ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-11 18:11:25 Written by مانو شہزادی

تبصرہ از مانو شہزادی

" جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو"

 

 از فرحت اشتیاق 

 

کسی بھی کہانی/ناول کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اسے پڑھنے والا ناول کے کرداروں کے احساسات کو پوری طرح محسوس کرے اور رائٹر کا طرز تحریر ہی قاری کو کہانی میں اس حد تک انوالو کر سکتا ہے.. سو یہی ہوا

 "جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو" میں.. 

سکندر کی کہانی.. سکندر کی لزا کی کہانی.. اور لزا کے روما کی کہانی.. 

اس ناول کا نام فیض کی غزل کے ایک شعر ....

"نہ گنواﺅ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لٹا دیا" سے اخذ کیا ہے۔

اس ناول میں انہوں نے ہلکے پھلکے رومانس کے ساتھ اٹلی کی مختصر تاریخ بھی رقم کی ہے‘ کہیں کہیں سفر نامے کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ تاریخی و رومانوی شہر روم سے شروع ہونیوالی یہ منفرد داستا ن صفحہ اول سے آخر تک قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔

یہ کہانی ہے زندگی کے نشیب و فراز کی.. حسد کی, تلخیوں کی, نفرتوں کی,

پھر عزم کی, جدوجہد کی اور محبتوں کی..

سکندر جس نے زندگی کو اپنے انداز میں کھلے دل سے اور کامیابی کے ساتھ برتا تھا پھر زندگی نے ایک ہی جھٹکے میں اسے نشیب کی جھلک دکھائی.. ایک وقت آیا کہ جب وہ زندہ ہے مگر زندگی کے بغیر.. سانس چلتی ہے مگر خواہش کے بغیر..

پھر ایک لزا ہے.. جسے اپنے روما سے عشق ہے جو ایک بہت حساس اور دردمند دل رکھتی ہے جس کی زندگی جدائیوں سے عبارت ہے مگر وہ اپنے پیارے لوگوں کی خوشی میں خوش رہنا جانتی ہے.. 

فرحت اشتیاق کا مخصوص انداز تحریر.. بلاشبہ میں نے بارہا خود کو لزا کے روما میں محسوس کیا, سکندر کا دکھ جان کر دل افسردہ ہوا, اور پھر خود کو ان دونوں کے ملنے پر خوش ہوتے پایا.. متنوع قسم کے جذبات سے مزین یہ تحریر اپنے اختتام تک آپ کو خود سے جوڑے رکھے گی..

کہانی دو بہنوں سیم اور لیزا اور دو بھائیوں سکندر اور زین کے گرد گھومتی ہے۔۔۔

دو بھائ جن میں ایک ہمیشہ حسد میں مبتلا رہا۔۔حسد کی آگ اس قدر بڑھی کہ نفرت میں بدل گئ اور اس آگ نے دوسرے بھائ کی ہنستی بھرپور زندگی کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔۔

جبکہ دو بہنیں جن میں ایک نے ہمیشہ دوسری کی برتری کا نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی ہر بات کو فرض اول کی طرح مانا۔۔اور ہمیشہ اس کے سامنے سر خم تسلیم کیا۔۔سیم۔لیزا کے مقابلے میں نہایت زہین اور خوبصورت ہے۔۔

شہریار خان نہایت اعلی اور معزز خاندان سے تعلق رکھنے والے نہایت سحر انگیز مغرور شخصیت کے مالک انسان ہیں۔۔جو ورلڈ بینک میں اعلی عہدے پر فائز تھے اور واشنگٹن میں اپنے دو بیٹوں سکندر اور زین اور اپنی شریک حیات کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔۔شہر یار خان کی بیوی آمنہ ڈاکٹر ہیں لیکن گھریلو زندگی کی وجہ دے اپنے پروفیشن کو قربان کر دیتی ہیں وہ بہت ملنسار خاتون، بہت محبت کرنے والی ماں اور نہایت فرمابردار بیوی ہیں۔۔

            سکندر بالکل اپنے باپ کا عکس ہے اور نہایت زہین اور سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا جبکہ زین کم زہانت کا مالک تھا اسلئے شہریار خان کی امیدوں کا مرکز سکندر ہے۔۔لیکن زین اس امتیازی سلوک کی وجہ سے ہمیشہ اپنے بھائ سے خائف رہتا ہے اور حسد میں مبتلا ہے۔۔

سیم اور لیزا کے والد خالد محمود ہیں جنہوں نے عیسائ عورت وٹوریا سے شادی کی جو کامیاب نہ رہ سکی۔۔اس لئے وہ اپنی بیٹی لیزا کے ساتھ الگ ہو گئے۔۔جبکہ وٹوریا اپنی بیٹی سیم کے ہمراہ میلان شفٹ ہو جاتی ہے۔۔وہ ایک ارب پتی بزنس مین سے شادی کرتی ہے 

سیم لیزا سے اس وقت نفرت کرنے لگتی ہے جب اس کا باپ اس کی بجائے لیزا کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے تب سیم سمجھتی ہے کہ اس کے باپ نے لیزا کو اس پر ترجیح دی۔۔اس کا غصہ نکالنے کے لئے وہ اپنے سوتیلے باپ سے ناجائز تعلقات استوار کر لیتی ہے اور یوں اپنی ماں کا گھر اجاڑ دیتی ہے۔۔لیکن وہ لیزا کو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے سوتیلے باپ نے اس سے زیادتی کی ہے۔۔

اس لیے لیزا کو پاکستانی مردوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ محمود خالد کو چھوڑ کے اپنی نینی کے پاس روم میں شفٹ ہو جاتی ہے۔۔

اس کے بعد سیم ایک پاکستانی بزنس مین ہاشم اسد سے افیئر چلاتی ہے ۔۔ہاشم اسد سیم کی خوبصورتی پہ فدا ہو جاتا ہے۔۔سیم اس سے شادی اس شرط پر کرتی ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے۔ سیم ہاشم اسد کی دوسری بیوی بنتی ہے۔۔

چونکہ محمود خالدکی خواہش تھی کہ اس کی بیٹیوں کی شادی پاکستانی مرد سے ہو اس لئے وہ اپنے باپ کو اپنے قریب کرنے کیلئے ہاشم سے شادی کرتی ہے لیکن لیزا کو بتاتی ہے کہ اس کے والد نے زبردستی اس کی شادی ہاشم اسد سے کی ہے جو نہایت ظالم انسان ہے۔۔

یوں لیزا بدگمانی میں اپنے باپ سے اور دوری اختیار کر لیتی ہے۔۔

ناول کے آغاز میں سکندر کی شکستہ حال زندگی دکھائ گئ ہے وہ ڈراؤنے خوابوں کے لامتناہی سلسلے کا شکار ہونے کی وجہ سے انسومینا کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔۔

      ان ڈراؤنے خوابوں کی وجہ سکندر کی زندگی میں آنے والا وہ طوفان ہوتا ہے جس نے سکندر کی زندگی کے پرخچے اڑا دیے۔۔

سکندر کا بھائ زین ایک لڑکی ام مریم سے محبت کرنے لگتا ہے وہ اسے پرپوز کرتا ہے اور اپنے گھر والوں کو رشتے کیلئے بھیجتا ہے۔۔یوں ان دونوں کی منگنی ہو جاتی ہے لیکن جب ام مریم سکندر سے ملتی ہے تو اس پہ فدا ہو جاتی ہے۔۔وہ سکندر کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن سکندر اسے رد کر دیتا ہے۔۔جو وہ برداشت نہیں کر پاتی۔۔اس لئے بدلہ لینے کیلئے وہ ایک سازش کرتی ہے۔ایک دن زین اور باقی گھر والوں کی غیر موجودگی میں وہ سکندر کے کمرے میں جاتی ہے اور اسے دعوت گناہ دیتی ہے لیکن سکندر اسے دھتکار دیتا ہے اور وہ غصے میں اپناگریبان چاک کرلیتی ہے۔۔اس کے بنائے منصوبے کے مطابق اس وقت سکندر کے گھر والے واپس آجاتے ہیں ۔۔وہ خود کو معصوم ظاہر کرتے ہوئے سکندر پر زیادتی کا الزام لگاتی ہے ۔۔یوں اسے سچا گردانتے ہوئے سکندر کے والدین سکندر کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیتے ہیں۔۔زین تو پہلے ہی سکندر سے نفرت کرتا ہے اس لئے وہ بھی ام مریم کو سچا سمجھتا ہے۔۔ام مریم بھی زین کو چھوڑ کے چلی جاتی ہے جسکا زمہ دار بھی سکندر کو سمجھا جاتا ہے

گھر سے نکالے جانے کے بعد سکندر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔۔محنت مزدوری کرتا ہے اور بار میں لوگوں کو شراب پیش کرنے کا بھی کام کرتا ہے۔۔

ایک دن بار سے واپسی پر 4 امریکی شراب کے نشے میں دھت اس کو گھیر لیتے ہیں نہ صرف اس سے پیسے چھین لیتے ہیں بلکہ اسکی عزت بھی پامال کردیتے ہیں یوں سکندر 20 سال کی عمر میں sexual abuse کا شکار ہو جاتا ہے۔۔اور اپنی زندگی میں اس طوفان کے بعد وہ اس قدر جنونی ہوجاتا ہے کہ خود کونفرت کے قابل سمجھتا ہے۔۔وہ اپنی سحر انگیز شخصیت کو ایک خول میں بند کر لیتا ہے اور کسی کو اس کی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں ہوتی۔۔وہ اس قدر ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے کہ مسکرانا بھول جاتاہے ۔۔۔

بار میں نوکری کے دوران بار کا مالک سکندر کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کا کہتا ہے یوں سکندر کسی عام سے ادارے میں دوبار تعلیم جاری کرتا ہے۔۔

سکندر ملازمت کے سلسلے میں روم آتا ہے وہاں لیزا سکندر کو ملتی ہے۔۔لیزا ایک قابل مصورہ اور ایک خوبصورت ہمدرد دل رکھنے والے لڑکی ہے۔۔جو سب کی خوشیوں کا خیال رکھتی ہے

لیزا اس کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوتی ہے اور اس کے چہرے کو پینٹ کرنے کی خواہش کرتی ہے لیکن سکندر منع کر دیتا ہے۔۔لیزا اسکے قریب ہونے کی کوشش کرتی ہے لیکن سکندر اسے واضح بتا دیتا ہے کہ اسے اپنی زاتی زندگی میں مداخلت پسند نہیں۔۔

لیکن لیزا ہمیشہ اس کا خیال رکھتی ہے آہستہ آہستہ وہ سکندر کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہے۔اسکو روم کی سیر کرواتی ہے۔۔سکندر اسکے سنگ ہنسنا سیکھتا ہے۔۔ لیزا اس کی زندگی میں روشنی کی کرن بن کے آتی ہے۔۔پھر وہ سکندر کی پینٹنگ بناتی ہے۔۔

 

 ۔ سکندر اپنا آفیشل کام ختم کرکے روم سے واپس چلا جاتا ہے لیکن جانے سے پہلے وہ دونون ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن دونوں اقرار نہیں کر پاتے۔۔سکندر کے واپس جانے کے بعد جب لیزا نینی کے سامنے رو پڑتی ہے تو نینی جان جاتی ہیں کہ پاکستانی مردوں سے نفرت کے باوجود لیزا پاکستانی مرد کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔۔جو کوئ بھی وعدہ باندھے بغیر لیزا کی زندگی سے جاچکا ہے۔۔

لیکن سکندر بھی واپسی کے بعد اسکی کمی محسوس کرتا ہے۔۔وہ اس کی سولو ایگزیبیشں میں شرکت کرنے چلا جاتا ہے ۔۔وہ وہاں سکندر کو دیکھ کے بہت خوش ہوتی ہے۔۔گویا اسے اپنی زندگی واپس مل گئ ہو۔۔

پھر دونوں ایک دوسرے سے اقرار محبت کرتے ہیں اور سکندر اپنی زندگی کی ساری تلخیاں لیزا کے سامنے کھولتا ہے۔۔لیزا ہمیشہ اس کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتی ہے۔

لیزا نینی اور سیم کو یہ خوش خبری سناتی ہے تو سیم خوش نہیں ہوتی کیونکہ وہ نہیں چاہتی کسی پاکستانی مرد سے شادی کر کے لیزا اس کے باپ کا دل جیتے۔۔

لیکن سیم کے منع کرنے کے باوجود وہ خالد محمود کو سکندر کے بارے میں بتاتی ہے وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔۔پھر لیزا سکندر کے کہنے پہ اسکے ساتھ پاکستان آتی ہے۔۔۔

سکندر کے گھر سے نکالے جانے کے کچھ سال بعد شہر یار سکندر ام مریم کی اصلیت جان جاتے ہیں۔۔انہیں پچھتاوا گھیر لیتا ہے وہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں اس دوران ان کی بیوی امنہ بیمار ہوتی ہے تو وہ کسی طرح سے سکندر سے رابطہ کرکے اسے اس کی امو جان کی بیماری کا بتاتے ہیں۔۔سکندر اپنی ماں سے محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر 8 سال بعد انہیں ہسپتال ملنے آجاتا ہے۔۔

جب شہر یار خان کو سکندر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا علم ہوتا ہے وہ مزید احساس شرمندگی کا شکار ہوتے ہیں اور خود کو گنہگار گردانتے ہیں اس کے ساتھ ہونے والی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔۔

جب سکندر اپنی والدہ کو لیزا کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔۔اور وہ اس بات کا زکر شہریار سے بھی کرتی ہیں اس دن شہر یار اپنے احساس جرم کو اپنی بیوی کے سامنے قبول کر لیتے ہیں اور وہ سکندر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کا یقین دلاتے ہیں۔۔وہ سکندر کو اپنے فارم ہاوس پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔

سکندر کی امو جان خود لیزا کے والد کے پاس لیزا کا رشتہ مانگنے جاتی ہیں۔۔لیکن وہ جان کر حیران رہ جاتی ہیں ام مریم یعنی سیم لیزا کی بہن ہے اور خالد محمود ان دونوں کے والد۔۔

سکندر جب وہاں ام مریم کو دیکھتا ہے تو پھر سے بکھر جاتا ہے۔۔ام مریم وہاں بھی سکندر پر بہتان تراشی کرتی ہے لیکن سکندر اسے سخت لفظوں میں جواب دیتا ہے۔۔یوں ایک بار پھر سکندر خوشیوں سے دورہو جاتا ہے۔۔

لیزا بہت پریشان ہو جاتی ہے کہ وہ کس کو سچا سمجھے لیکن پھر خالد محمود سچائ بتانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔۔وہ لیزا کو بتا دیتے ہیں کہ کس طرح ام مریم بے راہ روی کا شکار ہوئ اور کیسے اپنے سوتیلے باپ سے ناجائز تعلق قائم کیا۔۔لیزا(کلثوم) یہ سن کر سکتے میں آجاتی ہے کہ جس بہن کی وہ ہمیشہ مثال دیتی تھی وہ اس قدر گھٹیا ہے۔۔

سیم (ام مریم)جب دیکھتی ہے کہ لیزا سب جان چکی ہے تو بیابانگ دہل لیزا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔۔اور نفرت کی وجہ باپ کا لیزا کو ترجیح دینا بتاتی ہے۔۔

شہریار خان زین کو بھی ام مریم کی ساری حقیقت بتادیتے ہیں جس کے نتیجے میں زین احساس جرم سے نظریں نہیں ملا پاتا کہ اس نے اپنے بھائ کو کتنی تکلیف دی ہے۔۔جب سکندر کی والدہ خالد محمود کے گھر سے روتی واپس آتی ہیں اور آکر زین کو ساری بات بتاتی ہیں تو وہ غصے میں ام مریم کے گھر جاتا ہے اور اسے دھمکی دیتا ہے کہ اس بار اس کے بھائ کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ ام مریم کی جان لے لے گا کیونکہ زین اپنے بھائ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ خود لیزا سے ملتا ہے اور اسے اپنا ساتھ دینے کی درخواست کرتا ہے تاکہ دونوں مل کر سکندر کی خوشیاں لوٹا سکیں۔۔لیزا اس کے ساتھ سکندر کے پاس جاتی ہے جو دوہا واپسی کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے لیکن پھر دونوں سکندر کو منا کر گھر لے آتے ہیں

ہاشم اسد سیم کی حقیقت جان کر سیم سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اور اسے یہ بھی بتاتا ہے کہ اس نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی اس لئے وہ اپنی بیوی بچوں کو واپس لے آئے گا۔سیم سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔۔وہ غصے میں اپنے والد کے گھر نکل جاتی ہے۔۔راستے میں تیز رفتاری کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو جاتی ہے اور اس ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں معذور ہو جاتی ہے۔۔

سکندر کے والد اور اسکا بھائ زین سکندر سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں اور سکندر کو گھر واپس لاتے ہیں۔۔خالد محمود چونکہ سیم کی تمام عادات سے واقف ہوتے ہیں اس لئے وہ سکندر اور لیزا کا رشتہ ختم نہیں کرتے۔۔آخر کار سکندر اور لیزا ایک ہو جاتے ہیں۔۔