ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-12 18:32:49 Written by عطوفہ

کتاب: راجہ گدھ

مصنفہ: بانو قدسیہ

تبصرہ منجانب: عطوفہ

 

راجہ گدھ بانو قدسیہ کے قلم سے پیدا شدہ وہ شاہکار ہے جو اپنے آپ میں ایک منفرد پلاٹ رکھتا ہے۔  

ناول کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں حلال اور حرام کا فرق ایسی خوبصورتی سے سمجھایا گیا ہے کہ ہر قاری سبق حاصل ضرور کرتا ہے۔۔۔۔۔

رزق صرف کھانے پینے کی اشیاء نہیں بلکہ ہمارے تعلقات، جزبات، احساسات یہ تمام بھی رزق میں شمار ہوا کرتے ہیں۔ اور ہمیں انہی رشتوں میں حلال اور حرام کا فرق کرنےکو کہا گیا ہے۔

 ناول کا نام راجہ گدھ جسے گدھ نما انسانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ گدھ جو کے پھوہڑ اور کاہل قسم کا پرندہ ہے خود شکار نہیں کرتا مردہ اور حرام کھاتا ہے اور اس سے اس کا پیٹ تو بھرتا ہے مگر بھوک نہیں مرتی، بلآخر اپنی بھوک کے ہاتھوں فنا ہو جاتا ہے۔۔۔۔اور یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔ ہمارے آس پاس نا جانے کتنے گدھ بکھرے پڑے ہیں۔

 

کہانی چند کرداروں کے گرد گھومتی ہے جن میں پروفیسر سہیل، سیمی ، آفتاب اور قیوم کردارِ خاص کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

 

ناول میں عورت کی محبت کی شدت بھی خوب بیان کی گئی ہے اور اس کردار کو سیمی شاہ کا نام دیا گیا۔۔۔گو کہ انتہائی شدت پسند کردار تھا مگر اپنے آپ میں ایک ہی راہ کا انتخاب کئے ہوئے تھا۔۔۔ سیمی شاہ ایک نازوں پلی ، بڑے گھر کی بڑی بڑی الجھنوں میں گھری ایک زندہ دل مگر گہری شخصیت کی مالک ہے۔ جسکا باپ بقول اسکے "مرض الحرص" میں مبتلا ہے اور سیمی آفتاب سے محبت کے مرض میں، یا یوں کہیں کہ عشق کے مقام پر فائز، جہاں محبوب کے سوا کچھ دکھائی نہ دے۔ حلال اور حرام کا سوال اٹھائے بغیر، خدا کی مقرر کردہ حدود کو پھلانگ کر جہاں کسی انسان کو پوجا جائے۔

جیسے کسی شاعر نے خوب کہا:

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں ، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

 

سیمی شاہ اور آفتاب کی محبت جب کوئ رنگ نہ لائی تو سیمی کی دیوانگی کے روپ میں سامنے آئی۔ سیمی اس ناکامی کے بعد اس بھٹکے راہی کی سی ہو گئی جسے معلوم ہو کہ اس راستے پر اسکی منزل نہیں مگر پھر بھی ایک ایک شخص میں اپنی منزل تلاش کر رہا ہو۔۔۔ سیمی نے اس ناکامی کے بعد عشق تھاپ پر ایسے رقص کئے کہ پاءوں شل ہو گئے، بدن تھکن سے چور ہوا مگر محبت میں جسے خدا مانا تھا، اسے نا رحم آنا تھا نا ہی آیا۔ بلآخر اسے دنیا سے جانا پڑا۔

 

" یہ جو انسانوں کو خدا مان کر رحم کی اپیل کرتے ہیں انہیں رحم نہیں ملتا۔۔۔۔ پھر یہ بقیہ انسانوں کے لئے قابلِ رحم ہو جاتے ہیں"(ذاتی رائے) 

 

آفتاب جسے سیمی شاہ سے محبت تھی ، مگر کچھ مجبوریوں کی بنا پر اسے کہیں اور شادی کرنا پڑی۔۔۔۔ وہ صاحبِ اولاد تو ہوا مگر اسکا بیٹا دیوانے پن کا شکار تھا ذہنی مفلوج۔۔۔۔۔

"بنا کسی کوشش کے اگر مرد راستے سے ہٹ جائے تو اسے مجبور نہیں کہا جا سکتا" (یہاں آفتاب کے کردار سے شدید اختلاف ہے)

 

قیوم ایک انسانیت کے درجے سے گرا ہوا شخص ہے۔۔۔جو ہر اس عورت میں جو بظاہر زندہ ہو مگر مر چکی ہو، اپنی تسکین ڈھونڈتا ہے۔ پہلے تو سیمی شاہ سے محبت ہوئی اور تمام حدود کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ سیمی جو کہ پہلے ہی آفتاب کی تلاش میں سرکرداں تھی، آفتاب کا دوست ہونے کے ناتے قیوم میں اسے تلاش کرنے لگی، مگر بے سود۔۔۔۔وہ تو کب کی مر چکی تھی فقط جسم میں جان باقی تھی ۔ جسے بانو صاحبہ نے کچھ یوں بیان کیا ہے

"ہم سب کو صرف محبت چاہئے ہوتی ہے،صرف اس شخص کی جسے اپنا دل شدت سے چاہتا ہو"

قیوم کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ وہ ایک مردہ کے کفن کا آخری کیل ہے۔۔۔۔

سیمی سے دوری کے بعد قیوم کے اندر موجود گدھ نے کئی مردار کھائے۔۔۔

آخر ایک مقام۔پر آکر سوچا کیوں نہ گھر بسایا جائے۔۔۔اور اسکے لئے وہی شرط رکھی جو ہمارے معاشرے کے ہر گدھ کے اندر پنپ رہی ہے یعنی انہیں پاکیزہ، باکرہ، آب زم زم سے دھلی سات پردوں میں چھپی عورت چاہئے تھی۔۔۔۔۔۔مگر قسمت نے یہاں بھی الٹا کھیل کھیلا۔۔۔اور بلآخر ناکامی در نا کامی ملنے کی وجہ سے ذہنی طور پر قیوم پسماندہ ہوتا چلا گیا۔

پروفیسر سہیل دانشور کردار ہیں جو کہ حلال اور حرام پر اپنی ریسرچ میں مصروف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی اصلاح بھی کرتے ہیں مگر لوگ انکے فلسفے پر یقین کی بجائے ان پر ہستے ہیں۔ کہانی کا یہ کردار قابلِ تعریف ہے۔۔۔گمان ہوتا ہے کہ بانو آپا نے اپنا پیام اس کردار کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا ہے۔۔۔کہ انکی سوچ جس نقطے پر جا رکی وہ نقطہ در حقیقت ایک کھلی سچائی تھا جسے سمجھنے سے ہم میں سے اکثر قاصر ہیں۔

 

ناول جاندار مکالموں اور فلسفوں سے بھر پور ہے۔جن میں سے چند ایک یہاں درج ہیں

 

*محبت میں مرد مشرک ہے، اور عورت موحد۔ عورت ایک ہی خدا کو دل میں سجائے، اس کو پوجتی ہے جبکہ مرد چھوٹی چھوٹی بے شمار مورتیوں کو پوجتا ہے۔۔۔۔۔

 

*دیوانگی دو طور کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دیوانہ پن وہ ہوتا ہے جس کی مختلف وجوہات یہاں بیان کی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کی وجہ سے حواس مختل ہو جاتے ہیں اور انسان کائنات کی ارزل ترین مخلوق بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ایک دیوانگی وہ بھی ہے جو انسان کو ارفع و اعلٰی بلندیوں کی طرف کھینچتی ہے, جیسے آندھی میں تنکا اوپر اٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ عام لوگوں سے کٹتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے والے اسے دیوانہ سمجھتے ہیں، لیکن وہ اوپر اور اوپر چلتا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حتٰی کہ عرفان کی آخری منزلیں طے کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام لوگ اسے پاگل بھی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن انسان جب بھی ترقی کرتا ہے پاگل ہوتا ہے!

 

** مڈل کلاس لڑکیوں کو بدنامی کا بہت ڈر ہوتا ہے۔یہ عشق نہیں کرتیں شوہر تلاش کرتی ہیں۔

 

 

خلاصہ یہ کہ حرام اور زنا اگر بوقت نقصان نہ بھی پہنچائیں تو بھی نسلوں میں دیوانہ پن بن کر تباہ کار ثابت ہوتے ہیں۔۔۔لہٰذہ رشتوں میں تقدس، محرم و نا محرم کا پاس ہونا لازم ہے ۔۔۔

یہاں چند نکات قابلِ غور ہیں:

*سیمی کے باپ کا مرض الحرص اسے حرام کمانے پر مجبور کرتا رہا ، حرام زندگی جینے پر مجبور کرتا رہا جسکا نتیجہ۔۔۔۔۔سیمی کا پاگل پن۔۔۔۔۔۔حرام کا نسلوں میں تجاوز

 

*آفتاب کا پہلے تو سیمی سے محبت کرنا۔۔۔اپنی حدود پھلانگنا۔۔۔۔پھرسیمی کو دھوکہ دینا۔۔۔۔۔آفتاب کے بیٹے کا پاگل پن۔۔۔۔۔حرام۔کا نسلوں میں تجاوز

*قیوم کا مردار کی طرف رجحان۔۔۔۔۔۔حرام کی پیروی اور عقل و فہم دے دوری۔۔۔اسکا دماغی طور پر بیمار ہو جانا ۔۔۔۔۔حرام کے اثرات

 

 

سیمی کی موت، آفتاب کی اولاد کا باولا ہونا ، قیوم کا زندگی میں مایوس و نا امید رہنا اسی بات کا ثبوت ہیں کہ اگر میرے رب نے کہہ دیا "رزقِ حلال" تو پھر حرام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ناول پڑھنے والا بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ کیوں کہا گیا۔۔۔" حصول رزقِ حلال عین عبادت ہے"

آگے کچھ ہم۔اپنا بیان دئیے دیتے ہیں کہ 

" حصولِ رزقِ حرام عین ہلاکت ہے"

ذاتی رائے:

مکمل کتاب میں جن جگہوں پر محبت کا لفظ استعمال کیا گیا میرے مطابق محبت نہیں تھی۔۔۔محبت کیونکر حرام کی جانب مبذول کر سکتی ہے۔۔۔۔ہاں بلا شبہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ

" ہمیں صرف تسخیر کر لینے کی چاہ ہوتی ہے۔۔۔تکمیلِ چاہ کے بعد ہمارے لئے سب بے معنی ہو جاتا ہے۔۔۔پھر ہمیں کسی نئی شے کو تسخیر کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔۔۔انسان کبھی مستقل مزاج نہیں رکھتا ۔۔۔۔موسم کی طرح کبھی زرد، کبھی سرد۔۔کبھی خشک تو کبھی نم۔۔۔۔ہمیں محبت ہوتی ہی کب ہے۔۔۔یہ تو ہمارے اندر کے موسم ہوتے ہیں جو جذبات کو ابھارنے اور سلانے دونوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔"