ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-10 18:05:44 Written by کوثر اسلام

ناول۔۔۔۔۔۔ ماں

تبصرہ۔۔۔۔ کوثراسلام

 

عالمی ادب کی تاریخ میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جس کے قاریوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو اور جس نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی قسمت پر اتنا زبردست اور براہ راست اثر ڈالا ہو جتنا کہ اس ناول ماں نے ڈالا ہے۔

 

اس ناول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں۔ ایک بار لینن نے گورکی سے کہا۔

"یہ کتاب (ماں) ضروری ہے۔ بہت سے مزدور بلا سمجھے بوجھے فطری طور پر انقلابی تحریک میں حصہ لے رہے تھے اب وہ ماں پڑھیں گے جو ان کے لیے بہت مفید ہے۔۔۔ بہت ہی بروقت کتاب ہے"

 

یہ کہانی ہے پاویل ولاسوف اور اس کی ماں نلونا کی۔ پاویل ولاسوف میخائیل ولاسوف کا بیٹا تھا۔ میخائیل عام لوگوں کی طرح کارخانے میں مزدور تھا۔ وہ اپنی بیوی کو مارتا رہتا۔ شوہر کی بد مزاجی کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن گئی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا پاویل بھی باپ کے نقش قدم پر چلنے لگا۔ وہ شراب پیتا اور باپ کی طرح سخت طبیعت اور بد مزاج ہو گیا۔ لیکن پھر اس میں تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں۔

 

وہ گھر میں کتابیں لانے لگا۔ اس کی باتوں اس کے انداز اور اس کے رکھ رکھاو میں شائستگی اور وقار پیدا ہونے لگا۔

 

کارخانے کے منتظمین مزدور کا خون نچوڑ کر اپنے محل تعمیر کر رہے تھے۔ مزدور کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی۔ پاویل نے مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔

جس طرح ہر نئی تحریک کے آغاز میں لوگ متردد ہوتے ہیں کہ آیا یہ تحریک کامیاب ہو جائے گی یا نہیں۔ اس طرح پاویل کے بارے میں بھی لوگ قیاس آرائیاں کرنے لگے۔

 

پاویل مستقل مزاج اور سخت جدوجہد کرنے والا انسان تھا۔ اس کی تحریک کو بزور کچلنے کی کوشش کی گئی۔ قسم قسم کے ہتکھنڈے استعمال کیے گئے۔ لیکن پاویل چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔

 

کہانی کا سب سے سنسنی خیز حصہ یوم مزدور کے حوالے سے پاویل کا مارچ ہے۔ یہ مارچ سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ تھا۔ یکم مئی کو

پاویل سرخ جھنڈا لے کر باہر نکلا۔ وہ جھندا لہرا رہا تھا۔ اس کے گرد بہت بڑا ہجوم جمع تھا وہ سب مل کر گا رہے تھے۔

اٹھو مزدورو، جدوجہد کے لیے اٹھو

اٹھو تم جو محنت کرتے اور فاقے کرتے ہو

 

پاویل اور اس کا دوست نخودکا جھنڈا لہراتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ مسلح فوجیوں نے انہیں روکا۔ انقلابی سینہ تانے کھڑے رہے۔ پاویل کو گرفتار کر لیا گیا۔ پاویل کے بعد اس کی ماں میدان عمل میں اتر آئی۔ اور انقلابیوں کے لیے مثال بن گئی۔ وہ عورت جس نے پوری زندگی خوف ہراس میں اور مار کھاتے ہوئے گزاری ہے جب وہ انقلابی بن جاتی ہے تو وہ کارنامے سرانجام دیتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ انسان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہی ہوتا ہے جو اسے محیرالعقول کاموں پر اکساتا ہے۔

 

مصنف نے اس ناول میں اپنا نظریہ اور موقف احسن طریقے سے پیش کیا ہے۔ ایک جگہ عدالت میں مرکزی کردار پاویل تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے۔

"ہم اشتراکی ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہم نجی ملکیت کے خلاف ہیں جو سماج میں انتشار پیدا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجی ملکیت مردہ باد۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ذرائع پیداوار عوام کے ہاتھ میں ہوں۔ پورا اقتدار عوام کے ہاتھ ہوں محنت ہر شخص پر فرض ہو۔"

 

مذہب کے بارے میں ماں سے بحث کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔

"میں اس مہربان اور رحیم خدا کا ذکر نہیں کر رہا جس پر تمہیں اعتقاد ہے۔ بلکہ اس خدا کی بات کر رہا ہوں جس سے پادری ہمیں ڈراتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو جھوٹ اور بہتان میں ملبوس کر دیا ہے ہماری روحوں کو کچلنے کے لیے خدا کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔

لوگوں کے دماغوں میں ان کے کہے بغیر پہلے ہی بہت کچھ بھر دیا گیا ہے وقت آ گیا ہے کہ انہیں سوچنے دیا جائے۔ ان کے ہاتھوں میں کتابیں دیدو۔ وہ خود جواب تلاش کر دیں گے۔"

 

سرمایہ داروں کے متعلق وہ کہتا ہے۔

"یہ انسان سب سے بڑے گنہگار ہیں۔ یہ سب سے زیادہ زہریلے کیڑے ہیں جو لوگوں کا خون چوس رہے ہیں۔ فرانسیسیوں نے انہیں ٹھیک ہی نام دیا ہے۔ بور____ژوا۔۔۔ کیونکہ سچ مچ یہ لوگ بڑے ناشائستہ اور اجڈ ہوتے ہیں۔

 

اس ناول میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ تقریبا سارے سچے ہیں۔ مصنف نے انہیں ترتیب دے کر فنکارانہ شکل میں ڈھالا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ ناول ایک قسم کی تاریخی دستاویز ہے۔ گورکی خود لکھتے ہیں۔

"مزدوروں کے بارے میں کتاب لکھنے کا خیال مجھے سورمووہ کے مظاہرے (یکم مئی کا مظاہرہ) کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میں نے اسی وقت مواد جمع کرنا اور مختلف قسم کی یاد داشتیں لکھنا شروع کر دی تھیں"

ناول میں جو مرکزی کردار پاویل ولاسوف اور اس کی ماں نلونا ہے یہ درحقیقت سورمووہ کا مزدور پیتر زالوموف اور اس کی ماں ہے۔ زالوموف نے طویل عمر پائی اور 1955 میں 78 سال کی عمر میں فوت ہو گئے۔

زالوموف کی مصنف کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے رابطہ تھا لیکن باقاعدہ ملاقات 1905 میں گورکی کے دیہی مکان میں ہوئی۔ گورکی نے زالوموف کی بہت مدد کی تھی۔

 

مصنف کا خیال ہے کہ انقلاب اور تبدیلی کے لیے کتاب لازمی ہے جیسے کتابوں نے پاویل کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پہلے وہ بد مزاج شرابی اور عام سا مزدور تھا لیکن مطالعے نے اس مزدوروں کا رہنما بنا دیا۔

اسی طرح انقلاب کے لیے قربانی کا جذبہ بھی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک کردار خوخول کہتا ہے۔

"بعض اوقات آگے بڑھنے کے لیے ہمیں خود اپنے خلاف جانا پڑتا ہے۔ پورے دل تک کی قربانی دینی ہوتی ہے اپنے مقصد کے لیے جان دینا آسان ہے لیکن کچھ اس سے بھی زیادہ قربانی دینی ہوتی ہے اس چیز کی جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہو۔"

 

ناول کی سب سے بڑی خوبی بہترین منظر نگاری اور جاندار مکالمے ہیں۔

 

روسی ناولوں میں بڑا مسئلہ ناموں کا ہوتا ہے۔ ایک شخص کو کئی کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جس سے قاری الجھ جاتا ہے مثلا زیر نظر ناول میں ایک کردار نخود کا ہے اسے کبھی اندریوچ کبھی اندریوشا کبھی نخودکا اور کبھی کسی اور نام سے پکارا جاتا ہے۔

 

اسی طرح جب دو کردار آپس میں باتیں کرتے ہیں تو ان کے مکالمے کہیں کہیں صفحات تک چلے جاتے ہیں۔

 

یہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں ناول آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور آخر میں سنسنی خیزی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے حصے میں یہ چیز نہیں ہے۔ 

 

ناول ماں کی گرفتاری کے ساتھ ایک دم ختم ہو جاتا ہے۔ جس سے قاری ایک طرح کی تشنگی محسوس کرتا ہے۔