہ بتاٸ کہ عالیان کا کوٸ خاندان نہیں جو کہ ہم مشرقی لڑکيوں کے لیے واقعی بڑی وجہ ہے۔ خیر، نہایت سمجھدار ویرا یہاں بےوقوفی کر گٸ۔ اور وہ ساری باتیں جو امرحہ نے عالیان اور اسکی ماں کی شان میں کہیں تھیں اسکی ریکارڈنگ کارل کے پاس چلی گٸ جو اس نے ہاٹ راک میں چلا دی اور عالیان نے سن لی۔ عالیان بیچارے کو زندگی میں اتنے غم ملے ہیں کہ وہ میرا پسندیدہ بن گیا۔ اور امرحہ کے اوپر ایک اور ماٸنس پوائنٹ لگ گیا۔

 

امرحہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر بڑی دیر سے۔ اب وقت کا کایہ پلٹا اور بہت بےدردی سے پلٹا۔ امرحہ کو عالیان سے محبت ہوگٸ۔ وہ اس کے پیچھے جاتی اور وہ اس سے دور جاتا۔ یارم کی ایک اور اچھی بات اس میں لکھا درد ہے۔ رلادینے والا درد۔ عالیان کا غم، امرحہ کا پچھتاوا، مارگریٹ کا دکھ یہ سب جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ ایک حساس انسان کے آنکھوں کے گوشے بھگودے۔

 

اس ہی غم میں ایک کردار ہے ساٸ۔ لیڈی مہر کے بعد یہ اس ناول میں میرا پسندیدہ کردار ہے۔ ساٸ (say it all)۔ یعنی سب کہہ دو۔ وہ سب جو کسی کو سنانا چاہتے ہو۔ وہ سارے راز جو دل پر بوجھ ہیں۔ ساٸ سے کہو وہ سنے گا۔ اور تمہارے راز اپنے دل میں دفنا دیگا۔ ساٸ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ آسان ہے۔ کوٸ بھی ساٸ بن سکتا ہے۔ عالیان بننے کیلۓ حد درجہ ذہانت اور معصومیت چاہيے، کارل بننے کیلۓ چالاکی اور ڈھیٹ پن چاہیے، ویرا بننے کیلۓ تو بہت کچھ چاہیے، مگر ساٸ بننے کیلۓ صرف دل میں ہمدردی اور محبت چاہیے۔

 

اس کہانی کا ایک اور زبردست کردار ہے 'کارل' جو اس ناول کی جان ہے۔ اسکے پرانکس سے بندہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاۓ۔ اور بعد میں وہ عالیان کا جتنا خیال رکھتا ہے وہ مثالی دوستی ہے۔

 

اس کہانی کا ایک اور اہم کردار ہے ویرا۔ ویرا بہت اچھی اور مضبوط لڑکی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ ویرا کو اچھی لڑکی بناتے بناتے پرفیکٹ لڑکی بنا دیا۔ ویرا کا کردار امرحہ سے الٹ اور اچھا دکھانا تھا مگر وہ حقیقت سے ہی پرے لگنے لگی۔ وہ مضبوط تھی، خوبصورت تھی، اچھا گاتی تھی، دل کی اچھی تھی، ہمیشہ جیتتی تھی، اور آخر میں محبت کی قربانی بھی اس ہی نے دی۔ اسلیے وہ حقیقت سے پرے لگنے لگی۔

 

ہر اچھے ناول میں کچھ نہ کچھ خامی تو ہوتی ہی ہے۔ یارم ناول میں مجھے لگتا ہے کہانی کی رفتار سہی نہیں رکھی گٸ۔ بیچ میں کہانی بڑی سست روی سے چلنے لگی۔ اور آخر میں سب خود ٹھیک ہوگیا۔ امرحہ کو اسکی غلطیوں کا احساس ہوا مگر اسنے کچھ بھی سہی نہیں کیا۔ عالیان کو اچانک سے لگا وہ امرحہ کو کھو دے گا اور اسنے امرحہ کو معاف کردیا۔ لڑکا لڑکی مل گۓ اور شادی ہوگٸ۔ یہ بہت آسان اختتام تھا۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ اختتام برا ہونا چاہیے تھا۔ امرحہ اور عالیان بےشک مل جاتے پر امرحہ کو کچھ ایسا کرنا چاہیے تھا کہ وہ عالیان کہ قابل لگے۔ کوٸ بھی ایسا سین جس سے سب کو پتا چلے کہ روایتی امرحہ بدل گٸ ہے، مضبوط ہوگٸ ہے۔ عالیان کو امرحہ کی کوٸ بات اسکی طرف ماٸل کرے نہ کہ وہ ہوسپٹل چلی گٸ، عالیان کی محبت جاگ گٸ، اور ویرا نے قربانی دے دی اور سب خوشی خوشی رہنے لگے۔ خیر یہ صرف میرا خیال ہے۔

 

اس بات کے باوجود یارم میرا پسندیدہ ناول ہے۔ اسے پڑھ کے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اسکے اقتباسات پڑھنے والے پر مثبت اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسکے ہلکے پھلکے مزاق اور پرانکس خوب ہنساتے ہیں۔ اس میں موجود داستان بڑی حسین ہے۔ اور اسے پڑھ کر گھر بیٹھے مانچسٹر کی سیاحت ہوجاتی ہے۔ مختصراً، اسے پڑھنے کا تجربہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔