ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-09 18:19:19 Written by شعیب اعظم

ری ویو ۔ ناول مصحف از نمرہ احمد ۔ تبصرہ نگار : شعیب اعظم

 

 اچھی کتاب ایک اچھا استاد ثابت ہوتی ہے ۔یہ میں نہیں میرے استاد کہا کرتے تھے ۔ جب بھی آپ ایک اچھی کتاب پڑھتے ہیں تو یقین رکھیں کہ اب آپکی زندگی میں کچھ جادوئی عمل ہونے والا ہے ۔ آپکی زندگی بدلنے والی ہے یا آپکی شخصیت ۔جی ہاں ۔ ۔۔ ۔۔ اچھی کتاب کچھ ایسا ہی اثر رکھتی ہے ۔ نمرہ احمد کی ’’ مصحف ‘‘ کچھ ایسی ہی سحر انگیز کتاب ثابت ہوئی ہے اپنے قارئین کیلئے ۔

 مصحف کی کہانی تین کرداروں محمل ، فرشتے اور ہمایوں کے گرد گھومتی ہے ۔ بنیادی طور پہ حالات کی ستائی ایک ایسی لڑکی محمل کی کہانی ہے جو اپنے ہی گھر میں رہتے اپنے رشتوں کے ہاتھوں دھتکاری اور ستائی جاتی ہے لیکن وہ باہمت اور بہادر ہے ۔ زندگی کے ہزار مکروہ روپ دیکھ کر بھی وہ ہار نہیںمانتی۔اسکی زندگی کے یہی اتار چڑھاؤ اور محمل کی ان سے جنگ ہی کہانی کی اصل خوبصورتی ہے۔ کہانی کا ایک کردار، فرشتے ، جو مثبت بھی ہے اور منفی بھی ۔ قرآن کو چھوڑ دینے والوں کے پیچھے شیطان کیسے لگ جاتا ہے فرشتے اسکی مثال ہے ۔ ہمایوں داؤد ، محمل کا محبوب شوہر، جو کبھی محمل کیلئے ایک روشنی بنتا ہے وہی محمل کیلئے تکلیف کاباعث بھی ہوتا ہے ۔وہ کہانی کا ہیرو ہو کر بھی ہیرو نہیں ہے۔ان تینوں کے علاوہ یہ ناول تیمور ، فواد، آرزو کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکتا تھا ۔دیگر ثانوی کردار بھی اپنی جگہ اہم تھے۔

 مصحف کی کہانی صلہ رحمی کی کہانی ہے ۔ رشتوں کی آزمائش اور مکروہ چہروں کی کہانی ہے۔ یہ کہانی مکافات ِ عمل بھی دکھاتی ہے اور بدلہ نہ لینے والوں کیلئے اللہ کی رحمت بھی ۔یہ قرآن کو لینے والوں کی زندگی او ر انجام ہم پہ واضح کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ قرآن لیکر چھوڑ دینے والے کہاں پہنچ جاتے ہیں ۔کسی ایک ٹاپک کی بات کی جائے تو مصحف بندے اور اللہ کے کلام کے تعلق کی مضبوطی پہ لکھی گئی کہانی ہے ۔ قرآن کیسے ہماری دلوں کی بہار اور آنکھوں کا نور ہے اس کہانی میں بتایا گیا ہے ۔

 کہانی نویس نے اس ناول کو کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری ایک ہی بیٹھک میں اسے پڑھے بنا رہ نہیں پاتا ۔۔۔ نمرہ احمد کا اندازِ تحریر ایسا ہے کہ وہ کہانی کے شروع سے آخر تک اس میں تجسس کا عنصر غالب رکھتی ہے اور یہی بات قاری کو کتاب سے جڑے رکھنے کی وجہ بنتی ہے ۔وہ ہر پل یہی جاننا چاہتاہے کہ اب آگے کیا ہو گا ۔۔۔۔؟اگریہ کہا جائے کہ نمرہ احمد اشتیاق احمد کا فی میل ورزن ہیں تو کچھ کچھ غلط نہ ہو گا ۔ وہ کہانی کو دلچسپ اور رواں رکھنے کے تمام لوازمات سے واقف ہیں اسی لئے انکا قاری کبھی بھی بوریت کا شکار نہیں ہوتا ۔۔۔ نہ تو آپ انکے ناول کے بارے میں یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس میں کیا موضوع زیر بحث آنے والا ہے ، نہ آپ اسکے پل پل بدلتے واقعات کو جانچ سکتے ہیں کہ اب کہانی کس سمت بہنے جا رہی ہے ، نہ ہی آپ اسکے اختتام کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہانی کس موڑ پہ جا کر اپنے انجام کو پہنچے گی ۔ مصحف بھی اسی طرز پہ لکھا گیا ناول ہے۔  

  نمرہ کی کہانیوں میں ہمیشہ آپکو اللہ کا کلام ایک نئے انداز سے سیکھنے کو ملتا ہے ۔ ہمیشہ کچھ نیا ، کچھ جدا ، وہ جو ہم کبھی نہیں جانتے ۔ مصحف میں ہمیں قرآن کو صحیح انداز سے پڑھنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ کتنے قاری مجھ سمیت ایسے ہیں کہ جنھوں نے مصحف پڑھ کر اپنا مصحف کھولا اور اسے پڑھنا شروع کیا ، جیسا کہ اسکے پڑھنے کا حق تھا ۔ایک لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہانی نویس اپنی لکھنے کی صلاحیت کو استعمال کر کے دعوتِ تبلیغ کا کام انجام دیتی ہیں جو ہم جیسے کتنوں کی ھدایت کا ذریعہ بن رہی ہیں ۔کیونکہ براہ ِ راست نصیحت بور کر تی ہے اور کہانی کی صورت میں اپنی طرف کھینچتی ہے ۔

 نمرہ احمد کی کہانیوں کے لیڈنگ رولز روایتی کہانیوں کی طرح مظلوم نہیں ہوتے ۔ وہ اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں ۔ لڑنا جانتے ہیں ۔ اپنے مسائل کا حل نکالنا جانتے ہیں ۔۔۔ کہانی کسی بھی جگہ ٹہر کر جمود اور بوریت کا شکار نہیں ہوتی ۔ یہ خصوصیت کسی کسی کہانی میں پائی جاتی ہے ۔مصحف میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔

 ایسے ناول کم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے قاری مکمل طور سے اتفاق کرتے ہوں یا ان میں کسی قسم کا کوئی تنقیدی پہلو نہ نکالتے ہوں ۔۔۔ مصحف کی کہانی میں بھی کئی چھوٹے موٹے جھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پوائنٹ بہت سے ہیں لیکن میں بس چند ایک پہ روشنی ڈالوں گا ۔

 پہلے چلتے ہیں اس گتھی کی جانب جو فواد، محمل ، ہمایوں اور فرشتے کے درمیان سلجھاتے سلجھاتے میں خود الجھ گیا ۔۔۔ ایک طرف اے ایس پی ہمایوں داؤد فواد کی کزن محمل پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں کہ وہ اسکی گینگ کی اغواء کار نہیں بلکہ اسکی کزن ہے اور اسکا ہر تفتیشی انداز اسے اس بارے میں لاعلم قرار دیتا ہے ۔ لیکن آگے چل کر ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے کہ فرشتے اور ہمایوں فواد کے منصوبے سے بخوبی آگاہ تھے اور محمل کا ہمایوں کے ہاں آنا انکے علم میں پہلے سے تھا ۔ ایسے می ہمایوں کا اتنا جارحانہ رویہ ناقابل ِ فہم ہے ۔ فرشتے کا محمل کو مدرسے میں دیکھ کر پہچان لینا اور کسی قسم کا ردِ عمل نہ دینا بھی سوال اٹھاتا ہے۔

 دوسری بات جہاں مجھے اعتراض تھا کہ عدالت میں بیٹھی محمل فائل نکال کر آغا جان کو دیتی کہتی ہے کہ ’’ میری صرف فیکٹری میں شیئرز کی قیمت لگ بھگ نوکروڑ ہے ۔‘‘ ایک لڑکی جس کا فیکٹری کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں کیسے جان سکتی ہے کہ اسکا کتنا حصہ ہے ۔پھر آغا جان کا چیک انکی طرف بڑھانا ۔کیا بزنس مین کی چیک بک اتنی معمولی چیز ہوتی ہے کہ کہیں بھی رکھ دی جائے۔

 اسی طرح محمل کا یہ جان لینے کے بعد کہ یتیمی ایک عمر تک ہوتی ہے خود کیلئے یتیم کا لفظ استعال کرنا ۔فرشتے کی حقیقت جان لینے کے بعد گھر لوٹ کر اپنی ماں مسرت سے اسکا تذکرہ تک نہ کرنا ۔محمل کا ہمایوں سے محض بات کرنے جانا بمعہ چھری کے اور پھر اتنا مشتعل ہو جانا کہ اسے زخمی ہی کر دینا ۔

فرشتے کو یہ تو یاد نہ ہونا کہ کس کی کرسی پہ کس کا جسم تھا لیکن محمل کا قرآن کی تلاوت کرنے پہ عربی کے لفظ لفظ سے آشنا ہونا ۔تیمور کا فرشتے کو ہی کبھی ’ وچ نمبر ون ‘ اور کبھی ’ وچ نمبر ٹو ‘ کہنا ۔۔۔ یہ سب پوائنٹ کہانی کی ٹیکنیکل فالٹس کہلاتے ہیں ۔ قارئین اس قسم کی بہت سارے چھوٹے موٹے جھول اس کہانی کا حصہ رہے ہیں اگر میں لکھنے بیٹھا تو یہ سراسر ایک تنقیدی تبصرہ بن جائے گا اس لئے باقی آپ پہ چھوڑتا ہوں۔

 ان تمام باتوں کے باوجود ’’ مصحف‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے ۔ہر بار پڑھنے پہ اسکا مزہ الگ ہی ہوتا ہے۔ اسکے کئی اقتباس قابل ِ تعریف ہیں اور انسان کو سوچنے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ٹوٹے ہوئے دلوں کیلئے ایک مرہم بھی ثابت ہوتی ہے اور بھٹکے لوگوں کیلئے ایک رستہ بھی ۔ہم سب کیلئے اس ناول میں کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے ۔مصحف کے جس جملے کو میں آج تک کبھی فراموش نہیں کر سکا وہ ہے ۔۔۔’’ اللہ انسان کو اسی کے ہاتھوں توڑتا ہے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ انسان کو ایسے ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہئے جسمیں لوگوں کی محبت آئے اور نکل جائے ۔‘‘  

 اگر آپ نے ابھی تک اس ناول کو نہیں کھولا تو وقت نکال کرا سے کھولیں ۔ شاید کہ اسے پڑھنے سے

 آپ حقیقی مصحف کھولنے کے قابل ہو جائیں ۔یقین کریں آپ جب بھی یہ کتاب کھولیں گے کچھ نہ کچھ حاصل کر کے ہی رہیں گے ۔

یہ میرا دعویٰ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 شکریہ